بدر الدجیٰ رضوی مصباحی
قسط (9)
5 مئی 2021
(13) إِنَّمَا النَّسِيءُ زِيَادَةٌ فِي
الْكُفْرِ ۖ يُضَلُّ بِهِ الَّذِينَ كَفَرُوا يُحِلُّونَهُ عَامًا
وَيُحَرِّمُونَهُ عَامًا لِّيُوَاطِئُوا عِدَّةَ مَا حَرَّمَ اللَّهُ فَيُحِلُّوا
مَا حَرَّمَ اللَّهُ ۚ زُيِّنَ لَهُمْ سُوءُ أَعْمَالِهِمْ ۗ وَاللَّهُ لَا
يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ [التوبہ،
آیت37]
ترجمہ: ‘‘ان کا مہینے پیچھے ہٹانا
نہیں مگر اور کفر میں بڑھنا اس سے کافر بہکائے جاتے ہیں ایک برس اسے حلال ٹھہراتے
ہیں اور دوسرے برس اسے حرام مانتے ہیں کہ اس گنتی کے برابر ہو جائیں جو اللہ نے
حرام فرمائی اور اللہ کے حرام کیے ہوئے حلال کر لیں ، ان کے برے کام ان کی آنکھوں
میں بھلے لگتے ہیں ، اور اللہ کافروں کو راہ نہیں دیتا’’۔ (کنز الایمان)
یہاں پر سب سے پہلے ضروری
ہے کہ "النسئ" کے لغوی اور اصطلاحی معنیٰ و مفہوم پر روشنی ڈالی جاے۔
"النسئ" کے لغوی معنیٰ میں دو قول ہے : (1) النسئ مصدر
ہے اور یہ "انساء" کے معنیٰ میں ہے یعنی کسی شے کو اس کی اصل جگہ سے
مؤخر کردینا، پیچھے ہٹا دینا، جب کوئی کسی شے کو مؤخر کردے تو بولا جاتا ہے: نسأہ
نسأ و نساء ونسیئا جیسے: مس مساً ومساساً و مسیساً اسی طرح اگر کوئی اونٹ کو حوض
سے پیچھے کردے، ہٹادے تو وہ کہے گا: "نسأت الابل عن الحوض" میں نے اونٹ
کو حوض سے ہٹا دیا، پیچھے کردیا۔ یہ "یا" کی تخفیف اور بغیر ہمزہ کے "یا" کی
تشدید کے ساتھ بھی مروی ہے۔
(2) النسئ : اس کی اصل زیادت
سے ہے، جب کوئی وقت میں اضافہ کردے تو بولا جاتا ہے: "نسأ فی الاجل و
أنسأ" اسی طرح اگر کسی نے دودھ میں پانی ملا کر اسے بڑھا دیا تو بولا جاتا
ہے: "نسأ الماء فی اللبن"
اونٹنی کے لیے بولا جاتا ہے: "نسأتھا" میں نے اسے جھڑکا تاکہ وہ
اپنی رفتار تیز کردے، بڑھا دے۔ حاصل یہ ہے کہ ہر وہ زیادت جو کسی شے میں کی جائے
وہ "نسئ" ہے
واحدی کے نزدیک قول
اول ہی صحیح ہے۔
اصطلاحِ شرع میں اس
کا مفہوم یہ ہے: "تاخیر حرمۃ شھر الی شھر آخر لیست لہ تلک الحرمۃ"
اشھر حرم (ذو القعد ، ذو
الحجہ ، محرم ، رجب ) میں سے کسی مہینے کی حرمت کو اس مہینے سے ہٹا کر ایسے مہینے
میں کردینا جس میں حرمت نہ ہو مثلا: محرم کی حرمت کو ہٹا کر صفر میں کردینا، رجب
کی حرمت کو ہٹا کر شعبان کے مہینے میں کر دینا، علی ھذا القیاس۔[ تفسیرِ کبیر و
تفسیر ابی سعود ماتحت الآیۃ]
"نسئ" کے لغوی اور اصطلاحی معنیٰ و مفہوم کی وضاحت کے
بعد اب ہم آپ کو تقریب فہم کے لیے یہ بتا دیں کہ ہمارے یہاں جو جنتریاں یا کلینڈر
بناے جاتے ہیں وہ عموماً شمسی اور قمری سال اور ان کے ماہ و ایام و تاریخ پر مشتمل
ہوتے ہیں، شمسی اور قمری سال اور ان کے ماہ و ایام میں فرق یہ ہوتا ہے کہ اگر ہم
اپنے کسی معاملے کی بنا قمری مہینوں میں سے کسی ایک مہینے پر رکھیں تو وہ ایک مقام
پر قائم نہیں رہتا ہے، اس میں دور اور گردش ہوتی رہتی ہے، مثلا: روزہ قمری مہینے
رمضان میں فرض ہے، اب یہ گردش کرتے کرتے کبھی موسم گرما، کبھی موسمِ سرما ، اور
کبھی برسات کے موسم میں آجاتا ہے، اسی قیاس پر حج بھی ہے جس کی ادائیگی قمری مہینے
ذو الحجہ کے مخصوص ایام میں فرض ہے؛ لیکن یہ بھی گھومتے گھومتے کبھی بارش کے موسم
میں پڑ جاتا ہے ، کبھی ٹھنڈی ، اور کبھی گرمی
کے موسم میں آجاتا ہے جب کہ شمسی سال میں یہ بات نھیں ہوتی ہے مثلا: ہم اگر
اپنی کوئی خاص تقریب مارچ یا نومبر کے مہینے میں متعین کردیں تو موسم کے تغیرات سے
اس میں کوئی تغیر نھیں ہوتا ہے، ہمیشہ معتدل موسم میں ہی یہ تقریب پڑتی ہے، اس میں
کوئی تبدیلی نھیں ہوتی، ان وجوہات کے پیش نظر قبل اسلام جب کفار اور مشرکینِ عرب
نے یہ دیکھا کہ قمری سال کی رعایت سے حج کرنے میں مصالحِ دنیا میں خلل پیدا ہو رہا
ہے ، سفر میں دشواری اور کاروبارِ تجارت متأثر ہورہا ہے تو انھوں نے قمری سال کی
رعایت ترک کردی اور شمسی سال کا اعتبار کرتے ہوئے کبیسہ( وہ سال جس میں فروری
کامہینہ 29 دن کا ہوتا ہے) کے طرز پر ایک ایسی جنتری بنائی ؛ جس سے انھیں دو چیزوں
کا فائدہ ہوا ایک یہ کہ کچھ قمری سال تو 12 مہینے کے ہی رہے ؛ لیکن کچھ کو انھوں
نے تیرہ ماہ کا کردیا ایک ماہ کا اضافہ اس لیے کیا کہ شمسی سال قمری سال سے ایک
معین مقدار سے زیادہ کا ہوتا ہے، یہاں تک کہ 36 شمسی سال 37 قمری سال کے برابر ہوتا
ہے۔
دوسرا فائدہ یہ ہوا
کہ حج ایک سال ذوالحجہ کے مہینے میں پڑتا تو دوسرے سال بجاے ذو الحجہ کے محرم کے
مہینے میں پڑ جاتا پھر تیسرے سال صفر کے مہینے میں پڑ جاتا اسی قیاس پر حج کا
مہینہ گھومتے گھومتے ایک خاص مدت کے بعد اپنے اصل مہینے ذوالحجہ کی طرف لوٹ آتا،
اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ مہینوں کی تعداد میں اضافہ ہوگیا اور اشھرِ حرم کی
حرمت اپنے اصل مہینوں میں باقی نھیں رہ گئی بلکہ ان سے متأخر ہوکر ان مہینوں میں
چلی گئی جن میں حرمت نھیں تھی۔
اس تفسیر کی رو سے
لفظِ "نسئ" اکثر کے نزدیک تاخیر اور باقیین کے نزدیک زیادت کے معنیٰ کی
طرف مشعر ہے۔
حاصل یہ ہے کہ مشرکینِ
عرب نے مصالحِ دنیا میں خلل کی وجہ سے بنی اسرائیل کی طرح حیلہ گری کرتے ہوئے
عبادت کی بنا بجاے قمری ماہ و سال پر رکھنے کے شمسی ماہ و سال پر رکھ دی ؛ جب کہ
اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کے عہد سے ہی
حکم دے رکھا تھا کہ تمھارے معاملات و عبادات کی بنا قمری ماہ و سال پر ہوگی ؛ لیکن
مشرکینِ عرب نے قمری ماہ و سال کی رعایت میں اللہ
تبارک و تعالیٰ کے حکم پر عمل نھیں کیا اور دنیاوی اغراض و مقاصد اور منفعت
کے حصول کے لیے معاملات سے لے کر عبادات تک میں شمسی ماہ و سال کا اعتبار کرلیا
اور حج کو اشھرِ حرم کے بجاے دوسرے مہینے میں مؤخر کردیا، اس لیے اللہ تبارک و
تعالیٰ نے سورۂ توبہ کی آیت نمبر 36 اور 37 میں ان کی سرزنش کی اور اس عمل کو ان
کے کفر میں زیادتی کا باعث قرار دیا، زیادتی کا باعث اس لیے قرار دیا کہ ان کے
بڑوں نے اپنے متبعین کو یہ باور کرایا کہ ہم جو کرر ہے ہیں یہی واجب ہے اور حج
قمری مہینے کے اعتبار سے واجب نھیں ہے۔ ظاہر ہے یہ علم کے باوجود حکم الٰہی سے
انکار اور اس کی اطاعت سے روگردانی، تمرد اور سرکشی ہے جو باجماعِ مسلمین کفر کی
موجب ہے[تفسیر کبیر تحت الآیۃ]
صاحب تفسیر ابی سعود
"زیادۃ فی الکفر" کی تفسیر میں فرماتے ہیں: "لانہ تحلیل ماحرم اللہ
وتحریم ما حللہ فھو کفر آخر مضمون الی کفرھم "[ تفسیرِ ابی سعود ج: 4، ص: 64]
کفار و مشرکینِ عرب
کا یہ عمل اللہ نے جسے حرام قرار دیا اسے
حلال اور جسے حلال قرار دیا ہے اسے حرام ٹھہرانا ہے، پس یہ ان کا کفر پر کفر ہے۔
بعض مفسرین نے
"اشھر حرم" کی تاخیر کی یہ وجہ بیان کی ہے کہ عرب جنگ و جدال ، قتل و
غارت گری کے خوگر تھے بات بات پر ان میں تلواریں نکل آتی تھیں ؛ جب تک یہ اپنے
حریفوں سے دو دو ہاتھ نھیں کر لیتے تھے ان کے شکم میں ایک طرح مروڑ سا رہتا تھا اس
لیے اشھر حرم کی حرمت کے قائل ہونے کے باوجود پَے درپَے تین ماہ بغیر قتل و غارت
گری کے گھر بیٹھ کر گزارنا ان پر بہت شاق گزرتا تھا اس لیے جب شھر حرام آجاتا اور
یہ حالت جنگ میں ہوتے تو اس مہینے کو یہ لوگ حلال ٹھہرا لیتے اور اس کے بدلے میں
دوسرے مہینے کو جو حرام نہیں ہوتا اسے حرام قرار دے دیتے مثلا اگر یہ لوگ شوال کے
مہینے میں جنگ کر رہے ہوتے اور ذو القعدہ کا مہینہ آجاتا جو اشھر حرم میں داخل ہے
تو اسے یہ لوگ حلال کر لیتے اور اس کے بدلے میں صفر کے مہینے کو حرام قرار دے دیتے
جو حرام نہیں ہے اسی قیاس پر اگر یہ لوگ جمادی الآخرہ کے مہینے میں حالت جنگ میں
ہوتے اور رجب کا مہینہ آجاتا جو اشھر حرم میں داخل ہے تو اسے یہ لوگ حلال کرلیتے
اور اس کے بدلے میں شعبان یا اور کسی مہینے کو حرام ٹھہرا لیتے جو اشھر حرم میں
نہیں داخل ہوتا، اس طرح یہ لوگ اللہ نے جسے حرام قرار دیا ہے اسے حلال اور جسے
حلال قرار دیا ہے اسے حرام ٹھہرایا کرتے۔ حلال کو حرام اس لیے ٹھہراتے تاکہ یہ
اشھر حرم کی گنتی کو پورا کر لیں مثلا ذوالقعدہ، ذو الحجہ، محرم یہ تین مہینے پے
در پے حرام کے ہیں اب اگر یہ لوگ ان میں جنگ کرتے تو تین حلال مہینوں کو اس کے
بدلے میں حرام ٹھہرا لیتے تاکہ معاملہ برابر سرابر پر ختم رہے اس طرح یہ لوگ خود
کو بھی گمراہ کرتے اور اپنے چھوٹوں کو بھی اسی راہ پر چلاتے اور ایسا کرنے میں
انھیں کوئی قباحت نہیں معلوم ہوتی بلکہ اس طرح کے کام انھیں بھلے معلوم ہوتے اور
ظاہر بات ہے کہ جن کی جبلت ایسی ہو اللہ انھیں ہدایت نہیں دیتا ہے؛ کیوں کہ ایسی
ہدایت جو مطلوب و مقصود کی طرف موصل ہو اللہ اسی کو دیتا ہے جو ایسی ہدایت کے لیے
اخلاص کے ساتھ کوشاں رہتا ہے اور اس کے لیے تگ و دو کرتا ہے اور جو ایسی ہدایت
چاہتا ہی نہیں ہے اللہ اسے کیوں کر ہدایت دے گا؟ اسی لیے یہاں پر فرمایا گیا:
"وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْكٰفِرِیْنَ۠"
(التوبہ ۳۷) اس
کی واضح مثال یہ ہے کہ معلم ایسے ہی طالب
علم کو پڑھانے میں انٹرسٹ (interest) رکھتا ہے جو پڑھنا
چاہتا ہے اور محنت و مشقت کے ساتھ بغیر تضییع اوقات کے طلب علم کی راہ پر لگا رہتا
ہے اور جو طالب علم پڑھنا ہی نہیں چاہتا اکثر درس گاہ سے غیر حاضر رہتا ہے درسی
کتابوں سے اسے کوئی مطلب ہی نہیں رہتا ہے ؛ استاذ ایسے طالب علم کو کیوں کر پڑھاۓ
گا اور اس کی رشد و ہدایت ، تعلیم و تربیت میں اسے کیوں کر دلچسپی ہوگی؟
حجۃ الوداع کے موقع پر
حضور سید عالم ﷺ نے جو فصیح و بلیغ خطبہ ارشاد فرمایا وہ بنی نوع انسان کے لیے ایک
جامع منشور اور لائحۂ عمل ہے آپ کا یہ عظیم خطبہ اخلاقیات اور حسنِ معاشرت و مملکت
کا ایک فکر انگیز اور دل آویز مجموعہ ہے اس میں آپ نے اعلان فرمایا کہ :
"نسئ" کے مہینے گئے گزرے ہوۓ
، اب مہینوں کے اوقات کی وضع الہی کے مطابق حفاظت کی جاے گی اور کوئی مہینہ اپنی
جگہ سے نہیں ہٹایا جاۓ
گا۔
جاری۔۔۔۔۔
[To be continued]
-------------
مولانا بدر الدجیٰ رضوی
مصباحی، پرنسپل مدرسہ عربیہ اشرفیہ ضیاء العلوم خیرآباد، ضلع مئو، یوپی،
(انڈیا) ایک صوفی مزاج ، بااخلاق ، بلند پایہ مدرس ، عمدہ مصنف ، اچھے
شاعر اور ہر دلعزیز خطیب ہیں۔تدریسی تقریری مصروفیات کے باوجود آپ
کی متعدد کتابیں معرض وجود میں آئیں جن
میں سے بعض مشہور یہ ہیں : ۱) فضیلت
رمضان،۲) زاد
الحرمین ، ۳) مخزن
طب،۴) منطق
پر لکھی گئی زبردست اور معروف کتاب ‘‘ملا حسن’’ کی شرح بنام ‘‘توضیحات احسن’’، ۵) محاضرات
فی حل قطبی تصورات (افاضۃ الرضوی فی حل
میر قطبی)، ۶) تہذیب
الفرائد شرح ‘‘شرح العقائد’’، ۷) اطایب
التھانی فی حل مختصر المعانی ، ۸) شرح
صحیح مسلم
--------
Other Parts of the Articles:
The Verses of
Jihad: Meaning and Context - Part 3 آیات جہاد :معنیٰ و مفہوم ، شانِ نزول، پس منظر
The Verses of
Jihad: Meaning, Denotation, Reason of Revelation and Background- Part 1
The Verses of
Jihad: Meaning, Denotation, Reason of Revelation and Background- Part 2
The Verses of
Jihad: Meaning, Denotation, Reason of Revelation and Background- Part 3
The Verses of
Jihad- Meaning, Denotation, Reason of Revelation and Background- Part 4
The Verses of
Jihad in The Quran - Meaning, Denotation, Reason of Revelation and Background -
Part 5
The Verses of
Jihad in The Quran - Meaning, Denotation, Reason of Revelation and Background -
Part 6
The Verses of
Jihad in Quran: Meaning, Reason of Revelation, Context and Background - Part 7
The Verses of
Jihad in Quran: Meaning, Reason of Revelation, Context and Background - Part 8
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/the-verses-jihad-quran-meaning-part-9/d/124783
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia
in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism