New Age Islam
Mon May 12 2025, 08:33 PM

Urdu Section ( 23 Feb 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Creative Works of Non-Muslim Writers - Part-1 غیر مسلم قلم کاروں کا تخلیقی نگار خانہ

حقانی القاسمی

(پہلا حصّہ)

17 فروری 2024

دعا کے شہر میں آنسو کے اذان

پروین کماراشک کی شاعری

یہ دورmechanised birthکاہے۔ Frozen Eggیا In Vitro Fertilization (IVF)سے تولیدی عمل کا سلسلہ جاری ہے۔ اس نوع کے میکانکی تولیدی عمل سے اخلاقیات اور اقداری نظام کے ساتھ انسان کی شناخت بھی مجروح ہورہی ہے۔ اس کی وجہ سے نسل انسانی کا منظرنامہ ہی نہیں بلکہ شجرہ نسب تبدیل ہوتا جارہاہے۔تولیدی عمل کی طرح تخلیقی عمل کے ساتھ بھی کچھ ایسی ہی واردات گزر رہی ہے۔ شاعری کی ساخت اورسلاست بھی غیرفطری عناصر کے تداخل کی وجہ سے شکستہ، سقیم بلکہ عقیم ہوگئی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اس دور میں بھی کچھ ایسے تخلیق کار ضرور ہیں جن کے یہاں 'فطری تخلیقیت' کا عنصر نمایاں ہے اوران کا تخلیقی عمل غیرفطری عناصر سے مجروح یا متاثر نہیں ہے۔

پروین کماراشک بھی انھیں شاعروں میں ہیں، جن کے اظہار و احساس کے مابین ایک مادرانہ رشتہ (Maternal Bond)ہے، وہ بھی اسی طرح کے تخلیقی کرب سے گزرتے ہیں، جس طرح ایک ماں دردِزہ سے گزرتی ہے۔ اسی درد نے انھیں وہ داخلی اور ماورائے ذہن شعور عطا کیا ہے، جس نے خارجی دنیا سے ان کا رشتہ ختم کرکے باطنی دنیا سے تعلق قائم کردیاہے اور یہی Detachmentان کی تخلیق کا رمز ہے۔ ان کی شاعری کا محور سکوت ذہن(Silence of Mind)اور صدائے دل(Sound of Heart)ہے۔ پروین کمار کی شاعری کا افق اور الٰہ سے رابطہ ہے۔ ان کے ہاں ایک معصومانہ تحیر ہے اور ہر چیز کو 'دیدہ حیران' سے دیکھنے کی خواہش اور ایک نئے انداز سے اظہار میں ڈھالنے کا جذبہ بھی ہے۔ ان کا داخلی ذہن، انسان کے متعین کردہ خطوط وحدود میں محصورنہیں ہے۔ ان کی آنکھیں ہمہ گیر اورجہاں بیں ہیں۔جو مصنوعی سرحدوں کو تسلیم نہیں کرتیں۔ ان کی شاعری میں ایک Bird Eyeیاخلاباز کی آنکھیں نظر آتی ہیں اور ایسی ہی شاعری دنیا کو ایک نیافینومیناعطاکرتی ہے یا تخیلی کائنات کی تشکیل توکرتی ہے۔

ان کی شاعری میں عشق کی ارتعاشی لہریں ہیں اوروہ موج بھی جو ذات اور روح کے مابین نقطہ عطف ہے۔اس میں انسانی شعور، احساس و ادراک کے وہ تمام مدارج ومنازل ہیں جن سے فردبشر کے شب وروز گزرتے ہیں۔ان کی شاعری میں نئے موسموں کی بشارت بھی ہے اور احساس و اظہار کی تازگی بھی۔ایسی شاعری محنت و ریاضت کی مرہون منت نہیں،بلکہ کسی کاوردان ہی ہوسکتی ہے۔ بہت ممکن ہے کہ پروین کمار اشک کی شاعری کسی مخصوص تخلیقی لہر کا فیض ہو یا ایک ایسی ساعت کا جس میں انسانی ذہن کا براہِ راست آسمان سے رشتہ ہوتاہے۔ ان کی شاعری 'پدمنی پہر' کی ہے اس لیے اس میں روح اورضمیر کو تابناک وتوانا کرنے والے عناصر کا وفور ہے۔

پروین کماراشک کی شاعری میں جو موج یم عشق اورصوفیانہ دیوانگی (Sufi Madness)ہے اس کو سمجھنے کے لیے ذہن کی نہیں، دل کی ضرورت ہے اور دل بھی ایسا جو گداز ہو۔ گداختگیِ دل کے بغیر نہ پروین کمار اشک کو سمجھنا آسان ہوگا اور نہ ہی ان کے پورے تخلیقی عمل کو۔ اس تخلیق کے اندر جو جادوئی کردارہے اس میں بہت کچھ دخل روحانیت کا ہے، جو پروین کمار اشک کی تخلیق کا لاینفک حصہ ہے۔

پروین کماراشک نے اپنی تخلیق کو اسی روحانی نقطے سے اجالا ہے۔ ان کی تخلیقی فکر میں رود روحانیت ہے اور سپت رشمی کرنیں بھی۔ یہی Radiant Energyان کی شاعری کا رنگ و روپ، انداز اور اسلوب بدلتی ہے۔ ڈیوائن انرجی کے بغیر ایسی شاعری ممکن ہی نہیں ہے۔ انھوں نے اپنی شاعری کے ذریعے طبعی وجود کو مابعدالطبیعاتی جہتوں سے روشناس کرانے کی کوشش کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں تصوف کی رمزیت اورسریت ہے۔ یہ مکمل طور پر Enlightenment کی شاعری ہے۔ ایک دوامی شعور کی،حلقہ دام خیال سے باہر کی شاعری اس میںWave of Thoughts (خیالات کی لہر) نہیںبلکہ جذبات و احساسات کا مدوجزر ہے اس کے ساتھ ساتھ ان کی شاعری میں منفیت کی سیاہ قوتوں کے خلاف احتجاج اور ردِعمل بھی ہے۔ اس میں جس عشق یا Sufi alchemyکا بیان ہے وہ ازلی اور دائمی محبت ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ انسان اور Godlinessکے درمیان محبت کی اساس پرمبنی شاعری ہے۔ اس شاعری میں مصنوعی،غیر فطری یا مشروط محبت کا تصور نہیں ملتا۔ بلکہ جو بھی محبت ہے اس کا زمین و آسمان سے بہت گہرا رشتہ ہے۔ یہ مکمل طور پر الوہی رابطے و رشتے کی شاعری ہے۔ یہ شاعری اثبات کی متحرک قوتوں کا اشاریہ اور منفیت کی سیاہ قوتوں کے خلاف احتجاج بھی ہے:

نہ تیغ پھینکنا گھبرا کے ظلمت شب سے

زمین حق پہ لہو کا نشان روشن ہے

پروین کماراشک کے یہاں روحانی محبتوں کی نئی منزلوں کی جستجو اور تخیلات کے نئے مدارج کی دریافت کا عمل روشن ہے، نئے استعارات اور تراکیب کی جستجو کے عمل نے بھی ان کی شاعری کو جدت، لطافت اور نزاکت سے ہم کنار کیاہے۔ مروجہ معمولے سے انحراف نے بھی پروین کمار اشک کی شاعری کو نقطہ امتیاز اور انفراد عطا کیا ہے۔

ایک مخصوص پیٹرن کے ذہنی نظام کے تخلیقی عمل سے کسی جدت یا ندرت کی توقع نہیں کی جاسکتی، مگر پروین کماراشک نے اپنی اختراعی فکر سے شاعری کی لطافت ومعنویت میں اضافہ کیاہے۔ تخلیق کو احساس اوراظہار کے جوابعاد انھوں نے عطا کیے ہیں، اس 'ابعادیت' سے ان کی شاعری میں وہ کیفیت پیدا ہوگئی ہے، جو عہدماضی میں میرؔ سے مخصوص تھی اور روحانی احساس کے اعتبار سے بھی میرا، کبیر، لل وید سے انھوں نے اپنارشتہ جوڑلیا ہے، جس سے ان کا مقام ہم عصرشعرا سے مختلف ہوگیا ہے۔ اختراعی فکر کے ساتھ ساتھ اظہاری قوت (experessional cogency)بھی ان کی شاعری کو انفرادیت عطا کرنے کے لیے کافی ہے۔ یہ شاعری نہیں،روح سے رابطہ ،مکالمہ یا داخلی خود کلامی ہے۔ یہ طبعی وجود کی تعبیرات اور تشریحات سے بالکل مختلف نوعیت کی روحانی تعبیر و تفہیم ہے۔ باطنی وجود کی تفہیم صوفیانہ وجدان و ادراک کے غماز ان اشعار سے ہی ممکن ہے۔یہ اشعار ان کی فکری نبوغت اور لسانی لطافت کے گواہ ہیں:

تم نے کیوں بارود بچھا دی دھرتی پر

میں تو دعا کا شہر بسانے والا تھا

خبر کہاں تھی میری روح ایک مسجد ہے

شب وجود میں ماہِ اذان بھی ہوگا

خدا کی طرح چمکتا ہے دل کے شیشے میں

دعا کا آنسو کہاں آنکھ سے نکلتا ہے

دعا کا آنسو، دعاکاشہر، شب وجود اور ماہِ اذان جیسی تراکیب میں جدت و ندرت ہی نہیں بلکہ معنوی لطافت ونزاکت بھی ہے۔ یہ کثیرالمعانی تراکیب ہیں جو اپنے ظاہری مطلب کے علاوہ باطنی مفاہیم کے بھی حامل ہیں، ان تراکیب سے ہی اندازہ ہوتاہے کہ پروین کماراشک کاتخلیقی آسمان کتنے اور کیسے کیسے شبد ستاروں سے روشن ہے:

یہ میری روح میں کیسی اذان روشن ہے

زمیں چمکتی ہے، کل آسمان روشن ہے

میں روز فون پہ اس کو صدائیں دیتا ہوں

خدا کے ساتھ میرا رابطہ نہیں ہوتا

مسجد دل میں تنہا بیٹھے روتے ہیں

ہمیں نماز پڑھانے والا کوئی نہیں

بزرگوں کو خدا یا بھیج فوراً

دعا کا خون زمیں نے کر دیا ہے

سمندر کو دکھا کر آگ اب کیوں

دعا کی بارشوں کو رو رہی ہے

نہ مسجدوں کی طرف ہیں نہ مندوں کی طرف

میری دعائیں ہیں جلتے ہوئے گھروں کی طرف

جہاں پرکھوں کے سجدے کے نشاں ہیں

وہ گلیاں خون سے کیوں دھو رہے ہو؟

خدا کی بے رخی پر رو ہی ہے

دعا مجھ سے لپٹ کر رو رہی ہے

پروین کماراشک کی شاعری میں نے ایک بچے کی آنکھ سے پڑھی کہ اس تخلیق کے تحیر اور جمال سے محظوظ ہوسکوں۔بچوں کی آنکھ سے فطرت اورکائنات کے تحیرات وتموجات کا مطالعہ زیادہ مفید ہوتا ہے کہ بچوں کی آنکھیں تحفظات وتعصبات سے پاک ہوتی ہیں اور اس منفیت سے بھی جو آج کل عصری تنقیدی ڈسکورس سے مخصوص ہے۔

ترسیل،تعبیر اور تلک راج پارس

تخلیقیت ایک پر اسرار قوت ہے۔یہ ایک cognitive processاور اذراکی عمل ہے جو مثبت ذہنی تحرک اور تفاعل سے وجود میں آتی ہے۔یہی قوت آہنگ اور نغمگی میں ڈھل کر شاعری بن جاتی ہے۔یہ تخیل اور جذبے کی وہ زبان ہے جو انسانی جذبات و کیفیات کی ترسیل کرتی ہے۔موضوع اور ہیئت کے اعتبار سے شاعری احساس کی نیچرل امیجری ہے۔ہر اچھی شاعری اپنے نشانیاتی نظام سے پہچانی جاتی ہے اور اپنی کیفیت و ماہیت سے اپنی شناخت کروالیتی ہے ۔تلک راج پارس کی شاعری کا بھی اپنا الگ نشانیاتی نظام ہے۔وہ جس تہذیبی نظام کے زائیدہ ہیں وہ اپنے اندر وسیع ترین تہذیبی روایت اور روحانی ماورائیت چھپائے ہوئے ہے۔

تلک راج پارس کی شاعری میں ان کے داخلی ذہن کے امیجز کی اظہاری شکلیں ہیں،ان کی تخلیق باطن کی بازگشت ہے اور اس داخلی ربط کی تلاش سے عبارت ہے جو کائنات سے معدوم ہوتا جا رہا ہے۔ان کے امتزاجیت پسندذہن نے تخلیقیت کی نئی لہروں کی جستجو کی ہے اور وہ عناصر تلاش کر لیے ہیں جن میں کائنات کے متصادم اشیاء کو مربوط کرنے کی قوت ہے۔

پارس کی تخلیقی لہروں میں وحدت بھی ہے،وسعت اور توانائی کی وہ روایت بھی فروزاں ہے جس سے ان کے تخلیقی تسلسل میں تابانی پیدا ہو گئی ہے۔ان کی تخلیق میں آہنگ اور نغمگی کے ساتھ تخیلات کی وہ موج رواں ہے جو مختلف تہذیبی دریائوں سے وصال آشنا بھی کرتی ہے اور نقطۂ امتزاج سے روشناس بھی۔ پارس کی شاعری میں وہ لہو اور آگ بھی ہے جو آواز میں تبدیل ہو کر ہمارے ذہن ،ذات اور ضمیر کو مرتعش کر دیتی ہے۔ اس آگ سے ان کی پوری تخلیق کی تجسیم کی جا سکتی ہے:

ہم ایسے آتشیں لہجے میں شعر کہتے ہیں

خموشیاں بھی پگھل جائیں جن کی حدت سے

ہمارے خون کی ہر بوند سے اک شعر بنتا ہے

غزل میں گرم لہجے کی دہائی ہم سمجھتے ہیں

شب سیاہ بھی روشن اسی سے ہوتی ہے

جو شعر کہتے ہوئے ہم لہو جلاتے ہیں

یہ اشعار انسان کے باطن میں Explosiveقوت کی موجودگی کا اشاریہ ہیں۔باطن کی ایسی حدت و شدت سے تلک راج پارس کی تخلیقی کائنات میں ایک نئی قوت پیدا ہوگئی ہے۔

پارس، پرتبھا اور شکتی سے اس قدر معمور ہیں کہ جمالیاتی تشکیل کی راہ میں انہیں کوئی دشواری نہیں ہوتی ۔جذبے اور تخیل کی دونوں جمالیاتی کیفیتیں ان کے ہاں بدرجہ اتم موجود ہیں ۔احساس و اظہار کو تازہ رکھنے کے لیے جس تخلیقی قوت کی ضرورت پڑتی ہے، وہ ان کی تخلیق سے عیاں ہے۔اسی لیے پارس کی شاعری بے کیف،ویران،سنسان نہیں ہے بلکہ ذہن میں آباد اور شاداب رہنے والی ہے۔یہ شاعری جہاں حقیقی دنیا کے مظاہر،مسائل اور متعلقات سے مکالمہ کرتی ہے وہیں امکانی دنیا کے اشارات سے آگاہ بھی۔تلک راج پارس کے ہاں دو متوازی دنیائیں ہیں۔ان کی شاعری جہاں زندگی کی سنگلاخ حقیقتوں کو بیان کرتی ہے وہیں آنکھوں کو مستقبل کے کچھ خواب بھی دے جاتی ہے۔

آج کی تخلیقی فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی وجہ سے جہاں سانس لینا دشوار ہے وہیں تلک راج پارس کی شاعری ہماری سانسوں کو سرگم اور ساز عطا کرتی ہے اور تزکیہ و تطہیر کے اس عمل سے گزارتی ہے جو تخلیق کا حقیقی منصب ہے کہ تخلیق بنیادی طور پر catharticہوتی ہے۔اس میں مکمل تقلیبی قوت ہوتی ہے۔شاعری ایک تھریپیائی تجربہ (Therapeutic exprience) بھی ہے۔نفسی اعصابی اہتزار کے ذریعے خون کے دوران نظام کو فعال رکھتی ہے۔ یہ انسانی حواس کی تسکین کے ساتھ ایک ایسی کیفیت سے ہمکنار کرتی ہے جس میں اضطراب بھی ہے اور ذہن و ضمیر کی تابانی کا سامان بھی:

سانس لیتے ہی دھواں دل میں اتر جاتا ہے

آگ سی شئے یہاں کچھ بوئی ہوئی لگتی ہے

تلک راج پارس کی شاعری میں زمین و آسمان کے مسائل بھی ہیں اور دونوں کے حوالے سے انسانی وجود کی تفہیم کا نقطہ بھی روشن ہے۔'ارضی حسیت 'ان کی شاعری میں کلیت کے ساتھ موجود ہے۔

مقدر کی عبارت طے شدہ ہے

مگر آکاش پر سب کی نظر ہے

مال و زر کے لیے تبدیل نہ ہو جائے کہیں

جو مرا بھائی ہے قابیل نہ ہو جائے کہیں

سب کچھ تھا بے ثبات ہمارے حصار میں

اک عمر کا طلسم کھلا ہے مزار میں

پارس کو انسانی سطح پر جذبے کے زوال،صارفیت کے تسلط کا احساس بھی ہے اور اس میں پنہاں زوال کی علامتوں کا ادراک بھی ہے:

خط لکھنے کا وقت نہیں مل پاتا ہے

کاروباری جذبے کھائے جاتے ہیں

ہمارے شہر کے لوگوں میں یقین نہیں

ہمارے شہر میں رہتے ہیںسب گمان کے ساتھ

رابطے کے فون نمبر اور پتے محفوظ رکھیے

پھر نئے رشتے بنانے میں صدی کٹ جائے گی

پارس کلاسیکی اشارت سے انحراف اور قدیم تہذیبی روایت سے کنارہ کشی کو مثبت قدر میں شمار نہیں کرتے ،وہ کلاسیکیت کو نہ سرطان سمجھتے ہیں نہ جدیدیت کو عفریت، ان کے لیے اس کلچر اور اخلاقی حسیت کی اہمیت زیادہ ہے جو انسان کو وحدت کی لڑی میں پروئے رکھتی ہے۔وہ خود بھی امتزاجی ذہن کے حامل ہیں اور اس انسانی اکائی پر ان کا ایقان ہے جس کی شکست سے پورا انسانی معاشرہ انتشار کا شکار ہو جاتا ہے اور موضوعی و معروضی دنیا کے درمیان ربط کی تلاش ہی ان کی تخلیق کا نہایت مثبت اور توانا عنصر ہے جس کی وجہ سے ان کی تخلیق میں ایسے اشعار روشن ہیں جوسرور کائنات کی عقیدت سے سرشار ہیں:

انہیں حرفوں سے کچھ لکھوں تو وقعت کچھ نہیں ہوتی

محمد لکھ رہاہوں تو عبارت ناز کرتی ہے

آپ کا در جس نے دیکھا اس نے دیکھی کائنات

رب نے بھی تو کن کہا ہے مجتبیٰ کے نام پر

آپ کے اوصاف مومن کی طرح لکھتا ہوں میں

یعنی میری شاعری میں عنصر حسان ہے

جو بو مری کو میسر ہوئی ہے سپنے میں

حضورہم کو کبھی ویسی ہی نشانی دیں

زمیں کیا ہے افق کیا ہے آسماں چمکے

نشان پائے محمد سے دو جہاں چمکے

ان اشعار میں دماغ سے زیادہ دل کی وہ روشنی ہے جو انسانی احساس کو مربوط رکھتی ہے،منقسم نہیں ہونے دیتی،ہیئت وحدانی سے جوڑے رکھتی ہے۔روشن تہذیبی استعاروں سے ربط نے پارس کے اشعار میں تقدیسی کیفیت کے ساتھ تاثیری قوت بھی پیدا کردی ہے۔ان کے روشن ذہنی وجود سے جڑے ہوئے یہ وہ استعارے ہیں جو ان کی ذات اور ضمیر کا حصہ بن چکے ہیں۔ان کے ہاں مذہبی تلمیحات اور استعارات بھی ہیں جو پارس کی پاکیزگی نظر،وسعت ذہن کی علامت بن کر قاری کے لوح ذہن پر شب تاریک میں روشن ستاروں کی شکل میں جھلملاتے رہتے ہیں:

راہ حق میں کربلا کی طرز پر جو سر گرا

وہ ہمیشہ روشنیوں کے مصلّے پر گرا

عرش اعظم پہ مرے ہر خواب کی تکمیل ہو

خود میں یوں روشن شب عاشور کرنی ہے مجھے

تلک راج پارس کے نشانات اور علامات کے معنیاتی نظام اور ان کی حسیت کی میکانزم کو سمجھنا زیادہ دشوار نہیں ہے کہ وہ حرف سادہ سے ساحری کر جاتے ہیں:

غنیمت ہے طلسماتی زمیں میں

ہمارا حرف سادہ بولتا ہے

حرف سادہ میں بھی معانی کی کائنات آباد ہوتی ہے۔تلک راج پارس نے بھی لفظوں کے مروجہ معانی کو نئے مفاہیم میں استعمال کر کے لفظوں کو تحرک سے آشنا کیا ہے اور نئی معنویت عطا کی ہے ورنہ لفظ، معنی کی ایک ہی سمت میں سفر کرتے کرتے جمال کھو بیٹھتے ہیں اوراسے اپنے وجود سے ہی وحشت ہونے لگتی ہے۔پارس نے لفظ کو نئے مفہوم میں ڈھال کراس کی قوت و حرارت میں اضافہ کیا ہے،ہجر اور وصل جیسے الفاظ کو بھی ایک نئی معنیاتی کیفیت میں دیکھا ہے اور دو متضاد مفہوم کے حامل لفظوں کے معنیاتی ربط سے احساس کی کائنات کے ایک نئے در کو کھولا ہے۔

تلک راج پارس احساس و اظہار کی سطح پر اپنے خواب و خیال کی ترسیل میں کامیاب ہیں اوراس انسانی جذبے کی بیداری میں بھی جو اگر منجمد ہو جائے تو انسانی کائنات کا سفر لمحہ صفر میں ٹھہر جائے۔

پارس کی شاعری میں ہمارے عہد کا انعکاس بھی ہے اور آنے والے عہد کا عکس بھی کہ ایک تخلیق کار ایک ہی لمحہ میں دو زمانوں ،دو دنیائوں کا سفر کرتا ہے۔ایک جسے ہم حال کہتے ہیں اور دوسرا جسے دنیا مستقبل سمجھتی ہے۔پارس حال کے آئینے میں مستقبل کا چہرہ دیکھ رہے ہیں۔انہیں شاید ادراک ہے کہ یہ کائنات ایک تسلسل میں ہے اور ایک ہی لمحہ کے ارد گرد طواف کر رہی ہے،وہی لمحہ جو ماضی بھی ہے،حال بھی اور اس میں پنہاں مستقبل بھی-اس لمحے کی جستجو انسانی ذہن کے لیے ضروری ہے کہ وہ لمحہ کھو جائے تو کائنات معدوم ہو جائے گی۔ وہ ایک لمحہ کائنات ہے اور یہی کائنات کے تسلسل کی علامت ہے۔

تلک راج پارس کی شاعری اس' لمحہ ' کی تعبیر و تفہیم سے عبارت ہے۔اس لمحہ کے ' خواب و عذاب ' سے ان کی شاعری مکالمہ کرتی ہے۔وہ اپنی شاعری کے ذریعے خوابوں کی ترسیل بھی کرتے ہیں اور عہد حاضر کے کے عذابوں سے آشنا بھی،شاعری میں خواب کا منظر نامہ بھی ہے اور شکستگی خواب کا منظر بھی:

نیند آتی نہیں پھر مجھ کو کئی راتوں سے

پھر مرے خواب کی ترسیل نہ ہو جائے کہیں

اتنے ٹوٹے ہوئے سپنے ہیں مرے بستر پر

کرچیاں چنتے ہوئے رات گزر جائے گی

پارس کی شاعری کی داخلی ساخت سے جو تصویر بنتی ہے وہ یہ کہ پارس ایک مربوط تجربے کے شاعر ہیں اور انسانی وحدت و کلیت کے دائرے سے باہر نہیں ہیں۔وہ احساس کے اظہار میں کسی خوف و خطر کو راہ نہیں دیتے۔انہیں اپنے تخلیقی وجود پر پورا ایقان ہے اور اپنی شناخت پر بھی:

مجھے نابود کرنے کا ارادہ چھوڑ دے پارس

مری پہچان کے لاکھوں حوالے جاگ سکتے ہیں

ہمارے عہد کی پہچان ہم سے ہوتی ہے

ہم آفتاب کے آگے دئیے جلاتے ہیں

(جاری)

17 فروری 2024 ، بشکریہ:روزنامہ اودھ نامہ،لکھنؤ

-------------------

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/creative-works-non-muslim-writers-part-1/d/131782

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..