حقانی القاسمی
(چوتھا حصہ)
21 فروری
2024
خوش رنگ خیال کی خوشبو
نلنی وبھا نازلی
زندگی سے موسیقیت غائب ہوجائے
توذہنوں پر خواب کے بجائے عذاب اترنے لگتے ہیں!
مادیت اورصارفیت نے انسانوں
سے سارے حسین خواب چھین لیے ہیں اور وہ زندگی جو کبھی ایک خوبصورت میلوڈی ہواکرتی تھی،
وہ ایک اجاڑ اور ویرانے میں تبدیل ہوگئی ہے۔ شاعری ہمیشہ اسی میلوڈی کی تلاش اوروجود
کے آہنگ کی جستجو کرتی رہی ہے مگر آج انسانی وجود سے آہنگ بھی گم ہوتا جارہاہے۔
ڈاکٹرنلنی وبھانازلی کی شاعری
اسی میلوڈی اور آہنگ سے عبارت ہے اور اس موسیقیت کی تلاش میں ہے جو اپنے اندرتھریپیائی
اثررکھتی ہے۔ نازلی کی شاعری کی خاص بات یہی ہے کہ احساس کی موسیقیت ہمہ دم ان کے ساتھ
رہتی ہے۔وہ کسی بھی خیال یاجذبہ کے اظہار میں عدم توازن کی شکارنہیں ہوتیں۔ ان کے خیالات
میں ایک ربط تسلسل اور آہنگ ہے۔
نازلی کی شاعری میں آواز
اور خموشی کابہترین امتزاج ہے۔ جہاں ان کی شاعری آواز کے وسیلے سے بہت سے احساسات
کااظہار کرتی ہے وہیں ان کی خاموشی عرفان وآگہی کا ایک نیا سرچشمہ بن جاتی ہے۔ ان
کی خاموشی میں جوقوت، جوتاثیر، جو تسخیر ہے وہ ہر قاری محسوس نہیں کرسکتا۔ خاموشی کوسمجھنے
کے لیے بھی ذہن رساچاہیے۔ وہی ذہن جوکائنات کی خاموشیوں کو ایک نئے مفہوم اور معانی
عطا کرسکتاہے۔
نازلی کے اشعار میں خاموشی
کی وہ کیفیت محسوس کی جاسکتی ہے اور یہی خاموشی کبھی کبھی بلند آہنگ میں تبدیل ہوجاتی
ہے۔ذرایہ اشعار دیکھئے:
جانے رکھ دی خوشی کہاں ہم
نے
ڈھونڈتے ڈھونڈتے صدی گزری
یاد کرکے نشاط ماضی کو
روز آنکھوں سے اک ندی گزری
کھو گئی پھر کہیں اندھیروں
میں
اک ذرا چھو کے روشنی گزری
رونقیں اجلے دنوں کی گم ہوئیں
ڈس رہی پل پل ہے تنہائی مجھے
نازلی کی شاعری میں نسائی
احساس کی کوملتا ہے اور اظہار کی دوشیزگی۔ ان کی شاعری داخلی واردات کا اظہاریہ بھی
ہے اور خارجی وقوعات کا منظریہ بھی۔ داخل و خارج کے امتزاج سے وہ کائنات کی بہت سی
حقیقتوں کا انکشاف کرتی ہیں۔ خاص طور پر ان کی شاعری میں آج کی زندگی کا منظرنامہ
روشن ہے۔ وہی وحشتیں، وہی الجھنیں، وہی شکست خواب، وہی بے اعتباری، وہی بے یقینی اور
روح کی وہی ویرانگی،انسانی وجود کا سناٹا اور کائنات سے گم ہوتا ہوا آہنگ۔ نازلی کے
یہ وہ شعری موضوعات ہیں جن کی وجہ سے ان کی شاعری میں آج کے عصر کی روح بھی ہے اور
آج کے زمانے کا احساس بھی۔یہ چنداشعار ان ہی موضوعات کے اردگرد طواف کرتے ہیں:
بے غرض کون یہاں چارہ غم کرتاہے
ہر کسی کو غم حالات بتایا
نہ کرو
میٹھی باتوں میں بھی ہوتے
ہیں دغا کے پھندے
ایسی باتوں میں کبھی لوگوں
کے آیا نہ کرو
بستی میں زر پرستوں کی کیا
ڈھونڈ رہے ہو
نادان ہو پتھروں میں وفا ڈھونڈ
رہے ہو
عیاشیوں کو شیوہ یہ اپنا بنا
چکے
کیوں ان میں غیرت اور اناڈھونڈ
رہے ہو
صدق کی رشتوں میں اب خوشبو
کہاں ہے؟
دوستوں میں اب وفا کی خوکہاں
ہے؟
اب کہاں رشتوں میں ہے وہ پاسداری
اے وفا! آواز دے اب تو کہاں
ہے؟
نازلی کی شاعری میں کائناتی
شعور بھی ہے اور ماحولیات کا عرفان بھی۔ انھوں نے فطرت سے بیگانگی اوربیزاری کے مضراثرات
کومحسوس کیا ہے اور فطرت سے اپنی وابستگی کااظہار بھی کیا ہے۔ یہ شاعری اس بات کا ثبوت
ہے کہ تخلیق کاراپنے گردوپیش کے حالات یا ماحول سے بے خبر نہیں ہوتا بلکہ اسے اپنے
احساس کاحصہ بناکر اظہار کے قالب میں ڈھالتا ہے۔ آج کی ماحولیاتی کثافت اور آلودگی
کے حوالے سے یہ اشعار کس قدر معنی خیز ہیں اس کا اندازہ کوئی بھی لگاسکتا ہے:
آگ میں جلتے ہیں جنگلات،
کوئی روکے تو
کتنے بدتر ہوئے حالات، کوئی
روکے تو
کچے آنگن کی مہک اب کہاں
سے پاؤگے؟
کھو چلے شہروں میں دیہات،
کوئی روکے تو
آرے کلہاڑیاں ہاتھوں میں
ہیں بن مافیا کے
کر رہے ہیں یہ خرافات، کوئی
روکے تو
جھیل دلدل بنی بنجر بنی سرسبز
زمیں
اٹھ کھڑے کتنے سوالات، کوئی
روکے تو
اب نہ شاداب زمیں ہوگی نہ
خوشبو ہوگی
ہیں سمگلر بڑے بد ذات، کوئی
روکے تو
عیش کے واسطے دھن چاہیے، جنگل
کاٹے
اور چلے سوئے خرابات، کوئی
روکے تو
دیکھی آلودہ فضائیں تو میری
آنکھوں سے
اشک بن کربہے جذبات، کوئی
روکے تو
نازلیؔ گھلنے لگا زہر ہوا
پانی میں
موت کی یہ ہیں علامات، کوئی
روکے تو
ڈاکٹرنلنی وبھانازلی کوتخلیق
کی ابدیت پریقین ہے۔ اس لیے انھوں نے اپنے سارے احساسات وجذبات کوتخلیق کی صورت میں
ڈھال کر دنیا کے حوالے کردیاہے کہ کم ازکم ان کے احساس اور اظہار کی موسیقیت تو دنیا
کی سماعتوں میں گونجتی رہے گی۔ اپنے اس احساس کو انھوں نے اس شعر کے حوالے سے بھی پیش
کیاہے:
ہاتھ جل جائیں گے پھر بھی
دستخط رہ جائیں گے
اہل فن کے جو ہیں فن پارے
نہ وہ مٹ پائیں گے
میرا فن، اشعار میرے اور میری
نغمگی
قدر دانوں کے دلوں کو نازلیؔ
مہکائیں گے
نازلی کا شعری مجموعہ 'دستخط
رہ جائیں گے' اسی احساس کا ایک ثبوت ہے۔ اس سے پہلے بھی ان کے مجموعے 'ریزہ ریزہ آئینہ'
اور 'حرف حرف آئینہ' شائع ہوچکے ہیں۔ اردو اور دیوناگری دونوں میں شاعری کرتی ہیں۔ان
کا تعلق شاعری کے سرچشمہ موسیقی سے ہے۔اس تعلق سے انھوں نے ایک نظم میں بھی موسیقی
کی معنویت اور آفاقیت کے حوالے سے یوں اظہار خیال کیا ہے:
سکون دل مرا غزلیں ارمان موسیقی
مرے جی جان ہیں سرتال اور
ایمان موسیقی
جو ہے آواز باطن کی تھرکتی
ہے وہ تانوں میں
کہ ہے جذبات کے اظہار کا سامان
موسیقی
حقیقت ہے کہ بن اس کے مرا
دشوار ہے جینا
بھلانا رنج و کلفت کرتی ہے
آسان موسیقی
فقط انسان کیا پنچھی بھی اس
پر جان دیتے ہیں
کہ جھوم اٹھتا ہے سن کے سانپ
سا حیوان موسیقی
بڑھائے رونق محفل، عبادت میں
اثر لائے
کرے جب خالق کونین کا گن گان
موسیقی
اسی نے شاعری سے نازلیؔ رشتہ
مرا جوڑا
مرا مذہب مرا مسلک مرا ایمان
موسیقی
اس لیے ان کی شاعری میں موسیقیت
بھی ہے، نغمگی بھی اور وہ میلوڈی بھی جو انسانی احساس کو تبدیل کرنے کی قوت رکھتی ہے۔
ان کے تعلق سے ڈاکٹرشباب للت نے جس خیال کا اظہار کیا ہے اس سے آگے کچھ لکھنا ممکن
نہیں۔ 'نازلی کی فکری تخلیق کے اندر دھنشی رنگ قاری کے شعور کو رومانی اور روحانی کیف
واسرار کی جمالیاتی وادیوں کی سیاحت کراتے ہیں۔ ان کی غزلوں میں جہاں روایتی کلاسیکیت
کی دل نواز رنگ پاشیاں دلوں کو گدگداتی ہیں اورباہم چاہنے والے دلوں کی جواں دھڑکنیں،
رازونیاز،شرنگار رس کے رومانی افقوں تک کی پرواز میں قاری کو ساتھ لے کر چلتی ہیں۔
وہاں ان میں شاعرہ کے دل کی گہرائی سے نکلے ہوئے اشعار اپنے خالق سے عقیدت،وابستگی،
سپردگی، عبادت وخشوع کے پاکیزہ جذبے کوبھی مہمیز کرتے ہیں۔'
(جاری)
21 فروری 2024 ، بشکریہ: روزنامہ
اودھ نامہ ، لکھنؤ
--------------
Part: 1
– Creative Works of Non-Muslim Writers-Part-1 غیر مسلم قلم کاروں کا تخلیقی نگار خانہ
Part: 2
– Creative Works of Non-Muslim Writers-Part-2 غیر مسلم قلم کاروں کا تخلیقی نگار خانہ
Part: 3
– Creative Works of Non-Muslim Writers-Part-3 غیر مسلم قلم کاروں کا تخلیقی
نگار خانہ
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism