مولانا ندیم الواجدی
5 مارچ 2021
قبا میں رسول اللہ ﷺ کی
تشریف آوری
تاریخی روایات سے پتہ
چلتا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رفیق سفر کے ساتھ یکم ربیع الاول
مطابق ستمبر ۶۲۲ء
پیر کے دن غارِ ثور سے ہجرت کے سفر کا آغاز فرمایا اور ۸؍ربیع
الاوّل کو پیر ہی کے دن آپ کا قافلہ مدینہ منورہ کے مقام قُبا میں پہنچ گیا۔اہل
مدینہ کو اطلاع مل چکی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے روانہ
ہوچکے ہیں، اس لئے تمام لوگ مرد و زن، بوڑھے بچے، جوان سب پلکیں بچھائے تشریف
آوری کے منتظر تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کا اس قدر شوق اہل مدینہ کے
دلوں میں تھا کہ صبح ہوتے ہی وہ لوگ اپنے گھروں سے نکل پڑتے اور حرہ کی پہاڑی پر
جا کر بیٹھ جاتے، سب کی آنکھیں اس راستے کو تکتی رہتیں جس راستے سے آپ صلی اللہ
علیہ وسلم کو تشریف لانا تھا۔ یہ تمام لوگ اس وقت تک وہاں بیٹھے رہتے جب تک دھوپ
ان کے سروں پر اپنا آنچل نہ ڈال دیتی۔ روز کا یہی معمول تھا، ایک دن جب کہ لوگ
حرہ پہاڑی سے اتر کر اپنے گھروں میںچلے گئے تھے، اچانک کسی یہودی کی آواز فضاوں
میں بلند
ہوئی، وہ چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا: اے بنی عوف! تمہارے نصیب جاگ اٹھے، تمہارے
انتظار کی گھڑیاں ختم ہوگئیں، تمہارے نبیؐ
جن کا تم انتظار کر رہے تھے تشریف لے آئے۔ اتنا سننا تھا کہ سب لوگ
وارفتگی کے عالم میں اُدھر دوڑ پڑے جدھر سے قافلہ آنے والا تھا۔ مدینہ منورہ کی
فضائیں نعرۂ تکبیر کی فلک شگاف آوازوں سے گونج اٹھیں، جو لوگ اپنے گھروں میں تھے
وہ بھی نعروں کی آواز سن کر باہر نکل آئے، نئی دلہنیں اور نومولود بچوں کی مائیں
چھتوں پر چڑھ کر یہ نظارہ دیکھنے لگیں۔
مسجد قبا
-------
جو لوگ مقام حرہ سے پہاڑی
کے پیچھے دوڑے انہوں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھجور کے ایک درخت کے
نیچے تشریف فرما ہیں، اکثر لوگوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس وقت تک دیکھا
نہیں تھا؛ کیوںکہ حضرت ابوبکرؓ بھی ساتھ تھے اور آپ بھی تقریباً حضورؐ ہی کی عمر
کے تھے، اس لئے لوگ یہ نہیں جان پارہے تھے کہ ان دونوں میں ابوبکرؓ کون ہیں اور
محمد صلی اللہ علیہ وسلم کون ہیں۔ اچانک سروں پر دھوپ آئی، حضرت ابوبکرؓ اپنی جگہ
سے اٹھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک پر اپنی چادر تان کر کھڑے
ہوگئے، لوگوں نے جان لیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ ہیں۔ (البدایہ
والنہایہ، ۳؍۱۹۴)
حضرت ابوبکرؓ روایت
فرماتے ہیں کہ جب ہم لوگ مدینے آگئے تو لوگ راستوں پر نکل آئے اور اپنے گھروں کی
چھتوں پر چڑھ گئے، غلاموں اور خادموں تک کی زبانوں پر یہ الفاظ تھے: اللہ اکبر،
محمد تشریف لے آئے، اللہ اکبر، اللہ کے رسول آگئے۔ قبیلۂ بنی عوف کے نوجوان
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتے ہی اپنی تلواریں اور نیزے اٹھا لائے اور
اسلحہ کی چھاوں میں آپؐ کو لے کر آگے
بڑھے، استقبال کا یہ منفرد اور دل فریب انداز تھا، نہ ایسا استقبال کسی کا ہوا اور
نہ اس شان کے ساتھ کسی اور کا ہوگا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبا میں پہنچے تو
دائیں جانب مڑ کر اس جگہ تشریف لے گئے جہاں قبیلۂ بنی عوف کے لوگ آباد تھے۔ اس
قبیلے کے سردار کلثوم بن ہدم بھی یہیں رہتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں پہنچ
کر اپنی سواری سے اترے اور کلثوم بن ہدم کے مکان پر تشریف لے گئے، چودہ دنوںتک
آپؐ نے انہی کے مکان پر قیام فرمایا، مشتاقانِ دید کا ہر وقت ہجوم لگا رہتاتھا، لوگ
حاضرہوتے، سلام اور مصافحہ کرتے اور ارشاداتِ عالیہ سے مستفید ہوتے۔ (صحیح
البخاری، ۵؍۷۸۰۷۷، رقم الحدیث، ۳۹۰۶)
مسجد تقویٰ کی تاسیس
قبا میں جو یثرب ہی کا
ایک محلہ تھا قیام کے دوران عاشقانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا جس طرح ہجوم ہوا
اس علاقے کی تاریخ نے کبھی ایسا منظر نہ دیکھا تھا، بہت سے لوگ دور دراز علاقوں سے
سفر کرکے وہاں پہنچتے، آپ کی زیارت کرتے، اسلام قبول کرتے اور آپ کے دستِ مبارک
پر بیعت کرکے واپس ہوجاتے۔ قبا میں چودہ روزہ قیام کے دوران مسلمانوں کی تعداد
بڑھنے لگی تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو خیال آیا کہ یہاں نماز ادا کرنے
کے لئے ایک مسجد ہونی چاہئے، چنانچہ ایک مناسب جگہ پر مسجد کی بنیاد رکھی گئی، یہ
مسجد اسلام کی سب سے پہلی مسجد ہے۔ قرآن کریم نے اس مسجد کو ’’مسجد تقویٰ‘‘ کہا
ہے۔ قبا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے میزبان حضرت کلثوم بن ہدمؓ تھے، انہوں نے
ہی اپنی ایک زمین مسجد کے لئے وقف کی۔ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے
دست مبارک سے اس کی بنیاد رکھی اور صحابہ کرامؓ کے ساتھ مل کر اس کی تعمیر میں حصہ
بھی لیا۔ یہ پہلی مسجد ہے جس میں مسلمانوں نے علی الاعلان اپنے نبی صلی اللہ علیہ
وسلم کی اقتداء میں نماز ادا کی۔ مکہ
میںنماز تو پڑھی جاتی تھی لیکن مشرکین کے شر سے محفوظ رہنے کے لئے مسلمان
چھپ کر نماز پڑھنے پر مجبور تھے۔ قبیلہ بنی عوف کی ایک خاتون شموسؓ بنت نعمان مسجد
قباکی تعمیر کے احوال پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتی ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم تشریف لائے، ہمارے پاس ٹھہرے اور مسجد کی بنیاد رکھی، اس وقت میں نے
آپؐ کو دیکھا، میں نے دیکھا کہ آپ اس
قدر بھاری پتھر اٹھا رہے ہیں جس سے آپؐ کو سخت مشقت اٹھانی پڑ رہی ہے۔ میں نے
آپؐ کے پیٹ پر مٹی لگی ہوئی دیکھی، اگر آپؐ کے اصحاب میں سے کوئی شخص تیزی سے
آتا اور یہ عرض کرتا یارسولؐ اللہ! میرے ماں باپ آپؐ پر فدا ہوں، آپؐ یہ پتھر
مجھے دے دیں، میں اٹھا کر وہاں پہنچا دیتا ہوں، آپؐ فرماتے، نہیں! تم دوسرا پتھر
اٹھا لو۔ اس طریقے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد کی تعمیر فرمائی، آپؐ فرماتے تھے کہ مجھے جبریل علیہ السلام قبلے کا
رخ بتلا رہے ہیں۔(مجمع الزوائد، ۴؍۱۱)
آگے بڑھنے سے پہلے یہ
بھی عرض کردیں کہ قباء عربی میں کنویں کو کہتے ہیں، جہاں یہ مسجد واقع ہے وہاں اُس
زمانے میں ایک کنواں تھا، اسی کنویں کی نسبت سے علاقے کا نام مشہور ہوا۔ (معجم
البلدان، مادہ ق ب۱)جس
وقت مسجد بن کر تیار ہوگئی قرآن کریم کی یہ آیت نازل ہوئی:
’’یقیناً وہ مسجد جس کی
بنیاد اوّل ہی سے تقویٰ پر رکھی گئی ہے اس بات کی زیادہ مستحق ہے کہ آپ اس میں
(نماز کے لئے) کھڑے ہوں، اس میں ایسے لوگ ہیںجو پاکیزگی اور طہارت کوپسند کرتے ہیں
اور اللہ تعالیٰ بھی پاک رہنے والوں کو پسند کرتے ہیں۔‘‘ (التوبہ:۱۰۸)
جس وقت یہ آیت نازل ہوئی
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل قبا سے دریافت فرمایا کہ تم لوگ طہارت اور پاکیزگی
کے لئے کیا اہتمام کرتے ہو کہ حق تعالیٰ نے تمہاری صفائی، نظافت و طہارت کی مدح
فرمائی ہے، انہوں نے عرض کیا کہ ہم ڈھیلے سے استنجاء کرنے کے بعد پانی بھی استعمال
کرتے ہیں۔
(فوائد عثمانی، ترجمہ شیخ
الہندؒ:۲۷۰)
مسجد قبا کی فضیلت
مسجد قبا میں نماز پڑھنے
کی بڑی فضیلت ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ جو شخص گھر سے نکل کر اس مسجد (مسجد قبا) میں
آئے اور اس میںنماز پڑھے اسے ایک عمرے کا ثواب ملے گا۔ (سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث
۱۴۱۲، المستدرک للحاکم ۳؍۱۲) رسول اکرم صلی اللہ علیہ
وسلم کو مسجد قبا بے حد عزیز تھی۔ آپؐ اکثر اس مسجد میں نماز پڑھنے کے لئے تشریف
لایا کرتے تھے، کبھی پیدل چل کر اور کبھی سواری کے ذریعے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ
فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ آپؐ ہر سنیچر کو مسجد قبا میں پیدل یا سواری پر
سوار ہو کر تشریف لایا کرتے تھے اور دو رکعت نماز پڑھا کرتے تھے۔ (صحیح البخاری،
رقم الحدیث ، ۱۱۹۳،
صحیح مسلم ، رقم الحدیث ۱۳۹۹) ایک
روایت میں یہ بھی ہے کہ آپؐ ۱۷؍رمضان
المبارک کو بھی اس مسجد میں تشریف لایا کرتے تھے۔ صحابہ کرامؓ کا بھی یہی معمول
رہا، حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ اور دوسرے حضرات صحابہؓ بڑی پابندی کے ساتھ مسجدقبا
میں تشریف لاتے اور نماز ادا فرماتے۔
مسجد کی تعمیر کے بعد
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبلؓ کوامام مقرر کیا اور مدینے
تشریف لے گئے۔ تیرہ مہینوں کے بعد تحویل قبلہ کا حکم نازل ہوا۔ آپؐ دوبارہ یہاں
تشریف لائے اور خانہ کعبہ کی سمت میں اس مسجد کی بنیاد رکھی۔ یہ مسجد آج تک اسی
بنیاد پر موجود ہے، البتہ مختلف ادوار میں اس کی توسیع کا سلسلہ جاری رہا۔ حضرت
ابوسعید الخدریؓ فرماتے ہیں کہ تحویل قبلہ کے بعد جب یہ مسجد دوبارہ تعمیر کی
جارہی تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جبریل علیہ السلام مجھے بیت
اللہ کی سمت بتلا رہے ہیں۔ (الطبرانی فی الکبیر، ۴؍۱۱) اس لئے کہا جاتا ہے کہ
تمام مساجد میں درست قبلے والی مسجد؛ مسجد قبا ہے۔ عہدِ رسالت کے بعد حضرت عمرؓ نے
اس مسجد کی دوبارہ تعمیر کرائی، ان کے بعد حضرت عثمانؓ نے اس کی تجدید کرائی، پھر
حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ نے، جب وہ مدینہ منورہ کے گورنر تھے، اس کی توسیع کی، شمال
کی طرف اس میں کچھ زمین کا اضافہ کیا اور اس پر ایک مینار بھی بنوایا۔ بعد میں بھی
تعمیر، توسیع اور تزئین کا سلسلہ جاری رہا۔ حالیہ تاریخ میں خاصی بڑی اور خوبصورت
نیز ضرورت اور زمانے کے تقاضوں کے مطابق توسیع سعودی حکومت نے کی، اب اس مسجد کا
کل رقبہ تیرہ ہزار پانچ سو مربع میٹر ہوگیا۔
قبا سے روانگی
قبا میں چودہ دن تک قیام
کرنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم یثرب روانہ ہوئے، جمعہ کا دن تھا، چاشت کا وقت
تھا، ابھی کچھ ہی دور چلے تھے کہ راستے میں جمعہ کی نماز کا وقت ہوگیا۔ آپ نے بنو
سالم بن عوف کے علاقے وادی رانونا میں کچھ دیرٹھہر کر قافلے میں شامل تمام
مسلمانوں کے ساتھ نماز جمعہ ادا کی اور نماز سے قبل جمعہ کا خطبہ ارشاد فرمایا۔ یہ
اسلام کا پہلا جمعہ تھا اور اولین خطبہ تھا، اس خطبہ میں آپ نے حمد و صلوٰۃ کے
بعد فرمایا ’’میں تم کو اللہ سے ڈرتے رہنے کی وصیت کرتا ہوں، ایک مسلمان کو دوسرے
مسلمان کی وصیت یہ ہے کہ وہ اس کو آخرت پر آمادہ کرے اور اس کو تقویٰ اور
پرہیزگاری کا حکم دے۔ اے مسلمانو! اس چیز سے بچو جس سے تمہیں اللہ نے ڈرایا ہے،
تقویٰ سے بڑھ کر کوئی نصیحت اور موعظت نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی عظمت اور
جلالتِ شان سے ڈراتا ہے اور یہ ڈرانا اس وجہ سے ہے کہ اللہ اپنے بندوں پر نہایت ہی
مہربان ہے، اللہ اپنے قول میں سچا ہے اور اپنا وعدہ پورا کرنے والا ہے۔ اور یہ
ڈرانا اس وجہ سے ہے کہ اللہ اپنے بندوں پر نہایت ہی مہربان ہے، اللہ اپنے قول میں
سچا ہے اور اپنا وعدہ پورا کرنے والا ہے دنیا و آخرت میں ، اور ظاہر و باطن میں
اللہ سے ڈرو، جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کے گناہوں کو مٹا دیتاہے اور اجر
عظیم عطا فرماتا ہے اور جو اللہ سے ڈرتا ہے وہ بڑا کامیاب ہے۔‘‘ (تاریخ طبری، ۲؍۲۲۵)یہ پورا خطبہ تقوے کے
موضوع پر ہے اور کافی تفصیلی ہے، یہاں ہم نے اس خطبے سے چند جملے نقل کئے ہیں،
حدیث اور سیرت کی کتابوں میں یہ پورا خطبہ موجود ہے۔ صاحب سیرۃ المصطفیٰ نے یہ
پورا خطبہ نقل کیا ہے اور اس کا ترجمہ بھی لکھ دیا ہے اور ساتھ ہی اس خطبے پر یہ
تبصرہ بھی کیا ہے کہ ’’یہ آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا پہلا خطبہ ہے، جو آپ نے
ہجرت کے بعد دیا، تیرہ سالہ مظلومانہ زندگی کے بعد جو خطبہ دیا جارہا ہے اس میں
ایک حرف بھی اپنے دشمنوں کی مذمت اور شکایت کا نہیں، سوائے تقوے اور پرہیزگاری کے
اور آخرت کی تیاری کے کوئی لفظ لسانِ نبوت سے نہیں نکل رہا ہے، بے شک آپ اِنَّکَ
لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْم کے مصداق تھے۔‘‘ (سیرۃ المصطفیٰ، ۱؍۴۰۱، ۴۰۵) وادی رانونا میں بھی آپ
صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مسجد کی بنیاد رکھی، اسے مسجد جمعہ، مسجد الوریٰ اور
مسجد عاتکہ کہتے ہیں۔(جاری)
nadimulwajidi@gmail.com
5 مارچ 2021 ،بشکریہ:انقلاب، نئی دہلی
Related Article
Part: 7- Adjective of Worship مجھے صفت ِ عبدیت زیادہ پسند اور عبد کا لقب زیادہ
محبوب ہے
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/bani-awf-prophet-come-part-22-/d/124482
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia
in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism