New Age Islam
Sat Oct 12 2024, 12:50 PM

Urdu Section ( 19 Dec 2020, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Pledge of Allegiance Part-11 بیعت ثانیہ کا ذکر جب آپؐ سے بنی عبدالاشہل کے لوگوں نے بیعت کی،ایمان لائے اور آپ ؐسے رفاقت و دفاع کا بھرپور وعدہ کیا

 مولانا ندیم الواجدی

18 دسمبر 2020

اُسید بن حُضیر اور سعد بن معاذؓ

مجلس میں پہنچتے ہی انہوں نے لوگوں سے کہا: واللہ! مجھے تو ان لوگوں کی کوئی بات قابل اعتراض نہیں لگی، یہ سن کر سعد بن معاذ اٹھے، ابوامامہ ان کے خالہ زاد بھائی تھے، رشتوں کی نزاکت کی بنا پر وہ جانا بھی نہیں چاہ رہے تھے، اسید کی تبدیلی کا حال دیکھ کر ان سے رہا نہیں گیا، غصے میں تلملاتے ہوئے اٹھے اور ابوامامہ کے گھر کی طرف بڑھے، لوگ حسبِ معمول وہاں ذکر و عبادت اور تعلیم و قرأت میں مشغول تھے اور ان کے چہروں پر فکرو تردد کے کوئی آثار نہیں تھے، سعد نے اپنے خالہ زاد بھائی ابوامامہ کو عار دلاتے ہوئے کہا کہ یہ تم ہمارے خاندان میں کیا کر رہے ہو؟ ادھر اسعد بن زرارہ نے حضرت مصعبؓ کے کان میں کہا کہ یہ جو شخص آیا ہے بنی عبدالاشہل کا سردار ہے، اگر یہ رام ہوگیا تو اس کی قوم میں کوئی شخص ایسا نہ بچے گا جو مسلمان نہ ہوگیا ہو۔ سعد کے غصے اور سب و شتم کے جواب میں حضرت مصعبؓ نے وہی کہا جو ان کے پیش رو اسید سے کہا تھا کہ کچھ دیر ہمارے پاس بیٹھو اور ہماری بات سنو۔ اس کے بعد فیصلہ کرنا کہ ہمارا یہاں جمع ہونا غلط ہے یا صحیح؟ سعد نے بھی وہی جواب دیا جو اسید نے دیا تھا کہ تمہاری بات مبنی برانصاف ہے، یہ کہہ کر انہوں نے ہتھیار ایک طرف رکھے اور مسلمانوں میں آکر بیٹھ گئے۔ حضرت مصعبؓ نے پہلے تو دین اسلام کے بارے میں کچھ اہم باتیں بتلائیں، پھر قرآن کریم کی کچھ آیات پڑھ کر سنائیں، قرآن سن کر ان کے چہرے کے تاثرات یکسرتبدیل ہوگئے۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ طیش میں تھے ہی نہیں، کہنے لگے یہ تو بڑی اچھی باتیں ہیں، بڑا اچھا اور خوبصورت کلام ہے۔ یہ بتلائو جب تم کسی کو اس دین میں داخل کرتے ہو تو اس کے لئے کون سا طریقہ اختیار کرتے ہو، مسلمان ہونے کے لئے کیا کرنا پڑتا ہے۔ مصعبؓ نے فرمایا اس کے لئے نہا دھوکر پاک و صاف ہونا پڑتا ہے۔ پاک و صاف کپڑے پہننے پڑتے ہیں، کلمۂ لا الٰہ الا اللہ محمدالرسول اللہ پڑھنا پڑتا ہے اور دو رکعتیں پڑھنی ہوتی ہیں، سعد اٹھے، غسل کیا، کپڑے پہنے، کلمہ پڑھا اور مسلمان ہوگئے، پھر دو رکعت نماز پڑھی، ہتھیار اٹھائے اور واپس اپنے ڈیرے پر پہنچے۔ اب ان کے ہمراہ خالہ زاد بھائی اُسید بن حضیر بھی تھے۔

لوگ دیکھتے ہی پہچان گئے کہ سعد اس روپ میں واپس نہیں آئے جس روپ میں یہاں سے گئے تھے، پورا رنگ ڈھنگ بدل چکا ہے، مجلس میںپہنچ کر انہوں نے کہا اے بنی عبدالاشہل! تمہارے یہاں میرا کیا مقام ہے؟ لوگوں نے بہ یک زبان کہا کہ آپ ہمارے سردار ہیں، ہم میں سب سے افضل ہیں، سب سے زیادہ صائب الرائے ہیں۔ انہوں نے کہا اگر ایسا ہے تو اچھی طرح سن لو کہ میں تم لوگوں سے اس وقت تک نہ بولوں گا جب تک تم میں کا ایک ایک شخص اللہ اور اس کے رسول پر ایمان نہ لے آئے گا۔ راوی کہتے ہیں کہ بنی عبدالاشہل کا کوئی مرد اور کوئی عورت ایسی نہ تھی جو یہ سن کر مسلمان نہ ہوگئی ہو۔ (عیون الاثر، ۱؍۲۱۲، السیرۃ النبویۃ لابن کثیر، ۲؍۱۸۱)

یثرب میں اشاعت ِ اسلام کا دوسرا مرحلہ

یثرب کے ہر گھر میں اسلام کی روشنی پھیلتی جارہی تھی، لوگ دل سے یہ نیا دین قبول کر رہے تھے، قبولِ اسلام کا جو سلسلہ سُوید بن الصامت سے شروع ہوا تھا وہ ایاس بن معاذ سے ہوتا ہوا، مسلسل آگے کی طرف بڑھ رہا تھا، یہ اہل یثرب کی خوش بختی کے پہلے مرحلے کا آغاز تھا، بعد میں بنی عبدالاشہل کے چھ افراد اور اس کے بعد والے سال میں ان میں سے پانچ افراد کے ساتھ مزید سات افراد جن کا تعلق قبیلۂ خزرج سے تھا مکہ مکرمہ حاضر ہوئے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات اور بیعت کا شرف حاصل کرکے وطن واپس چلے گئے۔ یہی وہ اوّلین سابقین ہیں جن کے ذریعہ اللہ رب العزت نے یثرب کی وادیوں، گھاٹیوں اور کہساروں میں اشاعتِ اسلام کا کام لیا، ان کی کوششوں سے اسلام یثرب میں پھیلتا چلا گیا، ان ہی سابقین اوّلین میں ایک جلیل القدر صحابی ہیں حضرت جابر بن عبداللہ الانصاریؒ۔ وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے وطن مکہ میں دس سال تک لوگوں کوان کے گھروںمیں، بازاروں میں اور میلوں میں جا جا کر اسلام کی دعوت دیتے رہے اور فرماتے رہے من یؤوینی و من ینصرنی حتی ابلغ رسالۃ ربی و لہ الجنۃ کون ہے جو مجھ کو ٹھکانہ دے، کون ہے جو میری مدد کرے تاکہ میں اپنے رب کا پیغام پہنچا سکوں، ایسے شخص کے لئے جو میری اعانت کرے اور مجھے ٹھکانہ دے جنت ہے، مگر کوئی آپ کو ٹھکانہ نہ دیتا تھا اور نہ کوئی آپ کی مدد کرتا تھا، پھر ایسا ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے یثرب سے ہمیں آپ کے پاس پہنچا دیا، ہم نے آپ کی تصدیق کی اور آپ کو ٹھکانہ دیا، ہم میں سے جو شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتا وہ مسلمان ہو کر واپس جاتا، جب مدینے کے گھر گھر میں اسلام پہنچ گیا تو ہم نے مشورہ کیا کہ آخر ہم کب تک اللہ کے رسول کو اس حال میں چھوڑے رکھیں کہ آپ مکہ کے پہاڑوں میں پریشان حال اور خوف زدہ پھرتے رہیں۔ ا س مشورے کے بعد ہم میں سے ستر آدمی حج کے موسم میں مدینے سے مکہ آئے، پھر ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے شعب عقبہ میں ملاقات کا وقت طے کیا، ہم طے شدہ وقت پر ایک ایک دو دو کرکے وہاںپہنچے۔ (مسند احمد بن حنبل، ۲۸؍۴۸۳، رقم الحدیث ۱۳۹۳۴، السنن للبیہقی، ۸؍۱۴۶، المستدرک للحاکم، ۱۰؍۳۴،ر قم الحدیث، ۴۲۲۰)

مسافرانِ یثرب کی بیعت

یہ تمام لوگ؛ جن کی تعداد حضرت جابر بن عبداللہ الانصاریؒ نے ستر (۷۰) اور بعض دیگر صحابہؓ نے کچھ زیادہ بتلائی ہے، عقبہ میںجمع ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے، یہ ملاقات نہایت خفیہ طریقے پر ہوئی۔ قریش مکہ اس سے پوری طرح بے خبر رہے حتیٰ کہ جو غیرمسلم یہودی اور مشرکین ان ستر مسلمانوں کے ساتھ مکہ آئے تھے ان کو بھی اس ملاقات کی سن گن نہ لگی، اس ملاقات میں کیا بات چیت ہوئی اس کا حال حضرت جابر بن عبداللہ الانصاریؓ سے سنئے، فرماتے ہیں: ہم نے عرض کیا: یارسول اللہ! ہم آپ سے بیعت کرنا چاہتے ہیں، بیعت فرما لیجئے۔ آپ نے ارشاد فرمایا: آئو، اس بات پر بیعت کرو کہ تم ہر حال میں میری اطاعت کرو گے، تنگی اور خوش حالی دونوں حالتوںمیں اللہ کی راہ میں خرچ کروگے، ا چھے کاموں کی تلقین کروگے اور برے کاموں سے روکو گے، جو بولوگے اللہ کے لئے بولوگے اور جب میں تمہارے پاس آئوں تو تم میری اسی طرح حفاظت کرو گے جس طرح اپنی جانوں کی اور اپنی بیوی بچوں کی حفاظت کرتے ہو، اگر تم نے اس پر عمل کیا تو تمہارے لئے جنت کی خوش خبری ہے۔ راوی کہتے ہیں یہ سن کر ہم لوگ بیعت کے لئے اٹھنے لگے، اسی اثناء میں اسعد بن زرارہ جو ہم میں سب سے چھوٹے تھے اٹھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ تھام کر کہنے لگے اے اہل یثرب! ذرا ٹھہرو، ہم اس یقین کے ساتھ یہ سفر طے کرکے یہاں تک پہنچے ہیں کہ یہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں،یہاں سے آپ کو نکال کر لے جانے کا مطلب پورے عرب کو چھوڑنا ہے، اس میں تمہارے بہترین لوگ قتل بھی ہوسکتے ہیں اور تمہاری تلواریں بھی میان سے باہر نکل سکتی ہیں۔ ان حالات میں اگر تم نے صبر سے کام لیا تو اللہ تمہیں اس کا اجر دے گا اور اگر تم نے بزدلی دکھائی اور خوف زدہ ہوگئے تو پھر ابھی سے معذرت کردو، مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہارا عذر قبول کرلے گا۔ راوی کہتے ہیں کہ اسعد کی یہ باتیںسن کر ہم نے ان سے کہا: سامنے سے ہٹو اور ہمیں بیعت کرنے دو، خدا کی قسم! ہم یہ بیعت ہر حال میں کریں گے اور کبھی اسے نہیں توڑیں گے۔ چنانچہ ہم نے آپ کے دست مبارک پر بیعت کی اور اس شرط کے ساتھ کی کہ ہمیں اس بیعت پر عمل کرنے کے عوض جنت حاصل ہوگی۔ (حوالۂ سابق)

ایک اور صحابی ہیں جن کا اسم گرامی حضرت کعب بن مالکؓ ہے، وہ بھی عقبہ میں بیعت ثانیہ کے وقت موجود تھے، فرماتے ہیں کہ ہم لوگ حج کے لئے مکہ مکرمہ پہنچے۔ ہم نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کے لئے جگہ اور وقت مقرر کرنے کی درخواست کی، ایام تشریق چل رہے تھے، طے ہوا کہ حج سے فارغ ہونے کے بعد ہم لوگ فلاں شب میں فلاں جگہ حاضر ہو کر زیارت و ملاقات کا شرف حاصل کریں گے۔ ہمارے ساتھ یثرب کے ایک بڑے سردار اور نہایت باوقار شخصیت کے مالک ابوجابر بن عبداللہ بن عمر و بن حرام بھی تھے، ہم نے ان کو بھی ساتھ لے لیا، حالاںکہ دوسرے مشرکین سے ہم نے اپنا معاملہ پوشیدہ رکھا ہوا تھا۔ عبداللہ بن عمرو سے ہم نے کہا: اے ابوجابر! آپ ہمارے بڑے ہیں اور آپ کا شمار قوم کے باعزت لوگوں میں ہوتا ہے، ہم نہیں چاہتے کہ آپ اپنی موجودہ حالت پر رہیں اور جہنم کا ایندھن بنیں، آپ مسلمان ہوجائیں۔ ہم نے انہیں بتلایا کہ آج رات ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کے لئے جانے والے ہیں ، کیا ہی اچھا ہو اگر آپ بھی مسلمان ہو کر ہمارے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوں، ہماری بات سن کر انہوں نے اسلام قبول کرلیا اور ہم سب کے ساتھ وہ بھی بیعت عقبہ میں حاضر ہوئے بلکہ نقیب بھی منتخب ہوئے۔

حضرت کعبؓ فرماتے ہیں کہ حسب معمول اس رات ہم لوگ اپنے ساتھیوں کے ساتھ اپنے ٹھکانے پر سو گئے، جب رات کا تہائی حصہ گزر گیا، تمام مسلمان نہایت خاموشی کے ساتھ خیموں سے نکلے اور چھپتے چھپاتے عقبہ میں پہنچ گئے، ہم تہتر مردتھے، ہمارے ساتھ دو عورتیں بھی تھیں مُنیبہ بنت کعب اوراُم عمارہؓ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بات شروع کی، پہلے آپ نے قرآن کریم کی تلاوت فرمائی، پھر اسلام کی دعوت پیش فرمائی، اس کے بعد فرمایا: میں تم سے اس عہد کے ساتھ بیعت کرتا ہوں کہ تم میری اس طرح حفاظت کروگے جس طرح اپنی عورتوں اور بچوں کی کرتے ہو۔ (سیرت ابن ہشام، ۱؍۳۱۹)

حضرت عباسؓ کی تنبیہ

حضرت عباسؓ بن عبدالمطلب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مشفق چچا تھے، اپنے بھائی حضرت ابوطالب کی وفات کے بعد اگر خاندان کے بڑوں میں سے کوئی آپ کا حد درجہ خیال رکھنے والا تھا تو وہ آپ تھے، ہر وقت سائے کی طرح آپ کے ساتھ رہا کرتے تھے، اگرچہ اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے مگر کیوں کہ انہیں آپ سے محبت تھی اس لئے وہ اسلام کی مخالفت نہیں کرتے تھے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبائل عرب سے ملاقات کیلئے تشریف لے جاتے تو حفاظت کے نقطۂ نظر سے حضرت عباسؓ بھی ساتھ جاتے، جب آپ خانۂ کعبہ میں تشریف رکھتے تب بھی حضرت عباسؓ آپ کے قریب ہی بیٹھے ہوئے نظر آتے تھے۔ حضرت کعب بن مالکؓ بیعت عقبہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جب ہم سب لوگ وہاںجمع ہوگئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کا انتظار کرنے لگے تو آپ تشریف لائے، اس وقت آپ کے ساتھ آ پ کے چچا حضرت عباسؓ بن عبدالمطلب بھی تھے۔ انہوں نے اس وقت تک اسلام قبول نہیں کیا تھا، مگر وہ اپنے بھتیجے کے ساتھ رہا کرتے تھے۔ عقبہ میں بھی وہ ساتھ ہی تشریف لائے اور آنے کے بعد سب سے پہلے گفتگو بھی انہوں نے ہی کی۔ انہوں نے فرمایا: خزرج کے لوگو! سنو، یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، ہمارے دلوں میں اور ہمارے خاندانوں میں ان کا کیا مقام ہے، تم لوگ اس سے اچھی طرح واقف ہو، وہ اپنی قوم میں بھی معزز ہیں اور اپنے وطن میں بھی محترم ہیں، کوئی بھی شخص ان کی ذات کا دشمن نہیں ہے بلکہ اس دین کا دشمن ہے جس کی وہ بات کرتے ہیں، اب تک تو ہم نے ان کی حفاظت کی ہے، اب یہ یہاں سے جانا چاہتے ہیں، ان کا ارادہ تمہارے ساتھ رہنے کا ہے۔ میں تم سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ کوئی بھی وعدہ کرنے سے پہلے اچھی طرح سوچ لو کہ جو وعدے تم کر رہے ہو یا کرنے والے ہو ان کو پورا بھی کرسکتے ہو یا نہیں؟ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت سے دشمن ہیں، ان کو دشمنوں سے محفوظ رکھنا تمہاری ذمہ داری ہوگی، کیا تم اس ذمہ داری کو پورا کر سکتے ہو؟ اگر تم ان کویہاں سے لے گئے، پھر ان کو چھوڑ کر الگ ہوگئے اور ان کو ذلیل و رسوا کردیا تو یہ اچھی بات نہ ہوگی، اگر تم ایسا کرنے والے ہو تو ان کو ابھی چھوڑ کر چلے جائو، اب تو وہ عزت و حفاظت کے ساتھ اپنی قوم میںہیں اور اپنے وطن میں ہیں۔(جاری)

nadimulwajidi@gmail.com

18 دسمبر 2020،بشکریہ:انقلاب، نئی دہلی

Related Article

Part: 1- I Was Taken to the Skies Where the Sound Of Writing with a Pen Was Coming (Part-1) مجھے اوپر لے جایا گیا یہاں تک کہ میں ایسی جگہ پہنچا جہاں قلم سے لکھنے کی آوازیں آرہی تھیں

Part: 2- Umm Hani! ام ہانی! میں نے تم لوگوں کے ساتھ عشاء کی نماز پڑھی جیسا کہ تم نے دیکھا، پھرمیں بیت المقدس پہنچا اور اس میں نماز پڑھی، پھر اب صبح میں تم لوگوں کے ساتھ نماز پڑھی جیسا کہ تم دیکھ رہی ہو

Part: 3 - Allah Brought Bait ul Muqaddas before Me and I Explained its Signs اللہ نے بیت المقدس کو میرے روبرو کردیااور میں نے اس کی نشانیاں بیان کیں

Part: 4- That Was A Journey Of Total Awakening وہ سراسر بیداری کا سفر تھا، جس میں آپؐ کو جسم اور روح کے ساتھ لے جایا گیا تھا

Part: 5- The infinite power of Allah Almighty and the rational proof of Mi'raj رب العالمین کی لامتناہی قدرت اور سفر معراج کی عقلی دلیل

Part: 6- The Reward of 'Meraj' Was Given by Allah Only to the Prophet معراج کا انعام رب العالمین کی طرف سے عطیۂ خاص تھا جو صرف آپؐ کو عطا کیا گیا

Part: 7- Adjective of Worship مجھے صفت ِ عبدیت زیادہ پسند اور عبد کا لقب زیادہ محبوب ہے

Part:-8- Prophet Used To Be More Active Than Ever In Preaching Islam During Hajj رسولؐ اللہ ہر موسمِ حج میں اسلام کی اشاعت اور تبلیغ کیلئے پہلے سے زیادہ متحرک ہوجاتے

Part: 9- You Will Soon See That Allah Will Make You Inheritors Of The Land And Property Of Arabia تم بہت جلد دیکھو گے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں کسریٰ اور عرب کی زمین اور اموال کا وارث بنا دیگا

Part: 10- The Prophet That the Jews Used To Frighten Us With یہ وہی نبی ہیں جن کا ذکر کرکے یہودی ہمیں ڈراتے رہتے ہیں

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/pledge-allegiance-part-11-/d/123808

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism 

Loading..

Loading..