2 اپریل 2021
تعمیر مسجد کا آغاز:
اس کے بعد تعمیر کا کام
شروع ہوا، پہلے مرحلے میں کچی اینٹیں بنائی گئیں، انصار و مہاجرین سب نے اس کارخیر
میں جوش وخروش کے ساتھ حصہ لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی اینٹیں بنانے اور
ان کو اُٹھا کر تعمیر کی جگہ پر پہنچانے میں بہ نفس نفیس شریک رہے، اس وقت آپؐ کی
زبان مبارک پر بہ شکل شعر یہ دعائیں تھیں:
اَللّٰہُمَّ إِنَّہٗ
لَاخَیْرَ إِلَّا خَیْرُ الْآخِرَۃِ فَانْصُرِ الْأَنْصَارَ وَالْمُہَاجِرَۃِ
ترجمہ: اے اللہ! آخرت کی
خیر کے علاوہ کوئی خیر نہیں، تو انصار اور مہاجرین کی مدد فرما۔
اَللّٰہُمَّ إِنَّ
الْأَجْرَ أَجْرُ الْآخِرَۃِ فَارْحَمِ الْأَنْصَارَ وَالْمُہَاجِرَۃ
ترجمہ: اے اللہ! آخرت کے
اجرو ثواب کے علاوہ کوئی اجر وثواب نہیں، اے اللہ! تو انصار اور مہاجرین پر اپنا
رحم فرما۔
یہ دعائیں ربّ کائنات کے
سب سے زیادہ محبوب اور مقرب بندے کی ان لوگوں کے لئے تھیں جن سے اللہ راضی تھا اور
جو اللہ سے راضی تھے، اور جو تعمیر مسجد کا یہ کام محض آخرت کی خیر، بھلائی اور
اجر وثواب کے لئے کررہے تھے۔ مدینہ منورہ کے لوگ خیبر کے باغات سے کھجوروں کے
گٹھرسروں پر رکھ کر یا اونٹوں پر لاد کر لایا کرتے تھے، اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے
آپؐ نے یہ شعر بھی پڑھا:
ہٰذَا الْحِمَالُ لَا
حِمَالَ خَیْبَرَ ہٰذَا أَبَرُّ رَبَّنَا وَأَطْہَرُ
ترجمہ: یہ بوجھ خیبر کی
کھجوروں کے بوجھ جیسا نہیں ہے (کہ اس میں صرف دنیا کا نفع ہے) بلکہ اے رب کریم، یہ
بوجھ سب سے عمدہ اور سب سے زیادہ پاکیزہ ہے۔
صحابۂ کرام جب یہ دیکھتے
کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اینٹیں اور پتھر اٹھا اٹھا کر لارہے ہیں تو ان کا
جوش اور بڑھ جاتا اور وہ زیادہ تیزی اور تن دہی کے ساتھ مصروف عمل ہوجاتے، ان کی
زبانوں پر یہ شعر ہوتا:
لَئِنْ قَعَدْنَا
وَالنَّبِيُّ یَعْمَلُ لَذَاکَ مِنَّا الْعَمَلُ الْمَُضَلَّلُ
ترجمہ: اگر ہم بیٹھ جائیں
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کام کرتے رہیں تو ہمارا یہ بیٹھنا نہایت برا عمل ہوگا۔
(صحیح البخاری:۱۲/۲۹۴،
رقم الحدیث: ۳۶۱۶،صحیح
مسلم: ۳/۱۱۴،
رقم الحدیث: ۸۱۶،
مسند احمد بن حنبل:۷۶/۲۷۸،
رقم الحدیث: ۸۱۶،
البدایہ والنہایہ: ۳/۲۶۳)
جب اینٹیں تیار ہوگئیں تو
بنیادیں کھودی گئیں، تین ہاتھ گہری بنیادیں تھیں، زمین کھودنے کے لئے سب سے پہلا
پھاؤڑا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چلایا، پھر مسلمانوں نے زمین کھودنی شروع کردی،
پھر بنیاد رکھی گئی، اور ان بنیادوں کو اینٹوں سے بھر دیا گیا، کچی اینٹوں کی
دیواریں بنائی گئیں جو قد آدم سے کچھ زیادہ اونچی تھیں، کھجور کے تنوں کے ستون
بنائے گئے، اسی درخت کے تنے دیواروں پر پھیلا کر ان کے اوپر کھجور کی شاخیں اور
پتے بچھا دیئے گئے، ان پر مٹی ڈال کر لیپ کردیا گیا تاکہ بارش کا پانی اندر نہ
آئے۔ پھر تین دروازے بنائے گئے، ایک دروازہ اُدھر رکھا گیا جہاں اب قبلے کی دیوار
ہے، دوسرا دروازہ مغرب کی جانب بنایا گیا جسے باب الرحمۃ کہا جاتا ہے اور تیسرا
دروازہ آپ کی قیام گاہ کی جانب تعمیر کیا گیاتھا، اسی دروازے سے آپؐ مسجد میں
تشریف لایا کرتے تھے۔ اس دروازے کو باب جبریل کہا جاتا ہے۔ تینوں دروازوں کے دونوں
پائے پتھروں کے بنائے گئے، زمین پر ریت اور سنگریزے بچھا دیئے گئے، یہ مسجد اُس
وقت سو گز لمبی اور سو گز چوڑی تھی، بعض کتابوں میں طول وعرض میں کچھ اختلاف بھی
ذکر کیا گیا ہے، بہ ہر حال یہ مسجد نہ بہت زیادہ وسیع تھی اور نہ بہت تنگ، بلکہ اس
وقت کی ضرورت کے لحاظ سے کافی تھی۔ فتح خیبر کے بعد ۷ ھ
میں اس مسجد کو وسعت دی گئی اور ایک انصاری صحابی کا مکان خرید کر اس میں شامل کیا
گیا۔ (صحیح البخاری: رقم الحدیث: ۱۳۴۶،
البدایہ والنہایہ: ۳/۳۰۳)۔
مولانا ادریس کاندھلویؒ
نے تعمیر مسجد کے ضمن میں حضرت حسن بصریؒ کی یہ مرسل روایت ذکر کی ہے کہ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ إبنوہ عریشا کعریش موسی (تم لوگ ایسا چھپر
بنادو جیسا چھپر حضرت موسیٰ کا تھا)۔ راوی کہتے ہیں کہ میں نے حضرت حسن بصری سے
پوچھا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا چھپر کیسا تھا، فرمایا کہ جب ہم ہاتھ اٹھاتے
تھے چھپر سے لگتا تھا۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ انصار نے کچھ پیسے جمع کئے اور
آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ اس مسجد کو مزین کردیا جائے، آپؐ نے ارشاد
فرمایا: میں اپنے بھائی موسیٰ کے طریقے سے اعراض نہیں کرنا چاہتا، یہ موسیٰ علیہ
السلام کے چھپر کی طرح کا ایک چھپر ہے۔ (سیرۃ المصطفیٰ: ۱/۴۲۷، بہ حوالہ البدایہ
والنہایہ: ۳/۲۱۵)۔
علامہ ابن القیمؒ نے بھی تحریر فرمایا ہے کہ صحابہؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا
آپ اس کی چھت پختہ نہیں کرائیں گے، آپ نے فرمایا: نہیں ایسا چھپر بناؤ جیسا
حضرت موسیٰ علیہ السلام کا تھا۔ (زاد المعاد:۳/۴۶)
توسیع کے مختلف ادوار
خیبر سے واپسی کے بعد
مسجد نبوی میں پہلی مرتبہ توسیع کی گئی، کیونکہ مسلمانوں کی تعداد میں دن بہ دن
اضافہ ہورہا تھا اس لئے ضرورت تھی کہ مسجد کچھ اور کشادہ ہو۔ ابتداء میں مسجد کا ر
قبہ ایک ہزار مربع میٹر کے آس پاس تھا، ۷ھ میں اوّلین توسیع کے بعد اس کا مجموعی رقبہ
دو ہزار چار سو پچہتر میٹر ہوگیا۔ ۷ھ
کی تعمیر وتوسیع کے لئے جو زمین ایک انصاری صحابی سے خریدی گئی اس کی قیمت حضرت
عثمان غنیؓ نے ادا کی، آپؐ نے انصاری صحابی سے فرمایا تھا کہ جنت میں ایک محل کے
عوض وہ اس زمین کو ہمارے ہاتھ فروخت کردے، مگر وہ صحابی غریب وتنگ دست تھے اور
کثیر العیال بھی تھے، اس لئے زمین مفت نہ دے سکے۔ حضرت عثمانؓ کو معلوم ہوا تو
انہوں نے انصاری صحابی کو پوری رقم دے کر زمین خریدلی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم
کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا: یارسول اللہ! آپ فلاں انصاری سے ایک زمین خریدنا
چاہتے تھے، اب آپ جنت میں محل کے عوض وہ زمین مجھ سے خرید لیں۔ آپؐ نے وہ زمین
جنت کے وعدے پر حضرت عثمانؓ سے خریدلی اور مسجد میں شامل کرلی۔ روایات میں ہے کہ
جب باغیوں نے حضرت عثمانؓ کے گھر کا محاصرہ کیا اور ان کو مسجد تک میں آنے جانے
سے روک دیا تو آپ نے باغیوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ کیا تمہیں معلوم نہیں
کہ جس مسجد میں جانے سے تم مجھے روک رہے ہو اس میں زمین کا فلاں ٹکڑا میں نے ہی
خرید کر مسجد میں شامل کیا تھا، اب تم مجھے مسجد میں جاکر نماز پڑھنے سے بھی روکتے
ہو؟ (جامع الترمذی، مسند احمد بن حنبل)
اس توسیع میں بھی تمام
صحابہ نے حصہ لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی شریک رہے، حضرت ابوہریرہؓ ۷ھ میں مسلمان ہوئے وہ چشم
دید حالات بیان کرتے ہیں کہ صحابۂ کرامؓ کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
بھی اینٹیں اٹھاکر لا رہے تھے، ایک مرتبہ میں نے دیکھا کہ آپؐ نے زیادہ اینٹیں
اٹھا رکھی ہیں اور آپؐ اس کو سینۂ مبارک سے سہارا دے کر روک رہے ہیں، میں نے
خیال کیا کہ شاید بوجھ کی وجہ سے ایسا کررہے ہیں، میں نے آگے بڑھ کر عرض کیا یارسول
اللہ! یہ اینٹیں مجھے دے دیجئے، آپؐ نے ارشاد فرمایا: اے ابوہریرہ! دوسری اینٹیں
اٹھالو، زندگی تو بس آخرت کی زندگی ہے۔ (مسند احمد بن حنبل: ۱۸/۱۳۶، رقم الحدیث: ۸۵۹۴)
اس توسیع کے بعد عہد
فاروقی میں کچھ توسیعات ہوئیں۔ حضرت عثمان غنیؓ خلیفہ مقرر ہوئے تو لوگ ان سے
مطالبہ کرنے لگے کہ مسجد میں اضافہ کیاجائے، مسجد تنگ پڑنے لگی تھی، جمعہ کے دن
لوگ گلیوں اور راستوں میں نماز ادا کرتے تھے۔ حضرت عثمانؓ نے صحابۂ کرامؓ سے
مشورہ کرنے کے بعد مسجد کی تعمیر کا ارادہ کیا، اور ایک روز ظہر کی نماز میں اس کا
اعلان بھی کردیا کہ اے لوگو! میرا ارادہ ہے کہ اس مسجد کو گراکر اسے دوبارہ
بنواؤں اور اس میں توسیع بھی کردوں، سب لوگوں نے خوشی کا اظہار کیا، اور دعائیں
دیں۔ حضرت عثمانؓ نے خود اس کام کی نگرانی کی، جب تک کام مکمل نہیں ہوا آپؓ
مسجدسے باہر نہیں نکلے، دس مہینوں میں مسجد دوبارہ بن کر تیار ہوگئی۔ (وفاء
الوفاء: ۲/۵۰۲)۔
اس کے بعد بھی توسیع کا
سلسلہ جاری رہا۔ بڑی توسیع ولید بن عبد الملک کے دور حکومت میں ہوئی۔ اس وقت حضرت
عمرو بن عبدالعزیزؒ مدینہ منورہ کے گورنر تھے، توسیع کے اس کام میں قیصرِ روم نے
بھی حصہ لیا، اس نے ایک لاکھ مثقال سونا، ایک سو کاری گر اور منقش پتھروں سے لدے
چالیس اونٹ بھجوائے۔ مسجد نبوی میں پہلی مرتبہ محراب بنوائی گئی، یہ حضرت عمر بن
عبد العزیزؒ کا اجتہاد اور جدت تھی، اس سے پہلے مسجد میں محراب نہیں ہوا کرتی تھی،
آپؓ نے مسجد کے چاروں کونوں پر چار مینار بھی تعمیر کرائے، اور رقبے میں طولاً
وعرضاً تین سو فٹ کا اضافہ کیا، مسجد کی دیواروں پر اندر کی طرف سنگ مرمر اور
رنگین اینٹیں لگائی گئیں، دیواروں کے بعض حصوں پر، ستونوں، دروازوں کی چوکھٹوں اور
چھت پر سونے کی ملمع کاری کی گئی اور مسجد میں بیس دروازے بنائے گئے۔ عباسی دور حکومت
میں شمال کی جانب کچھ اور اضافہ کیا گیا، بہت سے گھر خرید کر ان کو مسجد کے اندر
شامل کرلیا گیا، مصر کے بادشاہوں نے بھی اپنے اپنے دور حکومت میں مسجد کی تعمیر
وتوسیع سے کافی دلچسپی لی، خاص طور پر سلطان قاتیبائی نے۔ اس کے زمانے میں مسجد
نبوی کے بعض حصوں میں آگ لگ گئی تھی، اس نے وہ حصے دوبارہ بنوائے اور مشرق کی
جانب کچھ اضافہ بھی کیا۔ سلطان قاتیبائی کی تعمیر شدہ مسجد تین سو ستر سال تک قائم
رہی۔ (وفاء الوفاء: ۲/۵۱۳) (جاری)
nadimulwajidi@gmail.com
2 اپریل 2021،بشکریہ:انقلاب، نئی دہلی
Related Article
Part:
7- Adjective of Worship مجھے صفت ِ عبدیت زیادہ پسند اور عبد کا لقب زیادہ محبوب ہے
Part: 22- Bani Awf, the Prophet Has Come اے بنی عوف وہ نبیؐ جن کا تمہیں انتظار تھا، تشریف لے آئے
Part:
23- Moon of the Fourteenth Night ہمارے اوپر ثنیات الوداع کی اوٹ سے چودہویں رات کا چاند طلوع
ہوا ہے
Part: 24- Madina: Last Prophet's Abode یثرب آخری نبیؐ کا مسکن ہوگا، اس کو تباہ کرنے کا خیال دل
سے نکال دیں
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/construction-masjid-e-nabwi-part-26-/d/124655
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism