مولانا ندیم الواجدی
8 جنوری ، 2021
ہجرت کا آغاز
مکہ کے مسلمان ایک زمانے
سے قریش کا ظلم و ستم سہہ رہے تھے، بیعت عقبہ کے بعد اس میں اور شدت آگئی اور ان
پر ایسے مظالم ڈھائے جانے لگے جن کے تصور ہی سے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں، مسلمان
پہلے سے چاہتے تھے اور اب تو یہ خواہش زبان پر بھی آنے لگی تھی کہ انہیں مکہ سے
نکل کر کسی دوسری جگہ جا کر رہنے کی اجازت مل جائے، مگر اللہ کے رسول صلی اللہ
علیہ وسلم ان کی درخواست کے جواب میں ارشاد فرماتے کہ مجھے ابھی ہجرت کی اجازت
نہیں ملی، بالآخر وہ دن بھی آیا جس دن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے
مسلمانوں کو خوش خبری سنائی کہ اللہ نے اجازت دے دی ہے۔ ام المؤمنین حضرت عائشہ
صدیقہؓ اس قصہ کو اس طرح بیان فرماتی ہیں کہ ستر انصار صحابہؓ واپس چلے گئے، آپ
صلی اللہ علیہ وسلم اس واقعے سے بے حد خوش تھے کہ اللہ نے ایک بہادر اور جنگجو قوم
کو ان کا حامی و ناصر بنا دیا تھا۔ ان کی واپسی کے بعد مشرکین نے مسلمانوں کو سخت
تکلیفیں دینی شروع کردیں۔ ان کو مارتے پیٹتے، ان کو گالیاں دیتے، ان کی توہین و
تذلیل کرتے، ان حالات میں مسلمانوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہجرت کی
اجازت مانگی، آپ نے ارشاد فرمایا: مجھے خواب میں تمہارا دارالہجرۃ دکھلایا گیا
ہے، وہ دو پتھریلی زمینوں کے درمیان کھجوروں کے باغات والی شوریدہ زمین ہے، اس کے بعد آپﷺ چند دن اور ٹھہر گئے، پھر
ایک روز اس حال میں اپنے اصحاب کے پاس تشریف لائے کہ خوشی سے آپؐ کا چہرۂ مبارک دمک رہا تھا اور فرمایا: مجھے
تمہارا مقام ہجرت بتلادیا گیا ہے، وہ یثرب ہے۔ اجازت ملنے کے بعد مسلمانوں نے
نہایت خوشی اور رازادری کے ساتھ سفر ہجرت کی تیاری شروع کردی۔ سب سے پہلے ابوسلمہ
بن عبداللہؓ مدینہ منورہ پہنچے، ان کے بعد عامر بن ربیعہؓ نے رخت سفر باندھا، ان
کے ساتھ رفیقۂ حیات لیلیٰ بنت ابی حشمہؓ بھی تھیں، وہ پہلی خاتون تھیں جنہوں نے
اونٹ پر سوار ہو کر مدینہ منورہ کی سرزمین پر قدم رکھا۔صحابہ کرامؓ گروہ در گروہ
مدینہ پہنچنے لگے اور انصار کے مکانوں میں اترنے لگے۔ انصار نے ان کا استقبال کیا،
ان کو رہنے کے لئے جگہ دی اور ان کے ساتھ ہمدردی سے پیش آئے۔ (طبقات ابن سعد، ۱؍۳۲۵)
ابوسلمہؓ کی ہجرت کا
دردانگیز واقعہ
مسلمانوں کی ہجرت کا
سلسلہ جاری تھا، حضرت عمر ابن الخطابؓ جیسے جری اور بہادر انسان بھی مدینے روانہ
ہوگئے تھے (جس کی تفصیل اگلی قسط میں آرہی ہے)، اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
سمیت چندمسلمان مکے میں باقی رہ گئے تھے۔ جن میں حضرت ابوبکر الصدیقؓ اور حضرت
علیؓ اور ان کے گھرانے کے لوگ تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دو صاحبزادیاں حضرت
ام کلثومؓ اور حضرت فاطمہؓ بھی ہجرت نہ کرسکی تھیں۔ دوسری طرف کفار و مشرکین کی
کوشش یہ تھی کہ کوئی مسلمان مکہ مکرمہ سے باہر نہ جا پائے، اس لئے انہوں نے آنے
جانے والے راستوں پر پہرے بٹھا دئیے تھے۔ جب بھی کوئی مسلمان پیدل یا سوار ہوکر
مکے سے باہر نکلتا اور ان کی نظر پڑجاتی وہ اس کو واپس لے آتے یا اس کی سواری اور
دوسرا سامان چھین لیتے۔ ہجرت کے اذنِ عام کے بعد سب سے پہلے جن صحابیؓ نے ہجرت کا
شرف حاصل کیا ان کا اسم گرامی ابوسلمہؓ ہے، یہ ام المؤمنین حضرت ام سلمہؓ کے پہلے
شوہر ہیں، فرماتی ہیں: جب ابوسلمہؓ نے مدینے جانے کا پختہ ارادہ کرلیا توانہوں نے
میرے لئے ایک سواری کا انتظام کیا، پھر مجھے اس پر سوار کرایا اور میری گود میں
میرے بیٹے سلمہؓ کو بٹھلا دیا۔ پھر وہ میری سواری کو ہانکتے ہوئے چلے، ابھی مکہ سے
باہر ہی نکلے تھے کہ بنو مغیرہ بن عبداللہ بن عمر بن مخزوم کے لوگوں نے ہمیں دیکھ
لیا اور وہ ہماری سواری کا راستہ روک کر کھڑے ہوگئے اور ابوسلمہؓ سے کہنے لگے کہ
تمہیں اپنی ذات پر اختیار ہے، جہاں چاہو جائو، لیکن تمہاری بیوی ہمارے قبیلے کی ہے،
ہم اسے تمہارے ساتھ نہیں جانے دیں گے۔ یہ کہہ کر انہوں نے اونٹ کی رسی ابوسلمہؓ کے
ہاتھ سے لے لی اور مجھے اپنے قبضے میں لے لیا۔ اتنے میں ابوسلمہ کے قبیلے کے لوگ
بنوعبدالاسد آگئے اور کہنے لگے کہ خدا کی قسم ہم اس بچے کو اس عورت کے پاس نہیں
رہنے دیں گے،یہ ہمارا بچہ ہے، جب تم ابوسلمہ کی بیوی کو اپنے قبیلے کی وجہ سے روک
سکتے ہو تو ہم بھی ابوسلمہ کے بیٹے کو تمہارے قبیلے کے پاس نہیں رہنے دیں گے۔ اس
پر ہمارا حق ہے۔ اس بحث و مباحثہ میں کھینچا تانی ہونے لگی، یہاں تک کہ انہوں نے
میرے بچے سلمہ کو میری گود سے چھین لیا۔ بچے کو تو بنو عبدالاسد لے گئے اور بنو
المغیرہ نے مجھے قید کرلیا۔ میرے شوہر ابوسلمہؓ مدینے روانہ ہوگئے، اس طرح ہم
تینوں ایک دوسرے سے جدا ہوگئے۔
حضرت ام سلمہؓ فرماتی ہیں
کہ میں ہر روز صبح سویرے گھر سے نکلتی اور مقام ابطح میں دن ڈھلے تک بیٹھی روتی
رہتی،تقریباً ایک سال تک میرا یہی معمول رہا۔ ایک روز میرے چچازاد میں سے ایک شخص
جس کا تعلق بنو مغیرہ سے تھا وہاں سے گزرا، میری حالت دیکھ کر اسے رحم آیا اور
بنومغیرہ کے لوگوں سے کہنے لگا کہ تم اس بے چاری کو جانے کیوں نہیں دیتے۔ تم نے اس
کواس کے شوہر اور اس کے بیٹے سے بھی جدا کردیا ہے، اس رحم دل انسان کی کوششوں سے
مجھے مدینے جانے کی اجازت مل گئی اور بنوعبد الاسد نے بھی میرے بیٹے کو میرے سپرد
کردیا۔ اس کے بعد میں بیٹے کو لے کر اونٹ پر سوار ہوئی اور تنِ تنہا اپنے شوہر
ابوسلمہؓ کے پاس جانے کے لئے نکل پڑی۔
تنعیم تک کا سفر میں نے
تنہا طے کیا، وہاںمجھے عثمان بن طلحہ بن ابی طلحہؓ ملے، مجھے دیکھ کر کہنے لگے:
ابوامیہ کی بیٹی! تم کہاں جانے کا ارادہ رکھتی ہو؟ میں نے کہا : اپنے شوہر کے پاس
مدینے جارہی ہوں۔ انہوں نے پوچھا: کیا تمہارے ساتھ کوئی نہیں ہے؟ میں نے کہا:
نہیں! بس اللہ ہے اوریہ میرا بیٹا میرے ساتھ ہے۔عثمان نے کہا: خدا کی قسم! میں
تمہیں تنہا نہیں چھوڑوں گا۔ یہ کہہ کر انہوںنے اونٹ کی لگام پکڑی اور مدینے کے
راستے پر چل پڑے۔ خدا کی قسم میں نے اپنی زندگی میں ان سے زیادہ شریف انسان اور
کریم النفس آدمی نہیں دیکھا۔ جب ہم کسی منزل پر پہنچتے تو پہلے وہ اونٹ کو نیچے
بٹھلاتے، پھر کچھ فاصلے پر چلے جاتے، یہاں تک کہ میں اونٹ سے اتر جاتی، پھر وہ
اونٹ کو ہانک کر لے جاتے اور اسے کسی درخت سے باندھ دیتے اور وہیں اسی درخت کے
سائے میں لیٹ جاتے، پھر جب روانگی کا وقت ہوتا تو میرے پاس اونٹ لے کر آتے، اسے
زمین پر بٹھا کر واپس کچھ فاصلے پر چلے جاتے، جب میں اچھی طرح بیٹھ جاتی تب اونٹ
کی لگام پکڑتے اور روانہ ہوجاتے، پورے سفر میں ان کایہی طریقہ رہا،یہاں تک کہ ہم قبا
میں بنو عمرو بن عوف کے ٹھکانوں کے قریب پہنچ گئے۔ عثمان نے مجھ سے کہا: تمہارے
شوہر اسی بستی میں ہیں، اللہ کا نام لے کر اترو اور اس بستی کے اندر چلی جائو۔
مجھے وہاں چھوڑ کر وہ مکہ واپس چلے گئے۔ یہ قصہ بیان کرنے کے بعد حضرت ام سلمہؓ
فرمایا کرتی تھیں کہ خدا کی قسم! مجھے نہیں معلوم اہل اسلام میں کسی گھرانے نے اس
قدر تکلیف اٹھائی ہو جتنی ابوسلمہؓ کے گھرانے نے اٹھائی ہے۔ میں نہیں جانتی کہ
کوئی شخص اتنا شریف النفس ہوسکتا ہے جتنا عثمان بن طلحہؓ تھے۔ (سیرت ابن ہشام، ۱؍۳۳۹-۳۴۰)
حضرت عثمان بن طلحہؓ اس
وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے، صلح حدیبیہ کے بعد مسلمان ہوئے اور حضرت خالد بن
ولیدؓ اور حضرت عمرو بن العاصؓ کے ساتھ مدینہ منورہ ہجرت کرکے پہنچے، فتح مکہ کے
وقت بھی موجود تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ شریف کی چابیاں ان
کے اور شیبہ بن عثمان بن ابی طلحہؓ کے حوالے کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ یہ چابیاں اب
قیامت تک تمہارے پاس رہیں گی، کوئی ظالم ہی ان چابیوں کو تم سے چھین سکتا ہے۔
کچھ اور اوّلین مہاجرین
حضرت ابوسلمہؓ کے بعد جن
لوگوں نے سب سے پہلے ہجرت کا شرف حاصل کیا، ان کے اسماء گرامی یہ ہیں: عامر بن
ربیعہؓ، ان کی اہلیہ لیلیٰ بنت ابی حشمہ، عبید بن جحش، عبداللہ بن جحش، زینب بنت
جحش، ام حبیبہ بنت جحش، ابو احمد بن جحش، عکاشہ بن محصن، عقبہ بن وہب، شجاع بن
وہب، اربد بن جُمیرہ، منقذ بن نباتہ، سعید بن رُقیش، محرز بن نضلہ، یزید بن رقیش،
قیس بن جابر، عمرو بن محصن، مالک بن عمرو، صفوان بن عمرو، ثقیف بن عمرو، ربیعہ بن
اکثم، زبیر بن عبید، سنجرۃ بن عبید رضوان اللہ علیہم اجمعین وغیرہ، ان میں سے
بیشتر حضرات کے ساتھ ان کے اہل و عیال بھی تھے۔ حضرت عمر بن الخطابؓ بھی سب سے
پہلے ہجرت کرنے والوں میں سے ہیں، ان کے ساتھ عیاش بن ابی ربیعہؓ اور بیس حضرات
اور دوسرے بھی روانہ ہوئے، ہشام بن العاصؓ بھی ان کے ہمراہ ہجرت کرنا چاہتے تھے مگر
ان کے قبیلے کے لوگوںنے سخت مزاحمت کی اور ان کو ہجرت کرنے سے روک دیا، جن لوگوں
پر قریش کا بس نہیں چلتا تھا وہ بلا روک ٹوک روانہ ہورہے تھے، کچھ لوگ چھپ کر بھی
روانہ ہوئے، بہت سے لوگوں نے علی الاعلان ہجرت کی، ایک روز عتبہ بن ربیعہ اور
ابوجہل بن ہشام مکہ مکرمہ کی کسی پہاڑی پر کھڑے ہوئے یہ منظر دیکھ رہے تھے کہ
لوگوں کے ترکِ وطن کرنے سے مکہ مکرمہ کی ویرانی بڑھتی جارہی ہے، ان کے گھروں پر
تالے لٹک رہے ہیں۔ بنوجحش کے تو تمام مرد و زن اور بچے اپنے ساز و سامان کے ساتھ
گھروں کے دروازے مقفل کرکے جاچکے تھے، محلے کے محلے ویران ہورہے تھے، یہ منظر دیکھ
کر عتبہ پر بے حد اثر ہوا، اسی تأثر کے عالم میں اس نے یہ شعر کہا:
وَ کُلُّ دَارٍ اِنْ
طَالَتْ سَلاَمتُھا
یَوْماً سَتُدْرِکُھَا
النَّکْبَائُ وَالحُوْب
ہرگھر خواہ وہ لمبے عرصے
تک آباد رہے، ایک نہ ایک دن ویرانی اور وحشت اس کو گھیر ہی لیتی ہے۔ (سیرت ابن
ہشام ) (جاری)
nadimulwajidi@gmail.com
8 جنوری ، 2021،بشکریہ:انقلاب،
نئی دہلی
Related Article
Part: 7- Adjective of Worship مجھے صفت ِ عبدیت زیادہ پسند اور عبد کا لقب زیادہ محبوب ہے
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/i-shown-hometown-noisy-land-part-14/d/124044
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism