پروفیسر مکھن لال، نیو ایج
اسلام
29 دسمبر 2021
پروین شاکر کو غزل کی
ملکہ کہا جاتا ہے۔ انہوں نے ایک سے بڑھ کر ایک اشعار کہے۔ مذکورہ شائع شدہ مضامین
میں تمام غزلوں اور نظموں کو شامل کرنا تو ممکن نہیں تھا۔ اس لیے ان کے چند بہترین
منتخب اشعار ذیل میں علیحدہ پیش کیے جاتے ہیں۔
متفرق اشعار
چلی ہے تھام کے بادل کے
ہاتھ کو خوشبو
ہوا کے ساتھ سفر کا
مقابلہ ٹھہرا
#
خوشبو بتا رہی ہے کہ وہ
راستے میں ہے
موج ہوا کے ہاتھ میں اس
کا سراغ ہے
#
ہمیں خبر ہے ہوا کا مزاج
رکھتے ہو
مگر یہ کیا، کہ ذرا دیر
کو رکے بھی نہیں
#
تو بدلا تو بے ساختہ میری
آنکھیں
اپنے ہاتھوں کی لکیروں سے
الجھ جاتی ہیں #
لو! میں نے آنکھیں بند
کیے لیتی ہوں اب تم رخصت ہو
دل تو جانے کیا کہتا
ہے، مگر دل کیا کہنا
#
میں جب بھی چاہوں اسے چھو
کے دیکھ سکتی ہوں
مگر وہ شخص کہ لگتا ہے اب
بھی خواب ایسا
#
حال پوچھا تھا اس نے ابھی
اور آنسو رواں ہوگئے
#
حسن کے سمجھنے کو عمر
چاہئے جانا
دو گھڑی کی چاہت میں
لڑکیاں نہیں کھلتیں
#
یہ وہ خوش بو ہے، ہواؤں
میں بکھر جائے گا
مسئلہ پھولوں کا ہے، پھول
کدھر جائے گا
#
میں سچ کہوں گی مگر پھر
بھی ہار جاؤں گی
وہ جھوٹ بولے گا اور
لاجواب کر دے گا
#
اب بھی بارش کی راتوں میں
بدن ٹوٹتا ہے
جاگ اُٹھتی ہیں عجیب
خواہشیں انگڑائی کی
#
چلنے کا حوصلہ نہیں رکنا
محال کر دیا
عشق کے اس سفرِ نے مجھے
نڈھال کر دیا
اتنے گھنے بادل کے پیچھے
کتنا تنہا ہو گا چاند
اب تو اس راہ سے وہ شخص
گزرتا بھی نہیں
اب کس امید پہ دروازے سے
جھانکے کوئی
#
کیسے کہوں کہ مجھے چھوڑ
دیا ہے اس نے
بات تو سچ ہے مگر بات ہے
رسوائی کی
#
اک نام کیا لکھا تیرا
ساحل کی ریت پر
پھر عمر بھر ہوا سے میری
دشمنی
#
دشمنوں کے ساتھ ساتھ میرے
دوست بھی آزاد ہیں
دیکھنا ہے کھینچتا ہے مجھ
پہ پہلا تیر کون
#
وہ نہ آئے گا ہمیں معلوم
تھا اس شام بھی
انتظار اس کا مگر کچھ سوچ
کرتے رہے
#
کچھ تو ہوا بھی سرد تھی
اور کچھ تھا تیرا خیال بھی
دل کو خوشی کے ساتھ ساتھ
ہوتا رہا ملال بھی
#
ہم تو سمجھے تھے کہ اک
زخم ہے، بھر جائے گا
کیا خبر تھی کہ رگ جان
میں اتر جائے گا
#
یوں بچھڑنا بھی بہت آسان
نہ تھا اس سے مگر
جاتے جاتے اس کا وہ مڑ کر
دوبارہ دیکھنا
#
بارہا تیرا انتظار کیا
اپنے خوابوں میں اک دلہن کی
طرح
#
وہ کہیں بھی گیا، لَوٹا
تو میرے پاس آیا
بس یہی بات اچھی ہے میرے
ہرجائی کی
#
عکس خوشبو ہوں بکھرنے سے
نہ روکے کوئی
اور بکھر جاؤں تو مجھکو
نہ سمیٹے کوئی
#
کمال ضبط کو خود بھی تو
آزماؤں گی
میں اپنے ہاتھ سے اس کی
دلہن سجاؤں گی
#
بس یہ ہوا کہ اس نے تکلف سے
بات کی
اور ہم نے روتے روتے
دوپٹے بھگو لیے
#
بہت سے لوگ تھے مہمان
میرے گھر لیکن
وہ جانتا تھا کہ ہے
اہتمام کس لیے ہے
#
کانپ اٹھتی ہوں میں یہ
سوچ کے تنہائی میں
میرے چہرے پہ تیرا نام نہ
پڑھ لے کوئی
#
کچھ تو تیرے موسم ہی مجھے
راس کم آئے
اور کچھ میری مٹی میں بغاوت
بھی بہت تھ
#
اس کے یوں ترک محبت کا
سبب ہوگا کوئی جی یہ نہیں مانتا وہ بے وفا پہلے سے تھا
#
اپنے قاتل کی ذہانت سے
پریشان ہوں میں
ہر روز ہر موت اک نئی طرز
کی ایجاد کرے
#
پاس جب تک وہ رہے درد
تھما رہتا ہے
پھیل جاتا ہے پھر آنکھ کے
کاجل کی طرح
#
جگنو کو دن کے وقت پرکھنے
کی ضد کرے
بچے ہمارے عہد کے چالاک
ہو گئے
#
میں پھول چنتی رہی اور
مجھے خبر نہ ہوئی
وہ شخص آ کے میرے شہر سے
چلا بھی گیا
#
ہاتھ میرے بھول بیٹھے
دستکیں دینے کا فن
بند مجھ پر جب سے اس کے
گھر کا دروازہ ہوا
#
ہارنے میں ایک انا کی بات
تھی
جیتنے میں خسارہ اور ہے
#
بات وہ آدھی رات کی، رات
وہ پورے چاند کی
چاند بھی عین چیت کا اس
پر تیرا جمال بھی
#
کانٹوں میں گھرے پھول کو
چومے آئے گی مگر
تتلی کے پروں کو کبھی
چھلتے نہیں دیکھا
#
کبھی کبھار اسے دیکھ لیں
کہیں مل لیں
یہ کب کہا تھا کہ وہ خوش
بدن ہمارا ہو
#
کل رات جو ایندھن کے لیے
کٹ کر گرا ہے
چڑیوں کو بہت پیار تھا اس
بوڑھے شجر سے
#
میں اس کی دسترس میں ہوں
لیکن وہ
مجھ سے میری رضا مانگتا
ہے
#
جس طرح خواب میرے ہو گئے
ریزہ ریزہ اس طرح سے نہ کبھی ٹوٹ کے بکھرے کوئی
#
تو بدلتا ہے تو بے ساختہ
میری آنکھیں
اپنے ہاتھوں کی لکیروں سے
الجھ جاتی ہیں
#
ابر برسے تو عنایت اس کی
شاخ تو صرف دعا کرتی ہے
#
کو بہ کو پھیل گئی بات
شناسائی کی
اس نے خوشبو کی طرح میری
پذیرائی کی
#
گواہی کیسے ٹوٹتی معاملہ
خدا کا تھا
میرا اور اس کا رابطہ تو
ہاتھ اور دعا کا تھا
#
کون جانے کہ نئے سال میں
تو کس کو پڑھے
تیرا معیار بدلتا ہے
نصابوں کی طرح
#
تجھے مناؤں کہ اپنی انا
کی بات سنوں الجھ رہا ہے میرے فیصلوں کا
ریشم پھر
#
میری طلب تھا ایک شخص وہ
جو نہیں ملا تو پھر
ہاتھ دعا سے یوں گرا اور
بھول گیا سوال بھی
#
مسئلہ جب بھی چراغوں کا
اٹھا
فیصلہ صرف ہوا کرتی ہے
#
یہ کیا ہے کہ وہ جب چاہے
مجھے چھین لے مجھ سے
اپنے لئے وہ شخص تڑپتا
بھی تو دیکھوں
#
اپنی روسوائی تیرے نام کا
چرچا دیکھوں ایک ذرا شعر کہوں اور کیا کیا
دیکھوں
#
نہ جانے کون سا آسیب دل
میں بستا ہے
کہ جو بھی ٹھہرا وہ آخر
کار مکان چھوڑ گیا
#
اس نے جلتے ہوئی پیشانی
پہ جب ہاتھ رکھا
روح تک آ گئی تاثیر
مسیحائی کی
#
چہرہ و نام ایک ساتھ آج
نہ یاد آ سکے
وقت نے کس شبیہ کو خواب و
خیال کر دیا
#
ایک مشت خاک اور وہ بھی
ہوا کی زد میں
زندگی کی بے بسی کا
استعارہ دیکھنا
#
یوں دیکھنا اسے کہ کوئی
اور نہ دیکھے
انعام تو اچھا تھا لیکن
مگر شرط کڑی تھی
#
ظلم سہنا بھی تو ظالم کی
حمایت ٹھہرا
خاموشی بھی تو ہوئی پشت
پناہی کی طرح
#
جستجو کھوئے ہوؤں کی عمر
بھر کرتے رہے
چاند کے ہمراہ ہم ہر شب
سفر کرتے رہے
#
تیری محبت کے بھیگے
جنگلوں میں
میرا تن مور بن کر ناچتا
ہے
#
نہیں نہیں یہ خبر دشمنوں
نے دی ہو گی
وہ آئے آکے چلے گئے ملے
بھی نہیں
#
کسی کے دھیان میں ڈوبا
ہوا دل
بہانے سے مجھے بھی ٹالتا
ہے
#
جس کا مکین بننے کے میں
نے دیکھے تھے خواب
اس گھر میں ایک شام کی
مہمان بھی نہ تھی
#
راستے میں مل گیا تو شریک
سفر نہ جان
جو چھاؤں مہربان ہو اسے
اپنا گھر نہ جان
#
کیا کرے میری مسیحائی بھی
کرنے والا
زخم ہی یہ مجھے نہیں لگتا
بھرنے والا ہے
#
وہ میرے پاؤں کو چھونے
جھکا تھا جس لمحے
جو مانگتا اسے دیتی امیر
ہی کچھ ایسی تھی
#
عجب نہیں کہ دل پر جمی
ملی کائی
بہت دنوں سے تو یہ حوض
صاف بھی نہ ہوا
#
رفاقتوں کا میری اس کو دھیان
کتنا تھا
زمین لے لی مگر آسمان
چھوڑ گیا
#
تیرے پیمانے میں گردش
نہیں باقی ساقی
اور تیری بزم سے اب کوئی
اٹھا چاہتا ہے
#
زندگی میری تھی لیکن اب
تو
تیرے کہنے میں رہا کرتی
ہے
#
خود اپنے سے ملنے کا تو
یارانہ تھا مجھ میں
میں بھیڑ میں گم ہو گئی
تنہائی کے ڈر سے
#
دل عجب شہر کہ جس پر بھی
کھلا در اس کا
وہ مسافر اسے ہر سمت سے
برباد کرے
#
رفاقتوں کے نئے خواب خوش
نما ہیں مگر
گزر چکا ہے تیرے اعتبار
کو موسم
#
یہ ہوا کیسے اڑا لے گئی
آنچل میرا
یوں ستانے کی عادت تو
میرے گھنشیام کی تھی
#
پا بہ گل سب ہیں رہائی کی
کرے تدبیر کون دست بستہ شہر میں کھولے
میری زنجیر کون
#
بوجھ اٹھاتے ہوئے پھرتی
ہے ہے ہمارا اب تک
اے زمین ماں یہ عمر تو
آرام کی تھی
#
تیرا گھر اور میرا جنگل
بھیگتا ہے ساتھ ساتھ
ایسی برساتیں کہ بادل
بھیگتا ہے ساتھ ساتھ
#
شام پڑتے ہی کسی شخص کی
یاد
کوچہ جاں میں صدا کرتی ہے
#
امد پہ تیری عطر و چراغ و
سبو نہ ہو
اتنا بھی بود و باش کو
سادہ نہیں کیا
#
وقتِ رخصت آ گیا، دل پھر
بھی گھبرایا نہیں
اس کو ہم کیا کھویں گے جس
کو کبھی پایا نہیں
#
میری چادر تو چھنی تھی
شام کی تنہائی میں
بے ردائی کو مری پھر دے
گیا تشہیر کون
#
مقتل وقت میں خاموش گواہی
کی طرح
دل بھی کام آیا ہے گمنام
سپاہی کی طرح
#
جنگ کا ہتھیار طے کچھ اور
تھا
تیر سینے میں اترا اور ہے
#
پلٹ کر پھر یہیں آ جائیں
گے ہم
وہ دیکھے تو ہمیں آزاد کر
دے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(ایک مشہور ماہر آثار قدیمہ اور تاریخ دان پروفیسر مکھن لال دہلی انسٹی
ٹیوٹ آف ہیریٹیج ریسرچ اینڈ مینجمنٹ کے بانی ڈائریکٹر کی حیثیت سے دہلی منتقل ہونے
سے پہلے بنارس ہندو یونیورسٹی اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں درس و تدریس کے فرائض
انجام دے چکے ہیں۔ وہ کیمبرج یونیورسٹی کے پہلے چارلس والیس فیلو بھی تھے۔ حال ہی میں
انہوں نے پروین شاکر کی ہندی شاعری کو دو جلدوں میں شائع کیا ہے)
Parveen Shakir: Her Poems and Ghazals, Part-1 परवीन शाकिर की नज़्में और गज़लें
Parveen Shakir: A Brief Life Sketch परवीन शाकिर: एक संक्षिप्त जीवनी
Parveen Shakir: A Brief Life Sketch پروین شاکر: ایک مختصر سوانح عمری
Parveen Shakir: Her Poems and Ghazals, Part-1 پروین شاکر کی نظمیں اور غزلیں
Parveen Shakir: Her Poems and Ghazals, Part 2 on Sadbarg परवीन शाकिर की नज़्में और गज़लें: सदबर्ग
Parveen Shakir: Her Poems and Ghazals, Part 2 on Sadbarg پروین شاکر کی نظمیں اور غزلیں: صدبرگ
Parveen Shakir: Her Nazms and Gazals; Part 4 on Inkar; परवीन शाकिर की नज़्में और गज़लें: इन्कार
Parveen Shakir : Her Nazms and Gazals; Part 5 on Kafe-Aaina;परवीन शाकिर की नज़्में और गज़लें:कफ़े आईना
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism