New Age Islam
Tue Oct 08 2024, 09:24 PM

Urdu Section ( 1 Jan 2022, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Parveen Shakir: Her Poems and Ghazals, Part 2 on Sadbarg پروین شاکر کی نظمیں اور غزلیں: صدبرگ

 پروفیسر مکھن لال، نیو ایج اسلام

حصہ 2

 24 دسمبر 2021

 صدبرگ میں پروین شاکر کی زندگی کے 25 سے 29 سال تک کی غزلیں اور نظمیں شامل ہیں۔ ان کی شادی ستمبر 1977 میں ڈاکٹر نذیر علی سے ہوئی۔ وہ پیشے کے اعتبار سے میڈیکل ڈاکٹر تھے۔ یہ شادی مکمل طور پر بے میل ثابت ہوئی۔ دونوں دو مختلف دنیا کے لوگ تھے۔ شادی شدہ زندگی نہ چل سکی۔ صدبرگ کی نظموں اور غزلوں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ وہ نہ صرف یہ کہ شدید دکھوں سے گزر رہی تھیں بلکہ ان کی ذاتی زندگی بھی تارتار ہو رہی تھی۔ پروین شاکر کی تمام تخلیقات کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ یہ وقت ان کا کافی دکھ اور تکلیف سے گزر رہا تھا اور یہ سب ان کی غزلوں اور نظموں سے بھی ظاہر ہوتا ہے۔

زود پشیماں

گہری بھوری آنکھوں والا اک شہزادہ

دور دیس سے

چمکیلے مشکی گھوڑے پر ہوا سے باتیں کرتا

جگر جگر کرتی تلوار سے جنگل کاٹتا آیا

دروازوں سے لپٹی بیلیں پرے ہٹاتا

جنگل کی بانہوں میں جکڑے محل کے ہاتھ چھڑاتا

جب اندر آیا تو دیکھا

شہزادی کے جسم کی ساری سوئیاں زنگ آلودہ تھیں

رستہ دیکھنے والی آنکھیں

سارے شکوے بھلا چکی تھیں!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تسلی

اب جب کہ میں اپنے آپ پر ہوں۔

شہر کا ہر دروازہ

اپنے ہاتھوں سے بند کر دیا

اور ان میں سے ہر ایک کی کلید

مجھے چمکدار آنکھوں کے ٹھنڈے سمندر میں پھینک دیا گیا ہے۔

یہ احساس بھی ڈرتا ہے۔

یہ کتنا ٹھنڈا ہے

زندہ کی اونچی دیوار سے دور

پرانے شہر کی ایک چھوٹی گلی میں

ایک راستہ

میرے نام کا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مر بھی جاؤں تو کہاں لوگ بھلا ہی دیں گے

لفظ میرے مرے ہونے کی گواہی دیں گے

لوگ تھرا گئے جس وقت منادی آئی

آج پیغام نیا ظل الٰہی دیں گے

جھونکے کچھ ایسے تھپکتے ہیں گلوں کے رخسار

جیسے اس بار تو پت جھڑ سے بچا ہی دیں گے

ہم وہ شب زاد کہ سورج کی عنایات میں بھی

اپنے بچوں کو فقط کور نگاہی دیں گے

آستیں سانپوں کی پہنیں گے گلے میں مالا

اہل کوفہ کو نئی شہر پناہی دیں گے

شہر کی چابیاں اعدا کے حوالے کر کے

تحفتاً پھر انہیں مقتول سپاہی دیں گے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تو بر من بلا شدی

کچے ذہن اور کچی عمر کی لڑکیاں

اپنی خوبی میں

مائع جیسی ہوتی ہیں

جس برتن میں ڈالی جائی

اسی شکل میں کیسے مزے سے ڈھل جاتی ہیں

کیسا چھلکنا، کیسا ابلنا اور کہاں کا اڑنا!

اور اک میں ہوں پتھر اور شوریدہ مزاج

کاسہ خالی میں بے وجہ سماجانے کے بجائے

اس سے،  اس قوت سے ٹکرانا چاہوں کہ

ظرف تہی کی گونج اس کا بھرم کھل جائے

میں نے آئینے کو کب جھٹلایا ہے

ہاں گہنے مجھے پہ بھی اچھے لگتے ہیں

لیکن جب بھی مجھے ان کا مول کبھی یاد آتا ہے

کنگن بچھو بن جاتے ہیں

اور پازیبیں ناگ کی صورت میرے پاؤں کو جکڑ لیتی ہیں

بہت ہی میٹھے بولوں کا جزو اعظم

جب حالت خام میں مجھکو نظر آ جاتا ہے

دہشت سے میری آنکھیں پھیلنے لگتی ہیں

اور اس خوف سے میری ریڑھ کی ہڈی جمنے لگتی ہے

ان مادرزاد منافق لوگوں میں

مجھکو ساری عمر بسر کرنی ہے

کبھی کبھی ایسا بھی ہوا

میں نے اپنا ہاتھ اچانک کسی اور کے ہاتھ میں پایا

لیکن جلد ہی میری ضرورت سے زائد بے رحم بصارت نے

یہ دیکھ لیا ہے

یا تو میرے ساتھی کی پرچھائیں نہیں بنتی ہے یا پھر مٹی پر

اس کے پنجے اس کی ایڑی سے پہلے بن جاتے ہیں

انسانوں کی سایہ رکھنے والی نسل ناپید ہوئی جاتی ہے

شام ڈھلنے کے بعد جب سایہ اور سایہ کناں

دونوں بے ایمان ہو جاتے ہیں، میں مکروہ ارادوں والی آنکھوں سے گھر جاتی ہوں

اور اپنی چادر پہ تازہ دھبے بنتے دیکھتی ہوں

کیونکہ مجھے ایک ہزار راتوں تک چلنے والی کہانی کہنا نہیں آتا

میں آقائے ولی نعمت کو

خود اپنی مرضی بھی بتانا چاہتی ہوں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تراش کر مرے بازو اڑان چھوڑ گیا

ہوا کے پاس برہنہ کمان چھوڑ گیا

رفاقتوں کا مری اس کو دھیان کتنا تھا

زمین لے لی مگر آسمان چھوڑ گیا

عجیب شخص تھا بارش کا رنگ دیکھ کے بھی

کھلے دریچے پہ اک پھول دان چھوڑ گیا

جو بادلوں سے بھی مجھ کو چھپائے رکھتا تھا

بڑھی ہے دھوپ تو بے سائبان چھوڑ گیا

نکل گیا کہیں ان دیکھے پانیوں کی طرف

زمیں کے نام کھلا بادبان چھوڑ گیا

عقاب کو تھی غرض فاختہ پکڑنے سے

جو گر گئی تو یوں ہی نیم جان چھوڑ گیا

نہ جانے کون سا آسیب دل میں بستا ہے

کہ جو بھی ٹھہرا وہ آخر مکان چھوڑ گیا

عقب میں گہرا سمندر ہے سامنے جنگل

کس انتہا پہ مرا مہربان چھوڑ گیا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تمام لوگ اکیلے، کوئے رہبر ہی نہ تھا

بچھڑنے والوں میں اک میرا ہمسفر ہی نہ تھا

برہنہ شاخوں کا جنگل گڑا تھا آنکھوں میں

وہ رات تھی کہ کہیں چاند کا گزر ہی نہ تھا

تمھارے شہر کی ہر چھاؤں مہرباں تھی مگر

جہاں پہ دھوپ کھڑی تھی وہاں شجر ہی نہ تھا

سمیٹ لیتی شکستہ گلاب کی خوشبو

ہوا کے ہاتھ میں ایسا کوئی ہنر ہی نہ تھا

میں اتنے سانپوں کو رستے میں دیکھ آئی تھی

کہ ترے شہر میں پہنچی تو کوئی ڈر ہی نہ تھا

کہاں سے آتی کرن زندگی کے زنداں میں

وہ گھر ملا تھا مجھے جس میں کوئی در ہی نہ تھا

بدن میں پھیل گیا شرخ بیل کی مانند

وہ زخم سوکھتا کیا، جس کا چارہ گر ہی نہ تھا

ہوا کے لائے ہوئے بیج پھر ہوا میں گئے

کھلے تھے پھول کچھ ایسے کہ جن میں زر ہی نہ تھا

قدم تو ریت پہ ساحل نے بھی رکھنے دیا

بدن کو جکڑے ہوئے صرف اک بھنور ہی نہ تھا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سندر کومل سپنوں کی بارات گزر گئی جاناں

دھوپ آنکھوں تک آ پہنچی ہے رات گزر گئی جاناں

بھور سمے تک جس نے ہمیں باہم الجھائے رکھاوہ البیلی ریشم ایسی بات گزر گئی جاناں

سدا کی دیکھی رات ہمیں اس بار ملی تو چپکے سے

خالی بات پہ رکھ کے کیا سوغات گزر گئی جاناں

کس کونپل کی آس میں اب تک ویسے ہی سرسبز ہو تم

اب تو دھوپ کا موسم ہے برسات گزر گئی جاناں

لوگ نہ جانے کن راتوں کی مرادیں مانگا کرتے ہیں

اپنی رات تو وہ جو تیرے سات گزر گئی جاناں

اب تو فقط صیاد کی دل داری کا بہانہ ہے ورنہ

ہم کو دام میں لانے والی گھات گزر گئی جانا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کتبہ

کہ جسکی آنکھوں نے نیند سے خواب مول لے کر

وصال کی عمر رتجگے میں گزار دی تھی

عجیب تھا انتظار اسکا

کہ جس نے تقدیر کے تنک حوصلہ مہاجن کے ساتھ

بس اک دریچۂنیم با ز کے سکھ پہ

شہر کا شہر رہن کروا دیا تھا

لیکن وہ ایک تارہ

کہ جس کی کرنوں کے مان پر

چاند سے حریفانہ کشمکش تھی

جب اس کے ماتھے پہ کھلنے والا ہوا

تو اس پل

سپیدئ صبح بھی نمودار ہو چکا تھا

فراق کا لمحہ آ چکا تھا۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پا بہ گل سب ہیں رہائی کی کرے تدبیر کون

دست بستہ شہر میں کھولے مری زنجیر کون

میرا سر حاضر ہے لیکن میرا منصف دیکھ لے

کر رہا ہے میری فرد جرم کو تحریر کون

آج دروازوں پہ دستک جانی پہچانی سی ہے

آج میرے نام لاتا ہے مری تعزیر کون

کوئی مقتل کو گیا تھا مدتوں پہلے مگر

ہے در خیمہ پہ اب تک صورت تصویر کون

میری چادر تو چھنی تھی شام کی تنہائی میں

بے ردائی کو مری پھر دے گیا تشہیر کون

سچ جہاں پابستہ ملزم کے کٹہرے میں ملے

اس عدالت میں سنے گا عدل کی تفسیر کون

نیند جب خوابوں سے پیاری ہو تو ایسے عہد میں

خواب دیکھے کون اور خوابوں کو دے تعبیر کون

ریت ابھی پچھلے مکانوں کی نہ واپس آئی تھی

پھر لب ساحل گھروندا کر گیا تعمیر کون

سارے رشتے ہجرتوں میں ساتھ دیتے ہیں تو پھر

شہر سے جاتے ہوئے ہوتا ہے دامن گیر کون

دشمنوں کے ساتھ میرے دوست بھی آزاد ہیں

دیکھنا ہے کھینچتا ہے مجھ پہ پہلا تیر کون

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اپنی تنہائی میرے نام پہ آباد کرے

کون ہوگا جو مجھے اس کی طرح یاد کرے

دل عجب شہر کہ جس پر بھی کھلا در اس کا

وہ مسافر اسے ہر سمت سے برباد کرے

اپنے قاتل کی ذہانت سے پریشان ہوں میں

روز اک موت نئے طرز کی ایجاد کرے

اتنا حیراں ہو مری بے طلبی کے آگے

وا قفس میں کوئی در خود مرا صیاد کرے

سلب بینائی کے احکام ملے ہیں جو کبھی

روشنی چھونے کی خواہش کوئی شب زاد کرے

سوچ رکھنا بھی جرائم میں ہے شامل اب تو

وہی معصوم ہے ہر بات پہ جو صاد کرے

جب لہو بول پڑے اس کے گواہوں کے خلاف

قاضئ شہر کچھ اس باب میں ارشاد کرے

اس کی مٹھی میں بہت روز رہا میرا وجود

میرے ساحر سے کہو اب مجھے آزاد کرے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

امیرِ شہر سے سائل بڑا ہے

بہت نادار لیکن دل بڑا ہے

لہو جمنے سے پہلے خون بہا دے

یہاں انصاف سے قاتل بڑا ہے

چٹانوں میں گھرا ہے اور چُپ ہے

سمندر سے کہیں ساحل بڑا ہے

کسی بستی میں ہو گی سچ کی حُرمت

ہمارے شہر میں باطل بڑا ہے

جو ظلّ اللہ پر ایمان لائے

وہی داناؤں میں عاقل بڑا ہے

اُسے کھو کر بہائے درد پائی

زیاں چھوٹا تھا اور حاصل بڑا ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نظر 'فراق'

سبز دنوں کا سب سے تناور پیڑ

ہوا کے آگے بے بس ہے

پتے ایک ایک کر کے گر جاتے ہیں

وہی شاخ جو کبھی دلہن کی طرح پھولوں سے لد کر بھی

کیسی تیکھی سرشاری سے تنی رہتی تھی

آج سب گہنے اتار چکی ہے

وہی تنا --  جو برف کے ہر موسم کے بعد

ننھی ننھی ہری ستاروں جیسی کونپلوں سے بھر جاتا تھا

آج اس پر صرف چینٹیاں چلتی نظر آتی ہیں

وہی شگوفے جن سے لپٹ کر دھوپ کبھی ہنستی

تو رنگوں اور کرنوں کے چہرے گڈمڈ ہو جاتے

اس کی بھی ساری پنکھڑیاں رزق ہوا کہلائیں

سبز دنوں کا سب سے تناور پیڑ--- آخر

اپنی ہر ممکن ہریالی کما چکا

اور اب خاموشی سے اپنے ہونے کی مجبوری کا

وعدہ معاف گواہ کا ایستادہ ہے

اور وقت کی اٹل شہادت پر

اپنے فیصلہ کن لمحے کا راستہ دیکھ رہا ہے

تنہا--اور تہی داماں

سبز لباسی گئے جنم کی بات ہوئی

پھر برہنہ ساکشی چھن چھن کر

اتنی ٹھنڈی چھاؤں کہاں سے آتی ہے

بن پھولوں کے

خوشبو کیسے پھیل رہی ہے؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رستہ بھی کٹھن دھوپ میں شدت بھی بہت تھی

سائے سے مگر اس کو محبت بھی بہت تھی

خیمے نہ کوئی میرے مسافر کے جلائے

زخمی تھا بہت پاؤں مسافت بھی بہت تھی

سب دوست مرے منتظر پردۂ شب تھے

دن میں تو سفر کرنے میں دقت بھی بہت تھی

بارش کی دعاؤں میں نمی آنکھ کی مل جائے

جذبے کی کبھی اتنی رفاقت بھی بہت تھی

کچھ تو ترے موسم ہی مجھے راس کم آئے

اور کچھ مری مٹی میں بغاوت بھی بہت تھی

پھولوں کا بکھرنا تو مقدر ہی تھا لیکن

کچھ اس میں ہواؤں کی سیاست بھی بہت تھی

وہ بھی سر مقتل ہے کہ سچ جس کا تھا شاہد

اور واقف احوال عدالت بھی بہت تھی

اس ترک رفاقت پہ پریشاں تو ہوں لیکن

اب تک کے ترے ساتھ پہ حیرت بھی بہت تھی

خوش آئے تجھے شہر منافق کی امیری

ہم لوگوں کو سچ کہنے کی عادت بھی بہت تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔

گنگا سے

جُگ بیتے

دجلہ سے اِک بھٹکی ہوئی لہر

جب تیرے پَوِتر چرنوں کو چھونے آئی تو

تیری ممتا نے اپنی باہیں پھیلا دیں

اور تیرے ہرے کناروں پر تب

انناس اور کٹھل کے جھنڈ میں گھرے ہوئے

کھپریلوں والے گھروں کے آنگن میں کِلکاریاں گونجیں

میرے پُرکھوں کی کھیتی شاداب ہوئی

اور شگُن کے تیل نے دیے کی لَو کو اونچا کیا

پھر دیکھتے دیکھتے

پیلے پھولوں اور سنہری دِیوں کی جوت

ترے پھولوں والے پُل کی قوس سے ہوتی ہوئی

مہران کی اور تک پہنچ گئی

میں اُسی جوت کی ننہی کرن

پھولوں کا تھال لئے تیرے قدموں میں پھر آ بیٹھی ہوں

اور تجھ سے اب بس ایک دَیا کی طالب ہوں

یوں انت سمے تک تیری جوانی ہنستی رہے

پر یہ شاداب ہنسی

کبھی تیرے کناروں کے لب سے

اتنی نہ چھلک جائے

کہ میری بستیاں ڈوبنے لگ جائیں

گنگا پیاری!

یہ جان

کہ میرے روپہلے راوی اور بھورے مہران کی گیلی مٹھی میں

مری ماں کی جان چھپی ہے

مری ماں کی جان نہ لینا

مجھ سے مرا مان نہ لینا

۔۔۔۔۔۔۔۔

بِچھڑا ہے جو اِک بار، تو مِلتے نہیں دیکھا

اِس زخم کو ہم نے کبھی سِلتے نہیں دیکھا

اِک بار جسے چاٹ گئی دُھوپ کی خواہش

پھر شاخ پہ اُس پھول کو کِھلتے نہیں دیکھا

یک لخت گِرا ہے، تو جڑیں تک نِکل آئیں

جس پیڑ کو آندھی میں بھی ہلتے نہیں دیکھا

کانٹوں میں گِھرے پُھول کو چُوم آئے گی، لیکن

تِتلی کے پَروں کو کبھی چھلتے نہیں دیکھا

کِس طرح مِری رُوح ہری کر گیا آخر

وہ زہر جسے، جسم میں کِھلتے نہیں دیکھا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

موجیں بہم ہوئیں تو کنارہ نہیں رہا

آنکھوں میں کوئی خواب دوبارہ نہیں رہا

گھر بچ گیا کہ دور تھے، کچھ صاعقہ مزاج

کچھ آسمان کا بھی اشارہ نہیں رہا

بھولا ہے کون ایڑ لگا کر حیات کو

رکنا ہی رخش جاں کو گوارا نہیں رہا

جب تک وہ بے نشاں رہا، دسترس تھا

خوش نام ہو گیا تو ہمارا نہیں رہا

گم گشتئہ سفر کو جب اپنی خبر ملی

رستہ دکھانے والا ستارہ نہیں رہا

کیسی گھڑی میں ترک سفر کا خیال ہے

جب ہم میں لوٹ آنے کا یارا نہیں رہا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تو نے کبھی سوچا

گلہ کم گوئی کا مجھ سے بجا ہے

لیکن اے جان سخن

تو نے کبھی سوچا

کہ تیری سمت جب میں آنکھ بھر کے دیکھتی ھوں تو

مری ھلکی سنھری جلد کے نیچے

اچانک

ڈھیروں ننھیں ننھیں سے دئے کیوں جل اٹھتے ہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں نے ساری عمر

کسی مندر میں قدم نہیں رکھا

لیکن جب سے

تیری دعا میں

میرا نام شریک ہوا ہے

تیرے ہونٹوں کی جنبش پر

میرے اندر کی داسی کے اجلے تن میں

گھنٹیاں بجتی رہتی ہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شب وہی لیکن ستارہ اور ہے

اب سفر کا استعارہ اور ہے

موج مڑنے میں کتنی دیر لگتی ہے

ناو ڈالی اور دھارا اور ہے۔

جنگ کا ہتھیار طے کچھ اور تھا

تیر سینے میں اتارا اور ہے

متن میں تو جرم ثابت ہے مگر

اسماں کا ہی اشارہ اور ہے

دھوپ میں دیوار ہی کام آئے گی

تیز بارش کا سہارا اور ہے

ہارنے میں انا کی بات تھی

جیت جانے میں خسارہ اور ہے

سکھ کے موسم انگیوں پر گن لیے

فصل غم کا گوشوارہ اور ہے

دیر سے پلکیں نہیں جھپکیں مری

پیش جاں اب کے نظارہ اور ہے

اور کچھ پل اس کا رستہ دیکھ لوں

اسماں پر ایک تارہ اور ہے

حد چراغوں کی یہاں سے ختم ہے

آج سے رستہ ہمارا اور ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کلام

برف کی رت اور تن پر ایک بوسیدہ قبا

جس سے جگہ جگہ موسم کی نیلی شدت جھانک رہی ہے

ہر جھونکے پر ہلتے ہوئے لکڑی کے مکان

جن پر بارش پنجے گاڑے بیٹھی ہے

سرد ہوا سے سارے گھر زخمی ہیں

لیکن سب کی چھتوں پر

نیلے پیلے شبد گلابی جھنڈے ایسے لہراتے ہیں

جیسے وادی کے سب بچے ریشم پہنے گھوم رہے ہوں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بادباں کھُلنے سے پہلے کا اشارا دیکھنا

میں سمندر دیکھتی ہوں تم کنارا دیکھنا

یوں بچھڑنا بھی بہت آساں نہ تھا اُس سے مگر

جاتے جاتے اُس کا وہ مڑ کر دوبارہ دیکھنا

کس شباہت کو لیے آیا ہے دروازے پہ چاند

اے شبِ ہجراں! ذرا اپنا ستارہ دیکھنا

کیا قیامت ہے کہ جن کے نام پر پسپا ہوئے

اُن ہی لوگوں کو مقابل میں صف آرا دیکھنا

جب بنامِ دل گواہی ہم سے مانگی جائے گی

خون میں ڈوبا ہوا پرچم ہمارا دیکھنا

جیتنے میں بھی جہاں جی کا زیاں پہلے سے ہے

ایسی بازی ہارنے میں کیا خسارہ دیکھنا

آئینے کی آنکھ ہی کچھ کم نہ تھی میرے لئے

جانے اب کیا کیا دکھائے گا تمہارا دیکھنا

ایک مشتِ خاک اور وہ بھی ہوا کی زد میں ہے

زندگی کی بے بسی کا استعارہ دیکھنا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسٹینوگرافر

چمکیلی صبح سے پہلے

جب نیند بدن میں شہد کی صورت گھلی ہو

اور صبا کے ہاتھوں گرہ ہر درد کی کھلتی ہو

اس وقت شفا

سب کچے زخم بدن کے

سب پیاسے سپنے تن کے

بے قیمت جان کے اٹھنا

اک ہار سی مان کے اٹھنا

اور خود کو موسم کی بے مہر ہوا کے حوالے کر دینا

دن بھر بے معانی ہندسوں

اور بے مقصد ناموں کو

بس خالی دماغ اور بے بس ہاتھوں سے ٹائپ کرتے جانا

گاہے بگاہے حسب موقع

گنجے سر والے باس کی میٹھی اور کڑوی باتیں سہنا

اور پتھر کی مورت کی طرح اور ہر لہجے پر چپ رہنا

پھر شام آئے

جب چڑیاں تک اپنے گھر کی ہو جائے

دفتر کی خنق بھٹی سے

جھلسا ہوا چہرہ لیکر

صدیوں کی تھکاوٹ سے دوہرے

جھکتے ہوئے شانے تھامے

بھوکی آنکھوں، جلتے فقروں، گھر ۵ک چھوڑ آنے والے اشاروں

شائستہ کاروں سے بچتی

ڈر ڈر کے قدم اٹھاتی

ایک اسٹینوگرافر

اپنے لوٹ آتی ہے

اور ٹوٹی ہوئی دیوار تھام کر شاید روز ہی کہتی ہے

مالک!

ایک دن ایسا بھی آئے

میرے سر پر چھت پڑجائے!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسم

بہت پیار سے

بعد مدت کے

جب کسی شخص نے چاند کہہ کر بلایا ہے

تب سے اندھیروں کی خوگر نگاہوں کو

ہر روشنی اچھی لگنے لگی ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بے پناہی

کسی اور کے بازوؤں میں

سمٹ کر تجھے سوچنا

کس قدر منفرد تجربہ تھا

یہ احساس ھی کس قدر

جان لیوا ھے جاناں !

کہ ایسی جگہ ، ایسی خُنک زار میں

میرے تن پر پھسلتی ھُوئی شبنمی حدتیں

تیری لذت فشاں انگلیوں سے اگر پُھوٹتیں

تو میرے جسم کی ایک ایک پور

تب کس طرح جگمگاتی ؟؟

تیرے روشنی آشنا ھاتھ کیسے بھٹکتے

یہاں اب یہاں اور اب سرخوشی کی

اس اک آخری یاد رہ جانے والی گھڑی میں

وقت کی نا سمجھ رو ھے

اور بے بسی کی نئی لہر ھے۔

زمستاں کی اس آخری شام

اور میرے جسم میں شاید

اب کوئی بھی فرق باقی نہیں

میرا ساتھی میری بند آنکھوں کو

کس پیار سے چُوم کر کہہ رھا ھے

ارے ، آج تو برف باری

ابھی سے ھی ھونے لگی۔

جان !! آؤ مجھے اوڑھ لو.

اسے کیا خبر کہ اِس وقت

میں آگ بھی اوڑھ لوں تو

میری رُوح پر ھونے والی

برف باری نہیں رُک سکے گی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نک نیم

تم مجھ کو گڑیا کہتے ہو

ٹھیک ہی کہتے ہو!

کھیلنے والے سب ہاتھوں کو میں گڑیا ہی لگتی ہوں

جو پہنا دو مجھ پہ سجے گا

میرا کوئی رنگ نہیں

جس بچے کے ہاتھ تھما دو

میری کسی سے جنگ نہیں

سوچتی جاگتی آنکھیں میری

جب چاہے بینائی لے لو

کوک بھرو اور باتیں سن لو

یا میری گویائی لے لو

مانگ بھرو سیندور لگاؤ

پیار کرو آنکھوں میں بساؤ

اور پھر جب دل بھر جائے تو

دل سے اٹھا کے طاق پہ رکھ دو

تم مجھ کو گڑیا کہتے ہو

ٹھیک ہی کہتے ہو!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک کوہستانی المیہ

بادل اتنے پاس

ہاتھ بڑھا کر چھُولیں!

پانی اتنی دورـ

ہاتھ کٹا کر بھی کچھ ہاتھ نہ آئے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ورکنگ وومن

سب کہتے ہیں

کیسے غرور کی بات ہوئی ہے

میں اپنی ہریالی کو خود اپنے لہو سے سینچ رہی ہوں

میرے سارے پتوں کی شادابی

میری اپنی نیک کمائی ہے

میرے ایک شگوفے پر بھی

کسی ہوا اور کسی بارش کا بال برابر قرض نہیں ہے

میں جب چاہے کھل سکتی ہوں

میرا سارا روپ مری اپنی دریافت ہے

میں اب ہر موسم سے سر اُونچا کرکے مل سکتی ہوں

ایک تناور پیڑ ہوں اب میں

اور اپنی زرخیز نمو کے سارے امکانات کو بھی پہچان رہی ہوں

لیکن میرے اندر کی یہ بُہت پُرانی بیل

کبھی کبھی جب تیز ہوا ہو

کسی بُہت مضبوط شجر کے تن سے لپٹنا چاہتی ہے!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ظل الٰہی

راج پاٹ کرنے والوں کی جان

ہتھیلی پر رہتی ہے

بے چاروں کے مسائل کیسے عجیب ہوتے ہیں

حرم سرا میں پلنے والی چھوٹی بڑی ریاست

بالاعلان بغاوت،در پردہ سازش

دشمن جلد ہی کھل جاتے ہیں

ان سے نپٹنا اتنا مشکل کام نہیں

الجھاو تو پاوں چومنے والوں سے پڑتا ہے

اور ان کی بھی دو قسمیں ہیں

ایک تو کہتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اپنی وفا داری میں شہرت عام رکھنے والے

جب تک جی چاہے پیروں میں لوٹتے ہیں

پھر اپنی ہڈی لے کر الگ ہو جاتے ہیں

دوسری قسم پیروں پر چلتی ہے

دیکھنے میں انسان مگر باطن کے ریچھ

تلوے چاٹتے چاٹتے پیارے آقا کو ایسا کر دیتے ہیںکہ

ایک سہانی صبح کو جب

اپنی کنیز خاص کی بھیرویں سن کرآنکھیں کھولتے ہیں تو

ظل الہی

اپنے پاوں ڈھونڈتے رہ جاتے ہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک اداس نظم

ایک طرف سہاگ ہے

اور دوسری طرف

روح کو جلانے والی آگ

خود پہ برف گرتی ہوئے دیکھتی ہوں

کہ روشنی کا ہاتھ تھام لوں

اے خدائے اب و نار

میرا فیصلہ سنا

زندہ دفن ہوں

کی زندگی کا ہاتھ تھام لوں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کیمیا گر یہ کہتے ہیں

بعض شرابیں اپنے وصف میں اتنی عجیب ہوتی ہیں

کہ جب تک

جامیں سیفالی میں رکھی جائیں

تو ان کا نشہ

اپنے خمار تلک

میخواروں کے حق میں امرت رہتا ہے

اور جیسے ہی سونے کی پیالی میں انڈیلی جائے

تو امرت زہر ہلاہل بن جاتا ہے

آج اپنے محبوب--مگر مرحوم سخنور کو میں نے

جب کرسی اعلی پر بیٹھتے

جب تیسرے درجے کے مہمل اشعار سناتے دیکھا تو

مجھکو یہ معلوم ہوا

ایسی عجیب شرابوں میں

ایک شراب سخن بھی ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(ایک مشہور ماہر آثار قدیمہ اور تاریخ دان پروفیسر مکھن لال دہلی انسٹی ٹیوٹ آف ہیریٹیج ریسرچ اینڈ مینجمنٹ کے بانی ڈائریکٹر کی حیثیت سے دہلی منتقل ہونے سے پہلے بنارس ہندو یونیورسٹی اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں درس و تدریس کے فرائض انجام دے چکے ہیں۔ وہ کیمبرج یونیورسٹی کے پہلے چارلس والیس فیلو بھی تھے۔ حال ہی میں انہوں نے پروین شاکر کی ہندی شاعری کو دو جلدوں میں شائع کیا ہے (

----------

Parveen Shakir: Her Poems and Ghazals, Part-1 परवीन शाकिर की नज़्में और गज़लें

Parveen Shakir: A Brief Life Sketch परवीन शाकिर: एक संक्षिप्त जीवनी

Parveen Shakir: A Brief Life Sketch پروین شاکر: ایک مختصر سوانح عمری

Parveen Shakir: Her Poems and Ghazals, Part-1 پروین شاکر کی نظمیں اور غزلیں

Parveen Shakir: Her Poems and Ghazals, Part 2 on Sadbarg परवीन शाकिर की नज़्में और गज़लें: सदबर्ग

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/parveen-shakir-poems-ghazals-sadbarg-part-2/d/126078

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..