محمد عمار خان ناصر
(قسط سوم)
2۔ تحویل قبلہ:
یہود کے حق تولیت کی
تنسیخ کے ضمن میں دوسرا استدلال تحویل قبلہ کے واقعے سے کیا جاتا ہے۔ مدینہ منورہ
کی طرف ہجرت کرنے کے بعد یہود کی تالیف قلب اور مسلمانوں کے ایمان کو جانچنے کے
لیے کچھ عرصہ کے لیے اللہ تعالیٰ نے مسجد حرام کے بجائے مسجد اقصیٰ کو ، جو یہود
کا قبلہ تھا، مسلمانوں کا قبلہ مقرر فرمایا تھا اور تقریباً سترہ ماہ تک مسلمان اس
کی طرف رخ کرکے نماز ادا کرتے رہے۔ بعد میں اس حکم کو منسوخ کرکے انہیں دوبارہ
مسجد حرام کی طرف رخ کرنے کی ہدایت کی گئی۔ اس واقعہ کا تذکرہ سورہ بقرہ کی آیات
142تا145 میں کیا گیا ہے۔
سید سلیمان ندوی اس واقعہ
کو یہود کے حق تولیت کی معزولی کا حکم نامہ قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
‘‘بیت المقدس اسلام کا دوسرا قبلہ ہے او راس کی تولیت امت محمدیہ
کا حق تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو اس تولیت کی بشارت دے دی تھی
اور فرمادیا تھا کہ میری موت کے بعد یہ واقعہ پیش آئے گا۔’’ (سیرت النبی 3؍385)
اس ضمن میں خود قرآن مجید
کی تصریحات سے تین تین صاف واضح ہیں:
ایک یہ کہ مسجد اقصیٰ کو
قبلہ مقرر کرنے کے حکم کا مقصد یہ تھا کہ اہل ایمان کی آز مائش کی جائے اور مضبوط
اہل ایمان او رکمزور اہل ایمان کے مابین امتیاز قائم کردیا جائے:
دوسری یہ کہ مسجد اقصیٰ
کی طرف رخ کرنے کا یہ حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو طبعاً پسند نہیں تھا او
رآپ کی یہ خواہش تھی کہ دوبارہ مسجد حرام کو مسلمانوں کا قبلہ بنادیا جائے:
قَدْ نَرَىٰ تَقَلُّبَ
وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ ۖ
فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا ۚ
(البقرہ 2:144)
‘‘آپ کے چہرے کے بار بار آسمان کی طرف اٹھنے کو ہم دیکھتے رہے ہیں
سو ہم آپ کو اس قبلے کی طرف پھیردیں گے جو آپ کو پسند ہے۔’’
تیسری یہ کہ اس حکم کے
منسوخ ہونے پر یہود ناخوش تھے اور ان کی خواہش تھی کہ مسلمان انہیں کے قبلے کی طرف
رخ کرکے نماز پڑھیں، لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کی اس خواہش کو مسترد کردیا:
وَلَئِنْ أَتَيْتَ
الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ بِكُلِّ آيَةٍ مَّا تَبِعُوا قِبْلَتَكَ ۚ
وَمَا أَنتَ بِتَابِعٍ قِبْلَتَهُمْ ۚ
وَمَا بَعْضُهُم بِتَابِعٍ قِبْلَةَ بَعْضٍ ۚ
وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءَهُم مِّن بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ ۙ
إِنَّكَ إِذًا لَّمِنَ الظَّالِمِينَ
(البقرہ2:145)
‘‘ نہ آپ ان کے قبلے کی طرف رخ کریں گے اور وہ آپس میں ایک دوسرے
کے قبلے کی طرف ۔اور اگر واضح حکم آجانے کے بعد آپ ان کی خواہشات کے پیچھے چلے تو
آپ کا شمار ظالموں میں ہوگا’’۔
اس کے ساتھ اہل علم کی
بیان کردہ یہ حکمت بھی پیش نظر رکھیں کہ مسجد اقصیٰ کو قبلہ مقرر کرنے سے یہود
مدینہ کی تالیف قلب یعنی انہیں مسلمانوں کے ساتھ مانوس او راسلام کی طرف مائل کرنا
مقصود تھا۳۶۔
وَمَا جَعَلْنَا
الْقِبْلَةَ الَّتِي كُنتَ عَلَيْهَا إِلَّا لِنَعْلَمَ مَن يَتَّبِعُ الرَّسُولَ
مِمَّن يَنقَلِبُ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ ۚ
(البقرہ 2:143)
‘‘ اور ہم نے یہ قبلہ جس کی طرف رخ کرتے رہے، صرف اس لیے مقرر کیا
تاکہ ہم رسول کی پیروی کرنے والوں او رالٹے پاؤں پلٹ جانے والوں کے مابین امتیاز
قائم کردیں’’۔
اب ذرا غور فرمائیے کہ ان
میں سے کون سی بات ہے جو حق تولیت کی تنسیخ کے ساتھ مناسبت رکھتی ہے؟
اگر مسجد اقصیٰ کو
مسلمانوں کا قبلہ مقرر کرنے کا مقصد یہود کے حق تولیت کو منسوخ کرنا تھا تو واقعہ
کی یہ حکمت اہمیت کے لحاظ سے قرآن کی بیان کردہ حکمت سے کہیں بڑھ کرہے۔ کیا وجہ ہے
کہ قرآن اس اہم تر حکمت سے یہاں صرف نظر کرجاتاہے؟
پھر مفسرین نے اس کی جو
دوسری حکمت یعنی یہود کی تالیف قلب سمجھی ہے، وہ حق تولیت کی منسوخی کے بالکل
معارض ہے۔ اگر مسلمانوں کی یہود کے قبلے کی طرف رخ کرنے کا حکم دینے کا مقصد یہود
کے قلوب کو اسلام او رمسلمانوں کے لیے نرم کرناتھا تو ظاہر ہے کہ پھر اس حکم کا
مقصد ان کے حق تولیت کی تنسیخ نہیں ہوسکتا۔ حق تولیت کی تنسیخ کے دعوے کے ساتھ ان
کے قبلے کی طرف رخ کرنا آخر تالیف قلب کا کون سا طریقہ ہے؟
پھراگر مسجد اقصیٰ کے
استقبال کا مطلب مسلمانوں کے نزدیک یہ تھا کہ اس مرکز پر اب یہود کا کوئی حق باقی
نہیں رہا تو اس حکم کے منسوخ ہونے پر یہود کو خوش ہونا چاہئے تھا یا ناخوش؟ کیا وہ
اس لیے مسلمانوں کی طرف مسجد اقصیٰ کوقبلہ بنائے جانے کے خواہش مند تھے کہ اس
طریقے سے مسلمان اس کے قبلے پر حق جمائے رکھیں او رزبان حال سے ان سینوں میں نشتر
چبھوتے رہیں؟
پھر قرآن مجید جس طرح ‘
قبلتک’ کے الفاظ سے مسجد حرام کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلبی تعلق
کو واضح کرتاہے، اسی طرح کسی منفی تبصرے کے بغیر ‘ قبلتھم’ کے الفاظ سے مسجد اقصیٰ
کے ساتھ یہود کی قلبی وابستگی کی کیفیت کو بھی بیان کرتاہے۔ حق تولیت کی منسوخی کے
معرض بیان میں اس اسلوب کی ناموز ونیت کسی صاحب ذوق سے مخفی نہیں ۔
علاوہ ازیں مدنی زندگی کے
عین آغاز میں ،جب کہ ریاست مدینہ کے استحکام کے لئے یہود کے داخلی تعاون کی اہمیت
سیاسی لحاظ سے ناقابل انکار تھی، ایک ایسا اعلان کرنے میں کیا حکمت تھی جس کی اس
وقت نہ عملاً کوئی اہمیت تھی او رنہ اس کے روبہ عمل لائے جانے کا کوئی فوری امکان؟
یہود جیسی کینہ پرورقوم کے ساتھ ایک سنگین نوعیت کی مذہبی بحث چھیڑدینے کاک اس نازک
موقع پر آخر کیا فائدہ تھا؟
واقعہ یہ ہ کہ مسلمانوں
کا بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنا اسے ‘یہود کا قبلہ’ تسلیم کرتے ہوئے
شراکت کے اصول پر تھا نہ کہ تنسیخ کے اصول پر۔اپنے پش منظر ، جزئیات اور قرآن کے
اسلوب بیان کے لحاظ سے یہ واقع ، نہیں سمجھ سکے کہ اس پس منظر کے ساتھ مسجد اقصیٰ
کو عارضی طور پر مسلمانوں کا قبلہ مقرر کرنے کے اس حکم کودلالت کی کون سی قسم کے
تحت مستقل تولیت کا پروانہ قرار دیا جاسکتا ہے۔
واقعہ اسراء او رتحویل
قبلہ کے واقعات سے استدلال کے مذکورہ انداز اصلاً علمی نوعیت کے ہیں او ر ان کی کم
مائیگی بالکل واضح ہے۔ ان کے علاوہ ایک اور انداز استدلال بھی موجود ہیہ جسے
صحافتی ، سیاسی یا جذباتی میں سے کوئی بھی عنوان دیا جاسکتاہے او رجسے میڈیا میں
اور عالمی فورموں پر اس وقت مسلمانوں کے بنیادی استدلال کی حیثیت حاصل ہے۔اس طریق
استدلال میں یہود کے حق تولیت کے برقرار رہنے یا منسوخ ہو جانے کاسوال ہی سرے سے
گول کرکے بات کا آغاز یہاں سے کیا جاتاہے کہ چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
سفر معران کے موقع پر مسجد اقصیٰ میں تشریف لائے تھے او رمسلمانوں نے ایک مخصوص
عرصے تک اس کی طرف رخ کرکے نمازیں ادا کی تھیں، اس لیے اس مسجد پر مسلمانو ں ہی کا
حق ہے اور دوسرا کوئی اس میں شرکت کا دعوے دار نہیں ہوسکتا۔
اس سلسلہ میں ہماری گزارش
یہ ہے کہ واقعہ اسرا اور تحویل قبلہ کے واقعات یقینا مسجد اقصیٰ کے ساتھ مسلمانوں
کی اعتقادی او رمذہبی وابستگی کے اسباب میں سے اہم سبب ہیں لیکن ان کی یہ تعبیر کہ
اب اس مقام پر صرف اور صرف مسلمان حق رکھتے ہیں او ریہود کے تمام اعتقاد ات او
رجذبات کی کوئی وقعت نہیں رہی، عقلی اور اخلاقی دونوں لحاظ سے ایک نہایت بوداموقف
ہے۔ دسمبر 1930 ء میں برطانوی شاہی کمیشن نے دیوار گریہ کے حوالے سے مسلم موقف پر
تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا:
‘‘کمیشن مسلم فریق کا یہ موقف قبول کرنے کے لیے تیار ہے کہ چونکہ
محمد صلی اللہ علیہ وسلم براق پر سوار ہوکر یہاں آئے تھے، اس لیے پوری مغربی دیوار
مسلمانوں کے لیے مقدس ہے، لیکن کمیشن کی رائے میں اس بات سے اس حقیقت کی نفی نہیں
ہوجاتی کہ یہودیوں کے لیے بھی اس دیو ار کا تقدس برقرار رہے۔ اگر پیغمبر کی تشریف
آوری کی قابل احترام یاد( یہ الگ بات ہے کہ ان کے براق کو یہودیوں کے گریہ وزاری
کے مقام سے ایک مخصوص فاصلے پر باندھا گیا تھا)پوری کی پوری مغربی دیوار کو
مسلمانوں کے لیے مقدس بنا سکتی ہے تو اسی اصول پر باس تعظیم کو بھی احترام کی نظر
سے کیوں نہ دیکھا جائے جس کا اظہار اس سے بھی کئی صدیوں پہلے سے یہود ی اس دیوار
کے متعلق کرتے چلے آرہے ہیں جو ان سے اعتقاد کے مطابق ا س قدیم ہیکل کی واحد باقی
ماندہ یادگار ہے جس کے بارے میں ان کا عقیدہ ہے کہ وہ خدا کی موجودگی سے معمور
ہے؟’’
(http://domino.un.org/unispal.nsf)
یہ تبصرہ واقعہ اسرا اور
قبلہ ثانی کی مذکورہ تعبیر پر بھی بعینہ صادق آتا ہے ۔ اگر پیغمبر اسلام صلی اللہ
علیہ وسلم کے مسجد اقصیٰ میں تشریف لانے اور مسلمانوں کے کچھ عرصہ تک اس کی طرف رخ
کرکے نماز پڑھنے سے مسلمان کی تولیت کے حق دار بن سکتے ہیں تو آخر یہود اس بنیاد
پرکیوں یہ حق نہیں رکھتے کہ اس مقام کو تین ہزار سال سے ان کے قبلے کی حیثیت حاصل
ہے، اس کا حج ان کے مذہبی فرائض کا حصہ ہے ، اور ان کے سیکڑوں انبیاء اور کاہن
صدیوں تک اس میں تعلیم تبلیغ کے فرائض انجام دیتے رہے ہیں؟
3۔مشرکین مکہ پر قیاس:
مکتب دیوبند کے معروف
عالم دین مولانا قاری محمد طیب صاحب نے اس ضمن میں یہ استدلال بھی پیش کیا ہے کہ
چونکہ مشرکین مکہ او ربنی اسرائیل دین ابراہیمی کی تعلیمات سے روگردانی کے حوالے
سے ایک ہی نوعیت کے جرم کے مرتکب ہوئے ہیں، اس لیے مشرکین مکہ کی طرف یہود کا حق
تولیت بھی لازماً منسوخ ماننا چاہئے:
‘‘ یہ تینوں مرکز اسلام کی جامعیت کی وجہ سے مسلمانوں کو کسی کے
دیے سے نہیں ملے، بلکہ خدا کی طرف سے عطا ہوئے اور انہی کے قبضہ وتصرف میں دیے گئے
ہیں جن میں کسی غیر کے دخل یا قبضہ کا ازروے اصول کوئی سوال پیدا نہیں
ہوتا۔........ حجاز میں مشرکین ملت ابراہیم کے نام سے عرب پر قابض ومتصرف تھے،
لیکن جب انہوں نے شعائر اللہ کی جگہ بے جان مورتیوں او رپتھر کے سنگ دل خداؤں کی
جگہ دے دی....... تو سنت اللہ کے مطابق قبضہ تبدیل کردیا گیا.... شام کے مقدس
سرزمین بلاشبہ اولاً یہود کو دی گئی او رفلسطین ان کے حصہ میں لگادیا گیا جیسا کہ
قرآن نے ‘کتب اللہ لکم’ سے اس کا انہیں دے دیا جانا ظاہر کیا ہے، لیکن انہوں نے
عہد شکنی کی اور خدائی تعلیمات سے منہ موڑ کر الہٰی میثاق کو توڑ ڈالا ۔..... ان
حرکات کے انتہا کو پہنچ جانے پر حق تعالیٰ نے انہیں بیت المقدس کی تولیت او راس
ملک کی ملکیت سے محروم کرکے ان پر نصاریٰ کو مسلط کی چنانچہ بعثت نبوی سے تین سو
سال پہلے نصاریٰ شام اور فلسطین کو ارض مقدس پرقابض ہوگئے۔..... لیکن اقتدار جم
جانے کے بعد رد عمل شروع ہوا او ربالآخر وہ بھی قومی اور طبقاتی رقابتوں میں مبتلا
ہوکر اسی راہ پر چل پڑے جس پر یہود چلے تھے۔... صخرہ معلقہ کو جو یہود کا قبلہ
تھا، غلاظت کی جگہ قرار دیا اور اس کی انتہائی توہین شروع کردی۔ محض اس لیے کہ وہ
یہود کا قبلہ تھا، اس پر پلیدی ڈالی اور اسے مزبلہ (کوڑی) بنا کر چھوڑ ا۔... ظاہر
ہے کہ شعائر الہٰیہ اور نشانات خداوندی کی توہین کے بعد کوئی قوم بھی پنپ نہیں
سکتی، اس لیے بالآخر نصاریٰ کا بھی وقت آگیا۔ان کا اقتدار یہاں ختم ہوا او رحق
تعالیٰ نے مسلمانوں کو غلبہ دے کر انہیں بیت المقدس کا متولی بنایا’’۔ (مقامات
مقدسہ او راسلام کا اجتماعی نظام 643۔47)
اس استدلال کے حاصل کو
اگر فقہی اصطلاح میں بیان کیا جائے تو وہ یہ ہے کہ اس میں اہل کتاب کو م‘مشرکین
مکہ’ پر اور اس کے نتیجے میں مسجد اقصیٰ کی تولیت کے معاملے کو مسجدحرام کی تولیت
کے معاملے پر ‘قیاس’ کیا گیا ہے۔
ہماری رائے میں یہ استدلال
دووجوہ سے اپنی بنیادہی کے لحاظ سے غلط ہے:
ایک یہ کہ اس میں حق
تولیت کی تنسیخ کے حکم کی بنیاد محض قیاس پر رکھی گئی ہے جب کہ معاملہ جیسا کہ ہم
عرض کرچکے ہیں ، اپنی نوعیت کے لحاظ سے ‘نص’ کا تقاضا کرتاہے، چنانچہ اس بارے میں
نص صریح سے کم تر کوئی چیز، خوہ وہ قیاس ہویا عقلی استدلال کی کوئی اور قسم قبول
نہیں کی جاسکتی، بالخصوص جب کہ قرآن وسنت میں موجود متعدد قرآئن اس قیاس کے خلاف
بھی موجود ہیں۔
اس استدلال کی دوسری
بنیادی خامی یہ ہے کہ اس میں اہل کتاب کے معاملے کو مشرکین پر قیاس کرتے ہوئے ان
نہایت اہم او رواضح فروق کو نظر انداز کردیا گیا ہے جو خود کتاب وسنت کے نصوص میں
ان دونوں گروہوں کے مابین ثابت ہیں۔ ان کا خلاصہ حسب ذیل ہے:
1۔توحید خالص سے انحراف او رمشرکانہ عقائد واعمال سے آلودہ ہونے کے
باوجود قرآن مجید توحید کو اہل کتاب او راہل اسلام کے درمیان نقطہ اتحاد مانتا او
رانہیں اس کی طرف بلا نے کا حکم دیتاہے۳۷۔
2۔ تورات وانجیل کے احکام سے روگردانی کے باوجود وہ اہل کتاب کو
اصولی طور پر انہیں کتابوں کا پیروکار تسلیم کرتا اور انہیں ‘اہل کتاب’ کے خطاب سے
یاد کرتا۔
3۔اسی بنا پر مشرکین مکہ اور اہل کتاب کے مابین یہ فرق ملحوظ رکھا
گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اتمام حجت کے بعد مشرکین کو تو
اپنے مذہب پر قائم رہنے کی اجازت نہیں دی گئی ، بلکہ ان سے کہا گیا کہ وہ یا تو
اسلام قبول کرلیں یا مرنے کے لیے تیار ہوجائیں۳۸۔ لیکن اہل کتاب کو اپنے
مذہب پر قائم رہتے ہوئے جزیہ دے کرمسلمانوں کے زیر نگیں رہنے کی اجازت دی گئی۳۹۔
4۔ اسی بنا پر قرآن مجید ان کے او رمشرکین کے مابین یہ امتیاز بھی
قائم کرتاہے کہ مشرکین کا ذبیحہ او ران کی عورتوں سے نکاح مسلمانوں کے لیے حرام ،
جب کہ اہل کتاب کا ذبیحہ اور ان کی عورتوں کے ساتھ نکاح ان کے لیے جائز ہے۴۰۔
5۔ اور اسی بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین کے صنم
خانوں او رمقدس مقامات کو اتمام حجت کے بعد ایک ایک کرکے ڈھادینے کا حکم دیا۴۱۔ اس کے برخلاف اہل کتاب
کی عبادت گاہوں کی حرمت وتقدس کو پوری طرح تسلیم کرتے ہوئے انہیں مکمل تحفظ فراہم
کیا گیا، جس کی آئندہ سطور میں دیکھی جاسکتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ اگر انبیا
کی تعلیمات سے یہود کے عملی انحراف کا اثر مذکورہ بالاتمام امور پر نہیں پڑتا
توصرف مسجد اقصیٰ کی تولیت کے معاملے پر وہ کس قانون ، ضابطے او راصول کی رو سے
اثر انداز ہوجاتاہے؟
علاوہ ازیں اس تضاد کا
کیا حل ہے کہ جب اسلام میں اہل کتاب کی عام عبادت گاہوں کو تحفظ دیا گیا او ران
پراہل مذہب کی تولیت وتصرف کا حق تسلیم کیا گیا ہے تو ان کے قبلہ او رمرکز عبادت
کے بارے میں یہ فیصلہ کیوں کیا گیا کہ وہ اس پر تولیت وتصرف یا اس کے اندر عبادت
کرنے کا کوئی حق نہیں رکھتے؟ یہ ایک مسلمہ حقیت ہے کہ کسی بھی مذہب او را سکے قبلے
کو روحانی لحاظ سے لازم وملزوم کی حیثیت حاصل ہوتی ہے، اور اپنے قبلے پر اہل مذہب
کے حق کی نفی کا سیدھا سیدھا مطلب خود اس مذہب کے وجود وبقا او راس کے ماننے والوں
کے مذہبی وروحانی بنیاد پر اتحاد واجتماع کے حق کی نفی ہے۔ علم ومنطق کی رو سے ان
دونوں باتوں میں کوئی تطبیق نہیں دی جاسکتی کہ ایک مذہب کے لئے بطور مذہب تو وجود
وبقا کا حق تسلیم کیا جائے او راہل مذہب کے روحانی ومذہبی جذبات کے احترام کی
تعلیم بھی دی جائے ،لیکن ساتھ ہی یہ کہہ دیا جائے کہ اپنے قبلے میں عبادت او را
سکی تولیت کا کوئی حق ان کو حاصل نہیں ۔ اگر آپ ماننا چاہتے ہیں تو دونوں باتوں کو
ماننا ہوگا ، اور اگر نفی کرنا چاہتے ہیں تو بھی دونوں باتوں کی کرنی ہوگی۔یہی وجہ
ہے کہ قرآن مجید نے مشرکین عرب کے محض کعبہ کی تولیت کا حق ہی نہیں چھینا ،بلکہ اس
کے ساتھ ان کے اپنے مذہب پر قائم رہنے کے اختیار کی بھی صاف طور پر نفی فرمادی او
رکہاکہ ان کے لیے نجات کی راہ صرف یہ ہے کہ وہ دین حق کو قبول کرلیں۴۲۔
4۔ فتح بیت المقدس کی بشارت:
سید سلیمان ندوی کے
مذکورہ اقتباس میں فتح بیت المقدس کی بشارت نبوی کو بھی اس ضمن میں دلیل کے طور پر
بیان کیا گیا ہے۔ ہمارے نزدیک یہ خلط مبحث کی ایک افسوس ناک مثال ہے۔ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو جس چیز کی بشارت دی ، وہ یہ تھی کہ اہل کتاب کے
سیاسی طور پر مغلوب ہونے کے نتیجے میں بیت المقدس کا شہر بھی مفتوح ہوکر مسلمانوں
کے قبضے میں آجائے گا۔ اس کا مسجد اقصیٰ کی تولیت کے معاملے سے آخر کیا تعلق ہے؟
اگر اس فقہی ضابطے کا
حوالہ دیا جائے کہ کسی شہر کے مفتوح ہونے کی صورت میں وہاں کی عبادت گاہوں پر
تولیت کا حق بھی مفتوحین سے چھن جاتاہے تو ہم عرض کریں گے کہ فقہا کی تصریحات کے
مطابق بزورقوت مفتوح ہونے والے علاقوں کے لیے ہے، جبکہ بیت المقدس صلحاً مفتوح ہوا
تھا۔نیز اگر بیت المقدس پر اس ضابطہ کا اطلاق کیا جائے تو ظاہر ہے کہ وہاں کی ساری
عبادت گاہوں کو اس کے دائرے میں آنا چاہئے تو پھر سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے معاہدہ
بیت المقدس میں یہاں کی عباد ت گاہوں پر اہل مذہب کے تولیت و تصرف کے حق کو کس
اصول کے تحت تسلیم کیا؟ او راگر بیت المقدس کے مفتوح ہونے کے بعد اہل کتاب کی دیگر
عبادت گاہوں پر ان کا حق تولیت باقی رہ سکتا ہے تو مسجد اقصیٰ پر، جو کہ ان کا
قبلہ بھی ہے ،کیوں نہیں رہ سکتا؟ اگر یہ کہا جائے کہ مسجداقصیٰ کا معاملہ دیگر
عبادت گاہوں سے مختلف ہے تو سوال یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت
میں اس کا کہاں ذکر ہے اور اس تفریق کی شرعی بنیاد کیاہے؟
حقیقت یہ ہے کہ سیاسی طور
پر مغلوب ہونا ایک الگ بات ہے اور عبادت گاہ کے حق تولیت سے معزول ہونا ایک بالکل
دوسری بات ۔دونوں کو کسی بھی طرح سے مترادف قرار نہیں دیا جاسکتا ۔
5۔اہل کتاب کے ہاں پیش گوئیاں:
مولانا قاری محمد طیب نے
اس سلسلے میں نصاریٰ کی کتابوں میں موجود چند مزعومہ پیش گوئیوں کو بھی دلیل میں
پیش کیا ہے۔ فرماتے ہیں:
‘‘اسلام سے پہلے کے نصاریٰ بھی بیت المقدس کو اسلام کای حق سمجھے
ہوئے تھے۔..... کتب مقدسہ کی اس خبر کے مطابق جب فاروق اعظم رضی اللہ عنہ فتح بیت
المقدس کے لیے شام پہنچے تو انہیں دیکھ کر اس کے نصرانی متولیوں نے ان تمام علامات
کی تصدیق کی جو کتاب مقدس میں وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں پڑھ چکے تھے
او ربلالڑے بھڑے بیت المقدس ان کے حوالے کردیا جو بیت المقدس کے حق اسلام ہونے کی
نمایاں شہادت ہے۔’’(مقامات مقدسہ او راسلام کا اجتماعی نظام 650)
اگر ‘‘ بیت المقدس’’ سے
مولانا علیہ الرحمۃ کی مراد یروشلم کا شہر ہے تو وہ ہماری بحث کے دائرے سے خارج
ہے،البتہ اگر شہر کی تولیت کے ضمن میں مسجد اقصیٰ کی تولیت کا بھی حق بھی داخل
سمجھا جارہا ہے تو گزشہ سطور میں کی گئی بحث کی روشنی میں یہ بات درست نہیں۔
اور اگر‘ بیت المقدس’ سے
ان کی مراد براہ راست مسجد اقصیٰ ہے تو ان کا یہ استدلال نہ تحقیقی لحاظ سے کوئی
وزن رکھتا ہے او رنہ الزامی لحاظ سے ۔الزامی لحاظ سے اس لیے کہ الزام کا بنیاد
ظاہر ہے کہ ایسے مآخذ پرہونی چاہئے جنہیں خود اہل کتاب کے نزدیک استناد او راعتبار
کا درجہ حاصل ہو ، نہ کہ مسلم مورخین کی نقل کردہ تاریخی روایات پر۔ اورتحقیقی
لحاظ سے اس لیے کہ جب قرآن سنت کی تصریحات سے مسجد اقصیٰ کی تولیت کا حق مسلمانوں
کے لیے ثابت نہ ہوجائے ، مذکورہ تاریخی پیش گوئیوں کی کوئی حیثیت نہیں ہوسکتی۔
گویا اصل مسئلہ اس دعوے کے حق میں قرآن وسنت سے ثبوت فراہم کرناہے۔ اس کے بغیر اس
استدلال کا سیدھا سیدھا مطلب یہ ہے کہ مسلمان اپنے اقدامات کے لیے شرعی جواز قرآن
وسنت سے نہیں، بلکہ یہود ونصاریٰ کے ہاں موجود پیش گوئیوں سے اخذ کرتے ہیں۔
مسلمانوں کے حق تولیت کا
واقعاتی تسلسل:
سطور بالا میں ہم اس نکتے
پر سیر حاصل گفتگو کرچکے ہیں کہ اسلامی شریعت میں نہ مسجد اقصیٰ پر یہود کے حق
تولیت کو منسوخ کیا گیا ہے اور نہ اس کے کسی حکم کا یہ تقاضا ہے کہ مسلمان اس کی
تولیت کی ذمہ داری لازماً اٹھائیں ۔ اس حوالے سے جو استدلال پیش کیا گیا ہے، وہ
علمی لحاظ سے بے حد کمزور ہے ۔یہی وجہ ہے کہ بعض جید اہل علم تولیت کے اس حق کو
محض حالات وواقعات کا نتیجہ کرتے اور واقعاتی حقائق ہی کو مسلمانوں کے حق تولیت کی
دلیل کے طو رپر پیش کرتے ہیں۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی لکھتے ہیں:
‘‘ہیکل سلیمانی کے متعلق یہ بات تاریخ سے ثابت ہے کہ اسے 70ء میں
بالکل مسمار کردیا گیا تھا او رحضرت عمر کے زمانے میں جب بیت المقدس ہوا، اس وقت
یہاں یہودیوں کاکوئی معبدنہ تھا، بلکہ کھنڈ پڑے ہوئے تھے، اس لیے مسجد اقصیٰ او
رقبہ صخرہ کی تعمیر کے بارے میں کوئی یہودی یہ الزام نہیں لگا سکتا کہ ان کے کسی
معبد کو توڑ کر مسلمانوں نے یہ مساجد بنائی تھیں’’۔( سانحہ مسجد اقصیٰ ،ص7)
حکیم الامت علامہ محمد
اقبال فرماتے ہیں:
‘‘صدیاں گزرگئیں کہ ایک معبد تعمیر ہوا تھا جسے ہیکل سلیمانی کے
نام سے موسوم کیا جاتا ہے ۔ یہ معبد مسلمانوں کے یروشلم فتح کرنے سے بہت پہلے
برباد ہوگیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کاذکر حضرت عمرفاروق سے فرمایا
تو انہیں ہیکل یا مسجد اقصیٰ کے صحیح موقع و محل سے بھی مطلع کردیا۔ فتح یروشلم کے
بعد حضرت عمر بہ نفس نفیس یروشلم تشریف لے گئے تو انہوں نے مسمار شدہ ہیکل کا محل
وقوع دریافت فرمایا اور وہ جگہ ڈھونڈلی ۔ اس وقت اس جگہ گھوڑوں کی لید جمع تھی جسے
انہوں نے اپنے ہاتھ سے صاف کیا۔ مسلمانوں نے جب اپنے خلیفہ کو ایسا کرتے دیکھا تو
انہوں نے بھی جگہ صاف کرنی شروع کردی اور یہ میدان پاک ہوگیا۔ عین اسی جگہ
مسلمانوں نے ایک عظیم الشان مسجد تعمیر کی جس کا نام مسجد اقصیٰ ہے۔ یہود ونصاریٰ
کی تاریخ میں تو یہ کہیں مذکور نہیں کہ موجودہ مسجد اقصیٰ اسی جگہ پر واقع ہے جہاں
ہیکل سلیمانی واقع تھا ۔ اس تشخیص کا سہرا مسلمانوں کے سر ہے۔ یہود ونصاریٰ نے اس
کی زیارت کے لیے اس وقت آنا شروع کیا جب یہ مشخص ہوچکی تھی’’۔
(انقلاب ،10ستمبر،1929 ء بحوالہ المصارف ،اقبال نمبر، ستمبر اکتوبر
1977-80ء)
اس استدلال کو مکمل انداز
میں یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ چونکہ مسلمانوں نے اس مقام کو یہودیوں سے چھین کر
یا ہیکل کو گرا کر یہاں مسجد اقصیٰ کو تعمیر نہیں کیا، بلکہ انہوں نے اس عبادت گاہ
کو اس وقت تعمیر اور آباد کیا جب یہ بربادی ، ویرانی اور خستہ حالی کا شکار تھی،
نیز گزشتہ تیرہ صدیوں سے مسلمان اس کی تولیت کے امور کے ذمہ دار چلے آرہے ہیں او
ربین الاقوامی سطح پر بھی ایسی بنیاد پر ان کے اس حق کو قانونی اور جائزہ تسلیم
کیا گیا ہے، اس لیے اب یہود کے اس پر کسی قسم کا حق جتانے کا کوئی جواز نہیں ہے۔
ہم اس بحث کے آغاز میں یہ
عرض کرچکے ہیں کہ قانونی لحاظ سے اس استدلال کے درست ہونے میں کوئی شبہ نہیں ،لیکن
ہمیں اس بات کو ماننے میں شدید تر دوہے کہ یہ موقف اس اعلیٰ اخلاقی معیار کے ساتھ
بھی مطابقت رکھتا ہے جس کی تعلیم اہل کتاب او ران کی عبادت گاہوں کے متعلق اسلام
نے دی ہے۔
آئیے ، پہلے اس حوالے سے
اسلامی تعلیمات کاجائزہ لیتے ہیں:
عبادت گاہوں کے متعلق
اسلام کا رویہ
قرآن مجید کے نزدیک دین
کا اصل الاصول خدا کی یاد او را س کی عبادت ہے، اس لیے وہ اعتقادات کے باہمی
امتیاز ،طریقہ ہائے عبادت کے اختلاف اور احکام وشرائع کے فرق کے باوجود اہل کتاب
کی عبادت گاہوں کو اللہ کی یاد کے مرا کز تسلیم کرتا، انہیں مساجد کے ساتھ یکساں
طور پر قابل احترام قرار دیتا او ران کی حرمت وتقدس کی حفاظت کا حکم دیتا ہے:
وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ
النَّاسَ بَعْضَهُم بِبَعْضٍ لَّهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَوَاتٌ
وَمَسَاجِدُ يُذْكَرُ فِيهَا اسْمُ اللَّهِ كَثِيرًا ۗ
( الحج 22:40)
‘‘اور اگر اللہ نے (دنیا میں) ایک گروہ کے ظلم وعدوان کو دوسرے
گروہ کے ذریعے سے دفع کرنے کا قانون نہ بنایا ہوتا تو راہب خانوں، کلیساؤں ، گرجوں
اور مسجدوں جیسے مقامات ،جن میں اللہ کو کثرت سے یاد کیا جاتاہے، گرادیے جاتے’’۔
خدا کی عبادت اشتراک کے
اس تصور سے آسمانی مذاہب کے ماننے والوں کے مابین جو باہمی رویہ پیدا ہوتا ہے، وہ
ظاہر ہے کہ رواداری ،مسامحت او راحترام کا رویہ ہے۔ اسلامی تعلیمات میں اس کا ایک
مظہر یہ ہے کہ بوقت ضرورت مسلمانوں کو اہل کتاب کی عبادت گاہوں میں اہل کتاب کو
مسلمانوں کی مساجد میں عبادت کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔چنانچہ صحابہ میں سے حضرت
عمر، حضرت عبداللہ ابن عباس، حضرت ابوموسیٰ اشعری اور تابعین میں سے ابراہیم نخعی
،اوزاعی ،سعید بن عبدالعزیز ،حسن بصری، عمر بن عبدالعزیز ، شعبی ، عطا او رابن سیرین
رحمہم اللہ جیسے جلیل القدر اہل علم سے کلیساؤں میں نماز پڑھنے کی اجازت او ربوقت
ضرورت اس پر عمل کرنا منقول ہے۴۳۔
دوسری طرف 9ہجری میں جب
نجران کے عیسائیوں کا وفد مدینہ منورہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں
حاضرہوا تو آپ نے انہیں مسجد نبوی میں ٹھہرا یا۔ جب عصر کی نماز کا وقت آیا اور
انہوں نے نماز پڑھنی چاہی تو صحابہ نے ان کو روکنا چاہا ،لیکن رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہیں نماز پرھنے دو۔ چنانچہ انہوں نے مشرق کی سمت میں
اپنے قبلے کی طرف رخ کرکے نماز ادا کی۴۴۔
عبادت گاہوں کے تقدس
واحترام کے اسی تصور کے پیش نظر قرآن مجید نے مذہبی اختلافات کی بنیاد پر لوگوں کو
اللہ کی عبادت سے روکنے یا اس کی عبادت کے لیے قائم کیے گئے مراکز پر تعدی کرنے کو
ایک سنگین ترین اور ناقابل معافی جرم ہے۔ یہودی ونصاریٰ کے مابین اعتقادات اور
قبلے کی سمت میں اختلاف کی بنیاد پر ایک دوسرے کو عبادت سے روکنے اور عبادت گاہوں
پر تعدی کے واقعات ان کی پوری تاریخ رونما ہوتے رہے ۔قرآن مجید نے اس طرز عمل
پرنہایت سخت الفاظ میں تنقید کرتے ہوئے فرمایا:
وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن
مَّنَعَ مَسَاجِدَ اللَّهِ أَن يُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ وَسَعَىٰ فِي خَرَابِهَا ۚ
أُولَٰئِكَ مَا كَانَ لَهُمْ أَن يَدْخُلُوهَا إِلَّا خَائِفِينَ ۚ
لَهُمْ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌ وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ
وَلِلَّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ ۚ
فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ ۚ
إِنَّ اللَّهَ وَاسِعٌ عَلِيمٌ
(لبقرہ:2: 114-115)
‘‘اور اس سے بڑا ظالم کون
ہے جو اللہ کی مسجدوں میں اس کے نام کا ذکر کرنے میں رکاوٹ ڈالے اور مسجدوں کو
ویران کرنے کی کوشش کرے؟ ان کا حق تو یہی تھا کہ وہ ان مسجدوں میں داخل ہوں تو
اللہ کے خوف وخشیت ہی کی حالت میں داخل ہوں۔ ان کے لیے دنیا میں بھی رسوائی ہے اور
آخرت میں بھی ان کے لیے عذاب عظیم ہے۔ مشرق اور مغرب اللہ ہی کے لیے ہیں۔ سوتم جس
طرف بھی رخ کرو، اللہ کی ذات اسی طرف ہے۔ بے شک اللہ بہت وسعت دینے والا علم رکھنے
والا ہے’’۔
عہد رسالت میں مشرکین مکہ
نے متعدد مواقع پر مسلمانوں کو مسجد حرام میں جانے او روہاں عبادت کرنے سے روک دیا
جس کی بنا پر خدشہ تھا کہ مسلمان بھی موقع ملنے پر ان کے قافلوں او رعازمین حج کو
روکنے لگیں گے، چنانچہ قرآن مجید نے بیت اللہ کے طواف وزیارت کا قصد کرنے والوں او
ران کے قربانی کے جانوروں سے کسی بھی قسم کا تعرض کرنے پر پابندی عائد کردی:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ
آمَنُوا لَا تُحِلُّوا شَعَائِرَ اللَّهِ وَلَا الشَّهْرَ الْحَرَامَ وَلَا
الْهَدْيَ وَلَا الْقَلَائِدَ وَلَا آمِّينَ الْبَيْتَ الْحَرَامَ يَبْتَغُونَ
فَضْلًا مِّن رَّبِّهِمْ وَرِضْوَانًا ۚ
وَإِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوا ۚ
وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ أَن صَدُّوكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ
أَن تَعْتَدُوا ۘ
وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ ۖ
وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ۚ
وَاتَّقُوا اللَّهَ ۖ
إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ
(المائدہ 5:2)
‘‘ ایمان والو، اللہ کے شعائر او رحرام مہینوں او رقربانی کے
جانوروں او ران کے پٹوں اور بیت الحرام کا قصد کرنے والوں کی بے حرمتی نہ کرو جو
اللہ کے فضل اور اس کی رضا کی تلاش میں نکلتے ہیں۔ اور جب تم احرام سے نکل آؤ تو
شکار کرسکتے ہو۔ او راگر کسی گروہ نے تمہیں مسجد حرام سے روکا ہے تو ان کے ساتھ
دشمنی تمہیں اس پر آمادہ نہ کرے کہ تم بھی ان کے ساتھ زیادتی کرو۔نیکی اور تقویٰ
کے کاموں میں تو ایک دوسرے کی مدد کرو، لیکن گناہ اور زیادتی کے کاموں میں تعاون
نہ کرو۔ او راللہ سے ڈرتے رہو، بے شک اللہ نہایت سخت سزا دینے والا ہے’’۔
اسی ضمن میں یہ ضابطہ بھی
اسلامی تعلیمات کا ایک ناقابل تبدیل حصہ ہے کہ کسی مخصوص عبادت گاہ کی تولیت او را
سکے امور میں تصرف اور فیصلے کا حق اسی مذہب کے متبعین کو حاصل ہے جنہوں نے اس کو
قائم کیا ہے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود مدینہ کے ساتھ میثاق
میں ‘ للیھو ددینھم وللمسلمین دینھم’ کی شق شامل کرکے ان کے تمام مذہبی حقوق کے
احترام وحفاظت کی پابندی قبول کی۔اسی طرح نجران کے مسیحیوں کے ساتھ معاہدے میں یہ
شق شامل تھی کہ :
ولنجر ان وحاشیتھاذمۃ
اللہ وذمۃ رسولہ اللہ علی دمائھم واموالھم وشاھدھم وغائبھم وکل ماتحت ایدیھم من
قلیل اوکثیر وعلی ان لا بغیرو اسقفا من سقیفاہ ولاواقھا منوقیھاہ ولاراھبا من رھبا
نیتہ۔
‘‘بنو نجران او ران کے تابعین کی جان ومال ، دین اورعبادت گاہوں ،
راہبوں او رپادریوں کو،غائب او رموجود سب کو اللہ او را سکے رسول کاذمہ حاصل ہے۔
ان کے پاس موجود ہر تھوڑی یا زیادہ چیز کی حفاظت کی تھی ضمانت دی جاتی ہے ، اور اس
بات کی بھی کہ ان کے کسی پادری یا گرجے کے منتظم یا راہب کو اس کے منصب سے ہٹایا
نہیں جائے گا۔’’
( الاموال ، ابوعبید، ص 118 ، السیر ۃ النبویۃ لابن ہشام 4؍108
۔سنن البیقہی 9؍292)
سیدنا ابوبکر نے جیش
اسامہ کو روانگی کے وقت جو ہدایات دیں ، ان میں سے ایک یہ تھی کہ:
ولاتھوموابیعۃ
‘‘او ر تم کسی گرجے کو نہ گرانا’’
(ابن عساکر ،تہذیب تاریخ دمشق الکبیر 1341)
وسوف تمرون باقوام قدر
فرغواانفسھم فی الصوامع فدعوھم وما فرغواانفسھم لہ
‘‘ او رتمہارا گزر کچھ ایسے لوگوں پر ہوگا جنہوں نے اپنے آپ کو
خانقاہوں میں بند کر رکھا ہو۔ تم ان کو ان کے حال پر ہی چھوڑ دینا’’۔
(ایضاً 1؍118،119)
سیدنا عمر نے اہل بیت
المقدس کو جو تحریر ی امان دی، اس کے الفاظ یہ ہیں:
ھذا ما عطی عبداللہ عمر
امیر المومنین اھل ایلیاء من الامان، اعطاھم امانا لانفسھم واموالھم ولکنا ئسھم
وصلبا ئھم وسقیمھا وبرینھا وسائر ملتھا ،انہ لاتسکین کنائسھم ولا تھدم ولاینتقض
منھا ولامن حیزھا ولامن صلیبھم.... ومن احب من اھل ایلیاء ان یسیر بنفسہ ومالہ مع
الروم ویخلی بیعھم وصلیھم فائھم آمنون علی انفسھم وعلی بیعھم وصلبھم حنی یبلغوا
مامنھم(تاریخ طبری،3؍609)
‘‘ یہ وہ امان ہے جو اللہ کے بندے امیر المومنین عمر نے اہل ایلیا
کو دی۔ یہ امان ان کی جان، مال، گرجا، صلیب، تندرست ،بیمار او ران کے تمام مذہب
والوں کے لیے ہے۔نہ ان کے گرجاؤں میں سکونت کی جائے گی او ر نہ وہ ڈھائے جائیں گے
، نہ ان کو یا ان کے احاطے کو کوئی نقصان پہنچایا جائے گا۔ایلیا کے باسیوں میں سے
جو یہ چاہیں کہ اپنی جان ومال لے کر رومیوں کے ساتھ چلے جائیں اور اپنے گرجے اور
صلیبیں چھوڑ جائیں تو ان کی جانوں، گرجوں اور صلیبوں کو امان حاصل ہے یہاں تک کہ
وہ کسی پر امن جگہ پر پہنچ جائیں۔’’
عہد صحابہ کی فتوحات میں
اہل کتاب کے ساتھ کیے جانے والے کم وبیش تمام معاہدوں میں ان کی عبادت گاہوں کی
حفاظت کی ضمانت کا ذکر ملتاہے۴۵۔
چنانچہ اسلام کی انہی
تعلیمات وہدایات کی روشنی میں اسلامی تاریخ کے صدر اوّل میں غیر مسلموں کے فتح
ہونے والے علاقوں میں دیگر مذاہب کی پہلے سے موجود عبادت گاہوں کو علیٰ حالہا قائم
رکھنے او ران کے مذہبی معاملات سے تعرض نہ کرنے کی شان دار روایت قائم کی گئی ۔
ابن قدامہ ‘‘ المغی’’ میں لکھتے ہیں:
‘‘عبداللہ ابن عباس سے روایت ہے کہ : جس شہر کے بانی عجم ہوں
اوراللہ تعالیٰ عربوں کو اس پر فتح عطا کردے او روہ اس میں داخل ہوجائیں تو اہل
عجم کے معاملات حسب سابق برقرار رکھے جائیں گے۔نیز صحابہ کرام نے بہت سے شہروں پر
بزورقوت فتح حاصل کی، لیکن انہوں نے اہل کتاب کی عبادت گاہوں میں سے کسی کو بھی
منہدم نہیں کیا۔اس کی دلیل یہ ہے کہ ان علاقوں میں یہود اور نصاریٰ کی عبادت گاہیں
موجود ہیں او رمعلوم ہے کہ یہ اسلامی فتوحات کے بعد نہیں بنائی گئیں ۔چنانچہ
لازماً یہ پہلے سے موجود تھیں او ران کو برقرار رکھا گیا۔ عمر بن عبدالعزیز نے
اپنے عمال کو لکھا تھا کہ وہ یہود ونصاریٰ یا مجوس میں سے کسی کی عبادت گاہ کو
منہدم نہ کریں۔ پھر یہ کہ اس بات پر مسلمانوں کا اجماع ہوچکا ہے،کیونکہ یہ عبادت
گاہیں مسلمانوں کے علاقوں میں موجود ہیں اور کسی کو اس پر کوئی اعتراض
نہیں’’۔(المغنی9؍284)
عہد صحابہ میں اس روایت
کی پاس داری کا عالم یہ رہا کہ بیت المقدس کی فتح کے موقع پر جب سیدنا عمر وہاں
تشریف لے گئے تو مسیحی بطریق صفر نیوس نے انہیں مقدس مذہبی مقامات کی زیارت کرائی۔
اس دوران میں جب وہ کلیساے قیامت میں گئے تو نماز کا وقت آگیا ۔بطریق نے سیدنا عمر
سے گزارش کی کہ وہ وہیں نماز ادا کرلیں ، لیکن سیدنا عمر نے فرمایا کہ اگر آج
انہوں نے یہاں نماز ادا کی تو بعد میں مسلمان بھی اس کے اس عمل کی پیروی میں یہاں
نماز ادا کریں گے او راس سے مسیحیوں کے لیے مشکلات پیدا ہونے کا اندیشہ ہے۔
اسی طرح جب کلیساے قطنطین
کے دروازے پر مسیحی میزبانوں نے سیدناعمر کے نماز پڑھنے کے لیے بساط بچھائی تو آپ
نے پھر معذرت فرمادی۔
بیت لحم میں کلیسائے مہد
کی زیارت کے موقع پر نماز کا وقت آیا تو سیدنا عمر نے وہاں نماز ادا کرلی، لیکن
پھر اندیشہ ہوا کہ ان کا یہ عمل بعد میں مسیحیوں کے لیے وقت کا باعث نہ بن جائے
۔چنانچہ ایک خاص عہد لکھ کر بطریق کو دے دیا جس کی رو سے یہ کلیسا مسیحیوں کے لیے
مخصوص کردیا گیا او رپابندی لگا دی گئی کہ ایک وقت میں صرف ایک مسلمان اس میں داخل
ہوسکے گا، اس سے زیاد ہ نہیں ۴۶۔
اسلامی سلطنت کے عین عروج
کے زمانے میں امیرالمومنین سیدنا معاویہ نے یہ چاہا کہ دمشق میں کنیسہ یوحنا کے
نصف حصے کو، جو عیسائیوں کے زیر تصرف تھا، ان کی رضا مندی سے مسجد میں شامل کرلیں،
لیکن عیسائیوں کے اس بات سے اتفاق نہ کرنے کی وجہ سے وہ اس خیال کو عملی جامعہ نہ
پہنا سکے او رانہیں یہ ارادہ ترک کردینا پڑا۔
اس تفصیل سے اہل کتاب او
ران کی عبادت گاہوں کے بارے میں اسلامی تعلیمات کے رخ او رمزاج کا پوری طرح اندازہ
کیا جاسکتا ہے ۔ اس کو پیش نظر رکھیے تو ہر شخص یہ ماننے پر مجبور ہوگا کہ مسجد
اقصیٰ کے معاملے میں کوئی فیصلہ کرنے کے لیے اصل معیار کی حیثیت محض قانونی اور
واقعاتی استحقاق کو نہیں بلکہ ان اعلیٰ اخلاقی اصولوں کو حاصل ہونی چاہئے جن کی
رعایت کی تلقین اسلام نے اہل کتاب کے حوالے سے کی ہے۔
اخلاقی لحاظ سے اس معاملے
کی نوعیت کو صحیح طور پر سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ حسب ذیل حقائق پیش نظر رہیں :
ایک یہ کہ مسجد اقصیٰ کی
حیثیت یہود کے نزدیک کسی عام عبادت گاہ کی نہیں ،بلکہ وہی ہے جو مسلمانوں کے نزدیک
مسجد حرام او رمسجد نبوی کی ہے۔مسلمان، اپنی عام عبادت گاہوں کے برخلاف ،اور دونو
ں مساجد کے بارے میں یہ تصور بھی نہیں کرسکتے کہ اگر خدانخواستہ کبھی ان کے ہاتھ
سے چھن جائیں اور کسی دوسرے مذہب کے پیروکار اسے اپنی مذہبی یا دنیاوی سرگرمیوں کا
مرکز بنالیں تو ان پر سے مسلمانوں کا حق ختم ہو جائے گا۔ اپنے قبلے کے بارے میں
یہی احساسات وجذبات دنیا کے تمام مذاہب کے ماننے والوں میں پائے جاتے ہیں۔ ظاہر ہے
کہ مسلمانوں کی عبادت گاہوں کے حوالے سے مانا جانے والا یہ اصول ، عدل وانصاف کی
رو سے ،دوسرے مذاہب کی عبادت گاہوں کے لیے بھی تسلیم کیا جانا چاہئے۔
دوسرے یہ کہ ہیکل سلیمانی
کو یہود نے اپنے اختیار اور ارادے سے و یران نہیں کیا، بلکہ اس کی بربادی اورحرمت
کی پامالی ایک حملہ آور بادشاہ کے ہاتھوں ہوئی جس نے جبراً یہود کو یہاں سے بے دخل
کرکے اس عبادت گاہ کے ساتھ ان کے تعلق کو منقطع کردیا۔ اس میں شبہ نہیں کہ ان پریہ
ذلت ورسوائی اللہ تعالیٰ کی طرف سے سزا کے طور پر مسلط ہوئی، لیکن اہل علم جانتے
ہیں کہ یہ چیز تکوینی امور میں سے ہے جو اپنی نوعیت اور حیثیت کے لحاظ سے ہمارے
لیے قابل اتباع نہیں ہیں، چنانچہ اس دائرے کے امور کو نہ کسی شرعی حکم کے استنباط
کے لیے ماخذ بنایا جاسکتا ہے اور نہ کسی طرز عمل کے لیے ذلیل ۔
تیسرے یہ کہ اس عبادت گاہ
کے ساتھ قوم یہود کی قلبی وابستگی او را س کی بازیابی کے لیے ان کی تمناؤں او
رامیدوں کی تصو یر خود مولانا مودودی نے یوں پیش کی ہے:
‘‘دوہزار برس سے دنیا بھر کے یہودی ہفتے میں چار مرتبہ یہ دعائیں
مانگتے رہے ہیں کہ بیت المقدس پھر ہمارے ہاتھ آئے او رہم ہیکل سلیمانی کو پھر
تعمیر کریں۔ ہر یہودی گھر میں مذہبی تقریبات کے موقع پر اس تاریخ کو پورا ڈراما
کھیلا جاتا رہا ہے کہ ہم مصر سے کس طرح نکلے اور فلسطین میں کس طرح آباد ہوئے او
رکیسے بابل والے ہم کو لے گئے او رہم کس طرح سے فلسطین سے نکالے گئے اور تتر بتر
ہوئے۔اس طرح یہود یوں کے بچے بچے کے دماغ میں یہ بات 20 صدیوں سے بٹھائی جارہی ہے
کہ فلسطین تمہارا ہے او رتمہیں واپس ملنا ہے او رتمہارا مقصد زندگی یہ ہے کہ تم
بیت المقدس میں ہیکل سلیمانی کو پھر تعمیر کرو۔بارہویں صدی عیسوی کے مشہور یہودی
فلسفی موسیٰ بن میمون (Maimonides) نے اپنی کتاب شریعت یہود (The
Code Of Jewish Law) میں صاف صاف لکھاہے کہ ہر یہودی نسل کا یہ فرض ہے کے وہ بیت
المقدس میں ہیکل سلیمانی کو از سر نو تعمیر کرے۔مشہور فری میسن تحریک (Freemason
Movement)
بھی، جس کے متعلق ہمارے ملک کے اخبارات میں قریب قریب سارے ہی حقائق اب شائع ہوچکے
ہیں، اصلاً ایک یہودی تحریک ہے اور اس میں بھی ہیکل سلیمانی کی تعمیر نو کو مقصود
قرار دیا گیا ہے، بلکہ پوری میسن تحریک کا مرکزی تصور یہی ہے اور تمام فری میسن
لاجوں میں اس کا باقاعدہ ڈراما ہوتاہے کہ کس طرح سے ہیکل سلیمانی کو دوبارہ تعمیر
کرنا ہے۔ اس سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ مسجد اقصیٰ میں آگ لگنا کوئی اتفاق حادثہ
نہیں ہے۔ صدیوں سے یہودی قوم کی زندگی کا نصب العین یہی رہاہے کہ وہ مسجد اقصیٰ کی
جگہ ہیکل سلیمانی کو تعمیر کرے اور اب بیت المقدس پر ان کا قبضہ ہوجانے کے بعد یہ
ممکن نہیں ہے کہ وہ اپنے اس نصیب العین کو پورا کرنے سے باز رہ جائیں۔’
(ترجمان القرآن،ستمبر 1969ء)
چوتھے یہودی یہ کہ
یہودیوں کی بہت سی عباداتی رسوم، بالخصوص قربانیاں ،ایسی ہیں جو ان کے مذہبی قانون
کے مطابق ہیکل کے ساتھ مخصوص ہیں اور اس کے بغیر ان کی ادائیگی فقہی لحاظ سے درست
نہیں ہے۔ گویا مسجد اقصیٰ سے ان کو روکنا محض ایک عبادت گاہ سے محروم رکھنے کا
معاملہ نہیں، بلکہ ان کے اپنی مذہبی رسوم کوبجالانے کے حق کی نفی کو بھی مستلزم
ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ جس مرکز
عبادت سے اہل مذہب کو اس کی شدید ترین بے حرمتی کرنے کے بعد بے دخل کردیا گیا ہو،
جن کے مذہبی قانون میں اس کی تولیت کی ذمہ داری کسی دوسرے گروہ کے سپرد کرنے کی
ممانعت کی گئی ہو، او راس کو دوبارہ بحال کرنے کے لیے ان کے مذہبی جذبات کا عالم
یہ ہو جو اوپر کے اقتباس میں بیان ہواہے، اس کے بارے میں اس استدلال کی عقل واخلاق
اور دین اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں کیا حیثیت ہوگی کہ چونکہ ہم نے اہل مذہب کی
غیر موجودگی میں اس مقام پر عمارت تعمیر کرلی ہے اور صدیوں سے اس میں عبادت انجام
دیتے چلے آرہے ہیں ، اس لیے اس کے حوالے سے ان کے تمام حقوق بیک قلم منسوخ ہوگئے
ہیں؟ کیا ایک کھوئے ہوئے مرکز عبادت میں از سر نو جمع ہونے اور اس میں سلسلہ عبادت
کے احیا کا جذبہ، فی الواقع ،ایسا ہی قابل نفرت ہے کہ اسے یوں بے وقعت کرنے کی
کوشش کی جائے؟ کیا اگر، خاکم بدہن، یہود کے بجائے یہ صورت حال مسلمانوں کو درپیش
ہوتی تو بھی وہ اس قسم کے استدلات سے مطمئن ہوکر اپنے قبلے سے دست بردار ہوجاتے؟
مذہبی اخلاقیات کایہ
مسلمہ اصول ہے کہ عبادت گاہوں کے بارے میں فیصلے کے لیے جس چیز کو سب سے بڑھ کر
ملحوظ رکھا جانا چاہئے ، وہ خود اہل مذہب کے اعتقادات او ران کی مذہبی قانون ہے۔
اس اصول کی روشنی میں مذکورہ استدلال کی کم مائیگی بالکل واضح ہے۴۸۔
(جاری)
-------------------
Part: 1 – Masjid al-Aqsa, Jews and Muslim Ummah – Part 1 مسجد اقصیٰ ،یہوداور امت مسلمہ
Part: 2 – Masjid al-Aqsa, Jews and Muslim Ummah – Part 2 مسجد اقصیٰ ،یہوداور امت مسلمہ
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism