محمد عمار خان ناصر
(قسط چہارم)
عالم عرب کا موقف ۔۔۔ چند
علمی واخلاقی سوالات:
مسجد اقصیٰ کی تولیت کے
حوالے سے مذکورہ دونوں نقطہ ہائے نظر کی کمزوری ہم واضح کرچکے ہیں ،تاہم اختلاف کے
باوجود یہ ماننا چاہئے کہ ان کی غلطی اصلاً علمی ہے او رغلط فہمی کے اسباب بھی بڑی
حد تک قابل فہم ہیں ۔لیکن بے حد افسوس سے یہ کہنا پڑتاہے کہ اس باب میں امت مسلمہ
کے رویے کا ایک پہلو ایسا بھی ہے جس کی مشکل ہی سے کوئی علمی یا اخلاقی توجیہہ کی
جاسکتی ہے۔ذیل میں ہم اس کی کچھ تفصیل کررہے ہیں:
1۔ہیکل سلیمانی کے وجود سے انکار:
اس وقت امت مسلمہ کی
نمائندگی کرنے والے مذہبی وسیاسی رہنماؤں ،صحافیوں اورماہرین تاریخ کی اکثریت سرے
سے ہیکل سلیمانی کے وجود کو ہی تسلیم نہیں کرتی۔ اس کے نزدیک ہیکل کا وجود محض ایک
افسانہ ہے جو یہود نے مسجد اقصیٰ پر قبضہ کرنے کے لیے گھڑلیا ہے۔ یہ خیال نہ ہو کہ
اس خیال کا اظہار سطحی قسم کے غیر معتبر لوگ محض اپنی نجی مجالس میں کردیتے ہیں ۔
نہیں، امرواقعہ یہ ہے کہ اس نقطہ کی وکالت اور ترجمانی کے فرائض مسلم دنیا کے چوٹی
کے مذہبی اور سیاسی رہنما ترین علمی او رابلاغی سطحوں پر کررہے ہیں۔
عالم عرب کے معروف اسکالر
ڈاکٹر یوسف القرضاوی فرماتے ہیں:
‘‘اپنے تمام تر ترقی یافتہ سائنسی، تکنیکی اور انجینئر نگ کے
سازوسامان کے ساتھ وہ تیس سال سے تلاش کررہے ہیں کہ مفروضہ ہیکل سلیمانی کا کوئی
نشان ہی مل جائے لیکن وہ اس میں ناکام ہیں۔ اس نام نہاد ہیکل سلیمانی کے وجود کا
امکان ہی کہاں ہے؟’’(http://www.mkis.org/FatawasResults.asp?Id=2)
فلسطین کے موجودہ مفتی
اعظم عکرمہ صبری صاحب نے 17جنوری2001ء کو جرمن اخبار ڈائی ویلٹ (Die
Welt)
کو انٹرویودیتے ہوئے فرمایا:
‘‘ماضی میں اس مقام پر یہودی ہیکل کے وجود کا کوئی معمولی سا بھی
ثبوت موجود نہیں ہے۔پورے شہر میں کوئی ایک پتھر بھی ایسا نہیں جو یہودی تاریخ
پردلالت کرتا ہو۔ اس کے بالمقابل ہمارا حق بالکل واضح ہے۔ یہ مقام پندرہ صدیوں سے
ہمارا ہے۔ حتیٰ کہ جب صلیبیوں نے اسے فتح کیا تو بھی یہ اقصیٰ ہی رہا او رہم نے
جلد ہی اسے واپس لے لیا۔یہودی تو یہ تک نہیں جانتے کہ ان کے ہیکل کا ٹھیک ٹھیک محل
وقوع کیا تھا اس لیے ہم اس مقام پر سطح زمین کے نیچے یا اس کے اوپر ان کا کوئی حق
تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں’’۔
جب ان سے کہا گیا کہ
ماہرین آثار قدیمہ تو اس پر متفق ہیں کہ مغربی دیوار فی الحقیقت تباہ شدہ ہیکل ہی
کی دیوار ہے تو انہوں نے جواباً فرمایا:
‘‘ دنیا کو دھوکا دینا یہودیوں کا خاص فن ہے ،لیکن وہ ہمیں دھوکا
نہیں دے سکتے۔ مغربی دیوار کے ایک بھی پتھر کا یہودی تاریخ سے کوئی تعلق
نہیں۔یہودیوں کے اس دیوار پر حق جتانے کا مذہبی یا تاریخی طور پر کوئی جواز
نہیں۔مجلس اقوام کی مقرر کردہ کمیٹی نے 1930 ء میں یہودیوں کو یہاں دعا کرنے کی
اجازت صرف ان کو مطمئن کرنے کے لیے دی ،لیکن اس نے یہ ہرگز تسلیم نہیں کیا کہ اس
دیوار پر ان کا کوئی حق ہے’’۔
(http://www.cdn-friends-icej.ca/antiholo/mufti.gtml)
انہوں نے مزید فرمایا کہ:
‘‘ میں نے سناہے کہ تمہارا ہیکل نابلس یا غالباً بیت لحم میں
تھا’’۔
(Makor Rishon,May22,1998 -
http://www.gamla.org.il/)
یریحومیں فلسطینی اتھارٹی
کے ڈائریکٹر آف اسلامک وقف شیخ اسماعیل جمال فرماتے ہیں:
‘‘ اسرائیل کے لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ الاقصیٰ کے نزدیک نہ ان
کا کوئی ہیکل ہے او رنہ اس کے کوئی بچے کھچے آثار۔ قرآن مجید کی رو سے بنی اسرائیل
بیت لحم کے مغرب میں کسی جگہ مقیم تھے کہ یروشلم میں’’۔
(Chicago Jewish Sentinel, May 18, 1995 -
http://www.gamla.org.il/)
فلسطینی رہنما یاسرعرفات
نے 2000 ء میں اسرائیلی وزیر اعظم ایہودباراک کے ساتھ مذاکرات کے دوران میں ہیکل
سلیمانی کے وجود کو تسلیم کرنے سے صاف انکار کردیا۔فلسطینی اخبار‘الحیاۃ الجدیدۃ’،
12 اگست 2000 ء کی رپورٹ کے مطابق انہوں نے کہا :
‘‘ میں ایک مذہبی آدمی ہوں او رمیں اس کی اجازت نہیں دے سکتا کہ
میرے ذکر میں یہ بات لکھی جائے کہ میں نے اس پہاڑی کے بیچے مفروضہ ہیکل کی موجودگی
کو تسلیم کرلیا’’۔ (http://www.la.utexas.ed u/)
رابطہ عالم اسلامی کی طرف
سے 17ربیع الاول1424ھ کو جاری کردہ ایک پریس ریلیز کے مطابق:
‘‘رابطہ کے سیکرٹری جنرل الدکتور عبداللہ بن عبدالمحسن الترکی نے
اس دعوے کو مسترد کیا ہے کہ مسجد اقصیٰ ہیکل سلیمانی کے کھنڈرات کے اوپر قائم ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ تاریخی دستاویزات اسرائیلیوں کے اس دعوے کے بطلان کو ثابت
کرتی ہیں جس کا اعلان وہ مسجد کو گراکر اس کی جگہ ہیکل کی تعمیر کے منصوبوں کی
تکمیل کی غرض سے کرتے رہتے ہیں’’۔
رابطہ عالم اسلامی کے
سرکاری بیانات اور عرب اخبار ات وجرائد میں لکھنے والے کم وبیش تمام اصحاب قلم کی
تحریروں میں ہیکل سلیمانی کاذکر کرتے ہوئے بالعموم ‘ الھیکل المزعوم’ (مفروضہ
ہیکل) کے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں ۔عرب میڈیا کے زیر اثر اب برصغیر کی صحافتی
تحریروں میں بھی اس موقف کی بازگشت سنائی دینے لگی ہے ،حتیٰ کہ دارالعلوم دیوبند
جیسے موقر علمی ادارے کے ترجمان ماہنامہ ‘‘دارالعلوم ’’ کے ایک حالیہ شمارے میں
بھی اسی موقف کی ترجمانی کی گئی ہے۴۹۔
حقائق وواقعات کی رو سے
یہ موقف اس قابل نہیں کہ اس علمی وتاریخی بحث میں اس سے تعرض بھی کیا جائے۔قرآن
وسنت کی تصریحات، مسلمہ تاریخی حقائق ،یہود ونصاریٰ کی مذہبی روایات ، مسلمانوں کے
تاریخی لٹریچر او رمسلم محققین کی تصریحات کی روشنی میں نہ اس بات میں کسی شک و
شبہ کی گنجائش ہے کہ مسجد اقصیٰ دراصل ہیکل سلیمانی ہی ہے، نہ اس دلیل میں کوئی
وزن ہے کہ اثریاتی تحقیق کے نتیجے میں مسجداقصیٰ کے نیچے ہیکل سلیمانی کے کوئی
آثار دریافت نہیں ہوسکے او رنہ اس حسن ظن کے لیے کوئی قرینہ ہے کہ مذکورہ موقف کے
وکلا شاید حقائق سے بے خبر ہیں یا کوئی غلط فہمی انہیں لاحق ہوگئی ہے۔ خود فلسطین
کے مسلم رہنما اسرائیل کے وجود میں آنے او ربیت المقدس پر صہیونی قبضے سے قبل تک
ان تاریخی حقائق کو تسلیم کرتے رہے ہیں اور انہیں جھٹلانے کی جسارت انہوں نے کبھی
نہیں کی، چنانچہ یروشلم پوسٹ کے 26 جنوری2000 کے شمارے میں یروشلم کی سپریم کونسل
کی 1930 ء میں شائع کردہ ایک ٹورسٹ گائیڈ سے چند اقتباسات نقل کیے گئے ہیں جن میں
سے دو حسب ذیل ہیں:
‘‘یہ مقام دنیا کے قدیم ترین مقامات میں سے ہے۔ اس کے ہیکل سلیمانی
ہونے میں اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں اور جیسا کہ عالمی سطح پر مانا جاتاہے، یہی
وہ جگہ ہے جہاں حضرت داؤد نے خدا کے لیے ایک قربان گاہ بنائی اور سوختنی او رامن
کی قربانیاں پیش کیں’’۔
‘‘سلیمان کے اصطبل ’’ کے بارے میں اس کتابچہ میں لکھا ہے:
‘‘اس کمرے کی ابتدائی تاریخ کے بارے میں یقینی طور پر کچھ معلوم
نہیں۔ غالباً اس کی تاریخ ہیکل سلیمانی کی تعمیر کے معاصر ہے .... مورخ یوسفس کے
مطابق 70 عیسوی میں طیطس کے فتح یروشلم کے وقت یہ موجود تھے اور یہودیوں نے اسے
پناہ گاہ کے طور پر استعمال کیا تھا’’۔
دسمبر 1930 ء ہی میں
برطانوی ہائی کمیشن کے سامنے دیوار گریہ کے حوالے سے مسلم نمائندوں نے جو بیان
دیا، اس میں کہا گیا :
‘‘ جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم یروشلم میں تشریف لائے تو قدیم ہیکل
کے مقام کو، جوکہ پہلے ہی مسلمانوں کی عقیدت کا مرکز تھا، مسجد حرایم کے مقابلے
میں مسجداقصیٰ کانام دیا گیا۔ اس وقت مکہ کے لوگ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن
تھے، چنانچہ یروشلم اور بالخصوص ہیکل کا احاطہ ایک مخصوص عرصے کے لیے مسلمانوں
کاپہلا قبلہ قرار پایا’’۔
(http://domino.un.org/unispal.nsf)
یہ نکتہ اب اہل علم کے
لیے ایک کھلے سوال کی حیثیت رکھتاہے کہ عالم عرب کا یہ کم وبیش اجماعی موقف ،جس کو
متعدداکابرعلمائے دین ومفتیان شرع متین کی تائید ونصرت حاصل ہے اور جس کو مسلم
اورعرب میڈیا تسلسل کے ساتھ دہرارہاہے، کتمان حق اور تکذیب آیات اللہ کے زمرے میں
آتا ہے یا نہیں؟
2۔مقامات مقدسہ کی شرعی پوزیشن
مسجد اقصیٰ کی فضیلت او
را سکے مقام ومرتبہ کے متعلق قرآن وحدیث میں متعدد بیانات موجود ہیں، جن میں سے
بنیادی نوعیت کے نصوص کا ذکر سطور بالا میں کیا جاچکا ہے۔ لیکن مسجد اقصیٰ او را
سکے متعلق بعض مقامات کو مسلمانوں کے ‘مقدس’ مقامات ثابت کرنے او رعامۃ المسلمین
میں اس حوالے سے جذباتی فضاپیدا کرنے کے لیے ذرائع ابلاغ کی سطح پر ایسے بہت سے
تصورات کو بھی بلا تمیز فروغ دیا جارہا ہے جو علمی لحاظ سے بالکل بے بنیاد ہیں اور
اکابر اہل علم نے ان کی واضح طور پر تردید کی ہے۔ اس ضمن میں یہاں چند تصریحات کو
نقل کردینا مناسب ہوگا:
1۔ عرب دنیا کے اخبارات وجرائد بالالتزام مسجد اقصیٰ کاذکر
‘‘الحرام الشریف’’ اور ‘‘ثالث الحرمین’’ کے القاب سے کرتے ہیں۔ ‘‘حرم’’ کا لفظ شریعت
کی ایک خاص اصطلاح ہے جس کا مطلب ہے ایسا علاقہ جس کی حرمت وتقدس کو ملحوظ رکھتے
ہوئے اس کے اندر بعض مخصوص پابندیاں عائد کردی جائیں۔ مسجد اقصیٰ کا روئے زمین کی
تیسری افضل ترین مسجد ہونا تو قابل اعتماد روایات سے ثابت ہے،لیکن اس کے ‘‘حرم’’
ہونے کا کوئی ثبوت قرآن وسنت میں موجود نہیں ہے۔ امام ابن تیمیہ اس کی وضاحت کرتے
ہوئے فرماتے ہیں:
‘‘بیت المقدس میں ایسا کوئی مکان یا مقام نہیں جس کا نام حرم ہو
اور نہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قبر اور نہ اس کے علاوہ کوئی اور مقام ہے جسے
حرم کے نام سے موسوم کیا گیا ہو۔ صرف تین مقامات کے متعلق حرم کا لفظ استعمال
ہواہے:
1۔حرم مکہ زادہ اللہ عزاوشرفا۔ اس کے حرم ہونے پر تمام امت مسلمہ
کا اتفاق ہے۔
2۔حرم نبوی۔ جمہور علما کے نزدیک حرم نبوی عیر پہاڑ سے ثور پہاڑ تک
ہے۔ اس کی حد تقریباً بریددر برید ہے۔ جمہور علما جیسے امام مالک، امام شافعی او
رامام احمد کے نزدیک یہ حرم ہے۔ اس سلسلے میں کئی مشہور حدیثیں نبی اکرم صلی اللہ
علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں۔
3۔وج ، طائف کے علاقے میں ایک وادی کا نام ہے۔ اس کے متعلق ایک
حدیث ذکرکی جاتی ہے جو احمد رحمۃ اللہ نے اپنی مسند میں بیان کی ہے، لیکن کتب صحاح
میں مذکورنہیں او راکثر علما کے نزدیک یہ حرم نہیں ۔امام احمد نے اس حدیث کو ضعیف
قرار دیا ہے چنانچہ اس حدیث سے کسی نے حجت نہیں پکڑی۔
مذکورہ بلاتینوں مقامات
کے ماسوا کوئی جگہ حرم نہیں۔ تمام علمائے امت اس مسئلہ میں متفق ہیں، کیونکہ حرم
وہ ہوتا ہے جس جگہ شکار کرنا یا نباتات کو کاٹنا یا اکھاڑ نااللہ نے حرام قرار دیا
ہو، لیکن مذکورہ تینوں مقامات کے سوا اللہ تعالیٰ نے کسی جگہ شکار کرنا یا نباتات
کو اکھاڑنا حرام نہیں دیا’’۔(بحوالہ ماہنامہ ترجمان الحدیث ،اپریل 1981ء،26)
دوسری جگہ فرماتے ہیں:
‘‘دنیا میں کوئی حرم نہیں ہے، بیت المقدس نہ کوئی اور ،سوائے ان
دوحرموں (مکہ اور مدینہ) کے۔ ان کے علاوہ کسی جگہ کو حرم کہنا،جیسا کہ کئی جاہل
لوگ حرم القدس او رحرم الخلیل کہتے ہیں، بالکل غلط ہے کیونکہ یہ دونوں او ران کے
علاوہ کوئی او رجگہ حرم نہیں ہے۔ اس بات پرتمام مسلمانوں کا اتفاق ہے۔ اور وہ حرم
جس کے حرم ہونے پر پوری امت کا اجماع ہے، وہ حرم مکہ ہے۔ رہا مدینہ تو جمہور علما
کے نزدیک اس کا بھی ایک حرم ہے جیساکہ اس بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
کی مشہور احادیث موجود ہیں’’۔ (مجموع الفتاویٰ 26؍117)
عبداللہ بن ہشام انصاری
فرماتے ہیں:
‘‘میں نے اس شہر (بیت المقدس) کے رہاشیوں میں بڑے بڑے لوگوں سے
سناہے کہ وہ ‘‘حرم قدس’’ کا لفظ بولتے ہیں ۔ وہ اس چیز کو حرام قرار دیتے ہیں جسے
اللہ نے حلا ل کہا ہے اور ایسا کہہ کر وہ اللہ پر جھوٹ بولتے ہیں’’۔
(تحصیل الانس الزائر القدس بحوالہ ‘‘فضیلت بیت المقدس اور فلسطین
وشام ’’ 43)
سعودی عرب کی فتویٰ کمیٹی
نے اپنے فتویٰ نمبر 5387 میں لکھا ہے:
‘‘ ہمارے علم میں کوئی اسی وکیل نہیں ہے جس سے یہ پتا چلے کہ مسجد
اقصیٰ بھی مسجد حرام اورمسجد نبوی کی طرح حرم ہے’’۔
(فتاویٰ اللجنتۃ الدائمہ 6؍227بحوالہ
بالا)
2۔قبۃ الصخرۃ ہیکل سلیمانی کی چٹان یعنی قربانی کے پتھر کے اوپر
تعمیر کیا گیا ہے ۔ اس پتھر کو یہود کے قبلہ کی حیثیت حاصل ہے،لیکن اسلامی روایات
میں اس کے لیے کوئی تقدس اورفضیلت ثابت نہیں۔ مستند تاریخی روایات کے مطابق سیدنا
عمر جب مسجد اقصیٰ میں تشریف لائے تو انہوں نے نو مسلم یہودی عالم کعب احبار سے
پوچھا کہ ہمیں نماز کے لیے کون سی جگہ منتخب کرنی چاہئے؟ کعب نے کہا کہ اگر آپ
صخرہ کے پیچھے نماز پڑھیں تو سارا بیت المقدس آپ کے سامنے ہوگا۔ان کا مقصد یہ تھا
کہ اس طرح یہود کے قبلے کی تعظیم بھی ہوجائے گی ۔ اس پر سیدنا عمر نے یہ کہہ کر ان
کی تجویز مسترد کردی کہ : ضاھیت الیھودیۃ یعنی ‘‘ تمہارے ذہن پر ابھی تک یہودی
اثرات موجود ہیں’’۔۵۰
اس پتھر کی تعظیم کا تصور
بعد کے زمانے میں سیاسی اغراض کے تحت باقاعدہ پیدا کیا گیا او راموی خلیفہ
عبدالملک بن مروان نے اس پر ایک نہایت شان دار قبہ تعمیر کرنے کا حکم دیا۔ ولید کے
اس اقدام کے پس منظر پر روشنی ڈالتے ہوئے ابن خلکان لکھتے ہیں:
‘‘جب عبدالملک خلیفہ بنا تو اس نے ابن زبیر کی وجہ سے اہل شام کو
حج کرنے سے روک دیا، کیونکہ ابن زبیر حج کی غرض سے مکہ مکرمہ آنے والے لوگوں سے
لیے بیعت لیتے تھے۔ جب لوگوں کو حج سے روکا گیا تو انہوں نے بہت شور کیا۔ چنانچہ
عبدالملک نے بیت المقدس میں صخرہ کے اوپر عمارت بنا دی اور لوگ عرفہ کے دن یہاں
حاضر ہوکر وقوف کی رسم ادا کرنے لگے’’۔( وفیات الاعیان 3؍72)
امام ابن تیمیہ فرماتے
ہیں:
‘‘صخرہ کے پاس حضرت عمر نے نماز پڑھی نہ صحابہ کرام نے۔نیز خلفائے
راشدین کے زمانے میں اس پر کوئی گنبد نہیں تھا۔ چنانچہ حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت
علی، حضرت معاویہ ، یزید او رمروان کے عہد حکومت میں ننگا تھا۔پھر جب عبدالملک بن
مروان نے ملک شام کو فتح کیا اوراس کے اور ابن زبیر کے مابین اختلاف کی خلیج بڑھ
گئی تو لوگ حج کرکے حضرت عبداللہ بن زبیر کے پاس اکٹھے ہوجاتے تھے۔ یہ بات
عبدالملک کو ناگوار گزری۔ اس نے چاہا کہ لوگوں کو ابن زبیر کے پاس جانے سے روکا
جائے۔ چنانچہ اس نے صخرہ پر ایک قبہ دبنا دیا اور سردی گرمی میں اس پرغلاف دینے کا
رواج شروع کیا تاکہ لوگوں کے دلوں میں بیت المقدس کی زیارت کا شوق پیدا ہو اور ابن
زبیر کے پاس جمع ہونے سے ہٹ جائیں۔ صحابہ کرام اور تابعین میں اہل علم اس صخرہ کی
تعظیم نہیں کرتے تھے ’’۔( بحوالہ ماہنامہ ترجمان الحدیث ،اپریل 1981ء23)
سیاسی اغراض کے تحت کیے
جانے والے اس اقدام کو مذہبی استناد عطا کرنے کے لیے رفتہ رفتہ الصخرۃ کے تقدس
اورفضیلت کے متعلق اوہام وخرافات (Myths) کا ایک مجموعہ وجود
میں آگیا جن کی تردید اکابر اہل علم مسلسل کرتے چلے آرہے ہیں ۔عوام الناس میں
پھیلے ہوئے ان بے بنیاد اوہام اور ان کے متعلق اہل علم کی آرا کو حافظ محمد اسحٰق
زاہد نے ذیل کے اقتباس میں بہت خوبی کے ساتھ جمع کردیا ہے:
‘‘یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ قبۃ الصخرۃ کی الگ کوئی فضیلت نہیں
ہے۔ اگر کوئی فضیلت ہے تو وہ محض اس کے مسجد اقصیٰ کے اندر واقع ہونے کی وجہ سے
ہے۔ کچھ لوگوں نے اس کے متعلق بے بنیاد باتیں پھیلارکھی ہیں، مثلاً یہ کہ:
1۔اس کے اوپر ایک موتی رات کے وقت سورج کی طرح چمکتا تھا ،پھر بخت
نصر نے اسے خراب کردیا تھا۔
2۔ یہ جنت کے پتھروں میں سے ایک ہے۔
3۔زمین کے تمام پانی اسی قبۃ الصخرۃ کے نیچے سے جاری ہوتے ہیں۔
4۔یہ قبہ فضا میں لٹکا ہوا ہے، زمین سے جڑاہوا نہیں۔
5۔اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں اور فرشتوں کی
انگلیوں کے نشانات ہیں۔
6۔یہ اللہ کا زمینی عرش ہے اور خطہ زمین کے عین وسط میں واقع ہے۔
7۔اسی سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج کے لیے آسمانوں کی
طرف لے جایا گیا اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم روانہ ہوئے تو یہ بھی اوپر اٹھ گیا
تھا، لیکن جبریل علیہ السلام نے اسے ٹھہر جانے کا حکم دیا تو یہ ٹھہر گیا۔
8۔قبۃ الصخرۃ کے بارے میں یہ او راس طرح کی دیگر خرافات زبان زد
عام ہیں، جن کا قطعاً کوئی ثبوت نہیں ہے۔ امام ابن القیم رحمۃ اللہ صخرہ کے متعلق
تمام احادیث کو جھوٹا قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
قبۃ الصخرۃ کے بارے میں
یہ اور اس طرح کی دیگر خرافات زبان زد عام ہیں، جن کا قطعاً کوئی ثبوت نہیں ہے۔
امام ابن القیم رحمۃ اللہ صخرہ کے متعلق تمام احادیث کو جھوٹا قرار دیتے ہوئے
لکھتے ہیں:
وکل حدیث فی الصخر ۃ فھو
کذب مفتری والقدم الذی فیھا کذب موضوع مما عملتہ ایدی المزورین الذین یروجون لھا
لیکثر سواد الزائرین ۔ ( المنارالمنیف،87)
‘‘صخرہ کے متعلق تمام احادیث جھوٹی او رمن گھڑت ہیں او راس میں (آپ
صلی اللہ علیہ وسلم کے) قدموں کے جو نشانات بتائے جاتے ہیں ،وہ بھی جھوٹے ہیں اور جھوٹے
لوگوں کی طرف سے بنائے گئے ہیں، اور وہی انہیں مشہور بھی کرتے ہیں تاکہ زائرین کی
تعداد میں اضافہ ہو’’۔
اور عبداللہ بن ہشام
انصاری رقم طراز ہیں:
قدبلغنی ان قوما من
الجھلاء یجنمعون یوم عرفتہ بلمسجد، وان منھم من یطوف بالصخرۃ ،وانھم ینفرون عند
غروب الشمس ، وکل ذلک ضلال واضغاث احلام۔ ( تحصیل الانس الزائر القدس ،ح :64)
‘‘ میرے علم میں یہ بات آئی ہے کہ عرفہ کے روز کچھ جاہل لوگ مسجد
اقصیٰ میں جمع ہوتے ہیں ، اور ان میں سے کچھ لوگ صخرہ کا طواف کرتے ہیں، اورغروب
آفتاب کے وقت واپس چلے جاتے ہیں ، حالانکہ یہ محض گمراہی او راڑتے پھرتے پراگندہ
خیالات ہیں’’۔
اور شیخ ناصر الدین
الالبانی رحمۃ اللہ کہتے ہیں:
الفضیلۃ للمسجد الاقصی
ولیست للصخرۃ ، وما ذکر فیھا لاقیمۃ لہ من الناحیۃ العلمیۃ۔
‘‘ فضیلت صرف مسجد اقصیٰ کی ہے، صخرہ کی نہیں۔ اور اس کے متعلق جو
کچھ ذکر کیا جاتاہے ،اس کی علمی طور پر کوئی قیمت نہیں ہے’’۔
اور سعودی عرب کی فتویٰ
کمیٹی نے بھی لکھا ہے:
ولیست صخرۃ بیت المقدس
معلفۃ فی الفضاء وحولھا ھواء من جمیع نواحیھا بل لا تزال متصلۃ من جانب بالجبل
التی ھی جزء منہ متما سکۃ معہ۔ ( فتاویٰ اللجنۃ الدائمہ :1؍26)
‘‘بیت المقدس کا صخرہ فضا میں لٹکا ہوا ہر گز نہیں کہ اس کے ارد
گرد چاروں طرف ہوا ہی ہو، بلکہ وہ چٹان کے ساتھ ملا ہوا ہے جس کا وہ ایک حصہ ہے’’۔
(فضیلت بیت المقدس او رفلسطین وشام ، 54،56)
3۔مسجد اقصیٰ کی تاریخ کے تحت ہم بتاچکے ہیں کہ 70ء میں ہیکل
سلیمانی کی تباہی میں اس کی صرف مغربی دیوار محفوظ رہ گئی تھی۔اس مذہبی وتاریخی
اہمیت کے پیش نظر اس دیوار کو یہود کے ہاں ایک مقدس ومتبرک مقام کی حیثیت حاصل
ہوگئی اور اس دیوار کی زیارت کے لیے آنے اور اس کے پاس دعا ومناجات اور گریہ وزاری
نے رفتہ رفتہ ان کے ہاں ایک مذہبی رسم کی حیثیت اختیار کرلی۔ یہ حقیقت تاریخی لحاظ
سے بالکل مسلم ہے اور مسلمانوں کے ادوار حکومت میں بھی یہودیوں کے اس حق کو کبھی
چیلنج نہیں کیا گیا۔ تاہم انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کے آغاز میں فلسطین
میں بڑھتے ہوئے صیہونی اثرونفوذ کے باعث یہودیوں نے سابقہ روایت سے ہٹ کر دیوار
گریہ کے پاس اپنے مذہبی معمولات میں اضافہ کرنے اور اس پر قانونی ملکیت کا حق
جتانے کی کوشش کی تو مسلمانوں اور یہودیوں کے مابین تنازعات پیدا ہونے لگے۔ ہم
یہاں اس تنازع کے قانونی اور تاریخی پہلووں سے صرف نظرکرتے ہوئے محض اس دعوے کی
اخلاقی حیثیت کو واضح کرناچاہتے ہیں جس کو دہرانے میں مسلم میڈیا اور عرب سیاسی
ومذہبی راہ نما یک زبان ہیں ، یعنی یہ کہ مغربی دیوار دراصل وہ مقام ہے جس کے ساتھ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم نے سفر معراج کے موقع پر اپنی سواری کے جانور‘ براق’
باندھا تھا، اس لیے یہ مسلمانوں کا ایک مقدس مقام ہے نہ کہ یہودکا ۔مفتی اعظم
فلسطین عکرمہ صبری نے 24 مارچ کو اطالوی اخبار ‘ Le
Republica’
کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا :
بات بالکل صاف ہے :دیوار
گریہ یہودیوں کا مقدس مقام نہیں ہے، یہ تو مسجد کا اٹوٹ انگ ہے۔ ہم اس کودیوار
براق کہتے ہیں، جو اس گھوڑے کانام ہے جس پر سوار ہوکر محمد صلی اللہ علیہ وسلم
یروشلم سے آسمان پر تشریف لے گئے’’۔
(http://www.worldnetdaily.com/)
‘ کل العرب’ میں 18اگست 2000ء کو شائع ہونے و الے ایک بیان میں
انہوں نے کہا :
‘‘دیوار براق کے کسی ایک پتھر کا بھی یہودیت سے کوئی تعلق نہیں ۔
یہودیوں نے اس دیوار کے پاس انیسویں صدی میں دعا مانگنا شروع کی جب ان کے دلوں میں
کئی آرزوئیں پروان چڑھنا شروع ہوگئی تھیں’’۔
(http://www.gamla.org.il/)
10اکتوبر کو وائس آف فلسطین پرنشر ہونے والی ایک تقریر میں یاسر
عرفات نے کہا :
‘‘اس دیوار کا نام مقدس دیوار براق ہے نہ کہ دیوار گریہ۔ ہم اس کو
دیوار گریہ نہیں کہتے ۔1929 ء میں اس مسئلے پرہونے والے ہنگاموں کے بعد شاکمیشن (Shaw
Commission)
نے قرار دیا کہ یہ مسلمانوں کی ایک مقدس دیوار ہے’’۔
(http://www.worldnetdaily.com/)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم کے براق کو باندھنے کا ذکر واقعہ اسراء کی روایات میں موجود ہے۵۱۔ ،لیکن اس جگہ کی تعیین
کا نہ کوئی قرینہ ہے او رنہ مستند مسلم مورخین نے اس کی کوئی کوشش کی ہے۔ خود عہد
صحابہ میں اس ضمن میں اختلاف موجود تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے براق
کو باندھا بھی یا نہیں ۔سیدنا حذیفہ کی رائے یہ تھی کہ :
‘‘ لوگ کہتے ہیں کہ آپ نے اس جانور کو باندھ دیا۔کیوں ؟کیا آپ کو
یہ خدشہ تھا کہ وہ بھاگ جائے گا؟ اسے تو عالم الغیب والشہادۃ نے آپ کیلئے مسخر کیا
تھا’’۔ (ترمذی ،رقم 3147۔مسند احمد، رقم 22243)
بہت بعد میں جب مسجد
اقصیٰ کے حوالے سے طرح طرح کے اوہام وتخیلات رواج پانا شروع ہوئے تو اس تناظر میں
اس کے مختلف مقامات کی تعیین او ران کے بارے میں تقدس کے تصورات پیدا کرنے کی
کوششیں کی گئیں۔ یہ سلسلہ تاحال جاری ہے اور دیوار گریہ کو ‘دیوار براق ’ قرار
دینے کی کوشش بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔بیسویں صدی سے قبل اس بنیاد پر اس دیوار
کے تقدس کا کوئی تصور مسلمانوں کے ہاں نہیں پایا جاتاتھا کہ یہاں رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم نے براق کو باندھا تھا ،بلکہ سولہویں صدی عیسوی کے عثمانی خلیفہ
سلطان سلیم کے بارے میں ثابت ہے کہ اس کے دور سے پہلے ‘‘دیوار گریہ’’ ملبے اور
کوڑے کرکٹ میں دبی ہوئی تھی اور اس کا کوئی نشان تک لوگوں کو معلوم نہ تھا۔ سلطان
سلیم کو اتفاقاً اس کے وجود کا علم ہوا تو اس نے اس جگہ کو صاف کرا کے یہود کو اس
کی زیارت کی اجازت عطا کی۵۲۔
1930 ء میں برطانوی شاہی کمیشن کے سامنے جب فریقین نے اپنااپنا
موقف پیش کیا تو دیوار براق کے حوالے سے یہودیوں نے یہ الزام عائد کیا کہ:
‘‘ہیکل میں داخل ہونے کے لیے محمد نے کون سا راستہ اختیار کیا، اس
کا تعین کبھی نہیں کیا جاسکا او ریہ صرف حالیہ زمانے کی بات ہے کہ مسلمانوں نے یہ
مشہور کرنا شروع کردیا ہے کہ پیغمبر یہاں سے گزرے تھے اور انہوں نے اپنے پروں والے
خچر کو اس دیوار میں لو ہے کے ایک حلقے کے ساتھ باندھ دیاتھا جو اب مسجد براق کا
ایک حصہ ہے۔ نیز حالیہ سالوں تک مسلمان اس دیوار کو دیوار براق بھی نہیں کہتے
تھے۔مسلم اہل حل وعقد نے 1914 ء میں حرم کی جو سرکاری گائیڈشائع کی، اس میں اس
دیوار کے کسی خاص تقدس کاکوئی ذکر نہیں ہے’’۔
اس کے جواب میں مسلم
نمائندے کوئی دلیل دینے کے بجائے صرف یہ دعویٰ دہراکررہ گئے کہ:
‘‘ اس دیوار او راس کے سامنے موجود گزرگاہ کے تقدس کی بنیاد اس
حقیقت پر ہے کہ سفر معراج کے موقع پر پیغمبر اسلام کا پروں والا خچر‘براق’ یہاں
آیا ت ھا او راس کو حرم کی مغربی دیوار کے ساتھ باندھ گیاتھا’’۔
(http://domino.un.org/unispal.nsf)
مذکورہ بالا تمام امور کے
حوالے سے امت مسلمہ کی پوزیشن علمی واخلاقی لحاظ سے ناقابل فہم ہے۔
خلاصہ بحث:
ماسبق میں مسجد اقصیٰ کو
تولیت وتصرف کے حق کے حوالے سے مختلف نقطہ ہائے نظر اور ان کے دلائل کی تنقید
وتنقیح پر مبنی جو بحث ہم نے کی ہے ، اس کا حاصل اہم نکات کی صورت میں درج ذیل ہے:
1۔ قرآن مجید مسلمانوں کی مساجد کے ساتھ ساتھ اہل کتاب کی عبادت
گاہوں کو بھی اللہ کی یاد کے لیے بنائے گئے گھر تسلیم کرتا اور ان کے احترام و
تقدس کو ملحوظ رکھنے کی تلقین کرتاہے۔ مسجد اقصیٰ کو علاوہ بریں یہ خصوصی امتیاز
حاصل ہے کہ اس کی تعمیر ایک جلیل القدر پیغمبر کے ہاتھوں ہوئی او راسے بنی اسرائیل
کے سیکڑوں انبیا ے کرام کے دعوتی تبلیغی مرکز کی حیثیت حاصل رہی ۔اسلام چونکہ تمام
انبیا کو ایک ہی سلسلہ رشد وہدایت سے منسلک مانتا ،سب کی یکساں تعظیم وتکریم کی
تعلیم دیتا اور سب کے آثار وباقیات کے احترام کی تلقین کرتاہے، اس لیے رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد اقصیٰ کا شمار روئے زمین کی تین افضل ترین مساجد میں
کیا اور مسلمانوں کے لیے اس میں نماز پڑھنے کے لیے باقاعدہ سفر کرکے جانے کو مشروع
قرار دیا۔
2۔فتح بیت المقدس کے بعد مسلمانوں نے اس نہایت مقدس اورفضیلت والی
عبادت گاہ کو ، جو صدیوں سے ویران پڑی ہوئی تھی، آباد اور تعمیر کیا۔ قرآن وسنت کی
اصولی تعلیمات کی روشنی میں مسلمانوں کے اس اقدام کی نوعیت خالصتاً احترام وتقدیس
اور تکریم وتعظیم کی تھی نہ کہ استحقاس اور استیثار کی۔ اس کی تولیت کی ذمہ داری
انہوں نے یہود کو اس سے بے دخل کرکے اس پر اپنا حق جتانے کے تصور کے تحت نہیں،
بلکہ ان کی غیر موجودگی میں محض امانتاً اٹھائی تھی۔ لیکن چونکہ اس سارے عرصے میں
یہود کے نزدیک نہ مذہبی لحاظ سے ہیکل کی تعمیر نو کی شرائط ہوتی تھیں او رنہ وہ
سیاسی لحاظ سے اس پوزیشن میں تھے کہ اس کا مطالبہ یا کوشش کریں، اس لیے کم وبیش
تیرہ صدیوں تک جاری رہنے والے اس تسلسل نے غیر محسوس طریقے سے مسجد اقصیٰ کے ساتھ
مسلمانوں کی وابستگی او را س پر استحقاق کا ایک ایسا تصور پیدا کردیا جس کے نتیجے
میں معاملے کا اصل پس منظر اور اس کی صحیح نگاہوں سے اوجھل ہوگئی۔
3۔گزشتہ صدی جب یہود کے مذہبی حلقوں کی طرف سے یہ مطالبہ باقاعدہ
صورت میں سامنے آیا تو وہ صیہونی تحریک کے سیاسی عزائم کے جلوس میں آیا۔امت مسلمہ
کی اخلاقی ذمہ داری بلاشبہ یہ تھی کہ وہ سیاسی کشاکش سے بالاتر ہوکر اس مطالبے کو
اس کے صحیح شرعی ومذہبی تناظر میں دیکھتی اور اسلام کی اصولی تعلیمات کی روشنی میں
اس معاملے کا فیصلہ عدل و انصاف کے ساتھ بالکل بے لاگ طریقے سے کرتی۔ اہل کتاب اور
ان کی عبادت گاہوں کے بارے میں اسلام کی اصل تعلیم رواداری اور مسامحت کی ہے۔ مرکز
عبادت اور قبلہ کی حیثیت رکھنے والے مقام کے احترام او را سکے ساتھ وابستگی کی جو
کیفیت مذاہب عالم کے ماننے والوں میں پائی جاتی ہے ،وہ کسی کے مخفی نہیں۔ اسی طرح
یہود کی شریعت میں ہیکل کے مقام وحیثیت ، اس کی تباہی وبربادی پر ان کے دلوں میں
ذلت ورسوائی کے احساسات او را س کی بازیابی کے حوالے سے ان کے سینوں میں صدیوں سے
تڑپنے والے مذہبی جذبات بھی ایک مسلمہ حقیقت ہیں۔ یہ ایک نہایت اعلیٰ، مبارک اور
فطری جذبہ ہے اور خود قرآن مجید یہود سے ان کے اس مرکز عبادت چھین جانے کی وجہ ان
کے اخلاقی جرائم کو قرار دینے کے ساتھ ساتھ اس امکان کو بھی صراحتاً تسلیم کرتاہے
کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے اور ان کی آزمائش کے لیے اس مرکز کو دوبارہ ان کے
تصرف میں دے دے۔
4۔اس معاملے میں امت مسلمہ کے موقف اور رویے کا جس قدر تجزیہ کیجئے
،یہی بات نکھرتی چلی جاتی ہے کہ وہ ‘‘استحقاق’ کی نفسیات سے مغلوب ہوگئی ہے جس کے
نتیجے میں مسجد اقصیٰ کی تولیت کی ‘امانت’ کو ایک مستقل مذہبی قرار دینے او ریہود
کو اس سے قطعاً لاتعلق ثابت کرنے کے لیے علمی سطح پر انحرافات کا ایک سلسلہ وجود میں
آچکا ہے۔ ایک گروہ نے سر ے سے مسجد اقصیٰ کی مسلم اور متواتر تاریخ کو ہی جھٹلا
دیا ۔ دوسرے گروہ نے تکوینی اور واقعاتی طو رپر امت مسلمہ کو ملنے والے حق تولیت
کو ایک ابدی او رناقابل تبدیل شرعی حق کا رنگ دینے کی کوشش کی۔جبکہ تیسرے گروہ نے
تیرہ صدیوں کے واقعاتی تسلسل کو ہی حتمی اور فیصلہ کن قرار دیتے ہوئے اس سلسلے میں
دیگر قابل لحاظ امور کے ساتھ ساتھ مذہبی اخلاقیات اور قرآن وسنت کی اصولی تعلیمات
کو بھی کوئی وزن دینے سے انکار کردیا۔ان علمی انحرافات کے نتیجے میں آج جذبات کی
شدت اور احساسات کے تناؤ کا یہ عالم ہے کہ کوئی شخص اس مسئلے کی غیر جانبدانہ علمی
تحقیق کرنے کے لیے تیار نہیں۔
5۔اس صورت حال سے واضح ہے کہ مسجد اقصیٰ کا معاملہ امت مسلمہ کے
لیے بھی اسی طرح ایک اخلاقی آزمائش (Test Case) کی حیثیت رکھتاہے
جس طرح کہ وہ بنی اسرائیل کے لیے تھا، اور افسوس ہے کہ اس آزمائش میں ہمارا رویہ
بھی حذ والنعل بالنعل اپنے پیش رووں کے طرز عمل ہے کے مماثل ہے۔ ارض فلسطین پر حق
کا مسئلہ موجودہ تناظر میں اصلاً ایک سیاسی مسئلہ تھا ، اس لیے اس کی وضع موجود
میں یہود کے پیداکردہ تغیر حالات پر اگر عرب اقوام اور امت مسلمہ میں مخالفانہ
ردعمل پیدا ہوا تو وہ ایک قابل فہم اور فطری بات تھی،لیکن ہیکل کی بازیابی اور
تعمیر نو کے ایک مقدس مذہبی جذبے کو‘‘ مسجد اقصیٰ کی حرمت کی پامالی کی یہودی
سازش’’ کا عنوان دے کر ایک طعنہ اور الزام بنا دینا ، مسجد اقصیٰ پر یہود کے
تاریخی ومذہبی حق کی مطلقاً نفی کردینا او راس سے بڑھ کر ان کو اس میں عبادت تک کی
اجازت نہ دینا ہرگز کوئی ایسا طرز عمل نہیں ہے جو کسی طرح بھی قرین انصاف اور اس
امت کے شایان شان ہو جس کو ‘فوامین للہ شھداء بالقسط’ کے منصب پر فائز کیا گیا ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ
وہ اس امت کو اپنا فرض منصبی پہچاننے ، اس کے تقاضوں کو بے کم وکاست پورا کرنے اور
اس باب کے تمام انحرافات سے رجوع کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔
اللھم اھدنا الصراط
المستقیم صراط الذین انعمت علیھم غیر المغضوب علیھم ولا الضالین۔آمین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حواشی
1۔ خروج باب 25۔31۔
2۔ خروج 40:20۔
3 2۔ سموئیل 5۔7۔
4۔ تواریخ 1:21:25۔
5۔تواریخ 2:3:1۔
6۔تواریخ 1:22، 28:11۔21۔
صحیح بخاری میں حضرت
ابوذررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال
کیا کہ روئے زمین پر سب سے پہلے کون سی مسجد تعمیر کی گئی؟ آپ نے فرمایا: مسجد
حرام۔ انہوں نے سوال کیا کہ اس کے بعد؟ آپ نے فرمایا: مسجد اقصیٰ ۔انہوں نے دوبارہ
سوال کیا کہ ان دونوں کی تعمیر کے مابین کتنا عرصہ تھا؟ آپ نے فرمایا :چالیس
سال۔(بخاری، رقم 3425)
اس روایت پر بیہ اشکال ہے
کہ تاریخ کے مسلمات کی رو سے مسجد اقصیٰ کی تعمیر حضرت سلیمان علیہ السلام کے
ہاتھوں ہوئی اور ان کے اور سیدنا ابراہیم و اسمٰعیل علیہما السلام کے مابین، جو
مسجد حرام کے معمار تھے، کئی صدیوں کا فاصلہ ہے جب کہ روایت میں دونوں مسجدوں کی
تعمیر کے درمیان صرف چالیس سال کا فاصلہ بتایا گیا ہے۔
علمائے حدیث کے نزدیک اس
کی توجیہ یہ ہے کہ مسجداقصیٰ کے مقام کی تعیین تو حضرت یعقوب علیہ السلام نے
فرمادی تھی اور مذکورہ روایت میں اسی کا ذکر ہے ، جب کہ حضرت سلیمان علیہ السلام
نے صدیوں بعد اسی جگہ پرہیکل سلیمانی کو تعمیر کیا۔ اس لحاظ سے ان کی حیثیت ہیکل
کے اولین بانی اور موسس کی نہیں، بلکہ تجدید کنندہ کی ہے۔( ابن رقم: زادالمعاد،1؍50۔ابن
حجر: فتح الباری،6؍495۔ابن
کثیر :قصص الانبیاء، 155)
7۔ سبا:13۔
8۔ تواریخ 1:22:1۔
9۔ تواریخ 1:22:19۔
10۔ سلاطین 1:8:22۔53۔ حضرت عبداللہ بن عمر بن العاص رضی اللہ عنہ
سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
‘‘حضرت سلیمان علیہ السلام جب بیت المقدس کی تعمیر سے فارغ ہوئے تو
انہوں نے دعا کی کہ جو شخص بھی مسجد اقصیٰ میں حالصتاً نماز پڑھنے کے ارادے سے
آئے، وہ یہاں سے اس طرح گناہوں سے پاک ہوکر جائے جیسے بچہ ماں کے پیٹ سے پیدا
ہوتاہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے امید ہے کہ اللہ نے ان کی
دعا قبول فرمالی ہوگی’’۔ (نسائی ،رقم 694۔ابن ماجہ ،رقم 1408)
11۔تواریخ 2:36:11۔21۔ یرمیاہ 52:12۔14۔
12۔ عزا1:1۔
13۔مکابیوں 1:1:20۔24۔
14۔ مکابیوں 1:4:36۔48۔
15۔ ہیکل سلیمانی کی ان دومشہور ومعروف بربادیوں کا تذکرہ قرآن
مجید نے بھی سورہ بنی اسرائیل میں کیا ہے:
‘‘اور ہم نے تورات میں بنی اسرائیل سے صاف کہہ دیا تھا کہ تم
دومرتبہ زمین میں فساد مچاؤگے او ربڑی سرکشی پر اتر آؤگے ۔ پس جب ان میں سے پہلا
موقع آیا تو ہم نے تم پر اپنے نہایت سخت گیر اور طاقتور بندوں کو مسلط کردیا جو
تمہارے گھروں کے اندر گھس آئے، او ریہ وعدہ پورا ہوکر رہنا تھا۔ پھر ہم نے ان کے
خلاف تمہیں بالادستی کا موقع دیا او رمال واولاد سے تمہاری مدد کی او رتمہیں خوب
جتھے والا بنادیا۔ اگر تم نے بھلائی کا رویہ اختیار کیا تو اپنے ہی فائدے کے لیے،
اور اگر بدچلن ہوگئے تو اپناہی نقصان کیا۔ پھر جب دوسرا موقع آیا (تو اسی طرح
دشمنوں کو تم پر مسلط کیا جو تم پر چڑھ آئے) تاکہ تمہارے چہروں کو بگاڑ کر رکھ دیں
او راسی طرح مسجد میں گھس جائیں جس طرح پہلی مرتبہ گھس تھے اور جو چیز ان کے ہاتھ
لگے ، اس کو توڑ پھوڑ کر رکھ دیں۔ توقع ہے کہ تمہارا رب تم پر پھر رحم کرے گا۔لیکن
اگر تم نے دوبارہ یہی رویہ اپنایا تو ہم بھی یہی کچھ کریں گے ۔ او رہم نے جہنم کو
کافروں کے لیے قید خانہ بنا رکھا ہے’’۔ (بنی اسرائیل )
16۔مسجد اقصیٰ کی تاریخ سے متعلق ان تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو:
ممتاز لیاقت :‘‘ تاریخ بیت المقدس ’’ ،منشی عبدالقدیر: ‘‘بیت المقدس’’، انسائیکلو
پیڈیا برٹانیکا، مقالہ جات:Solomon's Temple,
Wailling Wall۔
17۔ شبلی نعمانی : سیرت النبی ،1؍338۔
18۔ابن کثیر : السیر ۃ النبویہ،4؍70۔
19۔شبلی نعمانی : سیرت النبی ،1؍339۔
20۔مستدرک حاکم،4؍509۔
21۔ سنن النسا ئی ،رقم 694۔
22۔سنن ابن ماجہ ،رقم 1408۔
23۔ سنن ابن ماجہ ،4042۔مسند احمد،روایات معاذ۔
24۔ مسند احمد، بحوالہ نیل الا وطار 8؍73۔
25۔مصنف ابن ابی شیبہ ،2؍373،374۔
26۔ یہ محض سیاسی نوعیت کی ایک وقتی شرط تھی ،چنانچہ بعد کے زمانے
میں جب حالات میں تبدیلی پیدا ہوئی تو مسلمانوں کے اہل حل وعقدنے بھی رفتہ رفتہ اس
شہر میں یہودیوں کو قیام کی اجازت دے دی او ر اہل علم نے بھی اس پر کوئی نکتہ
اعتراض نہیں اٹھایا۔
27۔ مسند احمد ،1؍38۔
28۔ مصنف عبدالرزاق ،6ھ؍15۔
29۔ردالمحتار ،کتاب الزکاۃ ،باب العاشرفی الزکاۃ ، 2؍313۔کتاب
الجہاد ،باب المستامن ،فصل فی استئمان الکافر ،4؍169۔
30۔ابن العربی : احکام القرآن ،2؍470۔
31۔ابوبکر الجصاص : احکام القرآن 3؍131۔
32۔ابن الہمام : فتح القدیر ، 10؍63۔
33۔ السرخسی :شرح السیر الکبیر،1؍135۔
34۔محمد بن احمد الشر بینی الخطیب : مفتی المحتاج ، 3؍
،کتاب الوقف ۔الشرح الکبیر ،4؍78،79،
باب فی احکام الوقت ۔ابن قدامۃ : المغنی، 6؍122،مسئلہ
4730۔کشاف القناع عن متن الاقناع ،4؍364۔
35۔ ابن کثیر: القرآن العظیم ،3؍34۔
البدایہ والنہایہ 3؍109،111۔
36۔ رازی : مفاتیح الغیب ،4؍115۔
ابن العربی : احکام القرآن ،1؍60۔
37۔ آل عمران :64۔
38۔ برأۃ:5۔
39۔ برأۃ:29۔
40۔ المائدہ:5۔
41۔ حافظ ابن کثیر نے اس کی تفصیل یوں نقل کی ہے:
قریش او ربنو کنانہ نے
نخلہ کے مقام پر عزیٰ کی عبادت گاہ قائم کررکھی تھی اور اس کی تولیت ودربانی کی
ذمہ داری بنو ہاشم کے حلیف قبیلہ سلیم کے خاندان بنو شیبان کے پاس تھی۔ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے خالد بن الولید کو بھیج کر اس کو منہدم کرادیا۔
بنو ثقیف نے طائف میں لات
کی عبادت گاہ رکھی تھی او را سکے متولی او رخادم بنو معتب تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم نے مغیرہ بن شعبہ او رابوسفیان صخر بن حرب کو بھیجا جنہوں نے اس کو گرا
کر یہاں ایک مسجد بنادی۔
اوس اور خزرج اور یثرب کے
دیگر قبائل نے قدید کے علاقے میں منات کی عبادت گاہ بنا رکھی تھی ۔ رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم نے یہاں ابوسفیان صخربن حرب کو ، اور ایک قول کے مطابق علی بن ابی
طالب کو بھیج کر اس کو گرادیا۔( واقدی کی روایت کے مطابق اس کو سعد بن زیدالا شبلی
نے گرایا تھا)
قبیلہ دوس، خثعم ،بجیلہ
او رتبالہ کے علاقے میں دیگر اہل عرب نے ذوالخلصۃ کی عبادت گاہ قائم کررکھی تھی جس
کو وہ کعبہ یمانیہ کے نام سے پکارتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں
جریر بن عبداللہ الجبلی کو بھیج کر اس کو منہدم کرادیا۔
سلمیٰ اور آجا کے مابین
جبل طے کے قریب قبیلہ طے اور ان کے قریبی قبائل نے قلس کی عبادت گاہ بنارکھی تھی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی ابن ابی طالب کو یہاں بھیج کر اس کو گرادیا۔
رہاط کے مقام پر قبیلہ
ہذیل کی سواع کے نام پر قائم کردہ عبادت گاہ کو حضرت عمر وبن العاص رضی اللہ عنہ
نے منہدم کیا۔ (السیر ۃ النبویۃ ،3؍711۔تفسیر
القرآن العظیم ،4؍253،254۔
42۔ برأت :59۔
43۔ بخاری ،باب الصلاۃ فی ایلبیعۃ ۔مصنف ابن ابی شیبہ 2؍79۔نیل
الاوطار،2؍162۔المحجموع
شرع المہذب 3؍164۔
فقہ السنۃ ،1؍215۔
44۔ ابن ہشام : السیر ۃ النبویہ ،4؍108،
شبلی نعمانی : سیرت النبی ،2؍24۔
45۔مثلاً دیکھئے : معاہدۂ دمشق (ابن عساکر، تہذیب تاریخ دمشق
الکبیر ، 1؍الاموال
لابی عبید ص 207) معاہدۂ طفلیس(الاموال ص 208، 209) معاہدۂ حلب ( تاریخ ابن خلدون
اردو1؍334)
معاہدۂ لدوفلسطین (تاریخ طبری 3؍609)
وغیرہ۔
46۔محمد حسین ہیکل: حضرت عمر، مترجم ،حبیب اشعر301،302۔
47۔ بلاذری: فتوح البلدان اردو، 1؍191۔
ولید بن عبدالملک نے اپنے زمانے میں جبراً عیسائیوں کے حصے کو بھی مسجد میں شامل کرلیا۔
حضرت عمر بن عبدالعزیز کا دور آیا تو عیسائیوں کی شکایت پر انہوں نے حکم دیا کہ
‘‘مسجد میں جو اضافہ کیا گیا ہے، وہ نصاریٰ کو واپس دے دیا جائے۔’’ تاہم باہمی گفت
وشنید سے یہ طے پایا کہ اس گرجے کے بدلے میں عیسائیوں کو الغوط کے علاقے میں ایک
دوسرا گرجا دے دیا جائے۔( فتوح البلدان ،حوالہ بالا)
48۔ خود فقہ اسلامی کی بعض جزئیات اس استدلال کی صراحتاً نفی کرتی
ہیں۔ جلیل القدر حنفی عالم ابن عابد ین شامی نے یہ واقعہ ذکر کیا ہے کہ دمشق میں
یہودیوں کا ایک فرقہ ‘‘ الیہود القرایین ’’ کے نام سے موجود تھا جس کی ایک عبادت
گاہ بھی تھی۔ یہ فرقہ رفتہ رفتہ وہاں سے ناپید ہوگیا۔ 1248ھ میں ایک عرصے کے بعد
اس فرقے سے تعلق رکھنے والے والا ایک مسافر دمشق میں آیا تو مقامی عیسائیوں نے اسے
کچھ رقم ادا کرکے اس سے ان کی عبادت گاہ کو گرجا بنا لینے کی اجازت لے لی اور
عیسائیوں کی قوت وشوکت کی بنا پر کچھ مقامی یہودی گروہوں نے بھی اس کی تائید کردی۔
یہ معاملہ جب مسلم حکام کے علم میں آیا تو انہوں نے قانونی لحاظ سے اس کی پوزیشن
معلوم کرنے کے لیے علما ئے فقہ سے رجوع کیا۔ ابن عابدبن کہتے ہیں کہ بعض دنیا پرست
علمانے اس معاملے کو درست قرار دے دیا ،لیکن میں نے اس کے حق میں فتویٰ دینے سے
انکار کردیا۔ اپنی اس رائے کی متعدد وجوہ میں سے ایک وجہ انہوں نے یہ بیان کی ہے
کہ:
‘‘ ان میں سے ایک وجہ یہ ہے کہ عبادت گاہ چونکہ ایک مخصوص مذہب کے
ماننے والوں کی تھی اس لیے اس مذہب کے کسی فرد کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اسے
کسی دوسرے مذہب والوں کے حوالے کردے، اگر چہ تمام اہل کفر ہمارے نزدیک ایک ہی ملت
کا حکم رکھتے ہیں۔ اس کی مثال ایسے ہے جیسے کوئی مدرسہ مثال کے طور پر احناف کے
لیے وقف کیا گیا ہو تو کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ اسے کسی دوسرے فقہی مسلک کے
تصرف میں دے دے، اگرچہ دین دونوں کا ایک ہے’’۔ (ردالمحتار4؍205)
50۔ مسند احمد ،1؍38۔
51۔ صحیح مسلم ومسند احمد عن انس ،مسند البز اروالترمذی عن بریدہ
،دلائل النبوۃ للبیقہی عن ابی سعید ۔بحوالہ تفسیر ابن کثیر ،3؍2۔24۔
52۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی : سانحہ مسجد اقصیٰ ،ص 6
-------------------
Part: 1 – Masjid al-Aqsa, Jews and Muslim Ummah – Part 1 مسجد اقصیٰ ،یہوداور امت مسلمہ
Part: 2 - Masjid al-Aqsa, Jews and Muslim Ummah – Part 2 مسجد اقصیٰ ،یہوداور امت مسلمہ
Part: 3 – Masjid al-Aqsa, Jews and Muslim Ummah – Part 3 مسجد اقصیٰ ،یہوداور امت مسلمہ
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism