مصباح الہدیٰ قادری ، نیو ایج اسلام
30 جون 2018
مخدوم جہاں شیخ شرف الدین احمد یحیٰ منیری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ سالک راہ حق کا کسی ایک روحانی مقام پر قیام کرنا خسارے کا سودا ہے۔ اور سیر الی اللہ میں اس خسارے سے دامن بچا کر اسفل سے اعلیٰ مقام کی طرف کوچ کرنے کا سب سے محفوظ ، مستند اور معتبر راستہ توبہ کا راستہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ روایات صحیحہ سے یہ ثابت ہے کہ پیغمبر اسلام رحمت عالمین ﷺ ہر دن ستر مرتبہ توبہ و استغفار کیا کرتے تھے ، اس لئے کہ اللہ رب العزت کا آپ ﷺ سے یہ وعدہ ہے ‘‘وَ لَلۡاٰخِرَۃُ خَیۡرٌ لَّکَ مِنَ الۡاُوۡلٰی(93:4)’’ ترجمہ : آپ کی ہر آنے والی گھڑی پچھلی گھڑی سے بہتر ہے’’۔
یہاں ایک لطیف نکتے کی وضاحت میں ضروری سمجھتا ہوں کہ تقرب الی اللہ اور روحانی مقام و مرتبہ کے اعتبار سے عام انسانوں سے اونچا مقام اولیاء اللہ کا ہے اور اقطاب ، ابدال ، افراد ، شہداء اور صدیقین و صالحین تمام اسی طبقۂ اولیاء میں شمار کئے جاتے ہیں اور دائرہ ولایت کے اندرہی ان تمام کے حسب مراتب مقامات ہوتے ہیں ، ان کے بعد کائنات میں عرفانِ الٰہی اور تقرب الی اللہ کے اعتبار سے سب سے اونچا مقام انبیاء و مرسلین کا ہے اور باتفاقِ امت ان تمام انبیاء و مرسلین میں سب سے اونچا مقام و مرتبہ پیغمبر اسلام ﷺ کا ہے۔ نفس نبوت و رسالت میں تمام انبیاء و مرسلین برابر ہیں لیکن مقام و مرتبہ اور تقرب کے اعتبار سے نبوت و رسالت کا کمال نقطۂ وجود محمدی ﷺ ہے۔ اور اللہ نے قرآن میں آپ ﷺ کے اسوۂ مبارکہ کو ہمارے لئے قابل تقلید قرار دیا ہے۔ اسی لئے صوفیائے کرام اس بات کے قائل ہیں کہ اگر سالک توبہ و استغفار کے ذریعہ رجوع الی اللہ بجا لائے تو آپ ﷺ پر اللہ کے انعامِ خاص (‘‘وَ لَلۡاٰخِرَۃُ خَیۡرٌ لَّکَ مِنَ الۡاُوۡلٰی(93:4)’’ ترجمہ : آپ کی ہر آنے والی گھڑی پچھلی گھڑی سے بہتر ہے۔)کا فیض اسے بھی نصیب ہوتا ہے اور اس کے بھی روحانی مقامات بلند ہوتے رہتے ہیں ۔ اسی نکتے کی وضاحت کرتے ہوئے مخدوم جہاں شیخ شرف الدین احمد یحیٰ منیری رحمۃ اللہ علیہ رقمطراز ہیں:
‘‘آنکہ موسیٰ علیہ السلام گفت تُبتُ اِلیکَ توبہ از خود بود بحق ازانچہ رویت باختیار خود خواست و اندر دوستی اختیار آفت است۔ پس این بازگشتن بود زِ حسن باحسن وآنکہ حضرت رسالت پناہ ﷺ گفت انی لاستغفر اللہ فی کل یوم سبعین مرۃ این استغفار است از صواب بہ اصوب بہر نفسے از مرتبہ بمرتبہ نقل فرمودی و خود را در مرتبہ اول مقصر دیدے بجنب مرتبہ مرتبہ دوم استغفار کردی اینست معنیٰ آنکہ حسنات الابرار سیٔات المقربین توبہ بحقیقت رجوع آمد و لیکن صفت رجوع مختلف بمقدار اختلاف احوال و مقامات عام را از جفا بعذر باز گشتن بیم عقوبت را و خواص را از افعال خویش بازگشتن بدیدن منت تعظیم مخدوم را و خواصِ خواص را از کل کونین بازگشتن و عجز و فنا و عدم ایشان دیدن اجلالِ مکونِ کون را’’۔
ترجمہ:موسیٰ علیہ السلام نے (کوہ طور پر غشی سے افاقہ ہونے پر ) جو ‘‘تُبتُ اِلیکَ ، میں تیری طرف توبہ کرتا ہوں’’ کہا وہ خود ان کی اپنی ذات سے توبہ تھی اس لئے کہ انہوں نے اپنی مرضی اوراختیار سے رویت محبوب کا مطالبہ کیا تھا ، جبکہ اللہ کی دوستی (دعویٔ محبت) میں اختیار (اپنی مرضی کا باقی رہنا) آفتِ جان ہے۔ پس (موسیٰ علیہ السلام کا توبہ کے ذریعہ) اپنے اس (دیدارِ الٰہی کی گذارش کے) عمل رجوع کرنا عملِ حَسَن سے عملِ اَحسَن کی طرف منتقل ہونا تھا۔ اور پیغمبر اسلام ﷺ کا یہ فرمانا کہ ‘‘انی لاستغفر اللہ فی کل یوم سبعین مرۃ، ترجمہ : میں ہر دن ستر مرتبہ توبہ کرتا ہوں’’، ہر لمحہ آپ ﷺ کے علو درجات کی دلیل ہے ، (اس لئے کہ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر آن اور ہر لمحے ترقی درجات میسر ہے ، اور آپ جب بھی اپنے پہلے مرتبے سے عرج کر کے دوسرے مرتبے پر پہنچتے تو اپنے پہلے مرتبے کو اس دوسرے کے مقابلے میں کمتر پاتے اور اپنے پہلے مقام سے توبہ کرتے۔ اس سے اس قول کی وضاحت ہو جاتی ہے کہ ‘‘حسنات الابرار سیٔات المقربین، ترجمہ: جو نیکوکاروں کے لئے نیکی ہے وہ مقربین بارگاہ کے لئے گناہ ہے’’۔ اور توبہ کی حقیقت (اللہ کی طرف) رجوع لانا ہے ، لیکن اس (رجوع الی اللہ) کی نوعیتیں لوگوں کے احوال اور (روحانی) مقامات کے اعتبار سے مختلف ہوتی ہیں۔ عوام کی توبہ (گناہوں سے) نفس پر ظلم کے باعث عقابِ الٰہی کے خوف سے ہے۔ اور خواص (صالحین) جب توبہ کرتے ہیں تو ان کے پیش نظر یہ امر ہوتا ہے کہ اللہ کے جتنے انعامات اور احسانات ہیں اس اعتبار سے حق بندگی ہم سے ادا نہ ہو سکا۔ اور خاص الخاص (مقربینِ بارگاہ) کی توبہ پوری کائنات سے منھ پھیر لینا اور خود کو (اللہ کے سامنے) عاجر و فانی تصور کرنااور اس بات پر اشک ندامت بہانا ہے کہ ہم سے خالقِ کون مکاں کی عظمت و جلال سے غفلت کیوں سرزد ہوئی۔
مکتوب شریف کے اس اقتباس سے اب یہ بات متحقق ہو گئی کہ توبہ رجوع الی اللہ کا نام ہے۔ اور مرتبہ و مقام کے اعتبار سے ہر انسان کی توبہ مختلف ہوتی ہے۔ عوام کی توبہ دار المعصیت (گناہوں کی دنیا) سے دار الاطاعت (اطاعت و فرمانبرداری کی دنیا) کی طرف ہجرت کرنا ہے۔ خواص یعنی نیک بندوں کی توبہ اللہ کے انعامات اور احسانات کے سامنے اپنے اعمال اور اپنی نیکیوں کو کمتر اور حقیر جاننا ہے۔ اور خواص الخاص یعنی مقربین بارگاہ کی توبہ ذات وحدہ لا شریک کے سامنے خود کو عاجز اور معدوم سمجھنا اور خود اپنے وجود کو ایک گناہ تصور کرنا ہے۔ اسی کے حوالے سے مخدوم جہاں شیخ شرف الدین احمد یحیٰ منیری رحمۃ اللہ علیہ اپنے اسی مکتوب میں حضرت جنید بغدادی کا ایک قول نقل فرماتے ہیں:
اِذاَ قُلتُ ما اَذنَبتُ قالتْ محبتہ وُجودُکَ ذَنب لَا یُقاسُ بِھا ذَنب
ترجمہ: جب (محبت کی وارفتگی میں بے خود ہو کر) میں نے پوچھا کہ میرا گناہ کیا ہے، تو اس کی محبت کی (شوخی) نے جواب دیا کہ تیرا وجود ہی خود اتنا بڑا گناہ ہے کہ اس کے مقابلے میں تمام گناہ کمتر ہیں)۔ حضرت جنید بغدادی کے اس قول سے صوفیائے کرام جو معانی اخذ کرتے ہیں ان میں ایک لطیف نکتہ یہ بھی ہے کہ اس شعر میں ‘‘وجود’’ سے مراد انسان کا نفس یعنی ‘‘اَنانیت -ego’’ ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ جب تک سالک کے اندر انانیت یا خودبینی کا حجاب موجود ہے وہ منزل مقصود کو نہیں پا سکتا۔ وصول الی اللہ چاہنے والے کے لئے ضرور ی ہے کہ وہ سب سے پہلے اپنے نفس کے حصار سے باہر نکل آئے اور اللہ کی مرضی میں خود کو فنا کر دے۔
جاری..............
URL for Part-1:
URL for Part- 2:
URL for Part-3:
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism