مولانا ندیم الواجدی
25 دسمبر 2020
حضرت عباسؓ کی تنبیہ
لوگوں نے غور سے یہ باتیں سنیں
اور کہا: ’’اے عباسؓ! ہم نے سن لیا اور ہم سمجھ بھی گئے کہ آپ کیا کہنا چاہتے
ہیں، ہماری درخواست ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ ارشاد فرمائیں اور وہ
اپنے بارے میں اور اپنے رب کے بارے میں جو کچھ ہم سے چاہتے ہیں اس پر روشنی
ڈالیں۔‘‘
اس گفتگو کے بعد رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے تو قرآن کریم کی تلاوت فرمائی، پھر اسلام کے
متعلق کچھ ارشاد فرمایا اور لوگوں کو اس دین میں داخل ہونے کی ترغیب دی۔ اس کے بعد
بیعت کرتے ہوئے فرمایا کہ میں تم سے اس عہد پر بیعت لیتا ہوںکہ تم میری اس طرح سے
حفاظت کرو گے جس طرح اپنے اہل و عیال کی کرتے ہو۔ براء بن معرورؓ نے عرض کیا، کیوں
نہیں یارسولؐ اللہ! اس ذات پاک کی قسم جس نے آپؐ کو حق کے ساتھ معبوث فرمایا ہے
ہم آپؐ کی اسی طرح حفاظت کریں گے جس طرح ہم اپنی کرتے ہیں، آپؐ ہم سے عہد لے
لیں، یارسولؐ اللہ! ہم جنگ کی گود میں پلے بڑھے ہیں اور تیر و تفنگ اور تلواریں
ہمارے کھلونے ہیں، ہمیں جنگوںمیں حصہ لینے کا جنون اور شوق وراثت میں ملا ہے۔‘‘
ابھی براءؓ کی باتیں جاری ہی تھیںکہ ابوالہیثمؓ بن التیہان نے قطع کلام کرتے ہوئے
کہا: یارسولؐ اللہ! ہم یہود کے ساتھ رہتے ہیں اور فی الوقت ان کے ساتھ ہمارا اتحا
قائم ہے لیکن جب ہم آپؐ کا ساتھ دیں گے
تویہودیوں سے ہماری دوستی ختم ہوجائے گی، ہم دشمن بن کر ان کے ساتھ برسر پیکار
رہیں گے، ان جنگوں میں فتح و نصرت آپؐ کے قدم چومے گی اور آپ دشمنوں پر غالب
آجائیں گے۔ اس صورت میں کیا آپؐ ہمیں چھوڑ کر اپنی قوم کے پاس واپس چلے جائیں گے
یا ہمارے ساتھ رہیں گے؟‘‘ ابوالہیثمؓ کی با ت سن رسول اللہ ﷺ مسکرائے اور فرمایا:
’’تمہارا خون میرا خون ہے، تمہاری عزت میری عزت ہے، تمہاری جان میری جان ہے، میں
تم سے ہوں اور تم مجھ سے ہو، جس سے تم لڑوگے اس سے میں لڑوں گا اور جس سے تمہاری
دوستی ہوگی اس سے میری دوستی ہوگی۔‘‘ اس کے بعد آپؐ نے فرمایا: ’’تم لوگ اپنے میں
سے بارہ آدمی منتخب کرکے مجھے دو، یہ بارہ افراد اپنی قوم کے نگہبان ہوںگے۔
چنانچہ انہوں نے بارہ آدمی منتخب کئے، نو
(۹) خزرج
کے اور تین (۳) اوس
کے۔ (مسند احمد بن حنبل ۳؍۳۲۲، صحیح ابن حبان، ۱۶۸۶، البدایہ النہایہ، ۳؍۱۶۰)
ایک انصاریؓ صحابی کی حق
گوئی
حضرت عاصم بن قتادہؓ کہتے
ہیں کہ جب تمام حضرات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کرنے کے لئے جمع ہوگئے
تو عباس بن عبادہ بن فضلۃ الانصاریؓ نے خزرج کے لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:’’
ٹھہرو! پہلے میری بات غور سے سن لو، تمہیں معلوم ہے کہ تم ان صاحب (مراد رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم ) سے کن باتوں پر بیعت کرنے جارہے ہو؟‘‘ انہوں نے کہا: ’’ہاں
ہمیں معلوم ہے۔‘‘ عباسؓ نے کہا کہ ’’تم گوروں اور کالوں سے جنگ کرنے پر بیعت کرر
ہے ہو۔ اگر تم اپنے اموال کی تباہی وبربادی اور اشرافِ قوم کے قتل کو مصیبت سمجھنے
والے ہو تو تمہارا یہ فعل دنیا و آخرت میں ذلت و رسوائی کا سبب ہوگا اور اگر تم
نے مال و دولت کی بربادی اور جانوں کے اتلاف و ضیاع کی کوئی پروا نہیں کی تو اس
میں تمہارے لئے دنیا و آخرت کی خیر اور بھلائی ہے۔ اگر تمہیں اپنی جانیں اور اپنے
مال عزیز ہیں تو اس راستے کو چھوڑ دو اور ابھی واپس ہوجائو اور اگر جان و مال کے
مقابلہ میں آخرت عزیز ہے تو اس راستے پر
چلو۔‘‘ سب لوگوں نے کہا: ’’یارسولؐ اللہ! ہمیں جان و مال کی کوئی
پروا نہیں، بس یہ بتلادیجئے کہ ہمیں اس کے
بدلے میں کیا ملنے والا ہے۔‘‘ آپؐ نے فرمایا: ’’جنت!‘‘ لوگوں نے کہا: ’’اچھا:
ایسا ہے تو یارسولؐ اللہ اپنا ہاتھ بڑھائیے۔‘‘ آپؐ نے اپنا دست مبارک بڑھایا،
تمام حاضرین نے بیعت کی۔ (تاریخ الطبری، ۱؍۵۶۳، الہدایہ والنہایہ، ۳؍۱۶۲، مسند احمد حنبل، ۴؍۱۱۹)
سب سے پہلی بیعت
بنو النجار کہتے ہیں کہ
حاضرین میں سب سے پہلے جس شخص نے بیعت کرنے کا شرف پایا وہ ابوامامہ اسعدؓ بن
زرارہ ہیں، بنوعبدالاشہل نے ابوالہیثمؓ بن التیہان کا نام لیا ہے اور حضرت کعبؓ بن
مالک کے حوالے سے یہ نقل کیا گیا ہے کہ سب سے پہلے حضرت براءؓ بن معرور نے بیعت
کی، پھر قوم کے دیگر افراد نے۔ کعب بن مالکؓ یہ بھی فرماتے ہیں کہ جب ہم بیعت سے
فارغ ہوگئے تو شیطان گھاٹی کے اوپر سے چیخا، اتنی بلند آواز میں نے آج سے پہلے
کبھی نہیںسنی تھی، وہ چلا چلا کر کہہ رہا تھا اے گھروںمیں رہنے والو، کیا تمہیں اس
مُذمّم (قابلِ مذمت شخص) (نعوذ باللہ) اور اس کے ساتھ بے دین والے لوگوں کی کچھ
پروا ہے، یہ لوگ تم سے جنگ کے لئے یہاں جمع ہوئے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم نے ارشاد فرمایا: یہ اس گھاٹی کے شیطان ازیب کا بیٹا ہے، پھر آپؐ نے شیطان
کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا: اے دشمن خدا! سن لے، میں تیری سرکوبی کے لئے بھی فرصت
نکالوں گا، اس کے بعد آپؐ نے جملہ حاضرین سے فرمایا: ’’سب لوگ اپنے اپنے
ٹھکانوںکی طرف واپس چلے جائیں۔‘‘ عباسؓ بن عبادہ بن فضلہ کہنے لگے: خدا کی قسم
یارسولؐ اللہ! اگر آپ فرمائیں تو ہم کل ہی منیٰ والوں پر تلواریں لے کر ٹوٹ پڑیں۔
آپؐ نے فرمایا: ہمیں اس کا حکم نہیں دیا گیا ہے۔ اب تم اپنی سواریوں کی طرف چلے
جائو۔ چنانچہ سب لوگ جس طرح ایک ایک دو دو کرکے آئے تھے اس طرح آہستہ روی اور
خاموشی کے ساتھ اپنے اپنے ٹھکانوں کی طرف چلے گئے اور رات بھر سوتے رہے۔ (المستدرک
للحاکم، ۳؍۱۸۱، سیرۃ ابن ہشام، ۱؍۳۲۴)
بارہ نقیبوں کا انتخاب
اس اجتماع میں ایک اہم
واقعہ یہ پیش آیا کہ اوس و خزرج میں سے بارہ نقیبوں کا انتخاب کیا گیا، ان بارہ
افراد کے اسماء گرامی حسب ذیل ہیں: قبیلہ اوس میں سے (۱)اُسید بن حُضیرؓ (۲) سعد بن خیثمہؓ (۳) رفاعۃ بن عبدالمنذر۔
قبیلۂ خزرج میں سے: (۱) ابوامامہ
اسعد بن زرارہ (۲) سعد
بن الربیع (۳) عبداللہ بن رواحہ (۴) رافع بن مالک بن عجلان (۵) براء بن معرور بن صخر (۶) عبداللہ بن عمرو بن حرام
(۷)عبادۃ
بن الصامت (۸) سعد
بن عبادہ، اور (۹) منذر بن عمرو بن خنیس۔
نقیبوں کے انتخاب اور
تقرری سے قبل رسولؐ اللہ نے لوگوں سے فرمایا کہ تم بارہ آدمی پیش کرو، یہ لوگ
تمہارے اُمور کے نگراں ہوں گے، لوگوں نے حکم کی تعمیل کی۔ ایک روایت میں یہ بھی ہے
کہ یہ انتخاب منجانب اللہ ہوا۔ انتخاب سے قبل رسولؐ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے
ارشاد فرمایا کہ تم میں سے کوئی شخص یہ خیال نہ کرے کہ مجھے نقیب نہیں بنایا گیا،
اس لئے کہ میں اللہ کے حکم سے نقیب مقرر کروں گا، اس وقت حضرت جبریلؑ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک بیٹھے ہوئے
تھے اور ایک ایک شخص کی طرف اشارہ کرکے بتلا رہے تھے کہ اس کو نقیب بنائیں۔ آپؐ
نے یہ بھی فرمایا کہ موسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل میں سے بارہ نقیب منتخب
فرمائے تھے، اسی طرح میں بھی جبریلؑ کے اشارے سے بارہ نقیب منتخب کرتاہوں۔ (تاریخ
الطبری، ۱؍۵۶۲، البدایہ والنہایہ، ۳؍۱۶۲، الرو ض الانف، ۱؍۲۷۷)
دشمنوں کی تلملاہٹ
راوی کہتے ہیں: صبح ہوتے
ہوتے یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح مکہ مکرمہ کے گلی کوچوںمیں پھیل گئی کہ رات کے
اندھیرے میں یثرب کے حاجیوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی ہے اور کچھ
عہد و پیمان بھی کئے، بہت سے مشرکین مکہ یہ خبر سن کر ہمارے خیموں کی طرف آئے اور
کہنے لگے: اے بنو خزرج! ہمیں پتہ چلا ہے کہ تم لوگ ہمارے آدمی سے ملے ہو اور تم
نے یہ پروگرام بنایا ہے کہ انہیں یہاں سے نکال کر اپنے ساتھ لے جائو اور تم نے
ہمارے ساتھ جنگ کرنے کا بھی کوئی معاہدہ کیاہے۔ اگر ایسا ہے تو اس سے بڑھ کر دشمنی
کی کوئی صورت نہیں ہوسکتی جو تم نے اختیار کی ہے۔ قافلے میں جو لوگ مسلمان تھے وہ
خاموشی کے ساتھ ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے اور اشاروں ہی ا شاروںمیں ایک دوسرے
کو یہ بھی تلقین کرنے لگے کہ ہرگز کوئی شخص رات کا راز فاش نہ کرے، البتہ جو لوگ
ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے وہ قسمیں کھا کھا کر یقین دلانے لگے کہ ہم تو رات بھر
اپنے خیموں میں پڑے سوتے رہے، ایسا کوئی واقعہ رات میں پیش ہی نہیں آیا، نہ ہماری
آپ کے آدمی سے کوئی ملاقات ہوئی اور نہ کسی قسم کا کوئی عہد و پیمان ہوا، آپ
لوگ اطمینان رکھیں۔ ہمارے اور آپ کے درمیان امن اور مؤدت کا رشتہ صدیوں سے قائم
ہے، ہم اسے جنگ کے ذریعے ختم کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ قافلے کے غیر مسلم
شرکاء نے جو کچھ کہا وہ سچ بھی تھا، کیوںکہ وہ بے چارے تو اس ملاقات سے بالکل بے
خبر تھے۔ مشرکین کے سردار جن میں حارث بن ہشام بن المغیرہ پیش پیش تھا مطمئن ہو کر
واپس چلے گئے۔ مگر حقیقت میں یہ وقتی اطمینان تھا، کچھ ہی وقت گزرا تھا کہ مکہ والوں
کو حقیقت کا پتہ چل گیا، بتلانے والوں نے ایک ایک بات ان کے گوش گزار کردی، مشرکین
مکہ غصے سے تلملا اٹھے، اُلٹے پائوں وادی منیٰ پہنچے، دیکھا تو یثرب کا قافلہ کوچ
کرچکا تھا، تعاقب کیا۔ حضرت سعد ابن عبادہ جو عقبہ کی بیعت میں پیش پیش تھے اور
نقیب بھی مقرر کئے گئے تھے پیچھے رہ گئے تھے۔ مشرکین نے ان کو پکڑ لیا، ان کی
مشکیں کس دیں اور زمین پر گھسیٹتے ہوئے ان کو مکے لے آئے اور انہیں مارنے پیٹنے
لگے مگر وہ بھی پکے تھے، خاموشی کے ساتھ پٹتے رہے۔ اسلام اور پیغمبر اسلام کے خلاف
ان کی زبان سے ایک لفظ نہ نکلا، یہ پہلی آزمائش تھی جو دین کی راہ میں کسی انصاری
مسلمان کو پیش آئی۔ اللہ نے انہیں ثابت قدم رکھا، سعد پر ظلم کی خبر حارث بن وہب
اور جبیر بن مطعم کو ملی تو یہ دونوں دوڑتے ہوئے آئے اور انہیں ظالموں سے آزاد
کرایا۔ دراصل یہ دونوں سردارانِ قریش شام کی طرف آتے جاتے یثرب میں حضرت سعد بن
عبادہ کی ضیافت سے مستفید بھی ہوتے تھے اور اپنا مالِ تجارت ان ہی کی نگرانی میں
لے کر یثرب سے گزرتے تھے۔ (سیرت بن ہشام، ۱؍۳۲۵)
مسلمانوں کی واپسی
بیعت عقبہ کے بعد جو ایام
تشریق کے آخری دن ہوئی تھی، حجاج اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے، یثرب کا قافلہ بھی،
جس میں ستر سے زیادہ مسلمان مرد اور خواتین تھیں، واپس چلا گیا۔ ان مسلمانوں میں
سے ہر ایک کے دل میں نئے دین کے تئیں ایک ولولہ اور ایک جذبہ تھا اور وہ ولولہ یہ
تھا کہ اب وہ وطن پہنچ کر اس دین کی اشاعت میں لگیں گے اور اپنی زندگی کا ایک ایک
لمحہ اسلام اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نصرت و حفاظت میں لگائیں گے۔
مستقبل کی تاریخ نے اس جذبے کی حقانیت کو مجسم شکل میں ہمارے سامنے رکھا۔ بیعت
عقبہ میں جو ستر لوگ شریک تھے اگر ہم ان کے حالات زندگی کا مطالعہ کریں تو ان میں
سے ہر شخص اسلام کا پرجوش داعی اور مبلغ نظر آتاہے، ان میں ایک تہائی سے زیادہ
لوگ وہ ہیں جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں یا آپؐ کے وصال کے بعد مختلف غزوات میں کفار سے لڑتے
ہوئے اپنی جانیں قربان کردیں اور تقریباً نصف لوگ وہ ہیں جنہوں نے آپ صلی اللہ
علیہ وسلم کے ساتھ تمام غزوات میں شرکت کی اور بدر میں تو ان میں سے اکثر لوگ شریک
ہوئے۔ حقیقت یہ ہے کہ انصار صحابہؓ نے اپنے عہد کو ہر طرح پورا کرکے اور ہر وعدے
کو نباہ کر دکھلایا، کچھ شہادت کے رتبے پر فائز ہوئے اور کچھ زندہ رہ کر اسلام کی
خدمت میں لگے رہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ میں بھی اور آپؐ کی وفات
کے بعد بھی ان لوگوں نے ہر ایسے غزوے اور
ہر ایسی جنگ میں شرکت کی جو اسلام اور غیر مسلموں کے درمیان لڑی گئی، یہ
لوگ ہر مرحلے پر ثابت قدم رہے۔ انہوں نے ہر چیلنج کا مقابلہ کیا، ان سب کی ایک ہی
طلب اور خواہش تھی اور وہ تھی جنت، اور ایک ہی مقصد تھا اور وہ تھا حصولِ مغفرت۔
ایسے ہی لوگوں سے اسلام کی تاریخ کے صفحات درخشاں ہیں اور ایسے ہی جاں بازوں اور
وفاداروں کے انفاس کی خوشبو سے یثرب کی وادیاں آج تک مہک رہی ہیں۔(جاری)
nadimulwajidi@gmail.com
25 دسمبر 2020،بشکریہ:انقلاب، نئی دہلی
Related
Article
Part: 7- Adjective of Worship مجھے صفت ِ عبدیت زیادہ
پسند اور عبد کا لقب زیادہ محبوب ہے
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/blood-blood-honour-honour-soul-part-12/d/123905
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism