سیّد امیر علی
مقدمہ (قسط ۶)
دوسری صدی عیسوی کی ابتدا
کش مکش اور بد امنی سے ہوئی۔ عیسوی کلیسا میں فرقہ بندی اور بدعت کا بازار گرم
تھا۔ غنا سلطنت کابول بالا تھا اور اس نے عیسائیت پر ایک ان مٹ نقش مرتسم کیا۔ اس صدی
میں جو فرقے قائم ہوئے ان میں سے بعض ایک نگاہ گزراں کے مستحق ہیں، کیونکہ وہ نہ
صرف ان خرابیوں کا پردہ کھولتے ہیں کہ کلیسا کی تعلیمات سے پیدا ہوئیں، بلکہ اس
اثر کو بھی ظاہر کرتے ہیں جو زرتشتیث،فیثا غور سیت جدیدہ اورکلدانیوں کی قدیم
صابیت نے عیسائیت پر ڈالا۔
مارشونی (The
Marcionites)
جوغالباً ابتدائی غنا سطیوں میں سب سے نمایاں تھے، دو اصولوں کے وجود کے قائل تھے،
ایک خبر کل اور دوسرا شرِّ کل۔ ان دونوں کے درمیان نیم خدا (The
Demiurge)
تھا، جو ایک طرح کا متوسط خدا تھا، نہ تو کاملاً نیک او رنہ کاملاً بد، بلکہ خیرو
شر کا حرکّب، جوجزائیں اور سزائیں دیتا تھا۔ مارشونی عقائد کے مطابق یہ نیم خدا اس
دنیائے سفلی کا خالق تھا اور دائماً اصول شر سے بر سر پیکار تھا(یہاں زرتشی خیالات
کا اثر قابل ملاحظہ ہے)اصول مطلق نے اس کش مکش کو ختم کرنے اور انسانی روح کو، جو
قدسی الاصل ہے، ان مخالف اصولوں کی غلامی سے نجات دلانے کی خاطر یہودیوں کے پاس
ایک ایسی ہستی کو بھیجا جو خدا سے قدیم ترین مشابہت رکھتی تھی یعنی خدا کے بیٹے
یسوع مسیح کو، جس نے انسانی شباہت کا ایک سایہ نماساپیراہن پہن رکھا تھا تاکہ
انسانی آنکھ اسے دیکھ سکے۔ اس آسمانی پیغمبر کو جو کام نفویض کیا گیا وہ یہ تھا کہ
وہ اصول شر اور اس دنیا کے خالق دونوں کی سلطنت کو تباہ کردے اور بھٹکی ہوئی روحوں
کو راہ حق پر لائے۔”اس وجہ سے اصول شر نے اس پر ناقابل بیان خونخواری اور غضب ناکی
سے حملہ کیا“۔ اور اس حملے میں نیم خدا اصول شر کا شریک تھا، لیکن یہ حملہ ناکام
رہا،کیونکہ صرف ایک مجازی جسم رکھنے کی بدولت آسمانی پیغمبر دکھ درد سے مصون تھا۔
ویلنستینی (The
Valentinians)
جن کا اثر ونفوذ زیادہ دیر پاثابت ہوا، یہ تعلیم دیتے تھے کہ ”خدا ئے برتر و
بالانے اپنے بیٹے یسوع کو اجازت دی کہ طبقات علوی سے اتر کر زمین پر آئے تاکہ وہ
انسانوں کو ان کے گناہوں سے پاک و صاف کرے اور جب وہ اتر کر آیا تو اس نے ایک
واقعی جسم کا نہیں، بلکہ ایک سماوی وہوائی جسم کا جامہ پہن رکھا تھا۔“ویلنینی حضرت
عیسیٰ کو ذات باری کا یک صدور سمجھتے تھے، جس کانزول اس دنیا پر تاریکی کے بادشاہ
کوحکومت کو تاراج کرنے کی خاطر ہوا۔
ادنیٰ (The
Ophites)
جو مصر میں گزرے، جگوں، مادے کی قدامت دنیا کے خلاف رضائے الہٰی پیدا ہونے او رنیم
خدا کی ستم پیشگی کے قائل تھے، حضرت عیسیٰ کے بارے میں ان کا یہ عقیدہ تھا کہ”خدا
وند مسیح او ریسوع نامی بشر ایک ہوگئے ہیں تاکہ غاصب کی باطل حکومت کا قلع قمع
کریں۔“ ان کا یہ بھی خیال تھا کہ وہ سانپ جس نے آدم علیہ السلام و حوا کو ورغلا یا
یا تو خود مسیح تھا یا سانپ کے بھیس میں صوفیا (Sophia)
ادھر کلدانی فلسفے کے زیر
اثر غناسطی مذاہب وجود میں آرہے تھے، ادھر یونانی اس کوشش میں مصروف تھے کہ
”باپ،بیٹے، روح القدس اور دو فطرتوں کے مسیح کی صورت میں اتحاد کے بارے میں سینٹ
پال کے جو عقائد تھے ان میں اور نظام عالم سے متعلق اپنے خیالات میں ہم آہنگی
پیداکریں۔ پریکسیس (Praxeus)عیسائیت کے ان سو فسطائی مبلّغین میں پہلا تھا اور اس نے آغاز کلام
یہ کہہ کر کیا کہ ”باپ،بیٹے اور روح القدس“ میں کوئی حقیقی فرق نہیں اور آسمانی
باپ اپنے بیٹے مسیح سے اس درجہ متحد تھا کہ وہ بیٹے کی مصیبت بھری زندگی کے رنج
والم اور اس کی شرمناک موت کی اذیت میں برابر کاشریک بنا!
موشیم (Moshcim) کہتا ہے، ”یہ فرقے
فلسفے کی پیداوار تھے عیسوی کلیاس پر مونتانس (Monganus) فریزی کی صورت میں
ایک اور مصیبت آنے والی تھی“۔ جس شخص نے جو علم و دانش سے نفوذ تھا، اپنے آپ کو وہ
فار فلیط کہا جس کے آنے کی بشارت حضرت عیسیٰ نے دی تھی۔ بہت جلد لوگوں کی ایک بڑی
تعداد اس کی پیروبن گئی۔ ان میں سب سے مشہور پریسلاً (Priscilla) او میکسملاّ (Maximilla) تھیں، یہ دونو اپنے
آپ کو منبیہ کہتی تھیں اور ان کا سرمایہ پاکبازی سے بڑھ کر دولت مندی تھا“۔ انہوں
نے شمالی ایشیا کو ایک مذبح بنادیا اور اپنی خون آشامی اور غضب ناکی سے نوع انسانی
پر ہولناک مصیبتیں نازل کیں۔
جس زمانے میں مارشیونی،
ویلنستینی، مونتانی اور دوسرے غنا سطی فرقے ساری رومی سلطنت میں اپنے عقائد کی
اشاعت کی خاطر مصروف کار تھے اسی زمانے میں ایران کی سرزمین سے ایک ایسا شخص پیدا
ہوا جس کی شخصیت دو برّ اعظموں کے فلسفے پر ایک ان مٹ نقش ثبت کر گئی ہے۔ مانی
بہمہ وجود اپنے زمانے کے فرہنگ و دانش کاکامل ترین نمائندہ تھا۔ وہ ہینت دان تھا،
وہ ماہر طبیعیات تھا، موسیقی کااستاد تھا اور اعلیٰ درجے کانقّاش تھا۔ نگاہ خانہ
مانی کا مشہور ومعروف تلمیح اسی کی یادگار ہے۔
وہ یہودی کے قبلہ (Cabbala)،یعنی باطنی علم اور
غناسطی استادوں کی تعلیمات سے پوری طرح واقف تھا۔ مشرق کافلسفہ اور تصوف اس کی
گھنی میں تھا نسلاً تو وہ مجوسی تھا،لیکن تعلیماً عیسائی۔اس کے ارد گرد اختلاف و
افتراق کا جو ہنگامہ برپا تھا اس نے اس کے خلاف اعلان بغاوت کیا اور عقائد کے
انتشار کے اندر سے ایک ایسا مذہب ایجاد کرنے میں کوشاں ہو گیاجس سے تمام لوگوں کے
دلی تقاضوں اور آرزوؤں کی تسکین ہوسکے۔ اس نے بڑی جسارت سے کام لے کر متدادل
مذہبوں کی جڑیں کھوکھلی کیں۔ اس کا طریق کار یہ تھا کہ جس مذہب کو وہ اپنا نشانہ
بناتا بظاہر اس کا اقرار لیکن درپردہ اس پر نہایت لطیف انداز سے نکتہ چینی کرتا جس
سے لوگوں کے ایمان میں خلل آجاتا۔یہی طریقہ اس کے ہم مشرب اسماعیلیوں نے بعد میں
اختیار کیا۔ اس جسارت نے اور مانی نے باطینوں کی طرح تمام مذہبی عقائد کے مخفی
معانی کا ر مزآشناہونے کو جو دعویٰ کیا اس نے تمام مذہبوں اور فرقوں کو اس کامخالف
بنا دیا۔اس کا قدرتی نتیجہ یہ ہواکہ جہاں کہیں وہ اور اس کے پیروجاتے،ایسے ایسے
مظالم کے مورد بنائے جاتے کہ تاریخ ان کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے۔
مانی کامسلک عیسائیت کے
عقائد اور ایرانیوں اور کلدانیوں کے قدیم فلسفے کاایک عجیب و غریب امتزاج تھا۔ کاس
کا عقیدہ یہ تھا کہ مادہ اور نفس دائمی طور پرایک دوسرے سے برسرپیکار ہیں۔ مادّہ
دوفطرتوں کا مالک ہے، ایک قدسی اور دوسری مادّی۔ اوّل الذکر آسمانی نور یا روح کاایک
جزو سے مادّسے اورنفس میں جو تنازعہ ازل سے جاری ہے اس کے دوران مادے نے انسانوں
کو تخلیق کیا۔ روح قدسی کو اس زندان سے آزاد کرانے کی خاطر جس میں وہ قید تھی۔ خدا
ئے بزرگ و برتر نے اقلیم شمسی سے ایک ایسے وجود کوبھیجا جس کی ساخت خود اس کے جوہر
سے ہوئی تھی اور جس کانام مسیح تھا۔ چنانچہ مسیح انسانی جسم کا ایک موہوم سا لباس
پہنے یہودیوں میں نمودار ہوا اور اس نے اپنی تبلیغ کے دوران فانی انسانوں کو یہ
سکھایا کہ وہ کیونکرنفس ناطقہ کو فاسد جسم سے علیحدہ کرسکتے ہیں اور کیوں کر مادّے
کے شر پر قابو پا سکتے ہیں۔ تاریکی کے سردارنے یہودیوں کو یہ ترغیب دلائی کہ وہ مسیح
کو ہلاک کردیں چنانچہ مسیح کو سولی پر چڑھا دیا گیا۔ لیکن یہ محض آنکھ کا دھوکا
تھا۔ در حقیقت مسیح اپنا کام انجام دے کر اقلیم شمسی میں واپس چلاگیا اور وہا ں
جاکر اپنے تخت پر بیٹھ گیا۔
چنانچہ مانوی مسیح نہ کھا
سکتا تھا، نہ پی سکتا تھا نہ دکھ اٹھا سکتا تھا، نہ مرسکتا تھا، وہ ایک مجسم خدا یا
اوتار بھی نہ تھا، بلکہ محض ایک پیکر خیالی تھا، یعنی ”ایک حاوی کل عنصر نور جو
فطرت کے زندان میں قید تھا،لیکن فطرت کی کسی شکل میں نمودار نہ ہوا، بلکہ اس سے
نجات پانے کے لئے کوشاں رہا“۔یہ عقائد کتنے ہی کفر آمیز اور خلاف عقل کیو ں نہ
معلوم ہوتے ہوں،مسلمانوں کو استحالہ عشائے ربّانی کا مسئلہ اور یہ عقیدہ کہ عشائے
ربّانی کے اجزاء فی الواقع خدا کے گوشت اور خون میں تبدیل ہوجاتے ہیں ان سے بھی زیادہ
کفر آمیز اور خلاف عقل معلوم ہوتے ہیں۔
مانی نے اپنے مریدوں کو
دو گروہوں میں تقسیم کیا،یعنی ”برگزید گان“ اورشنوندگان“۔ برگزیدوں کے لئے گوشت
اورنشہ آور مشروبات قطعاً حرام تھے اور ان پر شادی اور تمام لذات حسی سے پر ہیز
واجب تھا۔”سننے والوں“ کے لیے جو پابندیا ں تھیں وہ نسبتاً کم سخت تھیں۔ انہیں اجازت
تھی کہ مکانوں،زمینوں اور زرومال کے مالک بنیں،گوشت کھائیں اور شادی بیاہ کریں، لیکن
اس سباحات پر بہت سی حدیں عائد تھیں اور ان کے بارے میں اعتدال اور میانہ روی کی
سخت تاکید تھی۔
مانی بہرام گور کے حکم سے
قتل کیا گیا، لیکن اس کے عقائد عیسائیت میں داخل ہوگئے، اور آگے چل کر کلیسا میں
جو جدال انگیز تفرقے پیدا ہوئے ان میں عقائد کے اثرات واضح طور پر دکھائی دیتے ہیں۔
تیسری صدی عیسوی کے وسط میں
سابلیوں (the Sabellians) کا فرقہ نمودار ہوا،جو دین عیسوی میں ایک نئی تحریک کاموسس تھا۔ یہ
لوگ حضرت عیسیٰ کو ایک انسان تصور کرتے تھے، لیکن اس کے قائل تھے بزرگ و برترآسمانی
باپ سے ایک خاص قوت صادر ہوکر یسوع نامی بشر میں داخل ہوگئی اور اس طرح وہ خدا کا
بیٹابن گیا۔ یہ عجیب و غریب نظریہ جسے گبّن (Gibbon) عیسوی موحدیت سے
مشابہ خیال کرتا ہے عیسوی کلیسا میں بڑے خلفشار کا باعث بنا اور اس کی تردید کی
خاطر اوریجن (Origen) نے چوتھی صدی عیسوی کی ابتداء میں خدا کی تین جداگانہ شخصیتوں
کاعقیدہ رائج کیا۔ تین خداؤں کا عقیدہ وہی پراناغیر اہل کتاب کا عقیدہ تھا جسے عیسائیت
کے پیروؤں کے مزاج کے مطابق ایک نئے سانچے میں ڈھال لیا گیا تھا۔ کثرت پرستی ان کی
گھُٹّی میں تھی، چنانچہ تین خداؤں کی پرستش حضرت عیسیٰ کی تعلیمات او رلا تعداد
خداؤں کی قدیم پرستش میں ایک قسم کی مصالحت تھی۔ مرور زمانہ کے ساتھ تین خداؤں کی
پرستش عقیدہ تثلیت میں ضم ہوگئی۔ لیکن اس واقع سے پیشتر اس نے عیسائیوں کے سب سے زیادہ
فلسفی مزاج فرقے کو جنم دیا۔۱؎
ایریوسیّت (Arianism) کا خروج بڑی حد تک
اس بغاوت کانتیجہ تھا جو عقل انسانی نے عیسوی کلیسا کی منافی عقل تعلیمات کے خلاف
کی۔ ایریوس (Arius) نے اسکندریہ میں، جو اس وقت عیسائی دنیا کا سب سے زیادہ تعصب زدہ
شہر تھا، اپنے بشب سے اختلاف رائے کر کے یہ تعلیم دینے کی جرأت کی کہ حضرت عیسیٰ
خدا کے ہم جو ہر نہ تھے۔ ایویوسی مسلک بہت جلد مصر اور شمالی افریقہ میں پھیل گیا
اور بے حد ستم کیشانہ مخالفتوں کے باوجود ان علاقوں پر مسلّط رہا۔ بالآخر اس کے پیرو
حلقہ اسلام میں داخل ہوگئے۔۲؎
ایریوس کے تفرقے نے جو
ابتری پھیلائی تھی اس کے نذاک کے لیے شہنشاہ قسطنطین (Constantine) نے 325ء میں بثینیا
(Bithynia) کے مقام پر ینس کی کہ نسل (The
Council of Nice)
منعقد کی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎ Mosheim p. 411
۲؎ سولہویں صدی عیسوی کے اواخر میں سی اینا کے سوسی
نس (Socinus) نے ایریوس کے عقائد کی تجدید و توسیع کی۔ آج کل کے عیسائی موحدّ ین
سوسی نوسیو (TheSocinians) کے بلاواسطہ روحانی جانشین ہی۔ سوسی نوسی حضرت عیسیٰ کی ایوہیت
کے منکر تھے۔ وہ فطرح معصیت اور کفارہ کے بھی قائل نہ تھے۔ ان کے نزدیک صرف خدا
قابل پرستش تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس مجلس میں طرفین کے
زبردست مجاولوں کے بعد ایریوس کے نظریے کی تردید کی گئی اور حضرت عیسیٰ کو آسمانی
باپ کا ہم ذات وہم جو ہر قرار دیا گیا۱؎“
عیسوی کلیسا کی حالت اس
سے پہلے کچھ بھی رہی ہو، اس کے بعد اس کی تاریخ ابتری،تشدد، خانہ جنگی، ہولناک جبر
وتعّدی،زہر آلود نفرت اور انسانوں کے دلو سے عقل اور انصاف کو خارج کردینے کی دائمی
کوششوں کی ایک مسلسل اور تاسف انگیز رودار ہے۔ کلیسا کے منصب واروں کی سیاہ کاریاں
حد سے گزر گئیں اور مسائخ کلیسا کی عیش پرستی،کبرو نخوت اور شہوت رانی کے افسانے
زبانوں پر آنے لگے۔ ابتدائی دور کے ترک دنیا کی جگہ رہبانیت نے لے لی اور راہبوں کی
اوباشی ضرب المثل بن گئی۔ یہ لوگ کلیسا کے آزاد سپاہی تھے اور ان کا مشغلہ ہر جگہ
کھلبلی مچانا اور افراتفری پھیلانا تھا۔ ان کی بد عنوانیوں کے طفیل قسطنطنیہ،
اسکندریہ اور رومہ کے کوچہ و بازار میں آئے دن خون کی ندیاں بہتی تھیں۔
ہائی پیشیا (Hypatia) کے قاتل سِرِل (Cyril) کے ساتھ نسطوریس (Nestorius) کامناقشہ عیسائیت کی
تاریخ کا ایک نمایاں باب ہے۔ ایفسیس (Ephesus) کی دوسری کونسل کا
ایک مقصد یہ تھا کہ کلیسا میں جو مخالفت گروہ پیدا ہوگئے تھے ان کی آپس میں مصالحت
کرائی جائے، لیکن گبن (Gibbon) کے الفاظ میں ”بطریق اسکندریہ کی آمریت نے پھر ایک بار آزادی
رائے کا گلا گھونٹ دیا۔ یسوع مسیح کی دو فطرتوں کے نظریے کی باقاعدہ طور پر تردید
کی گئی۔”جو لوگ کلیسا کے ٹکڑے کرتے ہیں تلوار ان کے ٹکڑے کرتے۔“ان کے پرُزے اڑیں۔”وہ
زندہ جلادیئے جائیں“۔یہ تھیں کلیسا کی ایک مجلس عالیہ کی کریم النفسانہ دعائیں۔“
کالسیدون (Chalcedon) کی کونسل میں،جورومہ
کے بشپ کی فرمائش پر منعقد ہوئی، یہ عقیدہ حتمی طور پر تسلیم کرلیا گیا کہ حضرت عیسیٰ
خدا کے اوتار کی حیثیت سے تھے تو ایک شخص واحد لیکن ان کے اندر دو فطرتیں جمع تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎ گبّن Gibbon, vol,iv
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مونوفیزیو ں (The
Monophysites)
اور نسطوریوں،(The Nesgtorians) نے حضرت عیسیٰ کے مجسم خدا ہونے کے نظریے سے اختلاف کر کے کالسیدون
کے فنون کے خلاف موقف اختیار کیا۔ لیکن راسخ العقیدہ لوگ اپنے معلّم کی فطرت کا
معّماحل کرچکے تھے، اور یہ اہل بدعت ان کے شدید حملوں کی تاب نہ لا سکے۔یروشلم پر
راہبوں کے ایک لشکر نے قبضہ جما لیا اور ایک واحد الفطرت اوتار کے نام پر قتل غارت
کا بازار گرم کردیا۔ چنانچہ حضرت عیسیٰ کا مزار انسانی خون سے داغ داغ ہوگیا۔
اسکندریہ کے عیسائی ایک عورت کا قتل تو کر ہی چکے تھے، اب انہوں نے اپنے بطریق کو
بھی بنپنسمہ گاہ میں ذبح کر ڈالا اور اس کا تکابوٹی لاش کو جلا کر اس کی راکھ ہوا
میں اُڑادی۔
چھٹی عیسوی کے وسط میں
مونوفیزیوں کی قسمت کا ستارہ ان کے ایک رہبر یعنی ادڈیسہ Odessa کے بشب جیکب (Jacob) کی قیادت میں
دوبارہ چمکا۔ اس کے اور اس کے جانشینیوں کے زیر سایہ انہوں نے مشرقی سلطنت میں
بالا دستی حاصل کی۔ اس سے فائدہ اٹھا کر انہو ں نے نسطوریوں پر بے پناہ مظالم
ڈھائے اور کالسیددنیوں کے ساتھ جھگڑے کر کے عیسوی کلیسا کو خانہ جنگی اور کشت و
خون میں غرق کردیا۔ مونو فزیوں ں کا یہ عقیدہ کہ ”مسیح کی قدسی اور بشری قوتو ں کی
سرشت کچھ ایسی تھی کہ وہ ایک واحد فطرت کی صورت میں مجتمع ہوگئی تھیں، لیکن ایسی
طرح کہ ان میں نہ کوئی تغیر ہوا تھا، نہ کوئی اشتباہ، نہ کوئی امتزاج ”ایک غیر عیسائی
کو کالسیدون کی کونسل کے طے کئے ہوئے عقیدے سے ذرّہ برابر مختلف دکھائی نہیں دیتا۔
باایں ہمہ یہ تمیز بلا تفریق انسانوں کی ایک بڑی تعداد کے لیے مصیبتوں کاباعث بنی۔
بالآخر 630ء میں ہر یکلس (Heraclius) نے اس خلفشار کوختم
کرنے کے لیے ایک نیا فرقہ قائم کیا، یعنی مونو تھیلیوں (The
Monothelites)
کافرقہ جس کے عقائد اتنے ہی مہمل اور عقل سوز تھے۔ ان لوگوں کا ایمان تھا کہ ”مسیح
کامل خدا بھی تھا اور کامل بشر بھی اوراس میں دو مستقل فطرتیں جمع تھیں، جو اس طرح
متحد ہوئی تھیں کہ نہ کوئی امتزاج واقع ہوا تھا او رنہ کوئی اشتباہ۔ البتہ ان کے
اجتماع سے ایک واحد شخصیت پیدا ہوگئی تھی“۔ بہر حال اس فرقے کے خروج نے عیسوی کلیسا
میں امن قائم کرنے کی بجائے تفرقہ فساد کو اور بھی بڑھادیا۔ چنانچہ مغربی ایشیا،
شمالی افریقہ اور یورپ کے بہت سے حصوں میں کشت و خون کا ہنگامہ برپا رہا اور حضرت
عیسیٰ کے نام پر ہر طرح کے انسانیت سو ز مظالم ہوتے رہے۔
یہ تھی عیسوی دنیا کی
مذہبی حالت ان صدیوں میں جو ظہور اسلام سے پہلے گزریں۔
Related Article:
URL: https://www.newageislam.com/books-documents/urdu-ameer-ali-spirit-part-7/d/122585
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism