New Age Islam
Tue Apr 22 2025, 05:33 PM

Urdu Section ( 26 Oct 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Masjid al-Aqsa, Jews and Muslim Ummah – Part 2 مسجد اقصیٰ ،یہوداور امت مسلمہ

محمد عمار خان ناصر

(قسط دوم)

حق تولیت کی منسوخی کے خلاف دلائل

اولاً ،قرآن مجید نے خود اپنے اسلوب سے یہ واضح کردیا ہے کہ بہت سے دیگر امور کی طرح ،جن کی تفصیل اوپر بیان ہوئی ،اللہ کے نبیوں کے تعمیر اور آباد کردہ  خانہ خدا  کی تولیت کے معاملے میں بھی مشرکین اور اہل کتاب کے مابین فرق کو لازماً ملحوظ رکھاجانا چاہئے، چنانچہ مشرکین کے حق تولیت کی تنسیخ کے حکم پر مشتمل سورۂ برأت کی مذکورہ آیت کے ساتھ بالکل متصل اگلی آیت میں اہل کتاب کے بارے میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ اب ان کی سیاسی قوت وشوکت کو توڑ کر ان کو مسلمانوں کے زیر نگیں ہونے پر مجبور کردیا جائے:

قَاتِلُوا الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلَا يُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَلَا يَدِينُونَ دِينَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حَتَّىٰ يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَن يَدٍ وَهُمْ صَاغِرُونَ

(برأت 9:29)

‘‘اہل کتاب کے ساتھ ،جو نہ اللہ او ریوم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں، نہ اللہ اور اس کے رسول کی حرام کردہ چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں او رنہ دین حق کی پیروی اختیار کرتے ہیں، برسرجنگ ہوجاؤ یہاں تک کہ وہ زیر دستی قبول کرکے ذلت کی حالت میں جزیہ دینے پر آمادہ ہوجائیں’’۔

یہاں دیکھ لیجئے ، مشرکین مکہ برخلاف اہل کتاب کو محض سیاسی لحاظ سے مغلوب کرنے تک حکم کو محدود رکھا گیا ہے ، اور مذہبی مراکز پر ان کے حق تولیت کواشارۃً بھی چیلنج نہیں کیا گیا۔اگر مشرکین کی طرح یہود کو بھی مسجد اقصیٰ کی تولیت کے حق سے معزول کرنا مقصود ہوتا تو اس کی تصریح کے لیے اس سے زیادہ موزوں موقع او رکوئی نہیں تھا، لیکن جیسا کہ معلوم ہے اس قسم کا کوئی حکم یہاں نہیں دیا گیا۔

ثانیاً ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے متعد د ارشادات میں مسجد اقصیٰ کے اس مقام ومرتبہ پر روشنی ڈالی ہے جو اسے اسلامی شریعت میں حاصل ہے۔مثلاً آپ نے فرمایا کہ یہ دنیا کی ان تین مقدس ترین عبادت گاہوں میں سے ایک ہے جن میں عبادت کے لیے انسان کو باقاعدہ سفر کرکے جاناچاہئے:

لاتشدالرحال الاالی ثلاثۃ مساجد: المسجد الحرام، والمسجد الاقصیٰ ،ومسجدی (بخاری ،رقم 1189)

‘‘سامان سفر صرف تین مساجد کے لیے باندھا جائے: مسجد حرام ، مسجد اقصیٰ او رمیری مسجد۔’’

حضرت ابوذررضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت کے مطابق آپ نے اس میں نماز پڑھنے کا ثواب عام مساجد سے ڈھائی گنا زیادہ بیان فرمایا۲۰؂۔

حضرت عبیداللہ بن عمرو بن العاص کی ایک روایت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے بیت المقدس کی تعمیر کی تکمیل کے موقع پر اللہ تعالیٰ سے دعا کی تھی کہ جو شخص بھی مسجد اقصیٰ میں نماز پڑھنے کے ارادے سے آئے، وہ یہاں سے اس طرح گناہوں سے پاک ہوکر جائے جیسے بچہ ماں کے پیٹ سے پید اہوتا ہے۲۱؂۔ پھر فرمایا کہ مجھے امید ہے کہ اللہ نے ان کی یہ دعا قبول فرمالی ہوگی۲۲؂۔

اس باب میں آپ سے منقول تمام ارشادات اسی نوعیت کے ہیں اور ان میں کہیں بھی مسجد اقصیٰ کی تولیت کی قانونی وشرعی حیثیت کو زیر بحث نہیں لایا گیا او رنہ آپ نے اس حوالے سے صحابہ کوکوئی ہدایت دی۔ مثال کے طور پر غزوۂ تبوک کے موقع پر آپ نے صحابہ کرام کو یہ خوش خبری دی کہ آپ کی وفات کے بعد بیت المقدس مفتوح ہوگا۲۳؂۔یہ موقع ایسا تھا کہ اگر مسجد اقصیٰ کی حیثیت میں شرعی نوعیت کی کوئی تبدیلی پیش نظر ہوتی تو اس کے حوالے سے واضح ہدایت دے دینا مناسب تھا۔ اسی طرح اپنے مرض وفات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو جو بعض اہم وصیتیں کیں، ان میں سے ایک خاص طور پر مراکز اسلام کے ساتھ اہل کتاب کے تعلق کے بارے میں تھی۔آپ نے فرمایا کہ جزیرۂ عرب میں ، جسے اسلام کے مرکزکی حیثیت حاصل ہے، وہ دین اکٹھے نہیں ہوسکتے، اس لیے یہود ونصاریٰ کو یہاں سے نکال دیا جائے۲۴؂۔ یہ موقع بھی مسجد اقصیٰ کے بارے میں نئی ہدایات دینے کے لیے با لکل موزوں تھا، لیکن آپ نے اس حوالے سے اشارۃً بھی کوئی بات ارشاد نہیں فرمائی۔

ثالثاً ، حضرات صحابہ کے طرز عمل میں بھی مسجد اقصیٰ کی تقدیس وتکریم سے بڑھ کر اس پر حق تولیت کے تصور کا کوئی سراغ نہیں ملتا، بلکہ حق تولیت تو درکنار بعض اکابر صحابہ توبیت المقدس میں نماز پڑھنے کی کسی خاص فضیلت کے تصور سے بھی ناآشنا تھے۔ حضرت سعد نے فرمایا کہ مسجد قبا میں نماز پڑھنا مجھے بیت المقدس میں نماز پڑھنے سے زیادہ محبوب ہے۔ حضرت ابوذرغفاری کا ارشاد ہے کہ کسی سرخ ٹیلے پر نماز پڑھ لینا مجھے بیت المقدس میں نماز پڑھنے سے زیادہ پسند ہے۔ حضرت حذیفہ کا قول ہے کہ اگر میں سفر کرتے ہوئے بیت المقدس سے ایک یا دو فرسخ کے فاصلے پر پہنچ جاؤ ں تو بھی میں وہا ں نہیں جاؤ ں گا او رنہ وہاں جانا مجھے پسند ہے۔ حضرت علی کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے کہا کہ میں نے بیت المقدس کے ارادے سے ایک اونٹ خریدا ہے اور سامان سفر تیار کر رکھا ہے ۔آپ نے اس سے کہا، اپنا اونٹ بیچ دو اور اس مسجد یعنی مسجد کوفہ میں نماز ادا کرلو ،کیونکہ مسجد حرام او رمسجدی نبوی کے بعد مجھے یہ مسجد سب سے زیادہ محبوب ہے۲۵؂۔ کسی عبادت گاہ کی فضیلت ومرتبے کا قائل ہونا اس کے ساتھ تعلق اور وابستگی کا کم سے کم درجہ ہے۔ جب یہ جلیل القدر صحابہ اسی سے ناواقف ہیں تو یہ بات ناقابل تصور ہے کہ ان کے ذہن کے کسی گوشے میں بھی مسجد اقصیٰ کے حق تولیت کے امت مسلمہ کو منتقل ہونے کا کوئی خیال موجود ہو۔

سیدناعمر کے عہد حکومت میں جب بیت المقدس فتح ہوا تو امیر المومنین خودیہاں تشریف لائے او ریہاں کے باشندوں کے ساتھ ایک تاریخی معاہدہ کیا۔ اس معاہدے میں فاتحین او رمفتوحین کے باہمی تعلقات او رحقوق وفرائض کے تمام اہم پہلو وں پر واضح دفعات موجود ہیں حتیٰ کہ مقامی عیسائی بطریق کے اصرار پر یہ شق بھی شامل کی گئی کہ کوئی یہودی ان کے ساتھ بیت المقدس میں قیام نہیں کرے گا،۲۶؂۔ لیکن مسجد اقصیٰ کی تولیت کا معاملہ اس میں بھی زیر بحث نہیں آیا۔ پھر جب سیدنا عمر مسجد اقصیٰ میں نماز ادا کرنے کے لیے تشریف لے گئے او راپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر صخرۂ بیت المقدس کے اوپر او راس کے ارد گرد پڑے کرکٹ کو صاف کیا تو اس اہم موقع پر بھی انہوں نے مسجد کی تولیت کے معاملے سے کوئی تعرض نہیں کیا۔انہوں نے کعب الاحبار سے محض یہ سادہ سا مشورہ طلب کیا کہ : این تری ان اصلی؟‘‘تمہاری رائے میں مجھے کس جگہ نماز پڑھنی چاہئے؟’’او رپھر مسلمانوں کے نماز پڑھنے کے لیے مسجد میں ایک جگہ مخصوص کرنے پراکتفادہ کیا جس سے واضح ہے کہ اس کوبلاشرکت غیرے مسلمانوں کی تحویل میں دے دینے کا کوئی تصور ان کے ذہن میں نہیں تھا۔

رابعاً ، اس ضمن میں یہ پہلو بھی کم قابل لحاظ نہیں ہے کہ مسجد حرام او رمسجد نبوی کو مسلمانوں کے دومقدس ترین اور مخصوص دینی مراکز قرار دینے کے بعد ناگز یر تھا کہ ان مقامات کا تشخص برقرار رکھنے کے لیے وہاں غیر مسلموں کے مستقل قیام کو ممنوع قرار دے دیا جائے۔ چنانچہ سید نا عمر نے یہ ضابطہ بنایا کہ وہ مدینہ منورہ میں غیر مسلموں کو ضرورت کے تحت تین دن سے زیادہ قیام کی اجازت نہیں دیتے تھے۲۸؂۔یہ روایت پوری اسلامی تاریخ میں قائم رہی ہے۔ لیکن بیت المقدس کے حوالے سے اس قسم کی کوئی ہدایت اسلامی قوانین میں نہیں دی گئی ، بلکہ پوری مسلم تاریخ میں اس شہر کے ساتھ ان کی وابستگی اور تعلق کو بالعموم احترام ہی کی نظر سے دیکھا گیا او ران کے وہاں آنے جانے اور وہاں قیام کرنے پر کسی قسم کی کوئی پابندی ، بعض استثنائی او وقتی وجوہ سے قطع نظر، اصولی طور پر کبھی عائد نہیں کی گئی حتیٰ کہ جب بعض مسلم حکمرانوں نے بیت المقدس کی زیارت کے لیے جانے والے اہل ذمہ پر ایک خاص ٹیکس عائد کیا توفقہائے صراحتاً اس کے عدم جواز کا فتویٰ دیا۲۹؂۔ اگر مسجد اقصیٰ پر اہل کتاب کی تولیت کو منسوخ کرکے اسے مسلمانوں ہی کے لیے خاص کردیا گیا ہے تو حرمین شریفین او ربیت المقدس کے احکام میں اس فرق کی آخر کیا توجیہ کی جائے؟

ْخامساً ،فقہ اسلامی کے وسیع او رجامع ذخیرے میں اس بات کی کوئی تصریح ،ہمارے علم کی حد تک ، نہیں ملتی کہ مسجد اقصیٰ کو اہل کتاب کے تصرف سے نکال کر اہل اسلام کی تولیت دے دیا گیا ہے۔ ویسے تو اس نہایت اہم معاملے سے عدم تعرض ہی اس تصور کی نفی کے لیے کافی ہے، لیکن اس سے بڑھ کر ہم یہ دیکھتے ہیں کہ فقہی مکاتب فکر میں سے ایک بڑے مکتب فکر یعنی فقہائے احناف کی آرا میں ایسے شواہد بھی موجود ہیں جو حق تولیت کی تنسیخ کے تصور کی صاف نفی کرتے ہیں۔

اس کا پہلا قرینہ تواس بحث میں ملتاہے جو سورۃ برأت کی آیت :‘ انماالمشرکون نجس فلایقربواالمسجد الحرام’ کی تعبیر وتشریح کے حوالے سے فقہا کے ہاں پائی جاتی ہے۔ اس ضمن میں امام مالک ، امام احمد او رامام شافعی کا بنیادی زاریہ نگاہ ایک ہے، یعنی ان سب کے نزدیک اس حکم کی اصال علت ، ظاہر نص کے مطابق، محض اعتقادی نجاست ہے، البتہ اس حکم کے دائرہ کی تحدید کے حوالے سے ان میں باہم اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔

امام شافعی اس پابندی کو علت اور وقت کے لحاظ سے تو عام مانتے ہیں ،لیکن محل کے لحاظ سے خاص۔ علت کے عموم کامطلب یہ ہے کہ یہ حکم اگرچہ مشرکین کے لیے بیان ہوا ہے، لیکن اعتقادی نجاست کی علت چونکہ دوسرے غیر مسلموں میں بھی پائی جاتی ہے، اس لیے کوئی بھی غیر مسلم، چاہے وہ مشرک ہویا کتابی، مسجد حرام میں داخل نہیں ہوسکتا۔ وقت کے عموم کا مطلب یہ ہے کہ یہ پابندی کسی خاص زمانے کے لیے نہیں ،بلکہ ہمیشہ کے لیے ہے۔ محل کے خصوص سے مراد یہ ہے کہ امام صاحب اس پابندی کو صرف مسجداحرام کے لیے مانتے ہیں ۔ اس کے علاوہ باقی تمام مساجد میں ان کے نزدیک ایک غیر مسلم داخل ہوسکتے ہیں۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ قرآن مجید نے یہ پابندی خاص طور پر صرف مسجد حرام کے لیے بیان کی ہے، لہٰذا باقی مساجد پر اس حکم کااطلاق نہیں ہوتا۳۰؂۔

امام مالک او رامام احمد کی رائے میں یہ حکم علت، وقت او رمحل ، ہر لحاظ سے عام ہے، یعنی ان کے نزدیک تمام غیر مسلموں کاداخلہ مسجد حرام سمیت تمام مساجد میں ہمیشہ کے لیے ممنوع ہے۔ان کا استدلال یہ ہے کہ جس طرح اعتقادی نجاست کی علت کی بنا پر یہ حکم مشرکین کے علاوہ دوسرے غیر مسلموں کو بھی شامل ہے، اسی طرح وتقدس کی علت کی بنا پر مسجد حرام کے علاوہ دیگر تمام مساجد کو بھی شامل ہے۔اگر غیر مسلم مسجد حرام کی حرمت کی بنا پر اس میں داخل نہیں ہوسکتے ، تو اسی علت کی بنا پر دوسری تمام مساجد میں بھی داخل نہیں ہوسکتے۔

فقہائے احناف نے اس حکم کی تعبیر ایک بالکل مختلف زاویے سے کی ہے۔ ان کے نزدیک یہ پابندی صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے ان مشرکین عرب کے لیے تھی جن کے ساتھ مسلمانوں کاکوئی معاہدہ نہیں تھا او ر جن پراتمام حجت یہ اعلان کردیا گیا تھا کہ وہ یا تو اسلام قبول کرلیں یا مرنے کے لیے تیار ہوجائیں۔نیز ان کے لیے بھی یہ ممانعت ہر حال میں نہیں، بلکہ حسب ذیل صورتوں میں تھی:

ایک یہ کہ وہ ایام حج میں حج کی غرض سے مسجد حرام میں داخل ہوں۔ گویا عام دنوں میں ان کے داخلہ پرکوئی پابندی نہیں تھی۳۱؂۔

دوسری یہ کہ وہ عریاں ہوکر یا غلبہ اور استیلا کے ساتھ اس میں داخل ہوں۳۲؂۔

تیسری یہ کہ وہ مسجد حرام کے امور میں تصرف وتولیت کے اختیار میں شریک ہوں۳۳؂۔

گویا جمہور فقہاء کی رائے کے برعکس ،احناف کے نزدیک مسجد حرام میں داخلے کی یہ پابندی نہ تمام غیر مسلموں کے لیے ہے او رنہ ہر زمانے کے لیے۔اس اختلاف کی وجہ یہ کہ احناف کے نزدیک اس حکم کی علت مفرد نہیں ،بلکہ مرکب ہے، یعنی اس کی وجہ محض اعتقادی نجاست نہیں کہ اس کے دائرہ اطلاق میں تمام غیر مسلموں او رتمام مساجد کو شامل کرلیا جائے ،بلکہ حکم کے سیاق وسباق کی رو سے اعتقادی نجاست کے ساتھ ساتھ پیغمبر کی طرف سے اتمام حجت بھی اس کی علت کا حصہ ہے۔ چونکہ مذکورہ مشرکین عرب پر ہر لحاظ سے اتمام حجت کردیا گیا تھا، اس لیے آخری مرحلے میں ان سے اپنے دین پر قائم رہنے کا حق چھین لینے کے ساتھ ساتھ مسجد حرام کی تولیت اور اس میں عبادت کرنے کا حق بھی سلب کرلیا گیا جس کی ایک لازمی فرع یہ تھی کہ اس میں ان کے داخلے پرپابندی عائد کردی جائے۔

اس تمہید کے بعد اب ہم اصل نکتے کی طرف آتے ہیں۔ احناف تمام مساجد میں غیر مسلموں کے دخول کے جواز کے قائل ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس اجازت کے دائرے میں مسجد اقصیٰ بھی ان کے نزدیک شامل ہے یا نہیں؟ فقہی ذخیرے میں ہمیں اس حوالے سے کوئی صراحت میسر نہیں ہوئی، لیکن منطقی طور پر یہاں امکان دوہی ہیں:

ایک یہ کہ مذکورہ بحث میں احناف کے پیش نظر مسجد اقصیٰ کے علاوہ باقی مساجد ہیں اور مسجد اقصیٰ اس کے دائرہ اطلاق سے خارج ہے۔اگر یہ صورت ہوتو اس کا مطلب یہ ہے کہ احناف مسجد اقصیٰ کو ان مساجد کے زمرے میں داخل ہی نہیں سمجھتے جن کے حوالے سے اسلامی شریعت کے احکام زیر بحث آئیں۔ ظاہر ہے کہ اس کی وجہ اس کے سوا کچھ نہیں ہوسکتی کہ ان کے نزدیک مسجد اقصیٰ پر مسلمان نہ بلاشرکت غیرے تصرف کا استحقاق رکھتے ہیں او رنہ ایک طرفہ طور پر اس پر اسلامی شریعت کے احکام نافذ کرنے کے مجاز ہیں۔

دوسرا یہ کہ اس بحث کے دائرہ اطلاق میں مسجداقصیٰ بھی شامل ہے۔ یہ صورت اس لیے متبادر لگتی ہے کہ جس زمانے میں یہ فقہی بحث پیدا ہوئی ، اس وقت مسجد اقصیٰ مسلمانوں کے تصرف میں تھی او ریہود ونصاریٰ کے عملاً اس سے لاتعلق ہونے کی وجہ سے اس کو عمومی حیثیت سے منجملہ دیگر مساجد کے ہی سمجھا جاتا تھا۔اس امکان کو مان لیجئے تو ایک سیدھا سا سوال یہ پیداہوتاہے کہ اگر مسجد اقصیٰ کا حق تولیت اہل کتاب سے چھین لیا گیا ہے تو احناف ، جو مسجد حرام میں مشرکین عرب کے دخول کے عدم جواز کو حق تولیت کی تنسیخ کی ایک فرع قرار دیتے ہیں، مسجد اقصیٰ پر اس حکم کا اطلاق کیو ں نہیں کرتے؟ کیا ان کے نزدیک اس اصول کا اطلاق اہل کتاب پر نہیں ہوتا ؟ اگر ہوتاہے تو اس کے دائرہ اطلاق میں صر عہد نبوی یا عہد صحابہ کے اہل کتاب آتے ہیں یا یہ حکم ہمیشہ کے لئے موثر ہے؟ نیز یہ ممانعت بالکل مطلق ہے یابعض مخصوص حالات وکیفیات تک محدود ہے؟ اور اگر اہل کتاب پراس حکم کا اطلاق نہیں ہوتا توان کے اور مشرکین کے مابین فرق کیا وجہ ہے؟ ان سوالات پر احناف کے ہاں اسی طرح بحث ہونی چاہئے تھی جس طرح مشرکین عرب کے حق تولیت کے حوالے سے ہوئی ہے، بلکہ اس حوالے سے ان پر بحث کا داعیہ اس لحاظ سے زیادہ قوی تھا کہ مشرکین عرب کا خاتمہ عہد نبوی او عہد صحابہ میں ہی کردیا گیا تھا، اور بعد کے حالات میں ان کے مسجد حرام میں دخول یا عدم دخول کی بحث محض نظری نوعیت کی تھی، جب کہ یہود بطور ایک مذہبی گروہ کے اس اعتقاد کے ساتھ مسلسل دنیا میں موجود ہیں کہ مسجد اقصیٰ ان کا قبلہ ہے اور ایک وقت آئے گا جب وہ یہاں اپنے ہیکل کو از سر نو تعمیر کریں گے۔ اس پس منظر کے ساتھ جب ہم فقہائے احناف کی طرف رجوع کرتے ہیں اور یہ دیکھتے ہیں کہ وہ ان سوالات کے حوالے سے کسی تفصیل میں جائے بغیر مسجد اقصیٰ میں اہل کتاب کے دخول کو جائز قرار دیتے ہیں تو اس کی کوئی توجیہ اس کے سوا نہیں کی جاسکتی کہ ان کے ذہن میں اہل کتاب کے حق تولیت کی تنسیخ کاکوئی تصور موجود نہیں ۔

باقی رہا یہ سوال کہ احناف اور شوافع نہ سہی، مالکیہ او رحنابلہ کے نزدیک تو مسجد اقصیٰ میں اہل کتاب کے دخول کے عدم جواز کاحکم بہر حال ثابت ہے ، تو اس سے ہمارے موقف پر کوئی اثر نہیں پڑتا اس لیے کہ مالکیہ اور حنابلہ کے نزدیک اس کی علت حق تولیت کی تنسیخ نہیں، بلکہ اعتقادی نجاست ہے۔ ہم یہاں جو بات واضح کرناچاہتے ہیں، وہ یہ ہے کہ اہل کتاب کے حق تولیت کی تنسیخ کا ذکر فقہا کے ہا ں ، خواہ وہ احناف اور شوافع ہوں یا مالکیہ اور حنابلہ نہیں ملتا۔مالکیہ اورحنابلہ اگر اس کے علاوہ کسی او روجہ سے ،مثلاً غیر مسلموں کی اعتقادی نجاست کی بنیاد پر مسجد اقصیٰ میں اہل کتاب کے دخول کے عدم جواز کے قائل ہیں تو ظاہر ہے کہ یہ ایک بالکل دوسری بحث ہے او راس ضمن میں ان سے یہ پوچھاجاسکتاہے کہ اگر مسجد اقصیٰ کا بلا شرکت غیر ے مسلمانوں ہی کی عبادت گاہ ہونا ازروئے شریعت ثابت نہیں ہے،تو اس پر مسلمانوں کی مخصوص مساجد کے احکام جاری کرتے ہوئے اہل کتاب پر یہ پابندی کیونکر عائد کی جاسکتی ہے؟

حق تولیت کی تنسیخ کے خلاف دوسرا قرینہ فقہائے احناف کے ہاں اس فقہی بحث میں ملتاہے کہ اسلامی ریاست میں اہل ذمہ کو اپنی عبادت گاہوں کی تعمیر وتزئین یا انتظام امور کے لیے مال وقف کرنے یا وصیت کرنے کا حق حاصل ہے یا نہیں؟ جمہور فقہا کی رائے میں انہیں نہ اپنی عبادت گاہوں کے لیے یہ حق حاصل ہے او رنہ مسلمانوں کی مساجد کے لیے۔ اگر وہ ایسی کوئی وصیت کریں تو اسے غیر موثر سمجھا جائے گا۳۴؂۔فقہاے احناف کے ہاں ،البتہ اس میں کچھ تفصیل ہے۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے حنفی فقیہ علامہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں:

‘‘ جان لو کہ ذمی کی وصیت کی تین صورتیں ہیں: پہلی صورت بالاتفاق جائز ہے او روہ یہ ہے کہ وہ کسی ایسے کام کی وصیت کرے جو ہمارے نزدیک بھی باعث ثو اب ہو او ران کے نزدیک بھی ، مثلاً یہ وصیت کرے کہ اس کے مال سے بیت المقدس میں چراغ جلائے جائیں یا وصیت کرنے والا رومی ہو اور وصیت کرے کہ اس کے مال سے ترکو ں کے خلاف لڑائی کی جائے۔ یہ وصیت خواہ وہ کچھ مخصوص لوگوں کے حق میں کرے یاعمومی طور پر ،دونوں صورتوں میں درست ہوگی۔ دوسری صورت بالاتفاق باطل ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ کسی ایسے کام کی وصیت کرے جو ہمارے نزدیک باعث ثواب ہو اور نہ ان کے نزدیک ،مثلاً گاناگانے والیوں یا نوحہ کرنے والیوں کے حق میں وصیت کردے۔اسی طرح اگر وہ کسی ایسے کام کے لیے وصیت کریں جو صرف ہمارے نزدیک باعث ثواب ہے، جیسے حج او رمسلمانوں کے لیے مساجد تعمیر کرنا، تو ان کی وصیت درست نہیں ۔تیسری صورت میں اختلاف ہے اور وہ یہ ہے کہ کسی ایسے کام کی وصیت کرے جو صرف ان کے ہاں باعث ثواب ہوجیسے گرجا تعمیر کرنا۔ اگر یہ وصیت وہ غیر معین لوگوں کے نام کرے تو امام ابوحنیفہ کے نزدیک درست ہوگی،جب کہ صاحبین کے نزدیک نادرست ۔اور اگر چند معین افراد کے نام کرے تو بالاتفاق درست قرار پائے گی’’۔

(روالمحتار ،کتاب الوصایا، فصل فی وصایا الذمی وغیرہ 6؍696)

یہی بات ابن ہمام نے ‘‘فتح القدیر’’ میں یوں بیان کی ہے:

‘‘ اگر ذمی نے اس مقصد کیلے مال وقف کیا کہ اس کے ساتھ حج یاعمرہ کیا جائے تو یہ جائز نہیں، کیونکہ حج او رعمرہ ان کے نزدیک قرب الہٰی کا ذریعہ نہیں ہیں۔ ہاں اگر وہ مسجد اقصیٰ کے لیے مال وقف کرے تو جائز ہے،کیونکہ یہ ان کے نزدیک بھی کار ثواب ہے او رہمارے نزدیک بھی’’۔(فتح القدیر ، کتاب الشرکۃ ،فصل:لایودی احداالشریکین زکاۃ مال6؍201)

یہاں اس جزئیہ کی صحت یا عدم صحت سے بحث نہیں، لیکن اس سے اتنی بات بالکل واضح ہے کہ فقہائے احناف کے نزدیک مسجد اقصیٰ کا معاملہ مسلمانوں کی عام مساجد سے مختلف ہے۔عام مساجد کے لیے وہ اہل ذمہ کے وقف یا وصیت کردہ مال کو قبول نہیں کرتے ،کیونکہ ان کی حیثیت خالصتاً مسلمانوں کی عبادت گاہوں کی ہے اور ان پر خرچ کرنا چونکہ اہل ذمہ کے نزدیک کارثواب نہیں ہے، اس لیے ان کے حق میں ان کی وصیت یا وقف بھی درست نہیں،مسجد اقصیٰ پر خرچ کرنے کے لیے وہ اہل ذمہ کے وقف اور وصیت کو درست قرار دیتے ہیں جس کا مفہوم ، ظاہر ہے، اس کے سوا کچھ نہیں کہ وہ اس کو خالصتاً اہل اسلام کی نہیں، بلکہ اہل اسلام او راہل کتاب ،دونوں کی مشترکہ عبادت گاہ مانتے اور اس کی تعمیر وتزئین کے لئے مال خرچ کرنے کو اہل کتاب کامذہبی حق تسلیم کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اہل کتاب کے حق تولیت کو ازروے شریعت منسوخ ماننے کی صورت میں ‘اشتراک’ کے اس تصور کا کوئی جواز باقی نہیں رہ جاتا۔

مسلمانوں کے حق تولیت کے ‘شرعی دلائل’ کا جائزہ:

ہم اوپر تفصیل کے ساتھ واضح کر چکے ہیں کہ مسجد اقصیٰ پر یہود کے حق تولیت کے منسوخ ہونے کا کوئی اشارہ تک قرآن وسنت او رکلاسیکی فقہی لٹریچر میں نہیں ملتا۔ یہ نقطہ نظر حال ہی میں مسلم اہل علم اور دانشوروں کے ہاں پیدا ہوا ہے اور چونکہ کسی شرعی دلیل کے بغیر اس دعوے کی بے مائیگی بالکل واضح ہے،لہٰذا انہوں نے اس ضمن میں چنددلائل سے بھی استناد کیاہے۔ مناسب معلوم ہوتاہے کہ یہاں کا جائزہ بھی لے لیا جائے۔

1۔ واقعہ اسرا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ کے اہم واقعات میں سے ایک ‘واقعہ اسرا’ ہے۔قرآن مجید کے مطابق انبیائے بنی اسرائیل کی عبادت گاہ او ران کی دعوتی وتبلیغی سرگرمیوں کا مرکز ہونے کی حیثیت سے فلسطین کی مقدس سرزمین کی زیارت او را س کے ماحول میں موجود روحانی نشانیوں سے فیض یاب ہونے کا موقع عنایت کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے رات کے وقت معجزانہ طریقے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد اقصیٰ کاسفر کرایا۔ سورۂ بنی اسرائیل میں ارشاد ہے:

سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا ۚ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ

(اسراء 17:1)

‘‘پاک ہے اللہ کی ذات جس نے اپنے بندے کو رات کے وقت مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ کا سفر کرایا جس کے آس پاس ہم نے برکت دے رکھی ہے ،تاکہ ہم ا س کو اپنی کچھ نشانیاں دکھلائیں۔بے شک وہ خوب سننے والا دیکھنے والا ہے’’۔

روایات کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سفر میں یہاں نماز کی امامت بھی کرائی او رانبیائے کرام علیہم السلام نے آپ کی امامت میں نماز ادا کی۳۵؂۔

اس واقعے کوبعض اہل علم نے یہود کے حق تولیت کی تنسیخ او رامت مسلمہ کے حق تولیت کے جواز کی دلیل کے طور پر پیش کیا ہے۔مولانا امین احسن اصلاحی رحمۃ اللہ کے خیال میں اس کی نوعت مسقبل میں ملنے والے حق تولیت کی ‘بشارت’ کی تھی۔ فرماتے ہیں:

‘‘واقعہ معراج کی طرف اشارہ جس میں یہ حقیقت مضمر تھی کہ اب مسجد حرام او رمسجد اقصیٰ ،دونوں گھروں کی امانت خائنوں او ربدعہدوں سے چھینکر نبی امی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالہ کی گئی۔ اب یہی ان مقدس گھروں او ران کے انوار وبرکات کے وارث او رمحافظ وامین ہوں گے اور ان کے قابضین ۔۔۔مشرکین قریش او ریہود۔۔۔۔ عنقریب ان گھروں کی تولیت سے بے دخل کردیے جائیں گے’’۔( تدبر قرآن،3؍714)

جب کہ سید سلیمان ندوی کی رائے میں اس کی نوعیت کسی آیندہ امر کی بشارت کی نہیں، بلکہ فی الفور نافذالعمل حتمی فیصلے او راعلان کی تھی، چنانچہ لکھتے ہیں:۔

‘‘ سب سے پہلے ہم یہ بتاناچاہتے ہیں کہ اس سورہ کے جلی عنوانات کیا ہیں:

1۔ یہ اعلان کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نبی القبلتین (یعنی کعبہ او ربیت المقدس ،دونوں کے پیغمبر) ہیں۔

2۔یہود جواب تک بت المقدس کے اصل وارث اور اس کے نگہبان وکلید بردار بنائے گئے تھے، ان کی تولیت اورنگہبانی کی مدت حسب وعدہ الہٰی ختم کی جاتی ہے اور آل اسمٰعیل کو ہمیشہ کے لیے اس کی خدمت گزاری سپرد کی جاتی ہے۔۔۔ آپ کودونوں قبلوں کی تولیت تفویض ہوئی اور نبی القلبلتین کا منصب عطا ہوا۔ یہی وہ نکتہ تھا جس کے سبب سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کعبہ او ربیت المقدس ،دونوں طرف رخ کرنے کا حکم دیا گیا اور اسی لیے معراج میں آپ کو مسجد حرام (کعبہ) سے مسجد اقصیٰ (بیت المقدس) تک لے جایا گیا او رمسجد اقصیٰ میں تمام انبیاء کی صف میں آپ کو امامت پر مامور کیا گیا تاکہ آج اس مقدس دربار میں اس کااعلان عام ہوجائے کہ دونوں قبلوں کی تولیت سرکاری محمدی کو عطا ہوتی ہے او رنبی قبلتین نامزد ہوتے ہیں’’۔(سیرت النبی،3؍252۔253)

اس استدلال کاذرا گہری نظر سے جائزہ لیجئے:

دعوے کے ساتھ اس دلیل کے تعلق کی نوعیت تو یہ ہے کہ اگر ذہن میں کوئی مقدمہ پہلے سے قائم نہ کرلیا گیا ہوتو اس سے یہود کے حق تولیت کی منسوخی کا نکتہ اخذ کرنا فی الواقع کوئی آسان کام نہیں۔قرآن مجید نے واقعہ اسرا کی غرض وغایت خودیہ بیان فرمائی ہے کہ اس سے مقصود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان روحانی نشانیوں سے فیض یا ب ہونے کا موقع دیناتھا جو انبیا کی اس مقدس او ربابرکت سرزمین میں او ربالخصوص مسجد اقصیٰ کے اندر اور اس کے ارد گرد جابجا بکھری ہوئی ہیں۔ یہ اس سفر کی بنیادی غرض وغایت تھی، جب کہ دیگر جزوی اسرار اور حکمتوں پران چودہ صدیوں میں اہل علم مختلف زاویوں سے روشنی ڈالتے رہے ہیں، لیکن اس تمام لٹریچر میں اس بات کی طرف کہیں کوئی اشارہ نہیں ہے کہ اس کا مقصد یہود کو مسجد اقصیٰ کی تولیت کے حق سے معزول کرنا اور اس حق کو مسلمانوں کی طرف منتقل کردینا تھا۔یہ راز ہمارے علما نے حال ہی میں دریافت کیا ہے۔

اس ضمن میں مولانا اصلاحی کے جواب میں تو ہمیں یہی عرض کرناہے کہ اگر واقعہ اسراء کی نوعیت اس ضمن میں ایک اشارے کی ہے تو ظاہر ہے کہ یہ اشارہ مسجد حرام کی تولیت کے بارے میں واردابتدائی اشارے کی طرح ، اس بات کا مقتضی تھا کہ بعد میں مناسب موقع پر اس کو واضح حکم کی شکل بھی دے دی جاتی۔آخر کیا وجہ ہے کہ نہ قرآن مجید سورۂ برأۃ میں ایک مناسب موقع پیداہونے کے باوجود اس کی تصریح کرتاہے، نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس ضمن میں کوئی واضح ہدایت دیتے ہیں ، نہ سیدنا عمر فتح بیت المقدس کے موقع پر اس بات کی وضاحت کی ضرورت محسوس کرتے ہیں اور نہ بعد کے فقہا کے ہاں اس بات کا کوئی ذکر ملتاہے کہ یہود کااپنے قبلے پر اب کوئی حق باقی نہیں رہا؟

باقی رہے وہ اہل علم جو اس واقعہ کو ایک حتمی اعلان کی حیثیت دیتے ہیں، تو ہماری ان سے گزارش ہے کہ وہ ازراہ کرم حسب ذیل سوالات کا جواب عنایت فرمائیں:۔

1۔اس میں کیا حکمت ہے کہ مشرکین کے حق تولیت کی تنسیخ کا تو قرآن مجید میں ڈنکے کی چوٹ پراعلان کیا گیا اور اس کے بعد 9 ہجری میں حج کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کی عام منادی کا اہتمام کیا، لیکن مسجد اقصیٰ پر یہود کے حق تولیت کی تنسیخ واقعہ اسرا میں یوں پنہاں کردی گئی کہ زمانہ حال سے قبل تیرہ صدیوں تک کسی کے لیے اس کو دریافت کرنا ممکن ہی نہ ہوا؟

2۔ مشرکین کی معزولیت کا فیصلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی 23 سالہ نبوی زندگی کے بالکل آخری زمانے میں اس وقت کیا گیا جب کہ مشرکین پردعوت وتبلیغ کے میدان میں اتمام حجت کرنے کے بعد فتح مکہ کی صورت میں سیاسی لحاظ سے بھی ان کو مغلوب کیا جاچکا تھا۔اس کے برخلاف اہل کتاب کے ساتھ ماحثہ کا آغاز مکی زندگی کے آخری سالوں میں ہوا جو مدنی زندگی میں اپنے عروج کو پہنچا۔ ان کی سیاسی طاقت کو توڑ کر ان کو مغلوب کرلینے کا حکم قرآن مجید میں بالکل آخری زمانے میں سورۂ برأۃ میں دیا گیا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ تبوک میں اس سمت میں جد وجہد کا آغاز بھی کردیا، لیکن اس حکم کی عملی تکمیل خلفائے راشدین کے عہد میں ہوئی۔ آخر اس کی کیا توجیہہ کی جائے کہ مشرکین کی معزولی کا فیصلہ تو ان پر اتمام حجت اور سیاسی غلبہ حاصل ہوجانے کے بعد کیا گیا، لیکن بیت المقدس کے حق تولیت سے یہود کی معزولی کا فیصلہ مکہ ہی میں اس وقت کردیا گیا ،جب کہ اتمام حجت اور سیاسی غلبہ کو درکنار ، ابھی ان کے ساتھ باقاعدہ مباحثہ کا بھی آغاز نہیں ہوا تھا؟

3۔ اس الجھن کا کیا حل پیش کیا جائے گا کہ مسجد اقصیٰ بہر حال اسلام میں ‘‘تیسرے ’’ مقدس مقام کی حیثیت رکھتی ہے ، اس کے لیے مسجد حرام او رمسجد نبوی جیسی حرمت وتقدس کے احکام بھی شریعت میں ثابت نہیں اور نہ مسلمانوں کی حج اور قربانی جیسی عبادات کے حوالے سے اسے کوئی خصوصی اہمیت حاصل ہے، تو پھر آخر کس معقول وجہ سے مسجد حرام کا معاملہ موخر کرکے مسجد اقصیٰ کا تولیت کا فیصلہ اس سے کہیں پہلے کردینے کااہتمام کیا گیا؟

4۔ اگر حق تولیت کی تنسیخ کا فیصلہ واقعہ اسرا ہی کے موقع پر ہوچکاتھا تو ہجرت مدینہ کے بعد تحویل قبلہ کے حکم کی کیا حکمت او رمعنویت باقی رہ جاتی ہے؟ اس حکم کی حکمت یہ تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے پیروکاروں او رکمزورمدعین ایمان کے مابین امتیاز قائم ہوجائے او ریہود اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ مانوس ہوجائیں۔ واقعہ اسرا کی اس تعبیر کے مطابق اگر مسجد اقصیٰ پر یہود کے حق کی صاف نفی کی جاچکی تھی تو تحویل قبلہ سے آزمائش او رتالیف قلب کے مذکورہ مقاصد آخر کس بنیاد پر حاصل کرنا مقصود تھے؟

5۔ او رسب سے بڑی بات یہ ہے کہ واقعہ اسرا سے اس استدالال کی جڑ قرآن مجید نے سورہ بنی اسرائیل کی انہی آیات میں خود کاٹ دی ہے۔ واقعہ اسرا کے ذکر کے بعد قرآن مجید نے اسی سلسلہ بیان میں مسجد اقصیٰ کی بربادی او راس میں سے یہود کی بے دخلی کے دوتاریخی واقعات کا ذکر کیا ہے اور اس کے بعد فرمایاہے:

عَسَىٰ رَبُّكُمْ أَن يَرْحَمَكُمْ ۚ وَإِنْ عُدتُّمْ عُدْنَا ۘ

(اسراء 17:8)

‘‘توقع ہے کہ تمہارا رب تم پر پھر رحمت کرے گا۔ او راگر تم نے دوبارہ سرکشی اور فساد کا رویہ اختیار کیا تو ہم بھی اس عذاب کا مزہ تمہیں دوبارہ چکھادیں گے’’۔

یعنی قرآن مجید واقعہ اسرا کے بعد بھی اس بات کا امکان تسلیم کرتاہے کہ اللہ کی رحمت سے یہود کو دوبارہ اپنے مرکز عبادت کی بازیابی اور اس میں سلسلہ عبادت کے احیا کا موقع ملے، اگر چہ یہ موقع بھی پہلے مواقع کی طرح اطاعت او رحسن کردار کے ساتھ مشروط ہوگا۔

ان دلائل سے واضح ہے کہ ہمارے اہل علم کی ایجاد کردہ واقعہ اسرا کی یہ تازہ تعبیر علمی لحاظ سے بالکل بے بنیاد ہے۔

 (جاری)

----------------------

Part: 1 – Masjid al-Aqsa, Jews and Muslim Ummah – Part 1 مسجد اقصیٰ ،یہوداور امت مسلمہ

URL: https://newageislam.com/urdu-section/masjid-al-aqsa-jews-muslim-ummah–part-2/d/130976

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..