New Age Islam
Sat Mar 22 2025, 02:23 AM

Urdu Section ( 14 Jan 2022, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Parveen Shakir : Her Nazms and Gazals; Part 5 on Kafe-Aaina پروین شاکر کی نظمیں اور غزلیں؛ کف آئینہ

پروفیسر مکھن لال، نیو ایج اسلام

28 دسمبر 2021

 کف آئینہ کو پروین شاکر کی قبل از وقت موت کے بعد ان کی بہن نسرین اور ان کی سہیلیوں نے 1995 میں مرتب کیا اور شائع کیا۔ اس میں شامل نظم اور غزل کو صدبرگ، خود کلامی اور انکار کے ساتھ باآسانی جوڑ کر دیکھا جا سکتا ہے۔

بہت رویا وہ ہم کو یاد کرکے

ہماری زندگی برباد کرکے

پلٹ کر پھر یہیں آجائیں گے ہم

وہ دیکھے تو ہمیں آزاد کرکے

رہائی کی کوئی صورت نہیں ہے

مگر ہاں منتِ صیاد کرکے

بدن میرا چھوا تھا اُس نے لیکن

گیا ہے روح کو آباد کرکے

ہر آمر طول دینا چاہتا ہے

مقرر ظلم کی میعاد کرکے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چلنے کا حوصلہ نہیں ، رُ کنا محال کردیا

عشق کے اس سفر نے تو ، مجھ کو نڈھال کردیا

ملتے ہوئے دلوں کے بیچ اور تھا فیصلہ کوئی

اس نے مگر بچھڑتے وقت اور سوال کردیا

اے میری گل زمیں تجھے، چاہ تھی ایک کتاب کی

اہل کتاب نے مگر کیا تیرا حال کردیا

اب کے ہوا کے ساتھ ہے دامانِ یار منتظر

بانوِ شب کے ہاتھ میں رکھنا سنبھال کردیا

ممکناں فیصلوں میں ایک ہجر کا ایک فیصلہ بھی تھا

ہم نے تو ایک بات کی اس نے تو کمال کردیا

میرے لبوں پہ مُہر تھی پر میرے شیشہ رو نے تو

شہر کے شہر کو میرا واقف حال کردیا

چہرہ و نام ایک ساتھ آج نہ یاد آسکے

وقت نے کس شبیہ کو خواب و خیال کردیا

مدتوں بعد اس نے آج مجھ سے کوئی گِلا کیا

منسبِ دلبری پہ کیا مجھ کو بحال کردیا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سواد زندگانی میں

کہ جس کے سرمئی آنچل میں

کوئی پھول ہوتا ہے

نہ ہاتھوں میں کوئی تارہ

جو آکر بازوؤں میں تھام لے

پھر بھی رگ و پے میں کوئی آہٹ نہیں ہوتی

کسی کی یاد آتی ہے

نہ کوئی بھول پاتا ہے

نہ کوئی غم سُلگتا ہے

نہ کوئی زخم سلتا

نہ گلے ملتا ہے کوئی خواب

نہ کوئی تمنّا ہاتھ ملتی ہے

سوادِ زندگانی میں

اکِ ایسی شام آتی ہے

جو خالی ہاتھ آتی ہے

جو خالی ہاتھ آتی ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ میرے ہاتھ کی گرمی

یہ میرے ہاتھ کی گرمی

جسے چھو کر

تمہاری آنکھ میں حیرت کے ڈورے ہیں

کہ اس سے قبل جب بھی تم نے میرا ہاتھ تھاما

برف کا موسم ہی پایا تھا

یہ موسم میرے اندر کتنے برسوں سے فروکش تھا

بہار آتی تھی

اور میرے دریچوں پر کبھی دستک نہ دیتی تھی

گلابی بارشیں

میرے لئے ممنوع تھیں

اور صبح کی تازہ ہوا کا ذائقہ

میں بھول بیٹھی تھی

مرے ملبوس سے گرم رنگوں کو شکائت تھی

مگر جاناں!

تمہارے ساتھ نے تو روح کا موسم بدل ڈالا

یہاں اب رنگ کا تہوار ہے

خوشبو کا میلا یے

مرا ملبوس آب گہرا گلابی ہے

مرے خوابوں کا چہرا ماہتابی ہے

مرے ہاتھوں کی حدت آفتابی ہے

جسے چھو کر.........

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"مگر اس دل کی ویرانی"

تمہارا ہاتھ میرے ہاتھ میں ہے

اور اس کی خوش آثر حدت

مرے اندر طلسمی رنگ پھولوں کی

نئی دنیا کهلانے میں مگن ہے

تمہارے لبوں پہ میرے نام کا تارہ چمکتا ہے

تو میری روح ایسے جگمگا اٹھتی ہے

جیسے آئینے میں چاند اتر آئے۔

مری پلکوں سے آنسو چوم کر تم نے

انہیں موتی بنانے کی جو ضد کی ہے

وہ ضد مجھ کو بہت اچھی لگی ہے

بہت خوش ہوں

کہ میرے سر پہ چادر رکھنے والا ہاتھ میرے ہاتھ میں پھر آ گیا ہے

یہ پھول اور یہ ستارے اور یہ موتی

مجھ کو قسمت سے ملے ہیں اور اتنے ہیں کہ گنتی میں نہیں آتے

مگر اس دل کی ویرانی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مگر اس دل کی ویرانی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نہ میں نے چاند کو دیکھا

نہ میں نے چاند کو دیکھا

نہ کوئی تہنیت کا پھول کھڑکی سے اٹھایا

مرا ملبوس اب بھی ملگجا ہے

حنا سے ہاتھ خالی اور چوڑی سے کلائی

نہ میرے پاس تھے تم اور

نہ میرے شہر سے گزرے

میں کیا افشاں لگاتی

مانگ میں سندور بھرتی

رنگ اور خوشبو پہنتی

چاند کی جانب نظر کرتی

کہ میری لذتِ دیدار تو تم ہو

مرا تہوار تو تم ہو !

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ بارش خوبصورت ہے

یہ بارش خوبصورت ہے

ایک عرصے بعد

میری روح میں

سیراب ہونے کی تمنا جاگ اٹھی ہے

مگر بادل کے رستے میں

بہت سے پیڑ آتے ہیں

میں پل بھر کے لئیے شاداب ہوں

اور اپنی باقی عمر

پھر صحرا میں کاٹوں؟

میں اپنی پیاس پر راضی رہوں گی

مرے آنسو مرے دل کی کفالت کے لیے کافی رہیں گے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حرفِ تازہ نئی خوشبو میں لکھا چاہتا ہے

باب اک اور محبت کا کُھلاچاہتا ہے

ایک لمحے کی توجہ نہیں حاصل اُس کی

اور یہ دل کہ اُسے حد سے سوا چاہتا ہے

اک حجابِ تہہِ اقرار ہے مانع ورنہ

گُل کو معلوم ہے کیا دستِ صبا چاہتا ہے

ریت ہی ریت ہے اِس دل میں مسافر میرے

اور یہ صحرا تیرا نقشِ کفِ پا چاہتا ہے

یہی خاموشی کئی رنگ میں ظاہر ہو گی

اور کچھ روز کہ وہ شوخ کھلا چاہتا ہے

رات کو مان لیا دل نے مقدر لیکن

رات کے ہاتھ میں اب کوئی دیا چاہتا ہے

تیرے پیمانے میں گردش نہیں باقی ساقی

اور تیری بزم سے اب کوئی اُٹھا چاہتا ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وقت رخصت آ گیا دل پھر بھی گھبرایا نہیں

اس کو ہم کیا کھوئیں گے جس کو کبھی پایا نہیں

زندگی جتنی بھی ہے اب مستقل صحرا میں ہے

اور اس صحرا میں تیرا دور تک سایا نہیں

میری قسمت میں فقط درد تہہ ساغر ہی ہے

اول شب جام میری سمت وہ لایا نہیں

تیری آنکھوں کا بھی کچھ ہلکا گلابی رنگ تھا

ذہن نے میرے بھی اب کے دل کو سمجھایا نہیں

کان بھی خالی ہیں میرے اور دونوں ہاتھ بھی

اب کے فصل گل نے مجھ کو پھول پہنایا نہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نظم

اسیر شام تنہائی سے یہ آخر گلا کیسا

تجھے تو علم تھا زنجیر کا میری

جو پیروں میں بھی ہے

اور روح پر بھی

میں اپنے بخت کی قیدی ہوں

میری زندگی میں نرم آوازوں کے جگنو کم چمکتے ہیں

فصیل شہر غم پر خوش صدا طائر

کہاں آ کر ٹھہرتے ہیں

تری آواز کا ریشم میں کیسے کاٹ سکتی تھی

مرے بس میں اگر ہوتا

تو ساری عمر

اس ریشم سے اپنے خواب بنتی

اور اس رم جھم کے اندر بھیگتی رہتی

تجھے تو میرے دکھ معلوم تھے جاناں !

یہ کس لہجے میں تو رخصت ہوا ہے !

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک خالی دوپہر

میں باہر کی تمازت سے

جھلس کر آئی تو دیکھا

مرے گھر میں بھی ویسی دھوپ میری منتظر تھی!

کسی آواز نے ماتھا مرا چوما

نہ کوئی دلربا لہجہ

مجھے باہوں میں لے پایا

حصول رزق کی گہری مشقت میں

اٹھائے جانے والے زخم پر

کوئی صدا مرہم فشاں تھی

اور نہ کوئی لفظ ہی اس کا رفو گر تھا

میں جس آواز سے لبریز رہتی تھی

اسی کے ایک جرعے کو ترستی تھی

مرے ہاتھوں میں اک ٹوٹی ہوئی

پوجا کی تھالی تھی

میری شاموں کی طرح آج میری

دوپہر بھی تجھ سے خالی تھی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نظم

ترے لہجے میں اب کی بار

ایسی شانتی تھی

جو اک گہرے تذبذب سے نکل کر

ذہن میں ایک فیصلے کے بعد آتی ہے

تذبذب سے نکلنا اس قدر آساں نہيں جاناں

یہ وہ جنگل ہے

جس میں راستے اک دوسرے کو کاٹ دیتے ہيں

مسافر اک قدم آگے بڑھاتا ہے

تو سو خدشات دامن تھام لیتے ہیں

کوئی رستہ دکھانے کا کہاں سوچے

چراغوں یک تو کیا کہنا

یہاں تو جگنووں پہ شک گزرتا ہے

سو ایسے گھپ اندھیرے میں

یقیں کی شمع کس نے آکے تیرے دل میں روشن کی

ترے چہرے پہ اب کی بار

کیسی روشنی تھی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نظم

جان!

کیا بات ہے

کس تذبذب میں ہو

فیصلے پر پہنچنے میں کیا بات مانع ہوئی

اور اگر فیصلے پر پہنچ ہی گئے ہو

تو پھر اس کا دکھ تو نهیں

اور دکھ ھے تو پھر

لوٹنے کی گھڑی

ہاتھ میں ھے ابھی

اگرچہ اب شام ھے

اور جنگل قریں

پھر بھی تنہائی کا وقت کٹ جائے گا

راستے میں اب اتنی مسافت نھیں

عمر کی رات کے آخری پہر میں

میں بھی ہوں

تم بھی ہو

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نظم

دعا کرنا

مرے حق میں دعا کرنا !

بچھڑتے وقت اس نے ایک ہی فقرہ کہا تھا اسے کیا علم

میرے حرف سے تاثیر کب کی اٹھ چکی ہے دعا کا پھول میرے لب پہ کھلتے ہی

اچانک ٹوٹ جاتے ہیں

میں کس خوشبو کو اس کے ہاتھ پر باندھوں

مجھے خوشبو سے ڈر لگنے لگا ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نظم

گلے اپنے لگائے مجھ کو

سمیٹ کر اپنے بازوؤں میں

وہ ایک بچے کی طرح مجھ کو تھپک رہا تھا

اور اپنی خواب آفرین سرگوشیوں میں مجھ سے یہ کہہ رہا تھا

ابھی نہ تھکنا

ابھی نہ تهکنا!

مرے مسافر!

میں جانتی ہوں

ابھی سفر ابتدا ہوا ہے

ابھی مسافت کی حد بھی لکھی نہیں گئی ہے

ابھی تو جنگل میں راستہ ڈھونڈنا پڑے گا

ابھی تو رستے میں شام ہوگی

یہ شام بھی بے چراغ ہوگی

ابھی تو صحرا کی دھوپ میں ننگے پاؤں چلنا پڑے گا مجھ کو

شجر ملے گا نہ سر پر بادل کا سائباں کوئی تان دے گا

تری جهلک کا ابھی بہت انتظار کرنا پڑے گا مجھ کو

ابھی تو کچے گھڑے پہ دریا کو پار کرنا پڑے گا مجھ کو

ابھی تو کچے گھڑے پہ دریا پار کرنا پڑے گا مجھکو

مرے مسافر!

میں جانتی ہوں سفر کی ساری صعوبتوں کو میں جانتی ہوں

مگر مری آنکھ میں جو یہ راکھ اڑ رہی ہے

یہ گرد جو میرے خال وخد پر جمی ہوئی ہے

قبائے تن تک نہیں رکی ہے

شکستگی میری روح میں ہے؟

تھکن جو پچھلے سفر کی ہے

میری ہڈیوں میں اتر چکی ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سنڈریلا

کھلی آنکھوں یہ کیسا خواب میرے سامنے

دئے آنگن سے لے کر آسمان تک

گلاب تازه کی خوشبو چمن سے صحن جاں تک

بلوری جام

اور اس میں دمکتی سرخ مے

اور اس کے نشے میں فروزاں ان کا چہرہ

ستاروں سے بنا میرا لباده

سراپا اضطراب اک شہزادہ

فرش پر شمعیں جلاتا اک وعده

دلوں کے وایلن پر

والز کرتے دو بدن

اور اس کے شانوں پر رکھے سر

زندگی سے

نیم سرگوشی میں اک ہی بات دہراتی ہوئی

خوشبوۓ لب اور اس کا جادو

گجر بجتے ہی آدھی رات کا

یہ خواب ایکدم ٹوٹ جاتا ہے

ستاروں سے بنا ملبوس میرا

پھر خس و خاشاک ہوجاتا ہے

میرا رتھ اچانک ٹوٹ جاتا

مری شیشے کی جوتی رقص گاہ میں ٹوٹ جاتی ہے

مگر اگلی سحر میری طرف

شاہی محل سے

کوی قاصد

دوسرے پاؤں کی فرقت میں نہیں آتا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔

چلو اس خواب کو ہم ترک کر دیں

اور آنکھوں کو یہ سمجھا دیں

کہ ہر تصویر میں ہلکا گلابی رنگ چاہے سے نہیں آتا

بہت سے نقش، نقاش ازل ایسا بناتا ہے

کہ جن کا حاشیہ گہراسیہ

اور نقش ہلکا شرمئی رہتا ہے اور جن پر کسی بھی زاویے سے چاند اترے

یہ کبھی روشن نہیں ہوتے

خدا کچھ کام آدھی رات کو کرتا ہے

جب اس کے پیالے میں

سیاہی کے سوا کچھ بھی نہیں ہوتا

یہ خاکہ بھی

کسی ایسی ہی ساعت میں بنا ہوگا

ہماری آنکھوں میں جو خواب أترا تھا

بہت خوش رنگ لگتا تھا

مگر اس کے دمکنے میں

کئی آنکھیں لہو ہوتی ہیں

کتابوں اور پھولوں سے سجے جس گھر کے آنگن میں

ہم اپنے آپ کو کھلتے ہوئے محسوس کرتے تھے

وہاں اک اور گھر بنیاد سے یوں سر اٹھاتا تھا

کہ ہم اندر سے ہل جاتے مگر چپ چاپ رہتے تھے

یہ چپ دیمک کی صورتہم کو اک دن چاٹ جاتی

تمہارے دکھ سے میں واقف ہوں

اور اپنے مقدر کی لکیروں کی بھی محرم ہوں

ہمارے بس میں رنگوں کا چناؤ ہے

نہ خط کا

سو اس تصویر کو تحلیل کر دیں

ہم اپنا کینوس تبدیل کر دیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نظم

ان دنوں

میری اپنے آپ سے بول چال بند ہے

میرے اندر ایک بانجھ غصہ

فونکاراتا رہتا ہے

نہ مجھے ڈستا ہے

نہ میرے گرد اپنی گرفت ڈھیلی کرتا ہے

نینواں کی سرزمین

ایک بار پھر سرخ ہے

فرات کے پانی پر

ابن زیاد کے طرفداروں کا ایک بار پھر قبضہ ہے

زمین اور آسمان

ایک بار پھر ششماہے کا لہو

وصول کرنے سے انکاری ہے

اور میرے چہرے پر اب مزید لہو کی جگہ نہیں !

فتح فوج کی روشنی اور آگ کے فرق کو نہیں سمجھتی!

صحرا کی رات کاٹنے کے لئے انہیں الاؤ کی ضرورت تھی

سو انہوں نے میرے کتب خانے جلا دئے

لیکن میں احتجاج بھی نہیں کر سکتی

میرے بالوں میں سرخ اسکارف بندھا ہے

اور میرے گلاس میں کوکا کولا ہنس رہا ہے

میرے سامنے ڈالر کی ہڈی پڑی ہوئی ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(ایک مشہور ماہر آثار قدیمہ اور تاریخ دان پروفیسر مکھن لال دہلی انسٹی ٹیوٹ آف ہیریٹیج ریسرچ اینڈ مینجمنٹ کے بانی ڈائریکٹر کی حیثیت سے دہلی منتقل ہونے سے پہلے بنارس ہندو یونیورسٹی اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں درس و تدریس کے فرائض انجام دے چکے ہیں۔ وہ کیمبرج یونیورسٹی کے پہلے چارلس والیس فیلو بھی تھے۔ حال ہی میں انہوں نے پروین شاکر کی ہندی شاعری کو دو جلدوں میں شائع کیا ہے)

Parveen Shakir: Her Poems and Ghazals, Part-1 परवीन शाकिर की नज़्में और गज़लें

Parveen Shakir: A Brief Life Sketch परवीन शाकिर: एक संक्षिप्त जीवनी

Parveen Shakir: A Brief Life Sketch پروین شاکر: ایک مختصر سوانح عمری

Parveen Shakir: Her Poems and Ghazals, Part-1 پروین شاکر کی نظمیں اور غزلیں

Parveen Shakir: Her Poems and Ghazals, Part 2 on Sadbarg परवीन शाकिर की नज़्में और गज़लें: सदबर्ग

Parveen Shakir: Her Poems and Ghazals, Part 2 on Sadbarg پروین شاکر کی نظمیں اور غزلیں: صدبرگ

Parveen Shakir: Her Poems and Ghazals, Part 3 On "Talking to Oneself" परवीन शाकिर की नज़्में और गज़लें: ख़ुदकलामी

Parveen Shakir: Her Poems and Ghazals, Part 3 On "Talking to Oneself" پروین شاکر کی نظمیں اور غزلیں: خودکلامی

Parveen Shakir: Her Nazms and Gazals; Part 4 on Inkar; परवीन शाकिर की नज़्में और गज़लें: इन्कार

Parveen Shakir : Her Nazms and Gazals; Part 5 on Kafe-Aaina;परवीन शाकिर की नज़्में और गज़लें:कफ़े आईना

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/parveen-shakir-poems-ghazals-kafe-aaina-part-5/d/126154

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..