حقانی القاسمی
(آخری حصہ)
22 فروری
2024
برہم دیواورسات شہر
برہم دیو مدھر کے تخلیقی مزاج
کی تشکیل میں ہندی شعریات کا عمل دخل زیادہ ہے مگر اردو کی تہذیبی روایت اور بوطیقا
سے والہانہ شیفتگی نے ان کے تخلیقی ذہن کو نیا تحرک بخشا اور ان کے تخلیقی نظام کو
تازگی، رعنائی، نزاکت اور نفاست عطا کی ہے۔ اردو غزلیہ شاعری کی ایمائیت، رمزیت اور
تہ داری نے ان کے تخلیقی باطن کو مہمیز کیا ہے۔
'اور بھی غم ہیں 'مدھر جی کا خوبصورت شعری مجموعہ ہے۔ اشعار کی قراْت
کے طریق کار اور تفہیمی تناظر کو ذرا بدل کر دیکھیں اور ایک نئے نہج سے نظر ڈالیں تو
اس شعری مجموعہ میں بہت سی معنوی خوبیاں نظر آئیں گی۔ اردو ہندی کا تہذیبی، لسانی
وصال خوش جمال آنکھوں کو بھائے گا اور شاعری کے باطن میں جو زیریں لہریں ہیں وہ ذہنی
وجود کو تابندگی بخشیں گی۔
برہم دیو مدھر کے تخلیقی باطن
میں گنگا، جمنا، سرسوتی، گداوری، نرمدا، سندھو، اور کاویری جیسی مقدس ندیاں بہتی نظر
آتی ہیں اور ان دریاؤں کی لہروں کا ملن بھی۔ اسی نقطہ وصال سے ان کے تخلیقی جمال
کا چشمہ پھوٹتا ہے۔ ان سات دریاؤں کے ساتھ ان کی تخلیقی کائنات میں ایودھیا، متھرا،
ہری دوار، کاشی، کانچی، اونتیکا (اجین )دوارکا جیسے شہر اپنے تہذیبی استعاروں اور امیجز
کے ساتھ آباد نظر آتے ہیں۔ انسان کے باطن میں یہی سات مقامات بستے ہیں اور انہی مقامات
سے انسانی جذبات، احساسات، تخیلات و تحیرات کا انسلاک ہے۔ سات کے طلسمی حصار ہی میں
سارے جذبے، احساس اور اظہار قید ہیں۔
ہری دوار جو تلاش ذات کا نقطہ
آغاز ہے، وہ شہر اپنے اسطوری تخیل اور تہذیبی تفاعل کے ساتھ اس شعر میں ہے :
تری تلاش میں نکلا تو کھو
گیا ہوں میں
عجیب بات ہے اب خود کو ڈھونڈتا
ہوں میں
متھرا اپنے تقدیسی صفات کے
ساتھ کرشن کے لئے گوپیکاؤں کی محبت اور کنس کے لیے نفرت اور خوف کے جذبات سمیت ان
کی شاعری میں یوں منور نظر آتا ہے :
بچوں کو ماں کی کوکھ ہی میں
چن دیا گیا
چارہ گروں کو قاتلوں کا گن
دیا گیا
آئے مدھر کو یاد نہ کیوں
اپنی رادھکا
بنسی میں کوئی درد جو ٹیرے
کبھی کبھی
ایودھیا امن، عدل، فراق و
وصال، رام کے ایثار اور کیکئی کی سازش کی علامتوں کے ساتھ ان کے بہت سے شعروں میں نمایاں
ہے :
ملن بھی اک اوستھا ہے ورہ
بھی اک اوستھا ہے
پھر اس کے بعد دل سنتا ہے
انہد ناد جیون
ذہن بن باسی بنا ہے سارے رشتے
توڑ کر
میرے سائے کے نکٹ پھر جنگلوں
میں کون تھا
کاشی اپنے دھیان، گیان اور
روحانی ریاضت کے ساتھ مدھر جی کے ان شعروں میں نظر آتا ہے :
جانے کتنے جنم کے ہیں بھٹکے
ہوئے
ہم نے بدلے تیرے واسطے تن
کئی
باہر ندی کی پھیلی ہوئی ریت
کال ہے
پانی بھی مچھلیوں کے لئے ایک
جال ہے
اسے اچھی طرح معلوم ہے آنند
پیڑا کا
دیکھا ہے پیار میں جس نے ورہ
کا سواد آجیون
کانچی نشاط زیست کے تصور اور
کام دیوی کامکشی کے ساتھ ان اشعار میں مصور ہے :
خواہشوں کے سانپ مجھ سے لپٹے
رہتے ہیں مدھر
آپ نے ناحق بنایا نیم سے
صندل مجھے
وصل کے لمحات میری سوچ میں
آتے ہیں جب
ایسا لگتا ہے کھجراہو کے بت
خانے میں ہوں
کالی داس اور وکرمادتیہ کی
سرزمین اجین اپنے ارفع تخیل، تہذیب، ثقافت اور آرٹ کے امیج کے ساتھ مدھر جی کے ان
ان شعروں میں روشن ہے :
کبھی تو آئے گی تیرے بدن
کو چھوکے ادھر
کھلا کواڑ میں رکھتا ہوں اس
پون کے لئے
جو خود ہے آگ اس کو جلائے
گی آگ کیا
مجھ کو ڈر ہے کہ وہ کہیں پانی
سے جل نہ جائے
دوارکا جو آزادی اور نجات
کا نقطہ اختتام ہے۔ جہاں کرشن جی نے اپنا جسم تیاگ دیا تھا۔ ان شعروں میں کتنی خوبصورتی
کے ساتھ visualiseہوا
ہے :
زندگی گر نہ ہوتی شو سادھنا
ہم کو مرگھٹ کے سائے نگلتے
نہیں
موت جب آئی نظر مجھ کو دکھی
میں نے اپنی زندگانی سونپ
دی
آتما سے ملی آتما اس طرح
خود ہی درشن ہوا خود نین ہو
گیا
یہ ساتوں شہر اپنے تمدنی تلمیحات،
تہذیبی اشارات کے ساتھ مدھر جی کے شعروں میں نظر آتے ہیں۔ بس تلاش و جستجو شرط ہے۔
یہ شاعری ان کے شخصی اکتشاف کی اوڈیسی ہے۔ انہوں نے کچھ نئی تلمیحات، علامتیں اور تراکیب
بھی استعمال کی ہیں اور اظہار و احساس کے نئے در وا کئے ہیں :
میٹنی شو دیکھ کر آئی ہوا
گاؤں میں کرتی ہے ڈسکو رات
بھر
جگنوؤں نے لے لیا بن باس
اب
ٹیوب لائٹ کے لگے جب سے شجر
ان کی غزلوں میں ہندی تلمیحات
اور استعارات کا حسن بھی ہے اور لفظیات کا جمال بھی :
بھسم جیون کا ہر آورن ہو
گیا
آگ من میں لگی تن ہون ہو
گیا
دیکھا ہے اپنے آپ کو درپن
میں نروسن
ٹوٹے ہیں جب بھی عکس کے گھیرے
کبھی کبھی
عصری صورت حال، مذہبی جنون
و تشدد، منافقت مکاری، عیاری، آتنک واد کے تعلق سے بھی بہت سے اشعار ان کے یہاں ملتے
ہیں جن سے ان کے انقلابی تیور کا پتہ چلتا ہے اور ان کی آتما کی خوبصورتی کا بھی
:
ہر سمت ایک غول ہے آتنک واد
کا
مجھ کو کہیں بھی پیار کا سنسد
نہیں ملا
اس شعری مجموعہ میں برہم دیو
مدھر جی کی پوئٹک جینئس کے ڈائمنشن منور ہیں۔ ان کی شعری قوت اور تخیل کی بلندی سے
انکار کسی طور پر ممکن نہیں۔ مدھر کی شاعری کومل، نرمل، شفاف اور سوکچھ ہے۔ اس شعری
تخلیق کے باطن کی سیر کریں تو اس میں تلسی داس، رادھا، رے داس، رحیم، رس کھان، رمن،
سدامہ، شبری، میرا اور کبیر کی آنکھیں نظر آئیں گی۔ اور یہ آنکھیں بہت ہی پاک و
صاف، پر سوز اور درد مند ہیں اور یہی شفافیت اور درد مندی مدھر جی کی تخلیق کے آئینہ
خانہ میں تمام تر جمالیاتی زاویوں کے ساتھ روشن ہیں۔
غم کی جمالیاتی ترفیع'نصرت
غم' [سنگیتا پی مینن ملہن کے حوالے سے]
سنگیتاکی 'نصرت غم' سے پہلے
شاعر مشرق علامہ اقبال کا 'فلسفہ غم':
غم جوانی کو جگادیتا ہے لطف
خواب سے
ساز یہ بیدا ر ہوتاہے اسی
مضراب سے
طائر دل کے لیے غم شہپر پرواز
ہے
راز ہے انساں کا دل غم انکشاف
راز ہے
غم نہیں غم روح کا ایک نغمۂ
خاموش ہے
جو سرود بربط ہستی سے ہم آغوش
ہے
ان اشعار کی راہ سے ہی اس
منزل تک رسائی ہوسکتی ہے جو سنگیتاپی مینن ملہن کا فکری پڑاؤ ہے۔ سنگیتا کے یہاں غم
ایک قوت محرکہ،ایک مہیج (stimulus)کی حیثیت رکھتا ہے۔ وہ
غم کی بنیادی قدر (Intrinsic Value)سے واقف ہیں۔ان کے لیے غم ایک طرز احساس بھی ہے۔ دراصل سنگیتا مینن
غم کی مابعدالطبیعاتی اساس سے آگاہ ہیں اور ان کی فکر میں اونامونو کا وہ تصور تخلیقی
رنگ وروپ لیے ہوئے جس میں انھوں نے کہا تھا کہ 'غم زندگی کی حقیقت جاننے کا ذریعہ ہے۔'
سنگیتا نے غم کے ذریعہ حیات وکائنات کا عرفان حاصل کیا اور ادراک کی اس منزل تک پہنچیں
جو بدھ ازم کی اصطلاح میں نروان کہلاتی ہے اور یہ نروان کرب اور اذیت کی آگ کے دریا
سے گزر کر ہی حاصل ہوتاہے۔ سنگیتا کے یہاں غم ایک توانائی بخش عنصر کے طور پرسامنے
آتا ہے۔ وہ غم جس کے بارے میں فانی بدایونی نے کہاتھا کہ 'غم' وہ راحت ہے جسے قسمت
کے دھنی پاتے ہیں۔'
سنگیتاپی مینن نے اسی غم کے
فلسفے سے اپنی حیات و کائنات کے زاویے روشن کیے ہیں اور یہی غم ان کے لیے ایک متاع
بے بہاہے۔ انھوںنے غم کی طاقت کو محسوس کیا اور اسے نشاط حیات کا وسیلہ بنایا۔دیکھاجائے
تو اٹھارہویں صدی کے غالب کا جو 'نشاط الم' ہے وہی اکیسویں صدی کی سنگیتا کا 'نصرت
غم' ہے۔
غالب نے کہاتھا:
جوئے خوں آنکھوں سے بہنے
دو کہ ہے شام فراق
میں یہ سمجھوں گا کہ دو شمعیں فروزاں ہوگئیں
سنگیتا کے شعری مجموعہ کا
سرنامہ 'نصرت غم' ایک استعبادی طرزفکر اور اسلوب اظہار کا عکاس ہے۔ اس مجموعہ میںنظمیہ
صورت میں سنگیتا کے فلسفیانہ ڈسکورس، باطنی ارتعاشات اور داخلی تموجات ہیں۔ ایسی نظمیں
سوچ سمندر میں غوطہ زن ہوکر ہی لکھی جاسکتی ہیں۔ ان نظموں میں وجودی تجربوں کا اظہار
ہے اور وجودیاتی تشویش (Existential Anxiety)کی صورتیں بھی نمایاں
ہیں۔ کہیں کہیں ان کا ایکسپریشن بالکل مسٹیکل ہوجاتاہے۔ جہاں وہ فنا اور موت کے بارے
میں بات کرتی ہیں۔ فنا اور زندگی کے تعلق سے ان کی نظمیں پڑھتے ہوئے فانی بدایونی کی
یاد آتی ہے۔ جنھوں نے موت اور زندگی کے مابین رشتوں کی ایک نئی جہت تلاش کی ہے اور
Paradoxicalانداز
اختیار کرتے ہوئے کہا:
اے موت تجھ پہ عمر ابد کا
مدار ہے
تو اعتبار ہستی بے اعتبار
ہے
ہر لمحہ حیات ہے بے گانہ حیات
فانی حیات سے ہی عبارت عدم
نہ ہو
توسنگیتا مینن نے بھی اسی
احساس کونظمیہ پیکرمیں یوں ڈھالاہے:
زندگی سے جو نہ حاصل ہوئی
وہ شہرت
موت لے آئی ہے
جیتے جی تویہ بھی نہ نصیب
ہوا
آج لیکن میرے شعر پڑھے گئے
اے موت!
تو باربارکیوں نہیں آتی
تجھی سے تو ہے میرا وجود
ہم جیسے لوگوں کی تو
تو ہی سرپرست ہے
تیرا ہی سہارا لے کر جیتے
ہیں
تیرے علاوہ
میرااپنا
اورکون ہے؟
آخر کے نثری ٹکڑے پڑھتے ہوئے
پھرفانی بدایونی کی غزل کا یہ شعرصفحۂ ذہن پر جگمگانے لگتا ہے:
دیار عمر میں اب قحط مہر ہے
فانی
کوئی اجل کے سوا مہرباں نہیں
ملتا
اسی طرزفکر کی غماز ان کی
ایک نظم ہے 'زندگی موت سی ہے یہاں':
سیاسی طاقتوں نے یوں ہاتھ
موڑ رکھا ہے
کہ فقیری کے قابل بھی نہیں
چھوڑ رکھا ہے
کمر ٹوٹی ہے سانس مدھم ہے،
امید کب کی تمام ہوچکی ہے
آنکھیں نم ہیں
کہیں بھی تو کس سے کہیں ہم
ہر ایک رہنما میرے قتل کا
گنہگار ہے
اورجس خدا کو قادر مطلق سمجھتے
تھے
اب جانا کہ وہ بھی ایک ظالم
دھوکہ ہے
اس آس سے گھسیٹتا ہے مردہ
جسم اپنی ہی لاش کو
دو گزملے گی اسے زمین خاک
ہونے کو
مگر قبرستان جو پہنچے تو معلوم ہوا کہ
محافظ نے وہاں پر بھی بازکرلگارکھاہے
سنگیتامینن نے فانی کوپڑھاہے
یانہیں مگر فانی کا تصور الم ان کی فکر میں نمایاں ہے مگر ان کے اور فانی بدایونی کے
تصورغم میں بنیادی فرق یہ ہے کہ فانی کے یہاں غم ایک سلبی تصورہے جبکہ سنگیتا کے یہاں
مثبت تصور کی حیثیت رکھتاہے۔یہ غم ارتفاع(Sublimation)اور ترفیع کی علامت ہے۔
جس طرح دانتے کی ڈیوائن کامیڈی اور ہندوستان کاتاج محل غم کی جمالیاتی ترفیع ہیں۔ اسی
طرح سنگیتا نے بھی اپنی شاعری میں غم کی ترفیع کو ایک وسیلہ کے طورپراستعمال کیاہے۔
'نصرت غم' ان کے اسی احساس ارتفاع کاآئینہ دار ہے:
لوگوں کی ایک باڑھ امڈ آئی
ہے
میرے مے خانے میں جیسے دنیاسمائی
ہے
ہے جشن یہ کہ تماشا کوئی عام
شور بھی ہے اورسناٹابھی
روح بے چین ہے مگر حوصلہ بلند
میرے جنازے کو کاندھا دینا
میری قسمت
انھیں یہاں لائی ہے
کروں ذکربربادی کا
یابیاں کروں قصے نصرت غم کے
یہ کیا کم ہے کہ بے مروّت
بے رحم زمانے نے
بے کس کی دعایوں قبول کی ہے
سنگیتا کے یہاں Negative
Capabilityکی صورت بھی یوں نمایاں ہے کہ بیرونی حقیقت
کو بھی اپنی ذات میں محسوس کرنے لگتی ہیں۔ان کی کئی نظمیں اس کی مثال کے طورپر پیش
کی جاسکتی ہیں۔ 'نصرت غم' میں بہت سی نظمیں ایسی ہیں جوذہن،ذات اور ضمیر کو مرتعش کرنے
والی ہیں۔ دراصل یہ ساری نظمیں سنگیتاپی مینن کے کیتھارٹک تجربے ہیں۔ منفی جذبات واحساسات
سے باہر نکلنے کی ایک راہ جوانھوں نے خودتلاش کی ہے۔ انھوں نے لکھاہے کہ 'وہ خیالات
جو 2011کی چھ ماہ کی مدت تک قدرتی طورپرمجھ میں جاں گزیں تھے ان منفی اثرات سے میں
یکسر پاک ہوگئی۔ 'نصرت غم' نے مجھے آزاد کردیا اورمیرانجات دہندہ بن گیا۔'
سہ لسانی(ہندی،رومن اور اردو)شعری
مجموعہ 'نصرت غم' ایک ایسی شاعرہ کا کلام ہے جس نے اردو کو اپنے اظہارکے ایک میڈیم
کے طورپرانتخاب کیاہے،جبکہ وہ اردو کے لسانی کلچر، اس کے رموز و علائم سے مکمل طورپر
واقف بھی نہیں ہیں،مگراس زبان کی کشش نے ایک ایسی ذہنی قربت پیدا کردی کہ انھوں نے
اردو میں شاعری کی اوراس کی قوت کو اپنے اندر محسوس کیا۔ انھوں نے خود لکھاہے کہ:
The intoxicating beauty of
poetry and the sheer power of the Urdu language have been my Moksh
'موکچھ' کا یہ تصور معنی خیز بھی ہے اور آج کے تناظرمیں بہت گہری رمزیت
کاحامل بھی۔ بشرطیکہ اس تصور کو اس کی مکمل صورت میں سمجھاجائے۔ 'نصرت غم' موکچھ کی
کس منزل تک لے جائے گی یہ کہانہیں جاسکتا لیکن معاشرے کی کیتھارسس کی ایک سبیل اس سے
ضرور نکل سکتی ہے۔ انگریزی کی ایک مقتدر صحافی اور شاعرہ کا اردوزبان میں پرجوش خیرمقدم
کیا جانا چاہیے کہ اسی طرح زبانوں کو نئے منطقے ملتے ہیں اور نئی فکری منطق نصیب ہوتی
ہے۔
22 فروری 2024 ، بشکریہ: روزنامہ
اودھ نامہ ، لکھنؤ
-----------------
Part: 1
– Creative Works of Non-Muslim Writers-Part-1 غیر مسلم قلم کاروں کا تخلیقی نگار خانہ
Part: 2
– Creative Works of Non-Muslim Writers-Part-2 غیر مسلم قلم کاروں کا تخلیقی نگار خانہ
Part: 3
– Creative Works of Non-Muslim Writers-Part-3 غیر مسلم قلم کاروں کا تخلیقی نگار خانہ
Part: 4 – Creative Works of Non-Muslim Writers-Part-4 غیر مسلم قلم کاروں کا تخلیقی
نگار خانہ
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism