New Age Islam
Sat Oct 12 2024, 07:15 PM

Urdu Section ( 11 Jan 2022, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Parveen Shakir: Her Poems and Ghazals, Part 3 On "Talking to Oneself" پروین شاکر کی نظمیں اور غزلیں: خودکلامی

 پروفیسر مکھن لال، نیو ایج اسلام

 25 دسمبر 2021

 خودکلامی کی تمام نظمیں اور غزلیں پروین شاکر نے 29 سے 34 سال کی عمر کے دوران لکھی ہیں۔ خاندانی زندگی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہی تھی لیکن وہ حالات سے لڑتی دکھائی دے رہی ہیں۔ انہیں خود کے ماں بننے پر بہت فخر ہے۔ انہوں نے اپنے بیٹے کے لیے بہت سی نظمیں لکھیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اب تک وہ کافی تنہا ہو چکی تھیں ۔ انہیں اپنی بڑھتی عمر کا بھی احساس ہونے لگتا ہے۔ اب وہ سماجی، معاشی اور حکومتی مسائل پر کھل کر لکھنے لگی ہیں ۔ نظم "پھولوں کا کیا ہوگا" بے سر و پا حکومتی احکامات پر ایک بڑا طنز ہے۔

کچھ تو ہوا بھی سرد تھی، کچھ تھا تیرا خیال بھی

دل کو خوشی کے ساتھ ساتھ ہوتا رہا ملال بھی

بات وہ آدھی رات کی، رات وہ پورے چاند کی

چاند بھی عین چیت کا اس پہ ترا جمال بھی

سب سے نظر بچا کے وہ مجھ کو کچھ ایسے سیکھتا

ایک دفعہ تو رک گئی گردش ماہ و سال بھی

دل کو چمک سکے گا کیا، پھر بھی ترش کے دیکھ لیں

شیشہ گران شہر کے ہاتھ کا یہ کمال بھی

اس کو نہ پا سکے تھے جب دل کا عجیب حال تھا

اب جو پلٹ کے دیکھئیے، بات تھی کچہ محال بھی

مری طلب تھا ایک شخص وہ جو نہیں ملا تو پھر

ہاتھ دعا سے یوں گرا، بھول گیا سوال بھی

اس کی سخن طرازیاں مرے لئے بھی ڈھال تھیں

اس کی ہنسی میں چھپ گیا اپنے غموں کا حال بھی

گاہ قریب شاہ رگ، گاہ امید دائم و خواب

اس کی رفاقتوں میں رات، ہجر بھی تھا وصال بھی

اس کے بازوؤں میں اور اس کو ہی سوچتے رہے

جسم کی خواہش پہ تھے روح کے اور جال بھی

شام کی نا سمجھ ہوا پوچھ رہی ہے اک پتا

موج ہوائے کوئے یار، کچھ تو مرا خیال بھی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دو سہیلی نظمیں

پہلے چاند کی نرم مہکتی رات

سبک ساحل کی ٹھنڈک

اورخوش لمس ہوا

تن کی چاہ میں جلنے والی

دو پیاسی روحوں کو ایسے چُھونے لگی تھی

جیسے اُن کا دُکھ پہچان گئی ہو

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جس جذبے پر

دن بھر سورج اپنے ہاتھ رکھے رہتا تھا

شب کے لمس سے ایسے جاگ پڑا تھا

ریت کی دلآرام رفاقت

اور سلگتی تنہائی کے بیچ

سمندر کی بانہوں سے لپٹے ہوئے دو منکر جسم

اپنے آپ سے ہار چکے تھے

رات کا جادو جیت چکا تھا!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کھلے گی اس نظر پہ چشمِ تر، آہستہ آہستہ

کیا جاتا ہے پانی میں سفر، آہستہ آہستہ

کوئی بھی زنجیر پھر واپس وہیں پر لے کے آتی ہے

کٹھن ہو راہ تو چھٹتا ہے گھر، آہستہ آہستہ

بدل دینا ہے رستہ یا کہیں پر بیٹھ جانا ہے

کہ تھکتا جا رہا ہے ہمسفر، آہستہ آہستہ

خلش کے ساتھ اِس دل سے نہ میری جاں نکل جائے

کِھنچے تیرِ شناسائی مگر، آہستہ آہستہ

ہَوا سے سرکشی میں پھول کا اپنا زیاں دیکھا

سو جھکتا جا رہا ہے اب یہ سر، آہستہ آہستہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کائنات کے خالق!

دیکھ تو مرا چہرہ

آج میرے ہونٹوں پر

کیسی مسکراہٹ ہے

آج میری آنکھوں میں

کیسی جگمگاہٹ ہے

میری مسکراہٹ سے

تجھ کو یاد کیا آیا

میری بھیگی آنکھوں میں

تجھ کو کچھ نظر آیا

اس حسین لمحے کو

تو تو جانتا ہوگا

اس سمئے کی عظمت کو

تو تو مانتا ہوگا

ہان تر اگماں سچ ہے

ہاں کہ آج میں نے بھی

زندگی جنم دی ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اب بھلا چھوڑ کے گھر کیا کرتے

شام کے وقت سفر کیا کرتے

تیری مصروفیتیں جانتے ہیں

اپنے آنے کی خبر کیا کرتے

جب ستارے ہی نہیں مل پائے

لے کے ہم شمس و قمر کیا کرتے

وہ مسافر ہی کھلی دھوپ کا تھا

سائے پھیلا کے شجر کیا کرتے

خاک ہی اوّل و آخر ٹھہری

ر کے ذرّے کو گہر کیا کرتے

رائے پہلے سے بنا لی تو نے

دل میں اب ہم ترے گھر کیا کرتے

عشق نے سارے سلیقے بخشے

حسن سے کسبِ ہنر کیا کرتے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اختیار کی ایک کوشش

اگر بن میں رہنا مقدر ہے

اور یہ ایک تے شدہ عمر بھی ہے

کہ ہر بن میں بھیڑیے منتظر ہیں میرے

تو یہ سوچتی ہوں

کہ اس صورت حال میں

کیوں نہ پھر

اپنی مرضی کے جنگل میں ہی جا بسوں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ساتھ

کتنی دیر تک

املتاس کے پیڑ کے نیچے

بیٹھ کے ہم نے باتیں کیں

کچھ یاد نہیں

بس اتنا اندازہ ہے

چاند ہماری پشت سے ہو کر

آنکھوں تک آ پہنچا تھا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ﺍﮎ نہ ﺍﮎ ﺭﻭﺯ ﺗﻮ ﺭﺧﺼﺖ ﮐﺮﺗﺎ

ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﮐﺘﻨﯽ ﮨﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺮﺗﺎ

ﺳﺐ ﺭﺗﯿﮟ ﮐﮯ ﭼﻠﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﯿﮟ

ﻣﻮﺳﻢِ ﻏﻢ ﺑﮭﯽ ﺗﻮ ﮨﺠﺮﺕ ﮐﺮﺗﺎ

ﺑﮭﯿﮍﯾﮯ ﻣﺠﮫ ﮐﻮ ﮐﮩﺎﮞ ﭘﺎ ﺳﮑﺘﮯ ﺗﮭﮯ

ﻭﮦ ﺍﮔﺮ ﻣﯿﺮﯼ ﺣﻔﺎﻇﺖ ﮐﺮﺗﺎ

ﻣﯿﺮﮮ ﻟﮩﺠﮯ ﻣﯿﮟ ﻏﺮﻭﺭ ﺁﯾﺎ ﺗﮭﺎ

ﺍﺱ ﮐﻮ ﺣﻖ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺷﮑﺎﯾﺖ ﮐﺮﺗﺎ

ﮐﭽﮫ ﺗﻮ ﺗﮭﯽ ﻣﯿﺮﯼ خطا رنہ ﻭﮦ ﮐﯿﻮﮞ

ﺍﺳﻄﺮﺡ ﺗﺮﮎِ ﺭﻓﺎﻗﺖ ﮐﺮﺗﺎ

ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﺳﮯ نہ ﺭﮨﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﻃﻠﺐ

ﺑﺲ ﻣﺮﮮ ﭘﯿﺎﺭ ﮐﯽ ﻋﺰﺕ ﮐﺮﺗﺎ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مس فٹ

کبھی کبھی میں سوچتی ہوں

مجھ میں لوگوں کو خوش رکھنے کا ملکہ

اتنا کم کیوں ہے

۔کچھ لفظوں سے۔کچھ میرے لہجے سے خفا ہیں

پہلے میری ماں میری مصروفیت سے

نالاں رہتی تھی

اب یہی گلہ مجھ سے میرے بیٹے کو ہے

رزق کی اندھی دوڑ میں رشتے کتنے پیچھے رہ جاتے ہیں

جبکہ صورتِ حال تو یہ ہے

میرا گھر میرے عورت ہونے کی

مجبوری کا پورا لطف اٹھاتا ہے

ہر صبح میرے شانوں پر زمہ داری کا بوجھا لیکن

پہلے سے بھاری ہوتا ہے

پھر بھی میری پشت پہ نا اہلی کا کوب

روز بروز نمایاں ہوتا جاتا ہے

پھر میرا دفتر ہے

جہاں تقرر کی پہلی ہی شرط کے طور پہ

خود داری کا استعفی دائر کرنا تھا

میں پتھر بنجر زمینوں میں پھول اگانے کی کوشش کرتی ہوں

کبھی ہریالی دکھ جاتی ہے

ورنہ

پتھر

بارش سے اکثر ناراض ہی رہتے ہیں

مرا قبیلہ

میرے حرف میں روشنی ڈھونڈ نکالتا ہے

لیکن مجھ کو

اچھی طرح معلوم ہے

کس کی نظریں لفظ پہ ہیں

اور کس کی خالق پر

سارے دائرے میرے پاووءں سے چھوٹے ہیں

لیکن وقت کا وحشی ناچ

کسی مقام نہیں رکتا

رقص کی لے ہر لمحہ تیز ہوئی جاتی ہے

یا تو میں کچھ اور ہوں

یا پھر یہ میرا سیارہ نہیں ہے۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بے بسی کی ایک نظم

کیا اس پر میرا بس ہے

وہ پیڑ گھنا

لیکن کسی اور کے آنگن کا

کیا پھول میرے

کیا پھل میرے

سایا چھونے سے پہلے

دنیا کی ہر انگلی مجھ پر آٹھ جائے گی

وہ چھت کسی اور کے گھر کی

بارش ہو کہ دھوپ کا موسم

میرے ایک ایک دن کے دپٹے آنسو میں رنگے

آنسو میں سکھائے جائیں گے

تہ خانہ غم کے اندر

سب جانتی ہوں

لیکن پھر بھی

وہ ہاتھ کسی کے ہاتھ میں جب بھی دیکھتی ہوں

ایک پیڑ کی شاخوں پر

بجلی سی لپکتی ہے

ایک چھوٹے سے گھر کی

چھت بیٹھنے لگتی ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بے فیض رفاقت میں ثمر کِس کے لئے تھا

جب دھوپ تھی قسمت میں تو شجر کِس کے لئے تھا

پردیس میں سونا تھا تو چھت کِس لئے ڈالی

باہر ہی نکلنا تھا تو گھر کِس کے لئے تھا

جس خاک سے پُھوٹا ہے اُسی خاک کی خوشبو

پہچان نہ پایا تو ہُنر کِس کے لیے تھا

اے مادر گِیتی! تیری حیرت بھی بجا ہے

تیرے ہی نہ کام آیا تو سر کِس کے لئے تھا

یُوں شام کی دہشت سرِ دشتِ ارادہ

رُکنا تھا، تو پھر سارا سفر کِس کے لئے تھا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک وکٹورین شخص سے

بجائے اس کے

کہ تم مجھے سینت سینت کر

اپنے دل میں رکھو

اور ایلیزا بیتھ دوئم کے زمانے میں

عہد وکٹوریہ کے آداب سیکھنے میں

اسی طرح زندگی گنوا دو

اور ایک فقرے کی گفتگو کے لئے

یہاں سے وہاں تلک کے ادب کھنگالو

بہار کے پہلے دن کا ہر سال

میری کھڑکی کے نیچے تنہا کھڑے ہُوئے

انتظار کھینچوں

بس ایک دن

دفعۃ کہیں سے نکل کے آ جاؤ

اور مجھے

بازوؤں میں اپنے سمیٹ کر

ایڑیوں پر تم اپنی گھوم جاؤ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چین ری ایکشن

مجھے تم اچھے لگتے ہو

تمہاری گفتگو میں

بیسویں صدی کی آٹھویں دہائی کو سمجھنے

والے ذہن کی چمک ہے

اور تمہارے لمس میں

وہ گرم تازگی

جو بدن کے سارے موسموں کو سبز رکھتی ہے

تمہارے بازوؤں پر سر رکھے

میں ذہن اور جسم کا وصال دیکھتی ہوں

(کہ زمانہ کس قدر عجیب واقعہ ہے)

مگر تمہارے اور میرے درمیان

زمانوں اور عمروں

اور اپنے آنے طبقے کے مفاد کا جو بعد ہے

اسے پھلانگنا

نہ میرے بس میں ہے

نہ تم میں اس کا حوصلہ

مفاہمت کی گول میز پر

کبھی شمال اور جنوب کے مذاکرات

کی طرح

ہماری سب دلیلیں

ایک دوسرے پہ شک کریں گی

اور کبھی جنوب اور شمال کے غلام

بحت خام کی طرح سے

ایک دوسرے کے خبث باطنی کا نیل پرنٹ

ڈھونڈتے رہیں گے ہم

سو عافیت اسی میں ہے

کہ ہم اندھیرے میں رہیں

اور اپنے نیوٹرانس سے

تعلق ٹھیک رکھیں

تمہارے اور میرے آیسوٹوپس

تابکار نفرتوں کی زد میں ایک بار آگئے

تو پھر محبتوں کا اختیار ختم

سمجھو

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں تیتری رہنے میں خوش ہوں

عمر کی نِصف شب

کلبۂ جاں کے گونگے کواڑوں پہ یہ

کوئی دستک ہُوئی

یا کہ میں نیند میں ڈر گئی

سوچتی ہوں

یہ کیسی محبت ہُوئی

جس کی بنیاد میں خوف کے اتنے پتّھر رکھے ہیں

کہ لگنے سے پہلے

عمارت کے سارے دریچوں کے شیشے لرزنے لگے ہیں

ایسا لگتا ہے یہ خوف

باہر سے بڑھ کے کہیں میرے باطن میں ہے

اُس کی ذہنی وجاہت کی دہشت

اُس کی خوش روئی کی سانس کو روکنے والی ہیبت

پیچھا کرتی ہُوئی آنکھ سے میری بے پردہ وحشت

تو باطن کے ڈر کا لبادہ ہیں

دراصل میں

اُس کو تسلیم کر کے

عمر بھر کی کمائی

اس آزادئی ذہن و جاں کی

گنوانا نہیں چاہتی

اورمجھے یہ خبر ہے

کہ میں اِک دفعہ

ہاتھ اُس کے اگر لگ گئی تو

وہ مکّھی بنا کے مجھے

اپنی دیوارِ خواہش سے تاعمر اس طرح چپکائے رکھے رہے گا

کہ میں

روشنی اور ہوا اورخوشبو کا

ہر ذائقہ اس طرح بُھول جاؤں گی

جیسے کبھی ان سے واقف نہ تھی

سو میں تیتری رہنے میں ہی بہت خوش ہوں

گرچہ یہاں

رزق اورجال کی سازشیں بے پناہ ہیں

مگر

میرے پَر توسلامت رہیں گے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں ہجر کے عذاب سے انجان بھی نہ تھی

پر کیا ہُوا کہ صبح تلک جان بھی نہ تھی

آنے میں گھر مِرے، تجھے جتنی جھجک رہی

اس درجہ تو میں بے سرو سامان بھی نہ تھی

اِتنا سمجھ چُکی تھی میں اُس کے مِزاج کو

وہ جا رہا تھا اور میں حیران بھی نہ تھی

آراستہ تو خیر نہ تھی زندگی کبھی

پر تجھ سے قبل اِتنی پریشان بھی نہ تھی

جس جا مکین بننے کے دیکھے تھے میں نے خواب

اُس گھر میں ایک شام کی مہمان بھی نہ تھی

دُنیا کو دیکھتی رہی، جس کی نظر سے میں

اُس آنکھ میں، مِرے لئے پہچان بھی نہ تھی

روتی رہی اگر، تو مجبور تھی بہت !

وہ رات کاٹنی کوئی آسان بھی نہ تھی

نقدِ وَفا کو چشمِ خریدار کیا مِلے

اِس جنس کے لئے کوئی دوکان بھی نہ تھی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سنا ہے

تتلیوں پر پھر کوئی حد جاری ہوتی ہے

اگر گل قند ہی شہد کی سب مکھیوں کے گھر پہنچ جائے

تو ان کو گل بہ گل آوارہ گردی کی ہے حاجت کیا

ہوا کی چال بھی کچھ نامناسب ہوتی جاتی ہے

سو تتلی اور مکھی اور ہوا

نا محرموں سے دور رکھی جارہی ہیں

مگر یہ بھی کوئی سوچے

کہ پھر پھولوں کا کیا ہوگا

چمن میں ایسے کتنے پھول ہوں گے

کہ جو خود وصل اور خود بار آور ہوں!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک مشورہ

درونِ گفتگو

با معنی وقفے آنے لگ جائیں

تو باقی گفتگو

بے معنی ہو جاتی ھے

سو اے خوش سخن میرے!

ہمیں اب خامشی پر دھیان دیناچاہیئے اپنی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نوشتہ

میرے بچے

تیرے حصے میں بھی یہ تیر آئے گا

تجھے بھی اس پدر دنیا میں بالآخر

اپنے یوں مادر نشاں ہونے کی، اک دن

بڑی قیمت ادا کرنی پڑے گی

اگرچہ

تیری ان آنکھوں کی رنگت

تیرے ماتھے کی بناوٹ

اور تیرے ہونٹوں کے سارے زاویے

اس شخص کے ہیں

جو تیری تخلیق میں ساجھی ہے میرا

فقیہہ شہر کے نزدیک جو پہچان ہے تیری

مگر جس کے لہو نے تین موسم تک تجھے سینچا ہے

اس تنہا شجر کا

ایک اپنا بھی تو موسم ہے

لہو سے فصل تارے چھاننے کی

سوچ سے خوشبو بنانے کی رتیں

اورشعر کہنے کا عمل

جن کی علمداری تیرے اجداد کے قلعوں سے باہر جا چکی ہے

اورجسے واپس بلا سکنا

نہ سیفو کے لیے ممکن رہا تھا

نہ میرا کے ہی بس میں تها

سو اب ہمجولیوں میں

گاہے گاہے تیری خجلت

واقفوں کے آگے تیرے باپ کی مجبور

خفت

اس گھرانے کا مقدر ہو چکی ہے

کوئی تختی لگی ہو صدر دروازے پہ

لیکن حوالہ ایک ہی ہوگا

تیرے ہونے نہ ہونے کا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک خط

بہت یاد آنے لگے ہو

بچھڑنا تو ملنے سے بڑھ کے

تمہیں میرے نزدیک لانے لگا ہے

میں ہر وقت خود کو

تمہارے جواں بازوؤں میں پگھلتے ہُوئے دیکھتی ہوں

مرے ہونٹ اب تک

تمہاری محبت سے نم ہیں

تمہارا یہ کہنا غلط تو نہ تھا کہ

میرے لب تمہارے لبوں کے سبب سے ہی

تو گلنار ہیں

تو خوش ہوں

کہ اب تو میرے آئینے کا بھی کہنا یہی ہے

میں ہر بار بالوں میں کنگھی ادھوری ہی کرپا رہی ہوں

تمہاری محبت بھری انگلیاں روک لیتی ہیں مجھ کو

میں اب مانتی جا رہی ہوں

میرے اندر کی ساری رتیں

اور باہر کا موسم

تمہارے سبب سے

تمہارے لیے تھے

جوابا خزاں مجھ میں پر چاہو گے تم دیکهنا

یا کہ فصل بہاراں

کوئی فیصلہ تو ہو

مگر جلد کر دو تو اچھا!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جدائی کے بندی خانے میں

اب تو جینے کا ایک سلسلہ ہے جاناں! تمہاری سوچوں میں ڈوبے رہنا

تمہارے خوابوں میں کھوئے رہنا

کسی طرح تم کو دیکھنے کی سبیل کرنا تمہارے کوچے تک آنے کا کچھ بہانا کرنا

ہر آتے جاتے خیریت کی نوید لینا

ہواؤں اور چاند اور پرندوں پہ رشک کرنا

میرا جو احوال پوچھنا ہے تو یہ ہے جانا

کہ جانے کب سے

جدائی کے بندی خانے میں بند

برف کے سل پر تنہا بیٹھی

حرارت زندگی سے کچھ ربط ڈھونڈتی ہوں

بدن کو اپنے

تمہارے ہاتھوں سے چھو رہی ہوں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کچھ فیصلہ تو ہو کہ کِدھر جانا چاہیے

پانی کو اب تو سر سے گُزر جانا چاہیے

نشتر بدست شہر سے چارہ گری کی لو

اے زخمِ بے کسی تُجھے بھر جانا چاہیے

ہر بار ایڑیوں پہ گِرا ہے میرا لہو

مقتل میں اب بہ طرزِ دِگر جانا چاہیے

کیا چل سکیں گے جن کا فقط مسئلہ یہ ہے

جانے سے پہلے رختِ سفر جانا چاہیے

سارا جوار بھاٹا میرے دل میں ہے مگر

اِلزام یہ بھی چاند کے سر جانا چاہیے

جب بھی گئے عذابِ در و بام تھا وہی

آخر کو کِتنی دیر سے گھر جانا چاہئے

تہمت لگا کے ماں پہ جو دُشمن سے داد لے

ایسے سخن فروش کو مر جانا چاہئے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک خوبصورت ڈرائیو

اسی راستے پر

میں کب سے سفر کر رہی تھی

کبھی نیم تنہا

کبھی دوستوں کی معیت میں

اور کبھی

اسی طرح بھی

کہ چلتی رہی اور ذرا سمت تک جاننے کی ضرورت نہ سمجھی

مگر آج ایک اجنبی کے

دل آویز، کم بولتے ساتھ میں

ستمبر کی تپتی ہوئی دوپہر میں

میں نے پہلی دفعہ یہ بھی دیکھا

کہ اس راستے پر

دو رویا گلابوں کے تختے بچھے ہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک خط

بہت یاد آنے لگے ہو

بچھڑنا تو ملنے سے بڑھ کے

تمہیں میرے نزدیک لانے لگا ہے

میں ہر وقت خود کو

تمہارے جواں بازوں میں پگھلتے دیکھتی ہوں

مرے ہونٹ اب تک

تمہاری محبت سے نم ہیں

تمہارا یہ کہنا غلط تو نہ تھا کہ

میرے لب تمہارے لبوں کے سبب ہی گلنار ہیں

تو خوش ہوں

اب تو میرے ائینہ کا بھی کہنا ہے

میں ہر بار بالوں میں کنگھی ادھوری ہی کر پا رہی ہو

تمہاری محبت بھری انگلیاں روک لیتی ہیں مجھ کو

میں اب مانتی جا رہی ہو

میرے اندر کی ساری رتیں

اور باہر کے موسم تمھارے سبب سے

!تمہارے لیے تھے

جوابا

خزاں مجھ میں چاہوں گےتم دیکھنا

یا کہ فصل بہاراں

کوئی فیصلہ ہو

مگر جلد کرو تو اچھا!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(ایک مشہور ماہر آثار قدیمہ اور تاریخ دان پروفیسر مکھن لال دہلی انسٹی ٹیوٹ آف ہیریٹیج ریسرچ اینڈ مینجمنٹ کے بانی ڈائریکٹر کی حیثیت سے دہلی منتقل ہونے سے پہلے بنارس ہندو یونیورسٹی اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں درس و تدریس کے فرائض انجام دے چکے ہیں۔ وہ کیمبرج یونیورسٹی کے پہلے چارلس والیس فیلو بھی تھے۔ حال ہی میں انہوں نے پروین شاکر کی ہندی شاعری کو دو جلدوں میں شائع کیا ہے)

Parveen Shakir: Her Poems and Ghazals, Part-1 परवीन शाकिर की नज़्में और गज़लें

Parveen Shakir: A Brief Life Sketch परवीन शाकिर: एक संक्षिप्त जीवनी

Parveen Shakir: A Brief Life Sketch پروین شاکر: ایک مختصر سوانح عمری

Parveen Shakir: Her Poems and Ghazals, Part-1 پروین شاکر کی نظمیں اور غزلیں

Parveen Shakir: Her Poems and Ghazals, Part 2 on Sadbarg परवीन शाकिर की नज़्में और गज़लें: सदबर्ग

Parveen Shakir: Her Poems and Ghazals, Part 2 on Sadbarg پروین شاکر کی نظمیں اور غزلیں: صدبرگ

Parveen Shakir: Her Poems and Ghazals, Part 3 On "Talking to Oneself" परवीन शाकिर की नज़्में और गज़लें: ख़ुदकलामी

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/parveen-shakir-poems-ghazals-talking-oneself/d/126130

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

Loading..

Loading..