New Age Islam
Mon Apr 21 2025, 03:48 AM

Urdu Section ( 25 Oct 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Masjid al-Aqsa, Jews and Muslim Ummah – Part 1 مسجد اقصیٰ ،یہوداور امت مسلمہ

محمد عمار خان ناصر

(قسط اول)

عالم اسلام اس وقت اپنے طول وعرض میں جن سیاسی مسائل او رمشکلات سے دوچار ہے،ان میں مسئلہ فلسطین اس لحاظ سے ایک خاص مذہبی نوعیت بھی رکھتا ہے کہ یہ سرزمین بے شمار انبیاء کا مولد ومسکن ہونے کی نسبت سے ایک نہایت بابرکت او رمقدس سرزمین سمجھی جاتی ہے او راس میں انبیائے بنی اسرائیل کی یادگار کی حیثیت رکھنے والی تاریخی مسجد اقصیٰ موجود ہے جس کی تولیت کے حق کا مسئلہ مسلمانوں او ریہود کے مابین متنازع فیہ ہے۔ یہود کادعویٰ ہے کہ اس جگہ صدیوں پہلے ‘‘ ہیکل سلیمانی’’ کے نام سے ان کا ایک انتہائی مقدس مرکز عبادت تعمیر ہوا تھا جو گوناگوں تاریخی حالات او رواقعات کے نتیجے میں تباہ وبرباد ہوگیا۔ وہ چاہتے ہیں کہ اب اس جگہ کو دوبارہ اپنے تصرف میں لے کر یہاں اس عبادت گاہ کو از سرنو تعمیر کریں۔اگرچہ اسرائیلی حکومتیں اور ہاں کے سیکولر حلقے بالعموم اس تصور کی حوصلہ شکنی ہی کا رویہ اختیار کرتے ہیں اور خود یہود کے مذہبی حلقوں میں بھی اس کی تفصیلات کے حوالے سے بہت کچھ اختلافات پائے جاتے ہیں ، تاہم اصولی طور پر اس جگہ کی بازیابی او ریہاں ہیکل کی تعمیر کو ان کے اعتقاد کے ایک جزولاینفک کی حیثیت حاصل ہے۔

اس مقابلے میں امت مسلمہ کی نمائندگی کرنے والے کم وبیش تمام مقتدر اہل علم او رعلمی وسیاسی ادارے مسجد اقصیٰ کے حوالے سے جس موقف پر متفق ہیں، وہ یہ ہے کہ یہ مقام تاریخی اور شرعی لحاظ سے بلاشرکت غیرے مسلمانوں کی ملکیت ہے ، اس کی تولیت او راس میں عبادت خالصتاً مسلمانوں کا استحقاق ہے، او ریہود کا اس مقام پر عبادت کرنے یا یہاں ہیکل سلیمانی تعمیر کرنے کا مطالبہ مسلمانوں کے ایک مقدس مقام کی توہین او ران کے مذہبی جذبات کی پامالی کی ایک سازش ہے۔

ہمارا احساس یہ ہے کہ امت مسلمہ کی جانب سے اجتماعی طور پر اختیار کردہ اس رویے کی تشکیل میں بنیادی عنصر کی حیثیت مسئلے کی جذباتی نوعیت اور عرب اسرائیل سیاسی کشاکش کو حاصل ہے او ربعض نہایت اہم شرعی ،اخلاقی اور تاریخی پہلووں کے نظر انداز ہوجانے کی وجہ سے اس معاملے میں توازن واعتدال کے حدود ٹھیک ٹھیک ملحوظ نہیں رکھے جاسکے۔چنانچہ صورت حال اس بات کی مقتضی ہے کہ تعصبات وجذبات سے بالاتر ہوکر قرآن وسنت کی روشنی میں بے لاگ طریقے سے اس مسئلے کا جائزہ لیا جائے۔

اللہ تعالیٰ نے نہایت اہتمام کے ساتھ امت پر یہ واضح کیاہے کہ ان کے ہاتھ سے عدل و انصاف کا دامن کسی حال میں بھی نہیں چھوٹنا چاہیے، چاہے معاملہ کسی ایسے گروہ ہی کا کیوں نہ ہوجس نے ان پر ظلم وزیادتی کی او ران کے ساتھ ناانصافی کا معاملہ کیا ہو:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ لِلَّهِ شُهَدَاءَ بِالْقِسْطِ ۖ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَىٰ أَلَّا تَعْدِلُوا ۚ اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَىٰ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ

(المائدہ : 8:5)

‘‘ایمان والوں ، اللہ کی خاطر عدل و انصاف کے گواہ بن کر کھڑے ہوجاؤ، او رایسا نہ ہو کہ کسی قوم کے ساتھ دشمنی تمہیں برانگیختہ کرکے ناانصافی پر آمادہ کردے۔عدل پر قائم رہو ،یہی تقویٰ کے زیادہ قریب ہے۔ اور اللہ سے ڈرتے رہو، بے شک اللہ تمہارے اعمال کی پوری پوری خبر رکھنے والا ہے’’۔

اگر مسلمان کسی موقع پر عدل وانصاف کے طریقے سے گریز کا رویہ اختیار کریں تو قرآن مجید کی رو سے اہل ایمان کی ذمہ داری ہے کہ وہ کسی رو رعایت کے بغیر اپنے بھائیوں کے سامنے حق بات کی شہادت دیں، چاہے اس کی زد خود مسلمانوں کے جذبات یا ان کے ظاہری مفادات پر ہی پڑتی ہو:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاءَ لِلَّهِ وَلَوْ عَلَىٰ أَنفُسِكُمْ أَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ ۚ إِن يَكُنْ غَنِيًّا أَوْ فَقِيرًا فَاللَّهُ أَوْلَىٰ بِهِمَا ۖ فَلَا تَتَّبِعُوا الْهَوَىٰ أَن تَعْدِلُوا ۚ وَإِن تَلْوُوا أَوْ تُعْرِضُوا فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا

(النساء 135:4)

‘‘ ایمان والو، عدل و انصاف پر پوری طرح قائم ہوکراللہ کے لیے گواہی دینے والے بن جاؤ ،چاہے اس کی زد خود تمہارے اپنے یا تمہارے والدین اور اقربا کے مفادات پر پڑے۔ وہ شخص غنی ہو یا فقیر، دونوں صورتوں میں اللہ اس کے زیادہ قریب ہے۔ تم خواہش کی پیروی میں انصاف کے طریقے سے ہٹ نہ جاؤ۔ او ر اگر تم گواہی میں کج بیانی کروگے یا گواہی دینے سے اعراض کا طریقہ اختیار کروگے تو یاد رکھو اللہ تمہارے اعمال کی پوری پوری خبر رکھنے والا ہے’’۔

ِذیل کی سطور میں ہم نے اسی جذبے کے ساتھ اس ذمہ داری کوادا کرنے کی کوشش کی ہے۔

مسجد اقصیٰ کی مختصر تاریخ:

 مصریوں کی غلامی سے رہائی کے بعد جب صحرائے سینا میں بنی اسرائیل کو سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے ذریعے سے باقاعدہ شریعت عطا کی گئی تو ساتھ ہی حضرت موسیٰ کو یہ ہدایت بھی کردی گئی کہ وہ بدنی او رمالی عبادت کی مختلف رسوم ادا کرنے کیلئے خیمے کی شکل میں بنی اسرائیل کے لیے ایک عبادت گاہ بنائیں۔اس خیمے کی بناوٹ ، اس کے سازوسامان او را س میں ادا کی جانے والی رسوم کی پوری تفصیل خود اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو سمجھائی۱؂۔تورات میں اس خیمے کا ذکر‘‘ خمیۂ اجتماع’’، ‘‘مقدس’’، ‘‘مسکن’’ اور ‘‘شہادت کاخیمہ’’ کے مختلف ناموں سے کیا گیا ہے۔ حضرت موسیٰ کو یہ حکم دیا گیا کہ وہ خاص وضع کا ایک صندوق بنا کر اس میں تورات کی الواع کو محفوظ کریں اور اسے ‘‘خیمہ اجتماع’’ میں ایک مخصوص مقام پر مستقل طور پر رکھ دیں۲؂۔ تورات میں اس کو ‘‘عہد کا صندوق’’ کے نام سے یا د کیا گیا ہے۔

اس متحرک او رقابل انتقال (Mobile) عبادت گاہ کا حکم صحرائے سینا میں بنی اسرائیل کے عارضی قیام اور مسلسل نقل مکانی کے پیش نظر دیا گیا تھا۔ 1450 ق م میں حضرت یوشع بن نون کی قیادت میں بنی اسرائیل نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق بیت المقدس کو فتح کیا۔ اس کے بعد تقریباً چار صدیوں تک بنی اسرائیل علاقے میں پہلے سے آباد مختلف نسلی گروہوں کے ساتھ لڑنے او رانہیں مغلوب کرنے کی جدوجہد میں مصرف رہے۔اس عرصے میں چونکہ سرزمین فلسطین پربنی اسرائیل کے قبضے او ران کے سیاسی اقتدار کو استحکام حاصل نہیں تھا، اس لیے مرکز عبادت کی حیثیت اسی ‘خیمہ اجتماع’ کو حاصل رہی۔چار صدیوں کی مسلسل جدوجہد کے بعد آخر سید نا داؤد علیہ السلام کے زمانے میں بنی اسرائیل ان کی قیادت میں ان مقامی گروہوں کو بڑی حد تک کچلنے او رایک مستحکم سلطنت کی بنیاد رکھنے میں کامیاب ہوگئے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت داؤد علیہ السلام کو ایک باقاعدہ مرکز عبادت تعمیر کرنے کی ہدایت ملی۳؂۔حضرت داؤد نے اس مقصد کیلئے ارنان یبوسی نامی شخص سے اس کا ایک کھلیان خریدا جو کوۂ موریا پر واقع تھا۴؂۔ اور تعمیر کے لیے ابتدائی تیاریاں شروع کردیں۵؂۔ تاہم اپنی حیات میں وہ اس مرکزعبادت کو تعمیر نہ کرسکے اور اپنے فرزند سیدنا سلیمان علیہ السلام کو اس کی تعمیر کی وصیت کرتے ہوئے معبد کا تفصیلی نقشہ انہیں سمجھا کر دنیا سے رخصت ہوگئے۶؂۔

حضرت سلیمان نے اپنے والد کی وفات کے بعد اپنے دور حکومت میں اس نقشے کے مطابق متعینہ جگہ پر ایک شاندار عبادت گاہ تعمیر کرائی جو تاریخ میں ‘‘ہیکل سلیمانی’’(Solomon's Temple)کے نام سے معروف ہے۔ اس کی تعمیر 950ق م میں مکمل ہوئی۔ اپنی شان وشوکت او رجاہ و شکوہ کے لحاظ سے یہ عمارت عجائبات عالم میں شمار ہوتی تھی ۔ اس کی تعمیر کی پوری تفصیل سلاطین 6:1 اور تواریخ 3:2۔5میں مذکور ہے۔ قرآن مجید کے بیان مطابق اس کی بڑی بڑی محرابوں کی تعمیر کے لیے سلیمان علیہ السلام نے ان جنات سے بھی مدد لی تھی جنہیں اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے مسخر کردیا تھا۷؂۔

‘خیمہ اجتماع’ کی جگہ اب ‘ہیکل سلیمانی’ کو بنی اسرائیل۸؂ کی عبادات او رمذہبی رسوم کیلئے قبلہ او ران کی مذہبی واجتماعی زندگی کے محورومرکز کی حیثیت ہوگئی۔ سوختنی قربانیوں کے لئے مذبح اور عہد کے صندوق کے لیے ایک خاص کمراہ اسی معبد میں تعمیر کیا گیا۹؂۔ اس کی تکمیل کے موقع پر سیدنا سلیمان علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے حضور جو دعا کی، اس سے واضح ہے کہ بنی اسرائیل کے لیے اس عبادت گاہ کو اسی طرح ایک روحانی مرجع ومرکز اور ‘مثابۃ للناس’ کی حیثیت دے دی گئی تھی جس طرح بنی اسمٰعیل کے لیے مسجد حرام کو:

‘‘اور سلیمان نے اسرائیل کی ساری جماعت کے روبرو خداوند کے مذبح کے آگے کھڑے ہوکر اپنے ہاتھ آسمان کی طرف پھیلائے اور کہا۔۔ اے خداوند میرے خدا اپنے بندہ کی دعا اور مناجات کا لحاظ کرکے اس فریاد اور دعا کو سن لے جو تیرا بندہ آج کے دن تیرے حضور کرتاہے تاکہ تیری آنکھیں اس گھر کی طرف یعنی اسی جگہ کی طرف جس کی بابت تونے فرمایا کہ میں اپنا نام وہاں رکھوں گا، دن اور رات کھلی رہیں تاکہ تو اس دعا کو سنے جو تیرا بندہ اس مقام کی طرف رخ کرکے تجھ سے کرے گا۔ اور تو اپنے بندہ اور اپنی قوم اسرائیل کی مناجات کو جب وہ اس جگہ کی طرف رخ کرکے کریں، سن لینا، بلکہ تو آسمان پر سے جوتیری سکونت گاہ ہے، سن لینا اور سن کرمعاف کر دینا۔اگر کوئی شخص اپنے پڑوسی کا گناہ کرے اور اسے قسم کھلانے کے لیے اس کو حلف دیا جائے اور وہ آکر اس گھر میں تیرے مذبح کے آگے قسم کھائے تو تو آسمان پر سے سن کر عمل کرنا اوراپنے بندوں کا انصاف کرنا۔۔۔ جب تیری قوم اسرائیل تیرا گناہ کرنے کے باعث اپنے دشمنوں سے شکست کھائے او رپھر تیری طرف رجوع لائے او رتیرے نام کا اقرار کرکے اس گھر میں تجھ سے دعا اور مناجات کرے تو تو آسمان پر سے سن کر اپنی قوم اسرائیل کا گناہ معاف کرنا اور ان کو اس ملک میں جو تونے ان کے باپ دادا کو دیا،پھر لے آنا۔ جب اس سبب سے کہ انہوں نے تیرا گناہ کیا ہو، آسمان بند ہوجائے اور بارش نہ ہو او روہ اس مقام کی طرف رخ کرکے دعا کریں اور تیرے نام کا اقرار کریں او راپنے گناہ سے باز آئیں جب تو اس کو دکھ دے تو تو آسمان پر سے سن کر اپنے بندوں او راپنی قوم اسرائیل کا گناہ معاف کردینا۔۔۔ اگر ملک میں کال ہو، اگر وبا ہو، اگر بادسموم یا گیروئی یا ٹڈی یا کملا ہو، اگر ان کے دشمن ان کے شہروں کے ملک میں ان کو گھیر لیں، غرض کیسی ہی بلا کیسا ہی روگ ہو تو جو دعا او رمناجات کسی ایک شخص یا تیری قوم اسرائیل کی طرف سے ہو جن میں سے ہر شخص اپنے دل کا دکھ جان کر اپنے ہاتھ اس گھر کی طرف پھیلائے تو تو آسمان پر سے جو تیری سکونت گاہ ہے، سن کر معاف کر دینا۔۔۔اب رہا وہ پردیشی جو تیری قوم اسرائیل میں سے نہیں ہے، وہ جب دور ملک سے تیرے نام کی خاطر آئے ۔۔۔اور اس گھر کی طرف رخ کرکے دعا کرے توتو آسمان پر سے جو تیری سکونت گاہ ہے ، سن لینا۔۔۔اگر تیرے لوگ خواہ کسی راستہ سے تو ان کو بھیجے ،اپنے دشمن سے لڑنے کو نکلیں او روہ خداوند سے اس شہر کی طرف جسے تونے چنا ہے او راس گھر کی طرف جسے میں نے تیرے نام کے لیے بنایا ہے،رخ کرکے دعا کریں تو تو آسمان پر سے ان کی دعا اور مناجات سن کر ان کی حمایت کرنا۔اگروہ تیرا گناہ کریں (کیونکہ کوئی ایسا آدمی جو گناہ نہ کرتا ہو) اور تو ان سے ناراض ہوکر ان کو دشمن کے حوالہ کردے ایسا کہ وہ دشمن ان کو اسیر کرکے اپنے ملک میں لے جائے خواہ وہ دور ہو یا نزدیک تو بھی اگر وہ اس ملک میں جہاں وہ اسیر ہوکر پہنچائے گئے ، ہوش میں آئیں او ررجوع لائیں۔۔۔ او راس گھر کی طرف جو میں نے تیرے نام کے لیے بنایا ہے،رخ کرکے تجھ سے دعا کریں تو تو آسمان پر سے جو تیری سکونگ گاہ ہے ،ان کی دعا او رمناجات سن کر ان کی حمایت کرنا۔۔۔سوتیری آنکھیں تیرے بندہ کی مناجات او رتیری قوم اسرائیل کی مناجات کی طرف کھلی رہیں تاکہ جب کبھی وہ تجھ سے فریاد کریں تو ان کی سنے’’۱۰؂۔

اس طرح اس عبادت گاہ کو بنی اسرائیل کے ایک مذہبی وروحانی مرکز ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی سیاسی عظمت وشوکت او ردنیاوی جاہ وجلال کے ایک نشان کی حیثیت بھی حاصل تھی۔ تاہم اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان کی زبانی بنی اسرائیل کو یہ تنبیہ بھی اس عبادت گاہ کی تعمیر کے ساتھ ہی فرمادی تھی:

‘‘اگر تم میری پیروی سے برگشتہ ہوجاؤ او رمیرے احکام اور آئین کو جو میں تمہارے آگے رکھے ہیں ، نہ مانو ،بلکہ جاکر او رمعبودوں کی عبادت کرنے اوران کو سجدہ کرنے لگو تو میں اسرائیل کو اس ملک سے جو میں نے ان کو دیا ہے، کاٹ ڈالوں گا اوراس گھر کو جسے میں اپنے نام کیلئے مقدس کیاہے، اپنی نظر سے دور کردوں گااور اسرائیل سب قوموں میں ضرب المثل اورانگشت نماہوگا اور اگرچہ گھر ایسا ممتاز ہے تو بھی ہر ایک جو اس کے پاس سے گزرے گا ، حیران ہوگا او رسسکارہے گا اور وہ کہیں گے کہ خداوند نے اس ملک اور اس گھر سے ایسا کیوں کیا؟’’(سلاطین 1:9:1۔9۔ تواریخ 7:2:11۔22)

ہیکل سلیمانی کی تعمیر کے تقریباً ساڑھے تین سو سال بعد یہ پیشگوئی پہلی مرتبہ یرمیاہ نبی کے زمانے میں پوری ہوئی۔ بنی اسرائیل کے اجتماعی طور پر شرک میں مبتلا ہوجانے اور شریعت کی تعلیمات کو پس پشت ڈال دینے کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے بابل کے بادشاہ نبوکدہ کو نضر کو ان پر مسلط کیا جس نے 586ق م میں یروشلم پر حملہ کرکے ہیکل کو جلا کر برباد کردیا، اس کے تمام خزانے اور قیمتی ظروف لوٹ لئے ،بنی اسرائیل کا قتل عام کیا او رانہیں اسیر بنا کر اپنے ساتھ بابل لے گیا۱۱؂۔

بنی اسرائیل کی توبہ او راصلاح حال کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے انہیں دوبارہ آزادی کی نعمت عطا کی اور فارس کے بادشاہ خورس (Cyrus) نے بابل کو فتح کرنے کے بعد 538ق م میں اسیری میں آئے ہوئے بنی اسرائیل کو واپس یروشلم جانے اور وہاں ہیکل کو دوبارہ تعمیر کرنے کی اجازت دے دی۱۲؂۔

ہیکل ثانی کی تعمیر، جس کو زربابلی کا نام دیا گیا ، 515 ق م میں مکمل ہوئی۔ یہ ایک بالکل سادہ سی عبادت گاہ تھی جس کا تزئین و آرایش اور تعمیر کے معیار کے لحاظ سے سلیمانی ہیکل کے ساتھ کوئی جوڑ نہیں تھا۔(حجی 3:2۔9) یہ عبادت گاہ تقریباً ساڑھے چار سو سال تک قائم رہی، لیکن عرصے میں وقتاً فوقتاً حملہ آور وں کے ہاتھوں بے حرمتی کا نشانہ بنتی رہی۔169 ق م میں یونانی بادشاہ انطوخیو س چہارم ایپی فینسی نے ہیکل پر قبضہ کرکے اس کے سازوسامان اور خزانے کو لوٹ لیا۱۳؂ او را س میں زیوس (Zeus) دیوتا کے نام پرقربانی کا مذبح قائم کرکے سردار کاہن کو مجبور کیا کہ وہ اس پر ایک خنزیر کی قربانی کرے۔ اس کے رد عمل میں ‘ مکابیوں کی بغاوت’ نے جنم لیا او ر165ق م میں یہوداہ مکابی کی قیادت میں بنی اسرائیل حملہ آور وں کو بے دخل کرکے ہیکل کی بازیابی او رتطہیر میں کام یاب ہوگئے۱۴؂۔ اس کی یاد میں یہودی اب تک حنو کہ (Hanukkah) کا سالانہ تہوار مناتے ہیں۔

63ق م میں یونانیوں کی جگہ جنرل پومپی کی قیادت میں رومی فوج نے فلسطین پر قبضہ کیا تو اس موقع پر زرباہلی ہیکل کا ایک بڑا حصہ تباہی کی نذرہوگیا ۔بعد میں رومی حکومت نے یہودیوں کو نیم سیاسی خود مختاری دے دی تو یہودیہ کے بادشاہ عظیم ہیروویش نے ، جس کا زمانہ حکومت 37ق م سے 4عیسوی تک ہے، زربابلی ہیکل کی تعمیر نو کرکے ہیکل کے رقبے کو وسیع تر کردیا، اس کے گرد چار دیواری تعمیر کی او رزمین سے اس کی اونچائی مزید بلند کردی۔ یہ تعمیر 19 ق م میں شروع ہوکر 46 سال تک جاری رہی۔

ہیکل کی تباہی اور فلسطین سے یہودیوں کی بے دخلی کی پیش گوئی دوسری مرتبہ 70 ء میں پوری ہوئی ۔66ء میں یہودیوں نے رومی حکومت کے خلاف بغاوت کردی، جس کو کچلنے کے لیے رومی جنرل طیطس (Titus) نے 70ء میں یروشلم پر حملہ کرکے یہود کاقتل عام کیا او رہیکل کو بالکل تباہ وبرباد کردیا۔ زندہ بچ جانے والے یہودیوں کو جلاوطن کردیا گ یا اور یروشلم میں ان کا داخلہ ممنوع قرار دیا گیا ، تاہم بعد کے ادوار میں یہ پابندی نرم کرکے یہودیوں کو مخصوص مواقع پر یروشلم میں آنے اور ہیکل کے کھنڈرات کی زیارت کرنے کی اجازت دے دی گئی۔ہیکل کی اس دوسری تباہی میں اس کی صرف مغربی دیو ار محفوظ رہ گئی تھی جو رفتہ رفتہ یہودیوں کا مقام او ران کی گریہ وزاری کامرکز بن گئی او را س بنا پر‘‘ دیوار گریہ’’ (Wailing Wall) کہلانے لگی۱۵؂۔

136ء میں رومی شہنشاہ ہیڈرین نے یروشلم کو دوبارہ آباد کرکے اس کا نام ‘Aeila Capitolina’ رکھا اور ہیکل کی جگہ رومی دیوتا ‘Jupiter’ کے نام پرایک عالی شان معبد تعمیرکرایا۔ چوتھی صدی عیسوی میں مسیحیت کے روم کا سرکاری مذہب بن جانے کے بعد 336ء میں قسطنطین اعظم نے اس معبد کی جگہ کلیسا ے نشور (Church Or Resurrection) تعمیر کرادیا۔

638ء میں مسلمانوں نے یروشلم کو فتح کیا تو اس موقع پر امیرالمومنین عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ صحابہ کی معیت میں مسجداقصیٰ میں آئے اس وقت ہیکل کے پتھر (صخرۂ بیت المقدس ) کے اوپر کوڑا کرکٹ پڑا ہوا تھا ۔سیدنا عمر نے صحابہ کے ساتھ مل کر اس کو صاف کیا اور احاطہ ہیکل کی جنوبی جانب میں نماز پڑھنے کے لیے ایک جگہ مخصوص کردیا۔ بعد میں اس جگہ پر لکڑی کی ایک مسجد تعمیر کی گئی ۔688ء میں اموی خلیفہ عبدالملک بن مروان نے صخرۂ بیت المقدس کے اوپر ایک شان دار گنبد تعمیر کرادیا جو ‘قبہ الصخرۃ’ (Dome of Rock) کے نام سے معروف ہے۔ اسی نے لکڑی کی مذکورہ سادہ مسجد کی تعمیر نو کرکے اس کے رقبے کو مزیدوسیع کردیا۔ اسلامی لٹریچر ‘‘مسجد اقصیٰ’’ سے مراد یہی مسجد ہے۔

1078ء میں جب سلجوقی ترکوں نے یروشلم پر قبضہ کیا تو ان کے 20 سالہ دور حکومت میں یورپ اور پوری دنیا نے آنے والے مسیحی زائرین کے ساتھ نارواسلوک اختیا رکیا گیا اور ان کی زیارت میں رکاوٹ ڈالی گئی۔ اس کے رد عمل میں 1096 ء میں مغربی یورپ میں غیض وغضب کی ایک لہر اٹھی جس نے صلیبی جنگو ں کا روپ دھار لیا۔ یورپ اربن دوم کے حکم پر عیسائی مجاہدین کا ایک لشکر یروشلم پر قبضے کے لیے روانہ ہوا جس نے 1099ء میں یروشلم پر قبضہ کرکے مسجد اقصیٰ او رقبۃ الصخرۃ کو اپنے تصرف میں لے لیا۔ مسیحی فاتحین نے قبۃ الصخرہ کے اوپر ایک صلیب نصب کرکے اس کو‘Templum Domini’ کا اور مسجد اقصیٰ کو‘Templum Solomonis) کا نام دے دیا۔

88 سال کے بعد 12اکتوبر 1187ء کو مسلمان صلاح الدین ایوبی کی قیادت میں دوبارہ یروشلم پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوگئے اور مسجد اقصیٰ کو مسجد کی حیثیت سے بحال کرکے قبۃ الصخرہ سے صلیب اتار دی گئی۔

1967 ء کی عرب اسرائیل جنگ میں اسرائیل مشرقی یروشلم پرقبضہ کرنے میں کامیاب ہوگیا جس میں مسجد اقصیٰ واقع ہے او رمسجد کو اسرائیلی فوج نے اپنے کنٹرول میں لے لیا، تاہم اسرائیلی وزیر دفاع مو شے دایان نے خیرسگالی کے اظہار کے طورپر احاطہ مقدسہ کی چابیاں اردن کے حکمران ہاشمی خاندان کے سپرد کردیں۔ اس وقت سے اس احاطے اور اسے ملحق بعض عمارتوں کا کنٹرول یروشلم کے مسلم وقف کے پاس ہے جو اس کے جملہ امور کی دیکھ بھال کا ذمہ دار ہے۱۶؂۔

۔۔۔۔

اس مختصر جائزے سے واضح ہے کہ تاریخی لحاظ سے مسجد اقصیٰ کے ساتھ مذہبی تعلق ووابستگی کے دعوے میں دونوں فریق طور پر سچے ہیں۔ یہودیوں کے لیے یہ عبادت گاہ قبلہ ومرکز اور ان کی دینی ودنیاوی عظمت رفتہ کے نشان کی حیثیت رکھتی ہے۔ دعا او رمناجات کے لیے وہ اسی کی طرف رخ کرتے ہیں او راس میں سلسلہ عبادت کے احیا کی تمنائیں برآنے کے لیے صدیوں سے ان کے سینوں میں تڑپ رہی ہیں۔

مسلمانوں کی وابستگی اور عقیدت بھی اس عبادت گاہ کے ساتھ معمولی نہیں ہے۔ یہ مقام انبیائے بنی اسرائیل کی ایک یادگار ہے جن پرایمان او رجن کا احترام وتعظیم مسلمانوں کے اعتقاد کا جزولاینفک ہے۔انہوں نے اس وقت اس عبادت گاہ کو آباد کیا جب یہودونصاریٰ کی باہمی آویزشوں کے نتیجے میں یہ ویران پڑی تھی۔ ان کا یہ عمل مذہبی، عقلی اور اخلاقی معیارات کے مطابق ایک نہایت اعلیٰ روحانی اور مبارک عمل ہے جس پر وہ جتنا بھی فخر کریں، کم ہے۔

فریقین کے تعلق ووابستگی کے دعوے کو درست مان لینے کے بعد اب سوال یہ ہے کہ اس پر تولیت کا حق کس فریق کو ملنا چاہئے او رفریقین میں سے کس کے حق کو کس بنیاد پر ترجیح دی جائے؟ جہاں تک قانونی پہلو کا تعلق ہے ،اس میں شبہ نہیں کہ مسلمانوں کے دعواے تولیت کو ایک عملی وجہ ترجیح حاصل ہے۔ انہوں نے یہ عبادت گاہ نہ یہودیوں سے چھینی تھی اور نہ ان کے پہلے سے موجود کسی عبادت گاہ کو ڈھا کر اس پر اپنی عبادت گاہ تعمیر کی تھی۔نیز وہ بحالت موجودہ اس کی تولیت کے ذمہ دار ہیں او ریہ ذمہ داری وہ گزشتہ تیرہ صدیوں سے ،صلیبی دور کے استثنا کے ساتھ، تسلسل کے ساتھ انجام دیتے چلے آرہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بین الاقوامی سطح پر بھی اس کی تولیت کا حق دار مسلمانوں ہی کو تسلیم کیا گیا ہے۔

تاہم قانونی پہلو کو اس معاملے کا واحد قابل لحاظ پہلو سمجھنے کے عام نقطہ نظر سے ہمیں اختلاف ہے اور زیر نظر تحریر میں ہم اسی نکتے کی توضیح کرنا چاہتے ہیں ۔ہماری رائے یہ ہے کہ اس نوعیت کے مذہبی تنازعات میں قرآن سنت کی رو سے اصل قابل لحاظ چیز ، جس کی رعایت مسلمانوں کو لازماً کرنی چاہئے، وہ اخلاقی پہلو ہے۔ اس بحث کی تنقیح کے لیے ہمارے نزدیک اس بنیادی سوال پر غور وخوض مناسب ہوگا کہ مسجد اقصیٰ کی تولیت کامسلمانوں کے ہاتھوں میں آنا آیا شرعی نوعیت کا کوئی معاملہ ہے یا تکوینی وواقعات نوعیت کا؟ دوسرے لفظوں میں، آیا یہ اسلامی شریعت کا کوئی حکم اور تقاضا ہے کہ مسلمان یہود کو اس عبادت گاہ سے لاتعلق قرار دے کر ان کی جگہ اس کی تولیت کی ذمہ داری خود سنبھال لیں یا محض تاریخی حالات وواقعات نے ایسی صورت حال پیدا کردی تھی کہ مسلمانوں کو اس کی تولیت کی ذمہ داری اٹھانی پڑی؟

اگر معاملہ شرعی نوعیت کاہے تو پھر اس بات کا جائزہ لینا ہوگا کہ وہ نصوص اور دلائل جن سے اس ضمن میں استناد کیا جاسکتاہے ،کون سے ہیں او رعقل ومنطق کی میزان میں ان استدلال کتنا وزن رکھتاہے؟

اور اگر معاملے کی نوعیت شرعی نہیں ،بلکہ واقعاتی ہے تو پھر یہ دیکھنا ہوگا کہ اس سلسلے میں عام مذہبی اخلاقیات اور خود اسلامی تعلیمات کا تقاضا کیا ہے اور کیا محض واقعاتی تسلسل اخلاقی لحاظ سے اس بات کا جواز فراہم کرتاہے کہ یہود کے تاریخی ومذہبی حق کو بالکل مسترد کردیاجائے؟

آئیے ان دونوں نکتوں کا ذرا تفصیل کے ساتھ جائزہ لیتے ہیں۔

حق تولیت سے یہود کی معزولی:

سب سے پہلے ہم اس امکان پر غور کریں گے کہ مسلمانوں کو مسجد اقصیٰ کی تولیت کا حق حالات وواقعات کے نتیجے میں نہیں، بلکہ شریعت کے کسی باقاعدہ حکم کے تحت ملا ہے۔ اس حوالے سے بالعموم جو استدلال پیش کیا جاتا ہے، وہ یہ ہے کہ چونکہ یہود انبیاء کے قتل، عہد شکنی ، تحریف آیات اور کتمان حق کے مجرم ہیں اور اس جرم کی پاداش میں انہیں دنیا کی رہنمائی اور فضیلت علی العالمین کے منصب سے معزول کردیا گیا ہے، اس لیے انبیاء کی سرزمین او ران کی قائم کردہ عبادت گاہ پر بھی ان کا کوئی حق باقی نہیں رہا اور جس طرح انبیاء کے مشن کی وراثت امت مسلمہ کو منتقل ہو گئی ہے، اسی طرح مسجد اقصیٰ کی ملکیت وتولیت کا حق بھی یہود سے چھین کر ان کو منتقل کردیا گیا ہے۔

اس استدلال کا تنقیدی جائزہ لینے سے پیشتر یہ بات بطور اصول واضح رہنی چاہئے کہ قرآن و سنت کی رو سے کسی مذہب کے ماننے والوں کوان کی کسی عبادت گاہ،بالخصوص قبلہ او رمرکز عبادت کے حق تولیت سے محروم کرنا ایک ایسا نازک معاملہ ہے جو شارع کی جانب سے ایک واضح نص کا متقاضی ہے۔ اس کے بغیر اس معاملے میں محض عقلی استدلال کی بنیاد پر کوئی اقدام کیاہی جاسکتا ۔ چنانچہ دیکھئے ، مسجد حرام پر مشرکین کی تولیت کی اخلاقی حیثیت پر قرآن مجید میں یہ تبصرہ 2ہجری میں غزوہ بدر سے متعلق احکام وہدایات کے ضمن میں نازل ہوچکا تھا:

وَمَا لَهُمْ أَلَّا يُعَذِّبَهُمُ اللَّهُ وَهُمْ يَصُدُّونَ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَمَا كَانُوا أَوْلِيَاءَهُ ۚ إِنْ أَوْلِيَاؤُهُ إِلَّا الْمُتَّقُونَ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ

(الانفال :8:34)

‘‘اور ان میں کیا بات ہے کہ اللہ ان کی عذاب نہ دے، حالانکہ وہ مسجد حرام میں آنے سے لوگوں کو روکتے ہیں، جب کہ وہ اس پرتولیت کا حق بھی نہیں رکھتے۔ اس کی تولیت کا حق تو صرف پرہیز گاروں کا ہے، لیکن ان میں سے اکثر لوگ علم نہیں رکھتے۔’’

لیکن بیت اللہ پر مشرکین کی تولیت کے حق کو خودرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عملاً اس وقت تک چیلنج نہیں کیا جب تک 9ہجری میں قرآن مجید میں اس کے بارے میں واضح ہدایت نازل نہیں ہوگئی حتیٰ کہ 8ہجری میں فتح مکہ کے بعد بھی ، جب مشرکین کی سیاسی قوت وشوکت بالکل ٹوٹ چکی تھی او ربیت اللہ کا حق تولیت ان سے چھین لینے میں ظاہر ی مانع موجود نہیں تھا، آپ نے کعبہ کی تولیت کے سابقہ انتظام ہی کو برقرار رکھا اور اس سال مسلمانوں نے اسی انتظام کے تحت ارکان حج انجام دیے۱۷؂۔ مشرکین کو بھی ارسال حج بیت اللہ سے نہیں روکا گیا۱۸؂۔

9ہجری میں جب سورۂ برأۃ میں مشرکین پر اتمام حجت او ران سے اللہ او راس کے رسول کی برأت کا اعلان کیا گیا تو اس کے ساتھ قرآن مجید میں باقاعدہ یہ حکم نازل ہوا کہ اب بیت اللہ پر مشرکین کسی قسم کا کوئی حق نہیں رکھتے، لہٰذا آج کے بعد ان کو مسجد حرام کے قریب نہ آنے دیا جائے:

مَا كَانَ لِلْمُشْرِكِينَ أَن يَعْمُرُوا مَسَاجِدَ اللَّهِ شَاهِدِينَ عَلَىٰ أَنفُسِهِم بِالْكُفْرِ ۚ أُولَٰئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ وَفِي النَّارِ هُمْ خَالِدُونَ ‏ إِنَّمَا يَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللَّهِ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَلَمْ يَخْشَ إِلَّا اللَّهَ ۖ فَعَسَىٰ أُولَٰئِكَ أَن يَكُونُوا مِنَ الْمُهْتَدِينَ

(برأت9:17۔18)

‘‘مشرکین کو یہ حق نہیں ہے کہ اپنے کفر کی شہادت خود دیتے ہوئے وہ اللہ کی مساجد کو آباد کریں۔ ان کے اعمال اکارت ہیں او روہ ہمیشہ آگ میں رہیں گے ۔اللہ کی مساجد کو آباد کرنے کا حق تو صرف ان کو ہے جو اللہ اوریوم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں، نماز قائم کرتے اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں ، اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے ۔انہی لوگوں کے ہدایت یافتہ ہونے کی امید ہے۔’’

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ فَلَا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هَٰذَا ۚ

(برأت 9:28)

‘‘ایمان والو، بے شک مشرک ناپاک ہیں، لہٰذا اس سال کے بعد وہ مسجد حرام کے قریب نہ آنے پائیں’’۔

اس حکم کے نازل ہونے کے بعد 9 ہجری میں حج کے موقع پر سید ناعلی رضی اللہ عنہ نے یوم الخر میں سورۂ برأت کی ابتدائی چار آیات پڑھ کر سنائیں جن میں مشرکین پر اتمام حجت اور ان سے اللہ ورسول کی برأت کا اعلان ہے، اور پھر اعلان دیا کہ آج کے بعد نہ کوئی مشرک بیت اللہ میں داخل ہوسکے گا او رنہ کسی برہنہ کو حج کرنے کی اجازت دی جائے گی۱۹؂۔

اس اصول کو سامنے رکھئے تو مذکورہ استدلال کے حوالے سے سب سے پہلے سوال یہ سامنے آتاہے کہ کیا قرآن وسنت میں کوئی ایسی نص موجود ہے جس میں یہود کے مذکورہ مذہبی واخلاقی جرائم کی بنیاد پر ان کے حق تولیت کی تنسیخ کا فیصلہ کیا گیا ہو؟ کیا جس طرح مسجد حرام پر مشرکین مکہ کے حق تولیت کی تنسیخ کا دوٹوک اعلان قرآن وسنت میں کیا گیا ہے، اسی طرح مسجد اقصیٰ اور یہود کے بارے میں کوئی صاف اور صریح نص وارد ہوئی ہے؟ ہمارے علم کی حد تک ا س کا جواب نفی میں ہے ، اور قرآن وسنت کی تصریحات ، سیرت نبوی، تاریخ اسلام اور فقہا کی آرا میں متعدد قرآئن اس دعو ے کے خلاف موجود ہیں۔ذیل میں ہم پہلے ان قرائن کی تفصیل پیش کریں گے اور اس کے بعد ان استدلالات کا جائزہ لیں گے جو یہود کے حق تولیت کی تنسیخ کے قائل اہل علم نے اس حوالے سے پیش کیے ہیں۔

( جاری)

-------------------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/masjid-al-aqsa-jews-muslim-ummah–part-1/d/130969

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..