New Age Islam
Thu May 15 2025, 02:07 PM

Urdu Section ( 26 Feb 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Creative Works of Non-Muslim Writers - Part-2 غیر مسلم قلم کاروں کا تخلیقی نگار خانہ

حقانی القاسمی

(دوسرا حصہ)

19 فروری 2024

تخلیقی محراب پر مضطر کی روشن عبارتیں

جدیدتر حسیت کی روشنی میں کلاسیکی شعری جمالیات کی مسافت طے کرنے والے رام اوتار گپتا مضطرؔ کے یہاں آج کے عہد کی منتشر عبارتیں بھی ہیں اور مربوط تجربے بھی۔ ان کی شاعری اپنی ذات کے تلاطم اور کائنات کے تموج کی تفہیم سے عبارت ہے۔ یہ شاعری آج کے عہد کے اظہار کا رشتہ ماضی کے احساس سے جوڑتی ہے۔ کلاسیکی فکر و فرہنگ سے آگہی اور عصری حسیت کے عرفان نے مضطرؔ کی شاعری کو ایک الگ لمسیاتی اور حسیاتی کیفیت اور ذائقے سے ہمکنار کیا ہے۔ ان کی شاعری ایک سمت کی شاعری نہیں ہے بلکہ ان کے سفر شاعری کا رخ بدلتا بھی رہتا ہے اور تجربات و مشاہدات کی زنبیل بھرتی رہتی ہے۔ مختلف سمتوں کے سفر نے ان کی سوچ کو منجمد نہیں ہونے دیا بلکہ متحرک اور مضطرب رکھا ہے۔ ان کے یہاں کائنات کے مختلف آہنگ کی جستجو ملتی ہے۔ فکریاتی اور لفظیاتی سطح پر جمود اور زوال کی وہ صورت نہیں ہے، جو آج کے بہت سے شاعروں کے یہاں وافر مقدار میں ملتی ہے۔ مضطرؔ کے شعر ان کے ذہنی اضطراب اور تحرک کی گواہی دینے کے لیے کافی ہیں…

شام اودھ نے زلف میں گوندھے نہیں ہیں پھول

تیرے بغیر صبحِ بنارس اداس ہے

ارمانِ وصلِ یار کی شدت نہ پوچھئے

قطرہ یہ چاہتا ہے سمندر سمیٹ لے

کسی کے گھر کا چاند ڈوبا مفلسی کے غار میں

اس کو کیا سورج اُگے جس کے طلوع جام سے

ترے پہلو میں گزرتیں کبھی راتیں میری

مری بانہوں میں کبھی تیرا سویرا ہوتا

بھیک درشن کی ملے شاید کف گلفام سے

در پہ آکر بیٹھ جاتی ہیں نگاہیں شام سے

کھلتا ہے یوں نگاہ پہ وہ حسنِ پردہ دار

گویا کتاں لباس شب ماہتاب میں

مضطرؔ نے تخلیقی محراب پر جو نئی عبارتیں لکھی ہیں وہ روشن رہیں گی کہ ان عبارتوں میں تحرک اور تابناکی کی پوری قوت ہے۔ ہندی، فارسی، عربی لفظیات اور مختلف مذہبی، تہذیبی علائم و تلمیحات سے اندازہ ہوتا ہے کہ مضطرؔ کے احساس و اظہار کی کائنات محدود نہیں ہے۔ ان کی شاعری میں کئی تہذیبی لہروں کا امتزاج ہے۔ بقول معین شاداب : 'ہندی رسم الخط میں اردو شعر و ادب کا مطالعہ کرنے والے مضطرؔ کے شعری قاموس میں آج عربی، فارسی، اردو، ہندی الفاظ کا ذخیرہ موجودہے، 'مضطرؔ کی شاعری لسانی و فکری امتزاجیت کی ایک عمدہ مثال ہے۔ دیو مالائی تلمیحات اور تہذیبی استعارات کے تخلیقی استعمال اور عصری تناظر میں اس کی معنویت کے ادراک نے ان کی تخلیق کو ایک اور جہت عطا کر دی ہے۔ یہ ان کے تصور وقت کا اظہاریہ بھی ہے اور اس بات کا احساس بھی کہ تہذیب اور تاریخ کا تسلسل کبھی ختم نہیں ہوتا۔ ماضی ایک قندیل کی طرح حال کو راستہ دکھاتا رہتا ہے۔

درپد کی ستا پھرتی ہے کھولے ہوئے زلفیں

لیکن کوئی بھی آج دوشاسن نہیں بنتا

پھر آج مصیبت میں ہے کانہا ترا ارجن

رکشک مرا کیوں ترا سدرشن نہیں بنتا

پیاسی دھرتی ہانپ رہی ہے

کوئی بھگیرتھ گنگا لائے

میں بنا جاتا ہوں وشوامتر اب

آپ میری مینکا بن جائیے

درپد، کانہا، ارجن، سدرشن، بھگیرتھ، وشوامتر اور مینکا دیومالائی تلمیحات ہیں اور ان سے جڑی ہوئی بہت سی اساطیر ہیں۔ مضطرؔ نے اپنے اشعار میں ان اساطیر کی معنویت کو اس طرح روشن کر دیا ہے کہ یہ سارے کردار آج بھی جیتے جاگتے نظر آتے ہیں۔ مضطرؔ کی شاعری پڑھنے سے احساس ہوتا ہے کہ انہوں نے صرف ہندو اساطیر کا استعمال نہیں کیا ہے بلکہ اسلامی تہذیب و تاریخ پر بھی ان کی نگاہ ہے اور وہ ان داستانوں سے بھی آگاہ ہیں جو اسلامی تاریخ کا حصہ ہیں…

گرا نہ ہاتھ سے پرچم مگر امانت کا

سنان شمر پہ شہدا کے سر بدلتے رہے

''سفیرِ آخرِ شب'' رام اوتار گپتا مضطرؔ کا نیا مجموعہ ہے۔ اس سے ان کی شاعرانہ قد و قامت کا اندازہ ہوتا ہے۔ میرا جی چاہتا ہے کہ انہیں ان کے تخلیقی احساس و اظہار کی رفعت و بلندی کے تناظر میں بلند قامت شاعر کہوں مگر خود ان ہی کا شعر آڑے آ جاتا ہے۔

بونے ہو جائیں گے اہلِ علم اپنے شہر میں

دَور نو میں جاہلوں کا قد بڑا ہو جائے گا

رام اوتار مضطرؔ کا زمانی تعلق دور نو سے ضرور ہے، مگر فکری رشتہ اس عہد سے ہے جب شعر و سخن کا ایک معیار تھا اور تعین قدر کا ایک مستحکم پیمانہ۔

شیو بہادر دلبر کا شعری سفر

شاعری تو وہ بھی ہوتی ہے جس میں ''موزونیت'' کے سوا کچھ بھی نہیں ہوتا! یہ شاعری اس سے ذراالگ ہے کہ اس میں 'موزونی طبع' کااظہار نہیں ہے۔ بلکہ دروں کومرتعش کرنے والا جذبہ و احساس بھی ہے۔

دلبر اپنے تخلیقی اظہار میں احساس کی اس آنکھ کو ضرور شامل رکھتے ہیں جو حقیقتوں کے ماورا بھی دیکھ سکتی ہے، اسی لیے ان کے احساس کی کائنات محدود نہیں ہے کہ شاعری کا سلسلہ ان ساعتوں سے ہے جن کا زندگی سے گہرا ربط ہے اور جو حیات و کائنات کی رمزیت کااستعارہ ہیں۔ انسانی مزاج کی تشکیل اور ذہنی نظام کے نمو میں ان ساعتوں کی بڑی اہمیت ہے۔ دلبر کے ہر خیال میں ان ساعتوں کے عکس نمایاں ہیں۔ شام اپنی رومانی طلسماتی کیفیت کے ساتھ زندہ ہے ، تو صبح اپنی جاں فزائی قوتوں کے ساتھ تابندہ ہے۔ دلبر کی شاعری میں ان ساعتوں کے منظر روشن ہیں کہ یہ منظر کھل جائیں تو شاعری گم ہوجاتی ہے:

آنکھیں جو تک رہی ہیں ہر اک شام راہ کو

اک عمر سے کسی کا انہیں انتظار ہے

زندگی کے شام و سحر کی یہ وہ تجرباتی داستان ہے جس میں المیہ بھی ہے اور طربیہ احساس بھی۔ المیہ ذات، ضمیر ذہن کا ہو یا معاشرہ کا،ایک فنکار کاذہن المیہ کے تمام پہلوؤں کو محسوس کرتا ہے اور اس المیہ احساس کو انسانی ذہن میں اجاگر کرتا ہے۔ دلبر کے شعروں میںالمیہ کا احساس مختلف صورتوں میں نمایاں ہوا ہے۔

جس باغ کو سینچا ہے سدا میں نے لہو سے

اس باغ پہ اب کیا مرا ادھیکار نہیں ہے

اجالوں نے دیے دھند لکے کچھ اتنے

رہا شکوہ نہ دلبر تیرگی سے

اسی المیہ سے جڑا ہوا طربقیہ بھی ہے کہ انسان کے نصیب میں صرف دکھ یا درد نہیں ہے بلکہ مسرتیں بھی ہیں کہ ذہن ایک ہی کیفیت میں منجمد نہیں رہتا، ذہن اک اکائی یاجزو نہیں بلکہ کئی اجزاء کامجموعہ ہے۔ ایک ہی لمحہ میں ذہن دکھ اور سکھ دونوں کیفیتوں سے گزر سکتا ہے۔ ذہن کے اسی مختلف النوع تفاعلی نظام اور تحرک کا اشارہ ہے یہ شعر:

خوشیاں سبھی کو بانٹ رہا ہے وہ آدمی

دامن غموں سے جس کا بہت تار تار ہے

دلبر کے یہاں جذبات و احساسات کے متنوع رنگ ہیں تو اس لیے کہ صرف ان کے ذہن میں نہیں بلکہ زندگی میں بھی 'تغزل' ہے۔ شاعر کا پورا وجود غزل کی تہذیب میں رچا بسا ہے۔ اردو غزل کے تہذیبی نظام سے ان کے ذہن کا بہت مضبوط رشتہ ہے۔ شاعر اور اردو تہذیب کے درمیان کسی قسم کی اجنبیت یا ثنویت کا احساس ہی نہیں ہوتا، دلبر کے ضمیر میں غزل کی تہذیب شامل ہے۔ دلبر کو جذبے کی اخلاقیات کا بھی عرفان ہے اور اظہار کی جمالیات کا شعور بھی ہے:

دلبر یہ ماں کی دعائوں کا اثر ہے

جو بھی بلا آتی ہے گزر جاتی ہے سر سے

سمجھتے کیا ہو تم ماں کی دعا کو

بڑی اس سے دعا کوئی نہیں ہے

اب بھی ہیں یاد گائوں کے شام و سحر مجھے

بھولے نہیں بنے ہوئے مٹی کے گھر مجھے

یہ اشعار، دلبر کے ذہن کے موسموں کا بھی پتہ دیتے ہیں۔ وہ تخلیقی ذہن جو آلودگی، آلائش اور کثافت سے پاک ہے، جو پوری انسانیت کے بارے میں سوچتا ہے۔ جمہوری طرز احساس اور طرز فکر رکھنے والا ذہن جس سے اس نوع کے اشعار وجود میں آتے ہیں:

بشر کا خون سستا ہورہا ہے

مگر پانی تو مہنگا ہورہا ہے

دلبر ہمارے دیش میں کب آئے گا وہ دن

مجرم جو اصل میں ہو اسی کو سزا ملے

یہ ایسی شاعری ہے جس میں ذہن اور ضمیر کی روشنی ہے کہ ذہن کی تاریکی میں تہذیبیں اور قدریں سبھی کچھ کھو جاتی ہیں۔ دلبر کی شاعری روشنی سے وصال کی شاعری ہے۔ تاریک عہد میں یہی اشعار روشنی کا استعارہ بن جاتے ہیں اوریہی روشنی ان کے لفظیاتی نظام میں بھی ہے کہ قاری کے ذہن میں ترسیل کے سارے سلسلے روشن ہوجاتے ہیں۔

مجھے یقین ہے کہ دلبر کے کچھ شعر ضرور زندہ رہیںگے جب کہ انٹرنیٹ ایج اور کمپیوٹر کلچر کے اس عہد میں ذہن و دل سے بیشتر شاعری کو Deleteہوتے دیر نہیں لگتی۔ عجب المیہ ہے کہ شاعری ذہن میں Saveہی نہیں ہوپاتی۔ خدا کاشکر ہے کہ دلبر کے دل سے نکلی ہوئی کچھ آوازوں میں اتنی قوت ہے کہ اپنے لیے کوئی نہ کوئی Spaceضرور پیدا کرلیںگی۔آج جب کہ خیال و احساس کی زمین بھی تنگ ہوتی جارہی ہے اور اظہار کا افق بھی۔تو ایسے میں تھوڑا سا Space بھی بہت ہوتا ہے۔

ٹی این راز کے تخلیقی تیرونشتر

تخیل اور تحیر -طنزو مزاح کے دو مرکزی نقطے ہیں اور یہی دونوں اسے معنویت عطا کرتے ہیں۔ تخیل کی قوت پر طنزو مزاح کا سارا انحصار ہے اور یہ قوت آزاد فضا میں پروان چڑھتی ہے کہ بقول ممتاز شیریں 'تخیل قید میں بارآور نہیں ہوسکتا۔ ذہنی آزادی فنا ہوجائے تو ادب مرجاتا ہے۔'یہ قوت جتنی شدید ہوگی، طنزو مزاح اتنا ہی گہرا ہوگا اور تحیر جتنا زیادہ ہوگا طنزو مزاح کی کیفیت اور اس کے طلسماتی اثر میں اتنا ہی اضافہ ہوگا۔ تخیل کے نئے جزیرے کی جستجو کے بغیر طنز نگار کا کام مکمل نہیں ہوتا۔ غیر محسوس منقطے تک رسائی صرف اور صرف طنز و مزاح نگار کی ہوتی ہے۔ ایک عبقری اور جینئس ہی سچا طنز نگار ہوسکتا ہے کہ طنز و مزاح قوت ادراک کی آزمائش کا نام ہے۔ اس کا سارا تعلق ذہنی نظام اور اس کی ڈائنامکس سے ہے۔

ہرعہد میں طنز ومزاح کے موضوعاتی مرکز و محور بھی الگ رہے ہیں۔زمانہ بدلاتوموضوعات بدلے، ترجیحات تبدیل ہوئیں، طرز فکر و احساس میں تغیر رونما ہوا۔ لسانی تکثیریت کے تجربے بھی ہوئے اور قدیم شاعر وں کے مضامین کو نئی شکلیں بھی دی گئیں۔ قدیم زمانے میں طنزو مزاح کے موضوعات بہت محدود تھے۔ شیخ اور واعظ ہی ان کے طنز کا محورتھے، مگر نئے زمانے میں موضوعات کی کثرت ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ آج کے زمانے میں ہر سطح پر ناہمواریاں زیادہ ہیں۔

ٹی این رازطنزومزاح کے معتبر شاعر ہیں جنہیں اقدار کا گہرا شعور ہے۔ ان کا مشاہدہ وسیع ہے اور تجربہ میں تنوع ہے۔بدلتی ہوئی نفسیات، تبدیل ہوتی سائیکی خاص طورپر سماج اور سیاست کی سائیکی پر ان کی گہری نظر ہے۔ معاشرتی تضادات، کشمکش، تناؤ، استحصال، ظلم، مفاد پرستی، روز مرہ کے مسائل، سماج کی شعبدہ بازیاں، منافقت، رشوت، رجعت، دقیانوسیت یہ ان کے موضوعات ہیں۔ ان کے موضوع افراد اوراشخاص نہیں بلکہ سماج اور سیاست کے احوال اور مسائل ہیں۔(جاری)

19 فروری 2024 ، بشکریہ: روزنامہ اودھ نامہ ، لکھنؤ

---------------

Part: 1 – Creative Works of Non-Muslim Writers-Part-1 غیر مسلم قلم کاروں کا تخلیقی نگار خانہ

URL: https://newageislam.com/urdu-section/creative-works-non-muslim-writers-part-2/d/131799

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..