New Age Islam
Thu Dec 05 2024, 06:16 AM

Books and Documents ( 6 Oct 2020, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit of Islam’: Chapter 1- The Revelation of the Quran and Declaration of Prophethood -Part 13 روح اسلام:نزول وحی کی ابتدا اور اعلان نبوت


سید امیر علی

(قسط 13 )

پہلا باب پیغمبر اسلام محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور رسالت

ایک عظیم مصنّف کہتاہے۔”ذات باری تعالیٰ کی نسبت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیع تصّور کو اس زمانے کی ذہنی فضا سے جو تعلق قدرتی طور پر تھا صرف اس سے اس امر کی کچھ توجیہ ہوتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو مہتم بالشان الہامات ہوئے ان کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سلامتی طبع اور ضبط نفس کو قائم رکھا“۔ اس کے بعد وہ کہتا ہے۔”یہ محض ایک اتفاقی امر نہ تھا کہ اس وقت کی سب سے زبردست قوت اس وسیع جزیرہ نما کی تنہائیوں سے ظاہر ہوئی جس کے ساحل پر سلطنتوں کامدّوجزررہوتارہا۔ ایک افضل و اعلیٰ ادارہ مطلق کے نام پر جو پیغام بھی دنیا کو دیا گیا وہ صحرا سے بلند ہونے والی ایک آواز تھا۔ بنی ناصری نے ایک مافوق البشر روحانی قوت سے رابطہ قائم کرنے کی خاطر دنیاسے کنارہ کش ہوکر ملک عرب کو جو علامتی معنویت بخش دی تھی اسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک علامت سے بڑھ چڑھ کر کچھ اور چیز بنا دیا۔عرب ایک فرد واحد کی ذات میں مرکوز ہوکر ساری نوع انسانی کا نمائندہ اور پیغمبر اسلام اس کاکلام ناطق بن گیا۔ صحرا نے اپنے اس فرزند پر، جس کی تربیت اس کی بلند روایات کے دامن میں ہوئی تھی اور جو ایک مخفی اندرونی تقاضے سے مجبور ہوکر تاروں بھری رات کی تنہائیوں میں بے یارومددگار نکل کھڑا ہوا تھا،اس نے سارے اسرار کھول کر رکھ دیئے ۲؎“۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎Professor Muller, quoted from

Dean Stanley's Lectures on the History of the jewish Church, Part i, Lect, p. 394, Johnson, Oriental Religions, p. 561

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک ایسی رات (قدرت و فضیلت کی رات)‘ جب ایک قدسی سکون موجودات پر طاری تھا اور ساری کائنات اپنے مالک کی طرف رجوع کئے ہوئے تھی، آدھی گزرچکی تھی کہ اللہ کی کتاب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تشنہ حق روح پر نازل ہوئی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم مراقبہ میں ڈوبے ہوئے تھے کہ ایک زبردست آواز نے،جس میں سمندر کی لہروں کی سی گھن گرج تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا۔ ۱؎ ”بول“ دو مرتبہ آواز آئی اوردونوں مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے حکم کی تعمیل سے قاصر رہے، لیکن اس کے بعد ایک زبردست قوت نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھینچ لیا اور بولنے پر مجبور کیا۔ آواز نے تیسری بار کہا”بول“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا ”میں کیا بولوں“؟ جواب ملا ”بول! اپنے رب کے نام سے۔“

جب آواز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بتا چکی کہ کیونکر انسان ایک قطرہ  ناچیز سے شروع ہوکر وجود میں آیا اور کیوں کر اسے خدائے رحیم و رحمٰن نے عقل و علم دے کر بلندی بخشی اور قلم کی بدولت اسے وہ چیز یں بتائیں جن کااسے علم نہ تھا۲؎۔ تو اس وقت آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم عالم بے خودی سے بیدار ہوئے اور آپؐ کو ایسا محسوس ہوا، جیسے وہ الفاظ جو آپ ؐ کی روح سے کہے گئے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل کی تختی پر لکھ دیئے گئے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم پرکپکپی طاری ہوگئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جلدی سے گھر گئے اور حضرت خدیجہؓ سے کہا۔”خدیجہؓ! مجھے کیا ہوگیا ہے“؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لیٹ گئے اور حضرت خدیجہؓ آپ کی دیکھ بھال کرتی رہیں۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوش آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے خدیجہؓ! و ہ شخص جس کے بارے میں کسی کو ایسی بات کا یقین نہ آسکتا تھا(یعنی آپؐ) یا تو کاہن ۳؎ بن گیا ہے یا مجنوں!“ حضرت خدیجہ ؓ نے جواب دیا ”نعوذ باللہ“ اے ابولقاسم! (یہ آپؐ کے ایک بیٹے کی نسبت سے آپ ؐ کی کنیت تھی) خدا کبھی آپؐ پر ایسی واردات نہ ہونے دیگا کیونکہ آپ ؐ ہمیشہ سچ بولتے ہیں، بُرائی کابدلہ برُائی سے نہیں دیتے، ایمان دار ہیں، نیکوکار ہیں اور اقرباء اور دوستوں سے مہربانی کا سلوک کرتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎  اقراء کے معنی کے بارے میں اگلے صفحے پر امیر علی کا حاشیہ دیکھئے۔(مترجم)

۲؎ سورہ علق۔1تا5۔ اقرا ء کا ترجمہ عوماً پڑھ، کیا جاتا ہے۔ لیکن میں نے    کے تجویز کئے ہوئے ترجمے کو ترجیح دی۔

۳؎ آپ ؐ کو کاہنوں اور پیش گوئیاں کرنے والوں سے بے حد نفرت تھی۔ یہ لوگ زیادہ تر بت خانوں سے وابستہ تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 آپؐ بازاروں میں بے ہودہ باتیں بھی نہیں کرتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا واقعہ پیش آیا ہے؟ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی خوفناک چیز دیکھی ہے؟“ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا ”ہاں“ اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو کچھ پیش آیا تھا اس کا ماجرا سنایا۔ اس پر حضرت خدیجہؓ نے کہا ”آپ ؐ کو خوش ہونا چاہئے۔ وہ خدا جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میرا گواہ ہے کہ آپؐ اس زمانے کے پیغمبر ہیں“ پھر حضرت خدیجہؓ اٹھیں اور اپنے بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس گئیں جوبوڑھے او رنابینا تھے او ریہود و نصاریٰ کی مقدس کتابوں کے عالم تھے۔ جب خدیجہ ؓ نے انہیں سارا واقعہ سنایا تو وہ پکار اٹھے:۔ ”تدّوس! تدّوس!یقینا یہ وہی ناموس اکبرہے۱؎ جو عیسیٰ و موسیٰ پر اترا تھا۔ محمد ؐ اپنے زمانہ کا پیغمبر ہوگا۔ اسے جاکر بتاؤ اور کہوکہ اپنا دل مضبوط رکھے“۔

سلطنتوں اور قوموں کی تباہی اور قبائل کے وحشیانہ شور و فساد کے درمیان ایک آواز فضا میں گونج رہی تھی، مشرق سے مغرب تک اور شمال سے جنوب تک، کہ خدا کا پیغام ظاہر ہونے والا ہے، وہ گڈریا قریب آپہنچا ہے جو بھٹکی ہوئی بھیڑوں کو خدا کے باڑھے میں واپس لے آئے گا۔ یہ آواز ورقہ کے گوش دل نے بھی سنی۔

جب عرصے بعد حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ورقہ ایک دوسرے سے بازار میں ملے تو یہودی اور عیسوی صحائف کے نابینا اور سن رسید ہ عالم نے، جس نے اطمینان قلب کی جستجو میں یہ صحائف چھان مارے تھے لیکن اسے اطمینان حاصل نہ کرسکا تھا، لیکن جسے اس وعدے کا علم تھا جو بنی نوع انسان سے ایک نجات دہندہ کے آنے کے بارے میں کیا گیا تھا، اپنے ایمان و یقین کا اظہار ان الفاظ میں کیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎  عربی میں ناموس کا اصلی مطلب پیغامبر ہے، یعنی ہو جو کوئی مخفی پیغام لے کر آتا ہے۔ اس کے ثانوی معنی ہیں قانون۔Deutsch کہتا ہے، ”تلمود کی زبان میں اس سے عبارت ہے الہامی قانون۔ورقہ کے ذہن میں ہم دونوں معنی یکجا ہوگئے، پیغامبر بھی اور پیغام بھی، جو دونوں کے دونوں قدسی سے، حضرت محمد ؐ پر نازل ہوئے جس طرح وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

”میں اس خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کے قبضے میں میری جان ہے کہ خدا نے تمہیں اس قوم کا نبی منتخب کیا ہے۔ تم پر ناموس اکبرنازل ہوا ہے۔ لوگ تمہیں جھوٹا کہیں گے، تمہیں ایذا پہنچائیں گے، تمہیں جِلاوطن کریں گے، اور تمہارے ساتھ جنگ کریں گے۔ کاش میں اس دن تک زندہ رہتا، جب یہ سب کچھ تمہیں پیش آئے گا۔ میں زندہ رہتا تو یقینا تمہارے لیے جنگ کرتا۱؎“۔ یہ کہہ کر ورقہ نے آنحضرت ؐ کی پیشانی کو چوم لیا۔ ان اُمید اور یقین  سے بھرے ہوئے کلمات نے آپ کے مضطرب دل کو تسکین دی۲؎۔ اس کے بعد کچھ مدت ایسی گزری جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے منتظر رہے کہ ندائے غیب پھر آپؐ کو سنائی دے اور آسمان سے جو الہام آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا تھا وہ دوبارہ آپؐ کے بے قرار دل کے لیے وجہ تسکین بنے۔

جو روحانی اذّیتیں، شکوک و شبہات اور اُمیدوں کی جو زبردست ذہنی کشمکشیں آنحضرت ؐ کے دل کو محسوس ہورہی تھیں ان کا کچھ اندازہ اس امر سے ہوتا ہے کہ اپنی رسالت کا پوری طرح یقین ہونے سے پہلے آپؐ کو وہ فرض یاد دلاکر نوع انسانی کی طرف سے آپؐ پر عائد ہوتا تھا، باز رکھا ۳؎، اور آپ ؐ کے مضطرب دل کو، جو شبہات اور اندیشوں کے پیچ و تاب میں مبتلا تھا، اس روشن مستقبل کی ایک جھلک دکھا کر جب ساری اقوام عالم ایک سچے دین کے جھنڈے کے نیچے جمع ہوں گی، اُمید او ریقین دلانے کی کوشش کی۴؎۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ ابن ہشام، المطبی،انسان العیون۔جلد اوّل۔

۲؎ اس واقعے کے کچھ ہی دن بعد ورقہ کاانتقال ہوگیا۔ ابن ہشام

۳؎ ابن الاثیر۔طبری

۴؎مصنف نے یہاں آنحضرت ؐ کے بارہ میں شکوک و شبہات یا باطنی کشمکش اور خلش کاذکر کیا ہے، اس کو سمجھنے کے لیے ایک تو وہ انداز ہے جو بعض محدثیں نے اختیار کیا او وہ یہ ہے کہ اس کشمکش یا خلش کا تعلق اس بات سے نہیں ہے کہ آنحضرت ؐ کو خدا نخواستہ ایسے منصب کی حقانیت میں کوئی شبہ پیدا ہوگیا تھا۔بلکہ اس کا تعلق نحمل سے ہے۔ یعنی اس حقیقت (باقی حاشیہ صفحہ 96پر ملاحظہ فرمائیں)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس بشارت کی بدولت خود کشی سے باز آکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم،ذہنی او ر جسمانی طور پر تھکے ماندے، جلدی جلدی صحرا سے گھر گئے اور اپنی جاں نثار بیوی سے کہا،”مجھے کمبل اوڑھا دو“،گویا آپ ؐ میں جلا لِ الہٰی کے عینی مشاہدے کی مزید تاب نہ تھی۔

آپؐ کا خدا کے ساتھ جو رابطہ تھا وہ ان خود پرست لوگوں کا سانہ تھا جو صحراؤں اور جنگلوں میں جاکر گوشہ نشین ہوجاتے ہیں اور محض اپنے ذاتی سکون کی خاطر ترک دنیا اختیار کرتے ہیں۔ آپؐ کوایک کٹھن مہم درپیش تھی۔ ایک ایسی مہم جس کی طرف تقدیر الہٰی آپ کو کشاں کشاں لے جارہی تھی، یعنی اپنی قوم کوبت پرستی کی غلامی سے آزادکرانے کی مہم۔تقدیر کو آپؐ سے جو کام لینا تھا وہ آپؐ پر اس وقت واضح ہوا جب آپؐ ہوا جب آپؐ غمگین اور اُداس تفکّر میں ڈوبے ہوئے تھے اور آپؐ کے کانوں میں وہی آواز آئی جس نے آپؐ پہلے سے نیبوں کو پکارا تھا، اور جو آپؐ سے اٹھ کر دین حق کی تبلیغ میں مصروف ہوجانے کا تقاضا کررہی تھی۔ ”اے چادر میں لپٹے اُٹھے اور لوگوں کو عذاب الہٰی سے ڈرا اور اپنے ربّ کی کبریائی بیان کر۔“ (سورہئ مدثر)آپؐ اٹھے اور جس کا م کی دعوت دی جارہی تھی اس کے لیے کمرباندھ لی۔ اس کے بعد آپؐ کی زندگی تمام کی تمام انسانی کی صلاح وفلاح کے لیے وقف ہوگئی۔ بے پناہ ظلم و ستم اور تذلیل و توہین کے باوجود آپؐ ثابت قد می سے تنبیہ و اصلاح کی راہ گامزن رہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(بقیہ حاشیہ 95)سے ہے کہ منصب کی حقانیت کے باوجود، تشویش اس خبر کی تھی کہ کیا آپؐ نبوت کی ان گرانقد ر ذمہ داریوں سے عہد ہ برآء ہوسکیں گے یادوسرے لفظوں میں آیا نبوت کے اس غیر معمولی ظہور کو انسانی فکر و تعقل کا یہ کمزور ڈھانچہ آسانی سے قبول کر سکے گا۔؟

دوسرا انداز وہ ہے جس کاعلامہ شبلی نے اختیار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے سر ے سے یہ روایت ہی مرفوع متصل نہیں جس میں اس بات کا ذکر ہے کہ آپؐ شدت احساس سے خود کشی پر آمادہ ہوگئے تھے۔ ان کے نزدیک اس کی حیثیت ا س سے زیادہ نہیں کہ اس کو زہری نے بیان کیا ہے اور بس یعنی سند کا سلسلہ زہری تک ختم ہوجاتا ہے جیسا کہ شارحین بخاری نے تصریح کردی ہے۔ظاہر ہے ایسے عظیم الشان واقعہ کے لیے سند مقطوع کافی نہیں۔ (دیکھئے سیرت النبی جلداوّل صفحہ 190)۔ادارہ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حضرت خدیجہؓ سب سے پہلی ہستی ہیں جو آپؐ کی نبوت پرایمان لائیں جنہوں نے آپؐ کے الہامی پیغام کو قبول کیا بُت پرستی کو چھوڑا اور صفائے قلب سے آپ ؐ کے ساتھ شامل ہوکر خدائے رحیم و رحمٰن کے حضور میں سجدہ گزار ہوئیں۔ یہی نہیں کہ وہ آپؐ پر اور آپؐ کی نبوت پر ایمان لانے والی پہلی ہستی تھیں، بلکہ اس جدوجہد میں جو آپؐ کو پیش آنے والی تھی۔ آپؐ کی سچی غمگسار میں تھیں۔ روایت کہتی ہے: ”جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم خدیجہؓ کے پاس آئے تو انہوں نے آپؐ کی دھارس بندھائی، آپؐ کی حوصلہ افزائی کی، آپؐ کا بوجھ ہلکا کیا، آپؐ کو اپنے ایمان کا یقین دلایا اور لوگوں کی بے ہودہ باتوں کی پروانہ کرنے کی تاکید کی“۔

شروع شروع میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف اپنے عزیزوں پر اپنے دل کا راز کھولا اور ان سے اپنے آباؤ اجداد کی قبیح رسوم وعبادات چھُڑانے کی کوشش کی۔ خدیجہؓ کے بعد علیؓ نے آپؐ کے ہاتھ پر بیعت کی۱؎۔ بسا اوقات آنحضرت ؐ اپنی بیوی اور چچیرے بھائی کو ہمراہ لے کر مکّے کے اردگرد کے صحرا کی تنہائیوں میں چلے جاتے تاکہ تینوں مل کر ربّ العٰلمین کے احسانوں کا شکرادا کریں۔ ایک دن ایسا ہوا کہ جب یہ تینوں نماز میں مصروف تھے تو اچانک ابوطالب ادھر آنکلے۔ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس حالت میں دیکھ کر پوچھا: ”بھتیجے یہ کون سامذہب ہے جس کی تم پیروی کررہے ہو؟“ پیغمبر اسلام نے جواب دیا۔”یہ خدا کا، اس کے فرشتوں کا۔ اس کے نیبوں کا او رہمارے جدّامجد ابراہیم علیہ السلام کامذہب ہے۔ خدا نے مجھے اپنے بندوں کے پاس اس لیے بھیجا ہے کہ میں انہیں سچائی کا راستہ دکھاؤں اور آپؐ، اے میرے چچا، ان میں سب سے اچھے بندے ہیں۔ اس لیے مناسب ہے کہ آپ کو میں اپنا پیغام دوں اور مناسب ہے کہ آپ سچائی کوقبول کریں اور اس کی اشاعت میں مجھے مدددیں۔“ ابوطالب نے ایک قدیم سامی کے شان غیرت و حمیت سے جواب دیا۔ ”بھتیجے، میں اپنے باپ دادا کا مذہب نہیں چھوڑ سکتا، لیکن قسم ہے خدائے بزرگ و برتر کی کہ جب تک میں زندہ ہوں کوئی تیرا بال بینکا کرنے کی جرأت نہیں کرسکتا“۔اس کے بعد س معزر بزرگ نے اپنے بیٹے سے مخاطب ہوکر اس کے مذہب کے بارے میں استفسار کیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎  ابن ہشام۔الحطبی۔”انسان العیون“۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

علیؓنے جواب دیا۔”میرے باپ، میں خدا اور اس کے نبی پر ایمان رکھتاہوں او راس نبی کی پیروی کرتا ہوں“۔ ابوطالب نے کہا”اچھی بات ہے، میرے بیٹے۔ وہ تجھے صرف نیکی کی طرف بلائے گا، اس لیے میری طرف سے اجازت ہے کہ تو اس کی پیروی کرے۱؎۔“

تھوڑی ہی مدت کے بعد زید بن حارث جنہوں نے آزاد کئے جانے کے باوجود آنحضرت ؐ کادامن نہ چھوڑا تھا، دائرہئ اسلام میں داخل ہوئے اور ان کے بعد قبیلہ قریش کے ایک معزز رکن عبداللہ بن ابوقحافہ، جنہوں نے آگے چل کر ابوبکرؓ کے نام سے شہرت پائی ۲؎۔ آپ ؓ خاندان تیم ابن مّرہ کے ایک ممتاز فرد اوفر ایک دولت مندتاجر تھے۔ سلیم الطبع، صائب الرائے، بیدار مغز، دیانتدار اور ہر دلعزیز۔ چنانچہ آپؓ اپنے مہم عصروں میں بڑی وقعت رکھتے تھے۔ آپؓ آنحضرت ؐ سے صرف دوسال چھوٹے تھے۔آپؓ کے بلاحیل و حجت قبول اسلام کالوگوں پربہت اچھا اثر پڑا۔ پانچ ممتاز افراد نے ان کی مثال کی تقلید کی، جن میں اُموی خاندان کے عثمان ؓ بن عفان بھی تھے ء جو بعد میں خلیفہ ئ سوم ہوئے۔عبدالرحمٰن بن عوف، سعد بن ابی وقاص، جنہوں نے بعد میں ایران فتح کیا اور زبیر بن عوام،جو حضرت خدیجہؓ کے بھتیجے تھے۔ ان سب نے آنحضرتؐ کی خدمت میں حاضر ہوکر اسلام قبول کیا۔ ادنیٰ طبقے کے کئی لوگ بھی مشرف بہ اسلام ہوئے۔ رسول عربی ؐ کی داستان حیات کایہ ایک وصفِ جمیل ہے، جو آپ ؐ کے صدق و خلوص، آپؐ کی تعلیمات کی پاکیزگی اور اللہ تعالیٰ پر آپؐ کے راسخ یقین و ایمان پرپرُزور دلالت کرتا ہے،کہ آپ کے سب سے قریبی رشتہ دار، یعنی آپؐ کی بیوی او رچچیرے بھائی، اور آپؐ کے گہرے دوست آپؐ کی رسالت کی سچائی اور آپؐ کے مبعوث من اللہ ہونے پر پورا پورا یقین لائے۔ جو لوگ آپؐ کو اچھی طرح جانتے تھے،یعنی قریبی رشتہ دار اور عزیز ترین دوست، جو آپؐ کے ساتھ رہتے سہتے تھے،یہی لوگ آپؐ کے مخلص اور سب سے وفادار پیرو بنے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ ہم نے اس واقعے کو اسی طرح پیش کیا ہے جس طرح اسے ابن ہشام او رابن الاثیر نے بیان کیا ہے۔

۲؎  Desergers ایک حاشیے میں لکھتا ہے کہ قبول اسلام سے پہلے حضرت ابوبکرؓ عبدالکعبہ کے لقب سے ملقب تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اگران لوگوں کو، جو شریف النسب اور عقل مند تھے او رگلیل کے ماہی گیروں سے کسی صورت کم تعلیم یافتہ نہ تھے، معلّم اسلام میں دنیا پرستی،فریب کاری یا ضعف ایمان کاشائبہ تک نظر آتا تو اخلاقی او ر معاشی اصلاح کے بارے میں آپؐ کی تمام امیدیں ایک لمحے کے اندر خاک میں مل جاتیں۔ان لوگو ں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر ظلم و ستم سہا، خطرات کا سامنا کیا، جسمانی اذیتیں برداشت کیں اور معاشرتی تعلقات کے انقطاع کی ذہنی تکلیف اٹھائی،یہاں تک کہ اپنی جانیں قربان کرنے سے بھی دریغ نہ کیا۔ اگر ان  لوگوں کو اپنے آقا میں شّمہ بھر خامی بھی دکھائی دیتی تو کیا یہ ممکن تھا کہ وہ یہ سب کچھ کرتے؟لیکن اگر یہ لوگ آپؐ پراتنا راسخ ایمان نہ بھی لاتے تو یہ امر آپؐ کے کام کی عظمت اور آپؐ کے خلوصِ نیت پر شک کرنے کا کوئی جواز مہیا نہ کرتا۔نبیوں میں بہت کم ایسے ہوئے ہیں جن پر ان کے قریب ترین رشتہ داروں نے یقین کیا۔ مثلاً حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہی کو لیجئے، ان کے بھائی ان پر ایمان نہ لائے۱؎۔بلکہ یہاں تک ان کے مخالف تھے کہ ایک مرتبہ دیوانہ سمجھ کر قید وبند میں ڈالنے کی کوشش کی ۲؎۔ اور تو او ران کے قریب ترین حواریوں کا عقیدہ بھی راسخ نہ تھا۳؎۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں کی یہ سست اعتقادی غالباً ان لوگوں کی سیرت کی کمزوری کا نتیجہ تھی، یا جیسا کہ ملمین کا خیال ہے، اس کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کاانداز تکلّم ہر وقت بدلتا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎  یوجنّاب 57

۲؎  مرقس باب4 21-

۳؎ جب وہ بھیڑ سے یہ کہہ رہا تھا اس کی ماں اوربھائی باہر کھڑے تھے اور اس سے بات کرنا چاہتے تھے۔ کسی نے اس سے کہا دیکھ تیری ماں اور تیرے بھائی باہر کھڑے ہیں اور تجھ سے بات کرناچاہتے ہیں۔ اس نے خبر دینے والوں کو جواب میں کہاکون ہے میری ماں او رکون ہیں میرے بھائی۔؟ او راپنے شاگرد وں کی طرف ہاتھ بڑھا کر کہا، دیکھو میری ماں اور میرے بھائی یہ ہیں۔“متی ب 12۔46تا 48 اور مرقس ب4۔23۔33

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رہتا تھا ۱؎۔ بہر حال اس امر سے انکا رنہیں کیا جاسکتا کہ حواریوں کاایمان پوری طرح راسخ نہ تھا ۲؎۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقربین کا ثوق عقیدہ ایمان آپؐ کے خلوص اور کارنبوت میں والہانہ استفراق کی افضل ترین شہادت ہے۔

تین سالوں کی طویل مدت میں آپؐ اپنی قوم سے بُت پرستی چھڑانے کی کوششوں میں خاموشی سے مصروف رہے لیکن عربوں کی گھٹی میں تھا۔ علاوہ بریں پرانے مذہب میں ایسی ایسی دلکشیاں تھیں جو نیا مذہب اپنی پاکیزگی کے باعث پیش نہ کرسکتا تھا۔قریش کے مفادات بُت پرستی سے وابستہ تھے اور ان کی عزت ووقار کا دار مدار اس کے قائم رکھنے پر تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ صرف اپنے شہر کی بُت پرستی کا مقابلہ کرنا پڑا، جسے صدیوں کے رواج اور اعتقاد نے استحکام بخش رکھا تھا، بلکہ عمائدین کی مخالفت کا بھی جو شہر کے سفید و سیاہ کے مالک تھے اور جو عرب کے عام لوگوں کی طرح تو ہم پرستی او رکفر میں مبتلا تھے۔ ان مخالف قوتوں کی موجودگی میں مقام تعجب نہیں کہ تین سال کی جاں فشانیاں صرف تیس پیروپیدا کرسکیں۔ پھر بھی اس معلّم عظیم نے ہمت نہ ہاری اور اس قادر مطلق پر بھروسہ کئے ہوئے جس کے احکام کی وہ تعمیل کررہا تھا اپنے موقف پر قدم جمائے کھڑا رہا۔آپؐاب تک نہایت خاموشی سے بلا تعرّض تبلیغ کرتے رہے تھے، آپؐ کے ہم وطنوں نے آپؐ کو شک کی نظروں سے دیکھا تھا،آپؐ کی صحت دماغ پرشبہ کیا تھا، آپؐ کی خبطی اور دیوانہ سمجھا تھا، لیکن آپؐ کی خاموش تبلیغ میں خلل اندازی نہ کی۔ اب آپؐ نے تہیہ کرلیا کہ آپؐ قریش کو بت پرستی ترک کرنے کی دعوت عام دیں گے۔اس مقصد کے خاطر آپؐ نے کوہِ صفا پر لوگوں کو جمع کیا اور انہیں بتایا کہ ان کی بدکاریاں خدا کی نگاہ میں کتنی معیوب ہیں، او راپنے ہاتھوں کے گھڑے ہولے بتوں کا پوجنا پرلے درجے کی حماقت ہے۔آپؐ نے انہیں ان قوموں کے حالات سنا کر عبرت دلائی جنہوں نے اپنے وقت کے رسولوں کی بات

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎  Milman, History of Christianity, vol.i pp. 254,255

۲؎  سرولیم میور اس امر کو نہایت مثبت الفاظ میں تسلیم کرتا ہے(جلد دوم) وہ کہتا ہے ”خطرے کی، بھنک پاتے ہی حواری بھاگ کھڑے ہوئے۔“

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آپؐ نے انہیں ان قوموں کے حالات سنا کر عبرت دلائی جنہوں نے اپنے وقت کے رسولوں کی بات نہ سنی تھی اور انہیں اس کی دعوت دی کہ اپنے قدیم ناپاک طریقہ ہائے عبادت کو ترک کردیں اور محبت صداقت اور پاکیزگی کے اس مذہب کو اختیار کریں جس کی تبلیغ آپؐ کررہے تھے۔تمسخراُڑانے والوں نے آپؐ کی باتوں کا تمسخر اُڑایا،نوجوان علیؓ کے جوش وخروش کی تضحیک اورطعن آمیز بول بولتے ہوئے چلے گئے، لیکن ان کے دل اس روح انقلاب کے خوف سے کانپ رہے تھے جو انہی کے درمیان سے یکایک اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔ یوں آسمانی تنبیہوں کو قریش تک پہنچانے میں ناکام رہ کر آپؐ نے اپنی توجہ ان اجنبیوں پر مبذول کی جو شہر میں تجارت یا حج کی غرض سے آتے تھے۔ آپؐ نے ان تک خدا کا پیغام پہنچانے کی کوشش کی، لیکن قریش اس میں بھی مزاحم ہوئے۔ جب حجاج شہر کے نواح میں آنے شروع ہوئے تو قریش نے مختلف راستوں پر آدمی متعین کردیئے اور آنحضرت ؐ کو ایک خطرناک جادو گر کہہ کر آپؐ کے ساتھ کسی قسم کا ربطہ قائم کرنے سے منع کردیا۔ لیکن اس چال بازی کانتیجہ ایسا نکلا جس کی اہل مکّہ کو توقع نہ تھی۔ جب حجاج اور تجار اپنے دور دراز ملکوں میں واپس گئے تو اپنے ساتھ اس عجیب اور جوشیلے معلّم کے ظہور کی خبر یں لے گئے جو اپنی جان کو خطرہ میں ڈال کر اقوام عرب کو اپنے آباؤ اجداد کے طریقہ عبادت کو ترک کردینے کی اعلیٰ دعوت دے رہا تھا۔

اگر قریش اس زعم میں تھے کہ آنحضرتؐ کے اعزّہ واقرباء آپؐ کے ساتھ چھوڑدیں گے تو ابوطالب کی غضب آلود ملامت نے بہت جلد ان کے دماغ درست کردیئے۔یہ بزرگ سال سردار جس نے اپنی مخصوص وفاداری داستوری سے کام لے کر اپنے قدیم مذہب کو ترک کرنے اور نئے مذہب کو قبول کرنے سے انکار کردیاتھا، اس ناانصافی اور اس نارواداری کو دیکھ کر تڑپ اٹھا جو اس کے ہم وطن معلّم اسلام سے کررہے تھے۔ چنانچہ اس نے ایک قصیدہ لکھا جو اب تک تاریخ میں یادگار چلا آرہا ہے۔ اس میں اس نے صحراء نشینوں کی قدیم جواں مردی سے کام لے کر قریش کی ان زیادتیوں پر اظہار افسوس کیا جو وہ ایک ایسے شخص پر کررہے تھے، جو یتیمو ں اور بیواؤں کا محسن تھا اور جوالامین تھا یعنی کبھی اپنے قول و فعل میں چھوٹا نہ نکلا تھا۔ اسی قصیدہ میں ابوطالب نے اعلان کیا کہ ہاشم اور مطلب کے خاندان کابچہ بچہ جان پر کھیل کر بھی اس معصوم نوجوان کی حمایت اور حفاظت کرے گا۔ انہی دنوں ایک ثیربی سردار نے قریش مکّہ کو ایک خط لکھاجس میں اس نے پُرانے زمانے کی مثالیں دے کر انہیں خانہ جنگیوں اور لڑائیو ں میں الجھنے سے بچنے کی تاکید کی۔ اس نے انہیں مشورہ دیا کہ نئے معلّم کی باتیں سنیں۔”ایک صاحب عزت شخص نے ایک خاص مذہب اختیار کیا ہے۔ تم لوگ کیوں اسے ستاتے ہو؟ دلوں کے راز صرف آسمانوں کے مالک کو معلوم ہیں۔“ اس کے مشورہ سے قریش کسی حد تک اثر پذیر ہوئے اور ان کاطر ز عمل قدرے بدل گیا۔چنانچہ انہوں نے کچھ مدّت کے لیے کھلّم کھلا ظلم و ستم کی جگہ سب و شتم، افترا، بدزبانی اور توہین آمیز حرکات سے کام لیا۔ انہوں نے آنحضرتؐ کو کعبے میں نمازادا کرنے سے روک دیا۔ جہاں آپؐ جاتے وہ آپؐ کا پیچھاکرتے، آپؐ پر اور آپؐ کے متبعین پر نماز کی حالت میں گندگی اور کیچڑ پھینکتے اور بچوں اور شہر کے بد معاشوں کو آپؐ کی تذلیل کے لیے آپؐ کے پیچھے لگا دیتے۔جن راستوں سے آپؐ عبادت یا مراقبے کیلئے گزرتے ان پر کانٹے بچھا دیتے۔ اس خار افشانی میں آنحضرتؐ کے چچا ابو لہب کی بیوی اُم الجمیل ہمیشہ پیش پیش رہتی۔آپؐ کے ستانے والوں میں وہ سب سے زیادہ بے رحم تھی۔ جہاں جہاں بھی آنحضرت ؐ یا آپؐ کے مبتعین عبادت کے لیے جاتے وہاں کانٹے بکھیر دیتی۔ اس کی اسی ایذا رسانی کی بدولت اس پر حَمّا لَۃ الحَطَبّ (خاردار لکڑیاں لادکر لانے والی) کالقب نازل ہوا ۱؎۔

ان تمام آزمائشوں کے درمیان آنحضرت ؐ کے قدم نہ ڈگمگائے۔ آپؐ کو اپنی رسالت پر جو کامل اعتماد تھا اس کی بدولت، آپؐ ثابت قدمی سے اپنے کام میں مصروف رہے۔ کئی مرتبہ قریش کے ہاتھوں آپؐ کی جان کو خطرہ لاحق ہوا۔ ایک مرتبہ آپؐ نے ان کے قاتلانہ غضب کو اپنی طبیعت کی نرمی اور صبر و تحمل سے فرد کیا، لیکن ظلم و ستم نے دین حق کو اور بھی تقویت بخشی۔ یہ مشہور مقولہ کہ ”شہداء کا خون کلیسا کا بیج ہے“۔ صرف دین عیسوی پر ہی صادق نہیں آتا۔ قریش نے آنحضرت ؐ پر جو سختیاں کیں اور ان سے جو شدید تعصب روا رکھا، اسے دیکھ کر عبدالمطلب کے سب سے چھوٹے بیٹے حمزہ ؓ جو سپہ گری میں اپنا حریف نہ رکھتے تھے،دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے۔یہ بہادر فراخ دل اور راست باز سپاہی جس کی شمشیر صف شکن سے تمام قریش کازہرہ آب ہوتا تھا، انہی دنو ں آنحضرت ؐ کی خدمت میں حاضر ہوکر ایمان لایا، اور اسلام کاایک جاں باز پیرو بن گیا۔ بالآخر اس نے اسلام پر اپنی جان قربان کردی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎  سورہئ لہب4

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 اس جبر و تشدّی کے باوجود آنحضرت ؐ اپنی قوم کو، جو فسق و فجور میں بُری طرح مبتلا تھی، اپنی بدکاریوں اور مکروہات کو ترک کرنے کی مسلسل تلقین کرتے رہے۔ آپؐ دل و جان سے تبلیغ میں مشغول رہے۔ آپؐ نے شعلوں کی طرح دہکتے ہوئے الفاظ میں وہ عذاب الہٰی قریش کو یاد دلایا جو حادوثمود کے قبیلوں پر نازل ہوا، جنہوں نے خدا کے رسولوں کی تنبیہوں پر کان نہ دھرے تھے،قومِ نوعؑ کی بدافعالیو پر جو قہر الہٰی نازل ہوا تھا اس کے قصّے بھی آپؐ نے انہیں سنائے۔ آپؐ نے انہیں فطرت کے حیرت انگیز نظارو ں کی، دھوپ کی بھڑ کیلی چمک کی اور رات کی، جب وہ اپنی سیاہ چادر پھیلا دیتی ہے اور دن کی، جب وہ شان وشکوہ سے ظاہر ہوتا ہے، قسمیں دلائیں اور تاکید کی کہ آپ کی تنبیہوں کو سنیں تاکہ وہ اسی طرح کی تباہی میں مبتلا نہ ہوجائیں۔آپؐ نے انہیں یوم الحساب سے ڈرایا، جب وہ تمام اعمال جو انسان نے اس دنیا میں کئے ہیں منقصف ازلی کے روبرو تولے جائیں گے، جب ان بچیوں سے جنہیں زندہ گاڑ دیا گیا تھا پوچھا جائے گاکہ انہیں کس جرم کی پاداش میں ہلاک کیا گیا، جب زمین و آسمان تہہ کر دیئے جائیں گے اور جب خدا کے سوا کوئی نزدیک نہ ہوگا۔ آپؐ نے انہیں عقبیٰ کی جزا و سزا کاحال سنایا اور ان مادہ پرست لوگوں کی آنکھوں کے سامنے جنّت کی لذتوں اور جہنم کی عقوبتوں کا مرقّع پیش کیا۔ آپؐ نے انہیں بتایا کہ منکرین کی ”مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص اندھری رات میں آگ جلائے اور جب اس کے ارد گرد کی تمام چیزیں چمک اٹھیں تو خدا روشنی کو سلب کرلے اور اسے اندھیرے میں چھوڑ دے۔پھر وہ کچھ نہیں دیکھ سکتے۱؎“

”وہ بہرے گونگے اور اندھے ہیں اور اس لیے کبھی راہِ راست پر نہیں آسکتے“۔

”وہ ان لوگوں کی طرح ہیں جو اس وقت جب آسمان کے تاریک بادل انہیں گھیر لیتے ہیں اور بجلی کڑکتی ہے بجلی کی کڑک سے ڈر کر اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتے ہیں۔ خدانے کافروں کو گھیرے میں ڈال رکھا ہے۱؎“۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎  سورہ بقرہ 17تا 20

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

”بجلی اس زور سے چمکتی ہے کہ جیسے ابھی ان کی بینائی اُچک لے گی۔ جب وہ چمکتی ہے تو وہ اس کی روشنی میں آگے بڑھتے ہیں لیکن جب انہیں تاریکی گھیر لیتی ہے تو وہ رک جاتے ہیں۔ اگر اللہ چاہتا تو یقینا انہیں کانوں اور آنکھو ں سے محروم کردیتا۔ بے شک اللہ ہر بات قادر ہے۱؎“۔

”جہاں تک کافروں کا تعلق ہے ان کے اعمال ایسے ہیں جیسے ریگستان میں سراب جسے پیاسا راہگیر پانی سمجھتا ہے، اور جب وہ اس کے قریب پہنچتا ہے تو اسے وہاں کچھ نہیں ملتا، لیکن وہ خدا کو ہر سمت موجود پاتا ہے اور خدا اس کا پورا پورا حساب چکائے گا، کیونکہ خدا سریع الحساب ہے“۔

یا ”(کفار کے اعمال) اس تاریکی کی طرح ہیں جو گہرے سمندر پر پھیلی ہوئی ہے موجوں پر موجیں سوار چلی جاتی ہیں اور اوپر تاریک بادل چھا ئے ہوئے ہیں، یعنی ایک تاریکی کے اوپر دوسری تاریکی، ایسی تاریکی کہ آدمی اگر اپناہاتھ پھیلائے تو اسے نہ دیکھ سکے۔ جسے اللہ نور عطا نہ کرے اسے کوئی نور عطا نہیں کرسکتا ۲؎“۔

ان بیانات سے لوگو ں پرہیبت طاری ہوگئی اور بہت سے لوگ مسلمان ہوگئے۔

Related Article:

Part: 1- The Spirit of Islam Authored by Sayed Ameer Ali: An Introduction- Part 1 سید امیر علی کی تصنیف ،روح اسلام: ایک تعارف

Part: 2 - The Spirit Of Islam Authored By Sayed Ameer Ali: Preface – Pre Islamic Social And Religious Conditions Of The World- Part 2 سید امیر علی کی تصنیف ،روح اسلام: مقدمہ ، اسلام سے پہلے اقوام عالم کے مذہبی اور معاشرتی حالات

Part: 3- The Spirit Of Islam: Preface- Social And Religious Conditions Of the Aryans- Part 3 روح اسلام: بعثت اسلام کے وقت آریہ قوم کے مذہبی ومعاشرتی حالات

Part: 4- Sayed Ammer Ali’s Book ‘The Spirit Of Islam’: Preface- Social And Religious Conditions Of Iran Before Islam- Part 4 روح اسلام: اسلام سے قبل ایران کے مذہبی ومعاشرتی حالات

Part: 5- Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit Of Islam’: Preface- Social And Religious Conditions of the World Before Islam- Part 5 روح اسلام: اسلام سے قبل دنیا کے مذہبی ومعاشرتی حالات

Part: 6 - Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit Of Islam’: Preface- Social And Religious Conditions of the World Before Islam- Part 6 روح اسلام: اسلام سے قبل دنیا کے مذہبی ومعاشرتی حالات

 Part: 7- Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit Of Islam’: Preface- Pre-Islamic Conditions of the Christian World روح اسلام: اسلام سے قبل عیسائی دنیا کی مذہبی حالت

 Part: 8- Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit of Islam’: Preface- Pre-Islamic Conditions of the Christian World-Part 8 روح اسلام: اسلام سے قبل عیسائی دنیا کی مذہبی اور سماجی حالت

Part: 9-  Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit Of Islam’: Preface- Pre-Islamic Conditions of the Arabs-Part 9 روح اسلام: اسلام سے قبل عیسائی دنیا کی مذہبی اور سماجی حالت

Part: 10- Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit of Islam’: Preface- Pre-Islamic Conditions of the Arabs-Part 10 روح اسلام: ماقبل اسلام عرب کی مذہبی اور سماجی حالت 

Part: 11- Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit Of Islam’: Chapter 1- The Messenger of Allah -Part 11 روح اسلام: پہلا باب پیغمبر اسلام کی ابتدائی زندگی

Part: 12- Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit Of Islam’: Chapter 1- The Prophet’s Life and Prophet-hood -Part 12 روح اسلام: رسول اللہ کی زندگی اور رسالت

URL: https://www.newageislam.com/books-documents/urdu-ameer-ali-spirit-part-13/d/123050


New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..