New Age Islam
Wed Sep 18 2024, 04:42 AM

Books and Documents ( 24 Oct 2020, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit Of Islam’: Chapter 4- Enmity Between Quraish and Jews-Part 18 روح اسلام : چوتھا باب ،قریش اور یہود کی دشمنی



سید امیر علی

(قسط18 )

(یکم سن ہجری مطابق 10 اپریل 622ء سے لے کر 7مئی 623ء تک)

بلغ اللہ صلاتی وسلامی ابدا                  لبنی عربی مدنی حرمی

شمس فضل و ضیأ و سناء اصنیٰ                 نور بدروبھاء وسماء الکریم

اکرم الخلق وجود ا سجود وھجود ا                احسن الناس سخاء لعطا ء العم

اس وقت مدینے میں تین جداجدا گروہ تھے۔مہاجرین اور انصار اسلام کاقلب تھے۔ انہیں رسول اللہؐ سے بے پایاں محبت وعقیدت تھی۔مہاجرین نے صرف اپنے وطن کو چھوڑا تھا، بلکہ تمام عربی روایات کے خلاف اسلام کی خاطر آل اولاد وعزیز واقارب سے تمام رشتے منقطع کردیئے تھے۔ انہوں نے راہِ حق میں ہر طرح کی تکالیف کو برداشت کیا تھا او ر ہر قسم کی تحریصات کو ٹھکرادیاتھا۔ ان میں بہت سے دارالامان مدینہ میں بالکل تہی دست آئے تھے۔ مدینہ کے مسلمانوں نے انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا تھا اور ان میں جو زیادہ غریب تھے انہیں اپنے مال ودولت میں برابر کا شریک کرلیا تھا۔ رسولؐ خدا کے تدبرّ نے جو دینی مواخاۃ قائم کی تھی اس نے ایک طرف تو رقابتوں کے پیدا ہونے کو روکا اور دوسری طرف خدا اور رسولؐ کی خاطر جان و مال کی قربانی دینے کے معاملے میں انصار و مہاجرین کے درمیان ایک عالی ظرفانہ مسابقت کی بناڈالی۔ وہ ذو ق وشو ق اور جوش و خرو ش جس سے ان لوگوں نے اسلام کی خاطر اپنے آپ کووقف کردیا،یہاں تک اپنی جانیں قربان کرنے سے دریغ نہ کیا، اس کی مثال ظہور عیسائت کے بعد اس وقت تک دیکھنے میں نہ آئی تھی۔دوسرا اگر وہ جو کچھ اہم نہ تھا، ایسے لوگوں پر مشتمل تھا جنہوں نے بظاہر اسلام قبول کرلیا تھا، لیکن پورا پورا ایمان نہ رکھتے تھے بلکہ ابھی تک بُت پرستی کی طرف مائل تھے۔ اس گروہ کا سرغنہ عبداللہ ابن ابی تھا جو شہر کے صاحب حیثیت لوگوں میں تھا اور مدینہ کی بادشاہت کا آرزو مند تھا۔اس آرزو کی تکمیل کی خاطراس نے اپنے طرفداروں کی ایک زبردست جماعت اپنے گرد جمع کررکھی تھی جیسا کہ ابوسفیان نے مکّہ میں کیا تھا۔ وہ عنانِ حکومت ہاتھ میں لینے ہی والا تھا کہ پیغمبراسلامؐ کے ورود نے اس کے منصوبے خاک میں ملا دیئے۔

اسلام کے بارے میں جو عام جوش پھیلا ہوا تھا اس نے عبداللہ ابن ابی اور اس کے پیروؤں کو مجبور کیا کہ وہ دکھاوے کی خاطر اسلام قبول کرلیں، لیکن چونکہ یہ لوگ اسلام کی مخالفت کے لیے ہر وقت موقعے کی تلاش میں رہتے تھے اس لیے وہ اس نئی دولت عامہ کے لیے سخت خطرے کاسرچشمہ تھے اور آنحضرت ؐ کو ہر وقت ان پرنگاہ رکھنی پڑتی تھی۔ آپؐ ان لوگوں کے ساتھ انتہائی صبر و تحمّل کا سلوک کرتے، کیونکہ آپؐ کے دل میں اُمید تھی کہ بالاآخر آپؐ انہیں سچّے دل سے مسلمان بنانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ نتائج نے ثابت کردیا کہ آپؐ کی امیدبے بنیاد نہ تھی۔ عبداللہ ابن ابی کی وفات پر اس کی جماعت، جسے منافقین کا نام دیا گیا ہے، کچھ مدت کے لیے نظروں سے غائب ہوگئی۱؎۔

تیسرا گروہ یہودویوں کا تھا، جوسب سے خطرناک عنصر تھا۔ قریش سے یہودیوں کے بہت قریبی کاروباری تعلقات تھے اور ان کی شاخیں بہت سے ایسے علاقوں تک پھیلی ہوئی تھیں جو ابھی اسلام کے مخالف تھے۔ ابتداء انہوں نے آنحضرت ؐ کی تعلیمات کو قدرے پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا۔ انہوں نے آپؐ کو اپنا مسیح موعودتوقبول نہ کیا، لیکن ان کے دل میں توقع تھی کہ یہ دوردراز کے خواب دیکھنے والامبلغ،جوان کے سابق دشمنوں او راس وقت کے مربّیوں یعنی اوس و خزرج کی مہمان نوازی پر منحصر تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎  قرآن سورہ الشوریٰ، ابن ہشام۔ منافقین جسد سیاست اسلامیہ سے کبھی پوری طرح غائب نہیں ہوئے۔ وقتا ً فوقتاً انہوں نے ملّت اسلامیہ پر بہت مضراثر ات ڈالے ہیں۔ قرون اخریٰ میں انہو ں نے راسخ العقیدگی کے حامیوں کابھیس بدلا۔مثال کے طور پر افریقہ کے خارجی فرقے کو لیجئے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شاید ان کا انتقام لے اور انہیں عربوں پر غلبہ پاکر یہوداہ کی ایک نئی سلطنت قائم کرنے میں مدد دے۔ اس مقصد کو پیش نظر رکھ کر وہ رسولؐ اللہ کے استقبال میں اوپر سے اہل مدینہ کے ساتھ شامل ہوگئے تھے۔ کچھ مدت کے بعدتک ان کا روّیہ صلح پسندانہ رہا۔ لیکن بمشکل ایک مہینہ گذرا تھا کہ ان کی پُرانی روح بغاوت، جس نے ان کے ہاتھوں ان کے نبیوں کو مصلوب کرایا تھا، اپنے آپ کو علانیہ سرکشیوں اور خفیہ سازشوں میں ظاہر کرنے لگی۔ درودِ مدینہ کے بعد آنحضرتؐ نے سب سے پہلے جو کام کئے تھے ان میں ایک یہ تھا کہ آپؐ نے مدینہ اور اس کے مضافات کی آبادی کے مختلف النّوع اور باہم سرپیکار عناصر کوباہمی عہد و پیمان کے ذریعے ایک منّظم جماعت کی صورت میں متحد کردیا تھا۔اس مقصد کے لیے آپؐ نے ایک معاہدہ مرتب فرمایا تھا جس میں مسلمانوں کے باہمی حقوق و فرائض اور مسلمانوں اور یہودیوں کے باہمی حقوق و فرائض واضح طور پر مقرر کردئیے تھے۔صلح و آشتی کی اس زبردست تحریک سے مغلوب ہوکر یہود یوں نے معاہدے کو بخوبی منظور کرلیا تھا۔ یہ دستاویز، جو ابن ہشام کے اوراق میں پوری طرح محفوظ ہے، اس انسان کی حقیقی عظمت کو ظاہر کرتی ہے جو نہ صرف اپنے زمانہ کا جیسا کہ میور کہتا ہے، بلکہ سارے زمانوں کا حکیم یگانہ تھا۔ وہ کوئی پریشان خواب دیکھنے والا نہ تھا جو معاشرہ کا موجودہ شیرازہ بکھیر نے پر تُلا ہوا تھا، بلکہ ایک عدی المثال تدّبر تھا جس نے ایک مکمل اور یاس انگیز تشّتت کے زمانے میں اس سازوسامان اور اس سیاسی تدّبر سے جو خدا نے اس عطا کیا تھا ایک سلطنت، ایک دولت عاّمہ، ایک معاشرے کی ازسر نو تعمیر کا کام سنبھالا۔ آزاد ی ضمیر کا یہ پہلا منشور یوں شروع ہوتا ہے:

”بسم اللہ الرحمن الرحیم“ یہ معاہدہ ہے جو محمدؐ نبی کی زیر نگرانی مومنوں، خواہ وہ قریش ہوں خواہ اہل یثرب، اور تمام ان غیر مسلم اشخاص کے درمیان ہوا جو چاہے وہ کسی قوم یا قبیلے سے ہوں، مسلمانو کے مقاصد سے متفق ہیں۔ یہ سب گروہ مل کر ایک قوم شمار ہوں گے“ اس کے بعد مختلف قبیلوں کے ریت ادا کرنے کے قاعدے اور مسلمانوں کے باہمی انفرادی فرائض سے متعلق چند دانشمند انہ اصول مقرر کئے گئے ہیں۔”صلح اور جنگ دونوں حالتوں میں تمام مسلمان ایک دوسرے کے ساتھ شریک ہوں گے۔ ان میں سے کسی کو یہ حق نہ ہوگا کہ اپنے ہم مذہبوں کے خلاف صلح یا جنگ کرے۔جن یہودیوں نے ہماری دولت عاّمہ کے ساتھ الحاق کیا ہے انہیں ہر طرح کی توہین و تعرّض سے محفوظ رکھا جائے گا۔ انہیں مسلمانوں کے برابر ہماری نصرت و امداد کا حق ہوگا۔مختلف قبائل کے یہودی، عوف، نجّار،حارث، جُشم، ثعلیہ اوس اور تمام دوسرے جو یثرب میں آباد ہیں مسلمانوں کے ساتھ مل کر ایک متحد قوم شمارہوں گے۔ انہیں اپنے مذہب کے احکام کی بجا آوری میں اتنی ہی آزادی ہوگی جتنی مسلمانوں کو۔ یہودیوں کے موالی اور حلیفوں کو انہی کے برابر حفاظت اور آزادی حاصل ہوگی۔ مجرموں سے مواخذہ کیا جائے گا او رانہیں سزا دی جائے گی۔ یہودی یثرت (مدینہ) کو دشمنوں سے بچانے میں مسلمانوں کا ساتھ دیں گے۔ جو لوگ اس عہد نامے کو قبول کریں گے ان سب کے لیے اندرون یثرب حرم یعنی دارالامان ہوگا۔ مسلمانوں اور یہودیوں کے متعلقین اور حلیفوں کا اتنا ہی احترام کیا جائے گا جتنا ان کے مربّیوں کا۔ تمام سچے مسلمان ہر ایسے شخص سے جو کسی جرم، ناانصافی یا بدامنی کا مرتکب ہوگا نفرت کریں گے۔ کوئی شخص کسی مجرم کی مدد نہیں کرے گا، چاہے وہ اس کا قریبی رشتہ داری ہی کیوں نہ ہو۔“پھر امور مملکت کے اندورنی انتظامات کے بارے میں چند شرائط بیان کرکے یہ حیرت انگیز دستاویز یوں ختم ہوتی ہے۔”جن لوگوں نے یہ معاہدہ قبول کیا ہے ان لوگوں میں آئندہ کوئی جھگڑے ہوں گے تووہ اللہ کے نام پر رسولؐ کے سامنے پیش ہوں گے۔“

اس طرح  عربوں کے اس نراجی دستور کو ایک جان لیوا ضرب لگی جس کے تحت اب تک مظلوموں کو انتقا م یا انصاف کی خاطر اپنے رشتہ داروں کے زور باز و پر بھروسہ کرنا پڑتاتھا۔ اس دستاویز کی رو سے آنحضرتؐ،نہ صرف اپنے منصب رسالت کی بدولت بلکہ لوگوں کے ساتھ ایک معاہدہ کی بناء پر،قوم کے حاکم اعلیٰ مقرر ہوگئے۔

ابتداء مدینے کے قرب وجوار کے تین یہودی خاندان، بنو نضیر،بنو قریظ اور بنو قیقاع، اس معاہدہ میں شریک نہ تھے لیکن تینوں خاندان بھی تھوڑے عرصے کے بعد بخوشی شامل ہوگئے۔

2ھ 7 مئی 623ء تا 26اپریل 624ء

لیکن آنحضرتؐ چاہے یہودیوں پر کتنی ہی مہربانیاں اور فیاضیاں کرتے انہیں راضی نہ ہونا تھا او رنہ ہوئے۔ان دل میں عداوت کے جو جذبات بھرے ہوئے تھے ان کی تسکین کسی طرح ممکن نہ تھی۔ انہیں بالخصوص غصہ اس بات پر تھا کہ وہ آنحضرتؐ کو تمام عرب کے یہودی بنانے میں آلہ کارکے طور پر استعمال نہ کرسکے۔ وہ اس پربھی جھنجھلائے کہ اسلا م کے عقائد ان کے تلمودی قصوں کے مقابلے میں بالکل سادہ تھے۔ چنانچہ انہوں نے مسلمانوں سے روابطہ ترک کردیئے اور دشمنانِ اسلا م کی صفوں میں جا ملے۔ جب ان سے پوچھا جاتا کہ وہ بت پرستی یا اسلام کو ترجیح دیتے ہیں تو اکثر عیسائی مناظرین کی طرح یہی جواب دیتے کہ وہ بُت پرستی کو اس کی تمام برائیوں کے باوجود دین محمدؐی سے بہتر سمجھتے ہیں۔ وہ آنحضرتؐ کی شان میں نا مناسب کلمات تلفظ جان بوجھ کر کچھ ایسی طرح بگاڑ دیتے کہ وہ مہمل اور مضحکہ خیز یا کلمات کفر بن جاتے۔

یہودی شعراء اور شاعرات، جن کی اس وقت بھرمار تھی، تہذیب و شائستگی اور عربوں کے مسلّمہ ضابطہ شرافت و قنوت کو بالائے طاق رکھ کر مسلمان عورتوں کی ہجومیں فحش اشعار لکھتیں۔لیکن یہ سب تو ان کے لیے خفیف سی بدتمیزیاں تھیں،مسلمان عورتوں کی توہین اور آنحضرتؐ کی شان میں بدگوئیوں سے ان کی تسلی نہ ہوئی۔ چنانچہ جس ریاست کی حفاظت میں رہنا انہوں نے باقاعدہ طور پر قبول کیا تھا اس کے دشمنوں کے پاس انہوں نے اپنے ایلچی بھیجے۔قریش،جو آنحضرتؐ کے قتل پر ادھار کھائے تھے، عبداللہ ابن ابی اور غدّار اسرائیلوں کی مخبری کی بدولت مسلمانوں کی کمزور حالت سے پوری طرح واقف تھے۔ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ یہودیوں نے محض وقتی مصلحت کی بناء پر آنحضرتؐ سے اتحاد کیا تھا۔ انہیں یقین تھا کہ ان کے قرب و جوارِ مدینہ میں منہ دکھاتے ہی یہوداہ کے پرستار آنحضرتؐ کا ساتھ چھوڑ کر بُت پرستوں سے جا ملیں گے۔

اب مسلمانوں کی سخت ترین آزمائش کا وقت آن پہنچا۔آنحضرتؐ شہر کے تحفّظ کے بندوبست اور مسلمانوں کی تنظیم سے فارغ ہوئے ہی تھے کہ کفّار کی یورشیں شروع ہوگئیں ۱؎۔ خود مدینہ کے اندر بغاوت اور غدّاری کی سرنگیں بچھی ہوئی تھیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎  قرآن سورہ توبہ آیت .13،زمخشری، کشّاف الحلبی، انسان العیون۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آنحضرتؐ کا یہ فرض ہوگیا کہ مسلمانوں کو اس آفت سے بچانے کے لئے جو کسی اندرونی بغاوت یا بیرونی حملے کی صورت میں ان پر آتی مناسب تدابیر کریں۔آپؐ صرف اسلام کے مبلّغ ہی نہ تھے بلکہ اپنی اُمت کے جان ومال اور آزادی کے محافظ بھی تھے۔ ایک پیغمبر کی حیثیت سے آپؐ دشمنوں کے طعنوں اور بد ز بانیوں کو برداشت کرسکتے تھے۔ لیکن رئیس مملکت کی حیثیت سے اور تقریباً ”مسلسل جنگ کے زمانہ میں ایک جونیل“کی حیثیت سے،جب کہ مدینہ عسکری مدافعت کی حالت میں اور ایک قسم کے فوجی نظم ونسق کے تحت تھا، آپؐ کے لیے غدّاری سے چشم پوشی کرنا ناممکن تھا۔ رعایا کی طرف سے آپؐ پر جو فرض منصبی عائد ہوتا تھا، اس کا تقاضا تھا کہ آپؐ ایک ایسے گروہ کو دبادیں جو حملہ آور فوجوں کے ہاتھوں شہر کو تاخت و تاج کراسکتا تھا اور قلع قمع کردیا جائے جو یا تو مدینہ کے اندر بغاوت کا بیج بو رہے تھے یا مشترک دشمن کو خبریں دے رہے تھے۔ چنانچہ تقریباً چھ آدمی غدّاری کے مجرم قرار دے کر قتل کردئیے گئے۔لیکن ہم اس واقعے کا تذکرہ قبل از وقت کررہے ہیں۔

اس سے بیشتر کہ آنحضرتؐ کو دشمنوں کے ساتھ جنگ کرنے کا حکم ملتا قریش کی فوجیں میدان جنگ میں آپہنچیں۔

وہ جس نے ساری عمر کوئی ہتھیار استعمال نہ کیا تھا، جس کا دل انسانی تکالیف کو دیکھ کر انتہائی دردو رحم سے بھر آتا تھا، جو عربوں کے آئین مردانگی کے خلاف اپنے بچوں اور پیروؤں کی موت پربے اختیار رو دیا کرتا تھا او رجس کی طبیعت ہمیشہ اتنی رفیق اور رحیم رہی کہ اس کے دشمنوں کو اسے نسائیت ۱؎ کا طعنہ دینے کا موقع ملا۔ وہ شخص اب حالات کے تقاضوں سے اس پر مجبور ہوگیا کہ اپنے میلان طبع کے خلاف اپنے دشمنوں کے حملوں کو بزور شمشیر رو کے، اپنے متبعین کو اپنی حفاظت کے لیے منظّم کرے اور اکثر غدّار انہ اورناگہانی حملوں کی پیش بندی کے لیے فوج بھیجے۔اب تک عربوں کا طریق جنگ یہ رہا تھا کہ یا تو اکثر رات کے وقت یا صبح کے دھندلے میں دشمن پرناگہانی اور خوں ریز چھاپے مارے جاتے تھے، یا اگر دشمن کو حملہ آوروں کے ارادے کی خبر ہوجاتی تو ایک ایک، دو دو آدمی آپس میں مقابلہ کرتے یا ایک عام حملہ کردیا جاتا۔ آنحضرتؐ چونکہ اپنی قوم کی عادات سے بخوبی واقف تھے، اس لیے آپؐ کو اکثر ناگہانی حملوں کی پیش بندی کے لیے طلِیعہ بھیجنا پڑتا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎  Compare Dozy Historie des Musulamansd' Espagne,vol,i,p.32

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اہل مکہ اور اس کے ساتھیوں نے مدینے کے مضافات میں حملے شروع کردئیے۔ وہ ان کے پھلدار درخت تباہ کردیتے اور ان کے گلّے ہانک کر لے جاتے۔ ہر طرح کے سازوسامان سے لیس ایک ہزار آدمیوں کی فوج مسلمانوں کو تباہ کرنے کے لیے اور قریش کے کاروان کی حفاظت کے لیے ابوجہل کی سرکردگی میں مکّے کی طرف روانہ ہوئی۔ مسلمانوں کو ان کی نقل و حرکت کی بابت خبر مل گئی اور وہ کفّار کی وادی بدر میں آنے سے روکنے کے لیے، جس پر ابوجہل کا لشکر چڑھا ئی کررہا تھا، تین سو (300) کی تعداد میں نکل کھڑے ہوئے۔جب آنحضرتؐ نے لشکر کفّار کو متکبّر انہ انداز میں وادی کی طرف بڑھتے ہوئے دیکھا تو آپؐ نے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر مومنین کے چھوٹے سے گروہ کے بچاؤ کی دعا مانگی، ”مولا! اپنے امداد کے وعدے کو نہ بھول۔ یا مولا! اگر یہ چھوٹا سا گروہ فنا ہوگیا تو تیری سچی عبادت کرنے والا کوئی باقی نہ رہے گا۱؎“۔

قریش کے تین آدمی اس کھلی جگہ میں آئے جو مسلمانوں اور کفّار کے درمیان تھی اور عربوں کے دستور کے مطابق مسلمانوں سے مبار ز طلب ہوئے۔حمزہؓ، علی ؓ اور عبید ہؓ نے آگے بڑھ کر مقابلہ کیا اور فتحیاب ہوئے۔ اس کے بعد دونوں لشکر گتھم گتھا ہوگئے۔ ابتداء میں کبھی مسلمانوں کا پلّہ بھاری ہوجاتا تھا اور کبھی کفّار کا۔ لیکن آنحضرتؐ کے پرُ جوش الفاظ نے لڑائی کا فیصلہ مسلمانوں کے حق میں کردیا۔”یہ موسم سرما کا ایک طوفانی دن تھا اور ٹھنڈی ہوا کے جھکڑوادی میں چل رہے تھے“۔ایسا معلوم ہوتا تھا کہ آسمانی فرشتے مسلمانوں کی طرف سے جنگ لڑرہے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎  ابن ہشام۔ابن الاثیر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آنحضرتؐ اور آپ کے متبعین کے لبریز عقیدت دلوں کو جنہیں فطرت کے تمام عطیوں میں،زندگی کے تمام تعلقات میں ا ور اپنے انفرادی و اجتماعی حالات کے ہر موڑ پر خدا کا دست قدرت کار فرما دکھائی دیتا تھا، اس نازک لمحہ میں ہوا اور ریت کے یہ جھکڑ، دشمنان خدا سے جنگ کرتے ہوئے فطرت کے یہ عناصر تائید آسمانی کے ثبوت معلوم ہوئے، گویا فرشتے ہوا کے پروں پر سوار کافروں کو تتّر بتّر کررہے ہیں ۱؎۔ اہل مکہ شدید نقصان کے ساتھ پسپا ہوئے، ان کے بہت سے سردار کام آئے، اور ابوجہل نے اپنے غرور وتکبّر کی سزا پائی۲؎۔

بہت سے قیدی مسلمانوں کے ہاتھ اب آئے، لیکن ان میں سے صرف دو قتل کئے گئے یہ دین اسلام کے شدید دشمن تھے۔ اس لیے عربوں کے قانون جنگ کے مطابق انہیں کیفر کردار تک پہنچا دیا گیا۳؎۔

باقی قیدیوں کے ساتھ عربو ں کے تمام قواعد و روایات کے خلاف انتہائی انسانیت کا سلوک کیا گیا۔ آنحضرتؐ نے تاکیدی احکام صادرکئے کہ ان لوگوں کو ذلیل نہ کیا جائے، بلکہ ان کے ساتھ مہربانی کا برتاؤ کیا جائے۔ جن مسلمانوں کے سپرد یہ قیدی کئے گئے انہوں نے ان ہدایات کی پوری پوری بجا آوری کی۔ ان لوگوں نے قیدیوں کو اپنے ساتھ کھانا کھلایا یہاں تک کہ روٹی، جو عربوں کی غذا کا بہترین حصہ سمجھی جاتی تھی، انہوں نے قیدیوں کو دی اور خود کھجوروں پر گزارا کیا۴؎۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ قرآن سورہئ انفال آیت 9 اور آل عمران آیات 11 اور 121 تا 128۔نیز ملاحظہ کیجئے میور۔

۲؎ ابن ہشام۔ابن الاثیر

۳؎ نضر بن حارث جس کا تذکرہ سورہئ انفال میں ہے، ان میں سے ایک تھا۔

۴؎  ابن ہشام، کوسین دی پرسیوال۔

سیور یوں رقمطراز ہے؟ ”حضرت محمدؐ کی ہدایت کے مطابق اہل مدینہ نے اور ان مہاجرین نے جن کے پاس خود رہنے کو مکان تھے، قیدیوں کو اپنے یہاں ٹھہرایا اور ان کے ساتھ بڑی مدارات سے پیش آئے۔بعد میں ان میں سے ایک قیدی نے کہا ”خدا کی رحمت ہو مدینہ لوگوں پر، وہ ہمیں سواری دیتے تھے اور خود پیدل چلتے تھے۔ ان کے ہاں گندم کی روٹی کی کمی تھی پھر بھی انہوں نے ہمیں کھانے کو دی اور خود کھجور وں پر بسر کی۔“

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مال غنیمت کی تقسیم نے مسلمان سپاہیوں میں شدید جھگڑے پیدا کردئیے۔آنحضرتؐ نے سب کو مساوی حصہ دے کر عارضی طور پر جھگڑے کا فیصلہ کیا۱؎۔ لیکن چونکہ عربوں جیسے شورش پسند لوگوں میں اس قسم کے جھگڑوں سے فتنے برپا ہونے کا امکان تھا، آنحضرتؐ نے مال غنیمت کے معاملے میں آئندہ تنازوں کی پیش بندی کرنے کی غرض سے ایک حکم خاص جاری کیا جو سورہ انفال میں شامل ہے۔ اس حکم کے تحت مال غنیمت کی تقسیم کا قطعی اختیار رئیس مملکت کر دیا گیا۔غریبوں اور محتاجوں کی امداد کی خاطر پانچواں حصہ بیت المال کے لیے وقف کردیا گیا۲؎۔

جو عجیب وغریب حالات فتح بدر کا باعث بنے اور اس فتح سے جو نتائج حاصل ہوئے انہوں نے مسلمانوں کے دلوں پر بہت گہرا اثر کیا۔مسلمانوں کو یقین ہوگیا کہ خدا کے فرشتوں نے ان کی طرف سے لشکر کفّار سے جنگ کی تھی۔

فرشتوں کے خدا کی طرف سے جنگ کرنے کے تصّور میں جو شاعر انہ عنصر ہے اس کے نقش ونگار کو قرآن میں قلم کی جن چند سادہ جنبشوں سے ابھارا گیا ہے وہ خوبصورتی اور عظمت میں زبور کی بلیغ ترین عبارتوں کا مقابلہ کرتی ہیں۔ ددنوں میں ایک ہی طرح کی شعریت ہے۳؎۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎  سیل sale کہتا ہے”یہ قابل ملاحظہ امر ہے کہ حضرت محمدؐ کے پیروؤں میں بدر کے مال غنیمت کی تقسیم پر جو جھگڑا ہوا وہ ایک ایسے ہی موقع  پر ہوا، جیسا عمالقہ کے مال غنیمت کے بارے میں حضرت داؤد کے سپاہیوں میں ہوا تھا۔ جو لوگ جنگ میں شریک ہوئے تھے ان کا اصرار تھا کہ جن لوگو ں نے محض مال غنیمت کی پاسبانی کی ہے انہیں کوئی حصہ نہ دیا جائے۔ دونوں موقعوں پر یہ فیصلہ کیا گیا کہ دونوں قسم کے لوگوں کو برابر کاحصہ دیا جائے اور آئندہ کے لئے قانون بن گیا۔“

۲؎ سورہ  انفال آیت 41۔اگرچہ تقسیم کا اختیار رئیس مملکت کو دیا گیا، تاہم چند مرّوجہ قاعدوں پرعمل کیاجاتا تھا۔ جنہوں نے خلفاء کے تحت اسناد ونظائر کی حیثیت اختیار کرلی اور یوں اس قانون کو ایک معین شکل بخشی۔ملاحظہ کیجئے موسیو کوبری کی اعلیٰ کتاب Droit Mussulaman, p.335

۳؎  سورہ بدر میں فرشتوں کا نازل ہونا صرف ”تاریخ وروایات کی(باقی حاشیہ 153 پر ملاحظہ فرمائیں)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حضرت عیسیٰؑ اور دوسرے پیغمبروں کی طرح حضرت محمدؐ بھی خدا کے پیغامات انسان تک پہنچانے والی متوسل ہسیتوں کے قائل تھے۔فرشتوں کے بارے میں آج کل کے لوگوں کا عدم اعتقاد اس کا کوئی جواز مہیا نہیں کرتا کہ ہم اپنے آباؤ اجداد کے تصوّرات کی ہنسی اُڑائیں۔ ہمارے عدم اعتقاد او ران کے اعتقاد دونوں کو وہم وقیاس کا نام دیا جاسکتا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ایک سلبی ہے دوسرا ایجابی۔جن چیزوں کو ہم جدید زمانہ میں قوانین فطرت کہتے ہیں انہی کہ وہ لوگ فرشتے یعنی آسمانی کار پرواز تصّور کرتے تھے۔آیا جیسا کہ لاک Lock کا خیال ہے، خدا اور انسان کے درمیان کوئی متوسط ہستیاں ہیں، جس طرح انسان اور حیو انی مخلوق کی اسفل ترین صورتوں کے درمیان ہیں، یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کی تہہ تک عقل انسانی کی رسائی محال ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(بقیہ حاشیہ 152) طرفہ طرازی نہیں کہ اس کو شاعرانہ انداز بیان پر محمول ٹھہرایا جائے بلکہ اس کا تعلق قرآن کی نص سے ہے،چنانچہ سورہ انفال کی جس آیت کی طرف تحشیر میں اشارہ کیا گیا ہے وہ یہ ہے،اذتستغینسون ربکم فاسجتاب لکم انی ممد کم بالف من الملٰکۃ مسروفین۔(انفال) جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ مسلمان جنگ بدر میں اللہ تعالیٰ سے غیر معمولی امداد کا مطالبہ کررہے تھے اور اللہ تعالیٰ نے اس مطالبہ کو شرف قبولیت بخشا اورفرمایا کہ میں تم کو ایک ہزار فرشتوں سے مدددوں گا جو سلسلہ وار میدان کا رزار میں اتریں گے۔یہاں عربیت کی رو سے تین قرائن ایسے ہیں۔ جو اس بات پر دلالت کناں ہیں کہ اس ِضمن میں جو کچھ کہا گیا ہے وہ امر واقعہ ہے اسلوب بیان کی ساحری یا شاعرانہ بلاغت نہیں، صرف تاکید یضا ممدار ملائکہ کے ذکر کے بعد صفت مروخین کااضافہ یہاں یہ بات بھی محلوظ خاطر رہنا چاہئے کہ غزوہ بدر معمولی لڑائی نہیں تھی بلکہ حق وباطل کے درمیان ایک فیصلہ کن معرکہ تھا۔یعنی یہ جنگ اقدار کی جنگ تھی، خیر وشر کی لڑائی تھی، اس لیے یہ کیونکہ ممکن تھا کہ اللہ تعالیٰ کی مخصوص نوازشیں مسلمانوں کے شامل حال نہ ہوں۔(ادارہ)

۱؎  زبور باب18

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حضرت عیسیٰؑ کی طرح حضرت محمدؐ بھی اس کے قائل تھے کہ اک اصول شرموجود ہے جو ایک وجود شخصی میں مجّسم ہے۔ لیکن جب آپؐ کے اقوال کا تجزیہ کیا جائے تو ان میں ایک عقلی عنصر دکھائی دیتا ہے، یعنی ایک موضوعی تصّور جسے آپؐ نے اپنے متبعین کے فہم کے مطابق الفاظ کا جامہ پہنا دیا۔ ایک مرتبہ کسی نے آپؐ سے پوچھا کہ شیطان کہا رہتا ہے تو آپؐ نے جواب دیا،”انسان کے دل میں“۔ اس کے مقابلہ میں عیسائی روایات نے اس فریسی کو جس نے حضرت عیسیٰؑ کو آزمائش میں ڈالا سچ مچ کا رئیس جہنم (Prince of Hell) بنا کر پیش کیا۱؎۔

ملائکہ و شیاطین پر اعتقاد نے اسلام میں بھی اور عیسائیت میں بھی قصص و اساطیر کی ایک حیرت انگیز تعداد کو جنم دیا ہے۔ عیسائیوں کا عقیدہ ہے کہ آسمان کے اولیاء اور فرشتے ان کی طرف سے جنگ کرتے ہیں۔ مسلمان صرف جہاد زندگی میں فرشتوں کی معاونت قبول کرتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چوتھے باب پر نوٹ

یہ ایک بالکل بے سروپا افسانہ ہے کہ جب عقبہ بن معیط کو مقتل کی طرف لے جارہے تھے تو

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ Schleiermacher کے دبستان کے سارے مفکر یہ خیال کرتے ہیں کہ حضرت عیسیٰؑ کو آزمائش میں ڈالنے والا پجاریوں کا سرخیل تھا۔ احمن Milman اس خیال کا بھی ذکر کرتا ہے اور اس بارے میں راسخ العقیدہ کلیسا کا جو خیال ہے اس کا بھی،لیکن وہ بڑی ہوشیاری سے کام لے کر اس کا فیصلہ پڑھنے والے پر چھوڑ دیتا ہے کہ کون سا خیال زیادہ قابل قبول ہے۔Reuss نے اپنی کتاب (History of Christian Theology in the Apostolic)فرشتوں پر جو باب لکھا ہے اور اس میں جو سیر حاصل حوالے دیئے گئے ہیں، ان سے واضح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ اولین عیسائی، یعنی حضرت عیسیٰؑ کے حوارسین اور بلاواسطہ متبعین، اس پر کامل اعتقاد رکھتے تھے کہ فرشتے اور شیاطین اشخاص ہیں جن میں تھوڑا سا سماوی عنصر تو ہے لیکن باقی ہر لحاظ سے انسانی صفات پائی جاتی ہیں۔ قیاس چاہتا ہے کہ یہ عقیدہ ان حواریین اور متبعین نے خود حضرت عیسیٰؑ سے اکتسا ب کیا ہوگا، جن کا انداز فکر جیسا کہ Renan) کہتا ہے، اپنے ہم عصروں کے انداز فکر سے مختلف نہ ہوسکتا۔

اس نے آپ سے فریاد کی اور آپ نے اسے بیر حمانہ جواب دیا۔ افسانہ یوں بیان کیا جاتا ہے کہ جب عقبہ نے یہ پوچھا کہ ”میرے بچوں کی دیکھ بھال کون کرے گا؟“ تو آپ نے جواب دیا ”دوزخ کی آگ“۔ یہ افسانہ بجائے خود اتنا بیہودہ ہے اور آپ کو بچوں سے بہت محبت تھی اور آپ ہمیشہ یتیموں پر شفقت اور ان کی دستگیری کو ایک قطعی فرض اور خدا کے نزدیک پسندیدہ عمل کہہ کر اس کی تلقین کیا کرتے تھے) کہ اس کے ماخذ کاکھوج لگانا تحصیل حاصل ہے لیکن عیسائی مصنفین اسے ایسے مزے لے لے کر بیان کرتے ہیں کہ اس افسانے کی اصلیت کا سراغ لگانا ضروری ہے۔

قیاس اغلب یہ ہے کہ اس کی بنیاد وہ نام ہے جس سے عقبہ کے بچے پکار ے جاتے تھے، یعنی ”صبیۃالنار“ (آگ سے بچے) عقبہ خود قبیلہ عجلان۱؎ سے تھا، جس کی ایک شاخ صفر ا کے قریب کی چند وادیوں میں آباد تھی۔ اس شاخ کو بنی النّار کہتے تھے۔عقبہ کے بچوں کا نام بھی غالباً اسی مناسبت سے صبیۃ النّار پڑگیا اور اسی کی بناء پریہ افسانہ گھڑ لیا گیا۔

ایک اور افسانہ ہے کہ آنحضرتؐ نے بُت پرستوں کے مُردے دفن کرتے وقت ان سے بہت سخت الفاظ میں خطاب کیا۔ جن واقعات کی بناء پر یہ بہتان باندھا گیا،طبری انہیں یوں بیان کرتا ہے:۔ ”رسول اللہؐ اس قبر کے قریب کھڑے ہوگئے جو ان مردوں کے لیے کھودی گئی تھی۔ جب لاشیں قبرمیں اتاری گئیں تو ہر ایک کا باری باری نام لیا گیا۔ اس وقت آنحضرتؐ نے فرمایا: میرے رشتہ دارو ں جب دوسرے لوگ مجھؐ پرایمان لے آئے تو اس وقت بھی تم  لوگوں نے مجھےؐ جھوٹا کہا۔ جب دوسروں نے مجھےؐ آسرا دیا تم نے مجھےؐ گھر بار سے نکال دیا۔ تمہارے مقدر میں کیساانجام تھا! افسوس! خدا کا وعدہ پورا کررہا‘۔یہ الفاظ صریحاً رحم وتاسفّ کے اظہار کے لیے کہے گئے تھے، لیکن انہیں موڑ توڑ کر سخت کلامی سے تعبیر کردیا گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ کوسین دی پرسیوال کے خیال میں افاق قبیلے سے۔

Related Article:

Part: 1- The Spirit of Islam Authored by Sayed Ameer Ali: An Introduction- Part 1 سید امیر علی کی تصنیف ،روح اسلام: ایک تعارف

Part: 2 - The Spirit Of Islam Authored By Sayed Ameer Ali: Preface – Pre Islamic Social And Religious Conditions Of The World- Part 2 سید امیر علی کی تصنیف ،روح اسلام: مقدمہ ، اسلام سے پہلے اقوام عالم کے مذہبی اور معاشرتی حالات

Part: 3- The Spirit Of Islam: Preface- Social And Religious Conditions Of the Aryans- Part 3 روح اسلام: بعثت اسلام کے وقت آریہ قوم کے مذہبی ومعاشرتی حالات

Part: 4- Sayed Ammer Ali’s Book ‘The Spirit Of Islam’: Preface- Social And Religious Conditions Of Iran Before Islam- Part 4 روح اسلام: اسلام سے قبل ایران کے مذہبی ومعاشرتی حالات

Part: 5- Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit Of Islam’: Preface- Social And Religious Conditions of the World Before Islam- Part 5 روح اسلام: اسلام سے قبل دنیا کے مذہبی ومعاشرتی حالات

Part: 6 - Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit Of Islam’: Preface- Social And Religious Conditions of the World Before Islam- Part 6 روح اسلام: اسلام سے قبل دنیا کے مذہبی ومعاشرتی حالات

 Part: 7- Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit Of Islam’: Preface- Pre-Islamic Conditions of the Christian World روح اسلام: اسلام سے قبل عیسائی دنیا کی مذہبی حالت

 Part: 8- Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit of Islam’: Preface- Pre-Islamic Conditions of the Christian World-Part 8 روح اسلام: اسلام سے قبل عیسائی دنیا کی مذہبی اور سماجی حالت

Part: 9-  Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit Of Islam’: Preface- Pre-Islamic Conditions of the Arabs-Part 9 روح اسلام: اسلام سے قبل عیسائی دنیا کی مذہبی اور سماجی حالت

Part: 10- Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit of Islam’: Preface- Pre-Islamic Conditions of the Arabs-Part 10 روح اسلام: ماقبل اسلام عرب کی مذہبی اور سماجی حالت 

Part: 11- Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit Of Islam’: Chapter 1- The Messenger of Allah -Part 11 روح اسلام: پہلا باب پیغمبر اسلام کی ابتدائی زندگی

Part: 12- Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit Of Islam’: Chapter 1- The Prophet’s Life and Prophet-hood -Part 12 روح اسلام: رسول اللہ کی زندگی اور رسالت

Part:-13 - Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit of Islam’: Chapter 1- The Revelation of the Quran and Declaration of Prophethood -Part 13 روح اسلام:نزول وحی کی ابتدا اور اعلان نبوت

Part: 14- Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit Of Islam’: Chapter 1- The Life of The Prophet and His Companions In Early Days of Islam -Part 14 روح اسلام: مکی دور میں رسول اللہ اور صحابہ کی زندگی

Part: 15- Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit Of Islam’: Chapter 1- The Life of The Prophet and His Companions In Early Days of Islam -Part 15 روح اسلام: مکی دور میں رسول اللہ اور صحابہ کی زندگی

Part: 16- Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit Of Islam’: Chapter 2- The Prophet’s Migration Towards Madina Part 16 روح اسلام : دوسرا باب: مدینہ کی طرف رسول اللہ کی ہجرت

Part: 17 -Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit Of Islam’: Chapter 3- The Prophet’s Life in Madina Part 17 روح اسلام : تیسرا باب: رسول اللہ کی زندگی مدینہ میں

URL: https://www.newageislam.com/books-documents/urdu-ameer-ali-spirit-part-18/d/123244

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..