مصباح الہدیٰ قادری ، نیو ایج اسلام
27جون 2018
گزشتہ حصے میں ہم نے یہ دیکھا کہ کس انداز میں مخدوم جہاں شیخ شرف الدین احمد یحیٰ منیری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے اس مکتوب میں توبہ کا ایک وسیع ترین تصور پیش کیا جس میں ہر فرد بشر شامل ہے۔ کیا چھوٹا کیا بڑا ، کیا نیک کیا بد ، کیا مؤمن کیا مسلم اور کیا عالم کیا جاہل -تو بہ سے کسی کورخصت نہیں۔ کافر کی توبہ یہ ہے کہ وہ اپنے کفر سے تائب ہو کر دائرہ ایمان میں داخل ہو جائے۔ معصیت و نافرمانی کے راستے پر چلنے والوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ معصیت سے تائب ہو کر نیکی کا راستہ اختیار کریں۔
اللہ کے نیک اور اطاعت شعار بندوں پر ضروری ہے کہ وہ اپنی نیکیوں کو خلوص و للٰہیت کے زیور سے آراستہ کریں اور توبہ کے ذریعہ ‘‘احسن تقویم’’ کا جوہر حاصل کرنے کی تگ دو میں لگے رہیں۔ اور جو احسن تقویم کا جوہر حاصل کر چکے ہیں اور معرفت الٰہیہ کی شرابِ لذت آشناں سے محظوظ ہو چکے ہیں ان کے لئے توبہ و استغفار کا دامن چھوڑنا ہلاکت سے خالی نہیں۔ اس قضیہ کی بہتر توضیح حضرت علی بن عثمان جلابی المعروف بہ داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کی ایک شہرہ آفاق تصنیف کشف المحجوب کی درج ذیل عبارات سے ہوتی ہے ، آپ فرماتے ہیں:
و بدانکہ توبہ اندر لغت بمعنی رجوع باشد؛ چنانکہ گفت: (تابَ، ای رَجَعَ) پس بازگشتن از نہی خداوند بدانچہ خوب ست از امر خداوند حقیقت توبہ باشدو پیامبر گفت، ﷺ: (النَّدَمُ تَوْبةٌ۔ پشیمانی توبہ باشد) و این قولی است کہ شرائط توبہ بجملہ اندر این مودَع است؛ از آنچہ یک شرطِ توبہ اسف است بر مخالفت و دیگر اندر حالِ ترک ذلّت، و سیوم عزم معاودت ناکردن بمعصیت و این ہر سہ شرط اندر ندامت بستہ است؛ کہ چون ندامت حاصل شد اندر دل این دو شرط دیگر تبع او باشد (بحوالہ: کشف المحجوب فارسی۔ باب فی التوبہ و ما یتعلق بھا-صفحہ 322-321۔مطبع النوریہ الرضویہ پبلشنگ کمپنی، لاہور، پاکستان۔ سن طباعت - 18 صفر المضفر 1435 ہجری بمطابق 22 دسمبر 2013)۔
ترجمہ: معلوم ہونا چاہئے کہ توبہ کا لغوی معنیٰ رجوع کرنا ہے ، جیسا کہ کہا جاتا ہے اس نے توبہ کیا یعنی اس نے رجوع کیا۔ لہٰذا ، توبہ کی حقیقت یہ ہے کہ جو شئی اچھی لگے لیکن اللہ کی طرف سے ممنوع ہو اس سے اللہ کے حکم کی بنیاد پر منھ پھیر لیا جائے۔پیغمبر اسلام ﷺ نے فرمایا (النَّدَمُ تَوْبةٌ،توبہ ندامت سے عبارت ہے)۔ اور یہ توبہ کی ایک ایسی تعبیر ہے کہ جس میں توبہ کے تمام شرائط جمع ہیں۔ توبہ کی ایک شرط معصیت ونافرمانی پر اظہار ندامت ، دوسری شرط ترکِ حالت پر ذلت محسوس کرنا اور تیسری شرط دوبارہ اس گناہ کے ارتکاب نہ کرنے کا عزم مصمم کرنا ہے۔ اور توبہ کی یہ تینوں شرطیں ندامت کے اندر موجود ہیں۔ کیوں کہ جب ندامت کی توفیق حاصل ہو جاتی ہے تو توبہ کی پہلی دو شرطیں اور ان کی ضمن میں تیسری شرط بھی پالی جاتی ہے۔
‘‘و ندامت را سہ سبب باشد؛ چنانکہ توبہ را سہ شرط ، یکی چوں خوفِ عقوبت بر دلِ سلطان شود و اندوہ کردھا بر دل صورت گیرد ندامت حاصل آید و دیگر ارادتِ نعمت بر دل مستولی گردد و معلوم شود کہ بفعل بدو بےفرمانی آن نیابد از بد پشیمان شود، و سہ دیگر شرم خداوند شاہد وی شود و از مخالفت پشیمان گردد، پس از ین ہر سہ یکی تائب بود و یکی منیب و یکی اواب’’۔(بحوالہ: کشف المحجوب فارسی۔ باب فی التوبہ و ما یتعلق بھا-صفحہ 322-321۔مطبع النوریہ الرضویہ پبلشنگ کمپنی، لاہور، پاکستان۔ سن طباعت - 18 صفر المضفر 1435 ہجری بمطابق 22 دسمبر 2013)۔
ترجمہ : جس طرح توبہ کی تین شرطیں ہیں اسی طرح ندامت کی بھی تین شرطیں ہیں۔ اول، جب دل پر سزا کا خوف غالب آتا ہے اور اعمالِ بد پر انسان کا دل آزردہ ہوتا ہے تو ندامت کی توفیق حاصل ہوتی ہے۔ دوم، جب کسی خاص نعمت کی خواہش دل میں جم جائے اور اس بات کا علم ہو کہ وہ جن گناہوں اور نافرمانیوں میں مبتلاء ہے ان کے سبب اسے وہ نعمت حاصل نہیں ہو سکتی تو ان گناہوں پر اس کی آنکھوں سے اشک ندامت جاری ہو جاتے ہیں۔ سوم، بندے کے دل میں خدا کا حیاء پیدا ہو تا ہے اور (وہ خدا کی بارگاہ میں اس حیاء کی بنیاد پر) اپنے گناہوں پر نادم ہو ہو تا ہے۔ پہلے طبقے کو تائب ، دوسرے کو منیب اور تیسرے طبقے کو اوّاب کہا جاتا ہے۔
‘‘و توبہ را نیز سہ مقام است توبہ و دیگر انابت و دیگر اوبت۔ پس توبہ خوفِ عقاب را بود، إنابت طلب ثواب را و اوبت رعایتِ فرمان را۔ از آنچہ توبہ مقامِ عامۂ مؤمنان ست و آن از کبیرہ بود؛ چناکہ گفت خدای عزوجل : «یا ایّہا الّذینَ امَنُوا تُوبُوا إلی اللّہ۔ الآیۃ (التحریم/8)۔» و اِنابت مقام اولیاء و مقربان؛ چنانکہ خداوند گفت : «مَنْ خشِیَ الرّحمنَ بِالْغَیْبِ وجاءَ بِقَلْبٍ مُنیبٍ (ق/33)۔» و أوبت مقام انبیاست و مرسَلان است ؛ چنانکہ خداوند گفت عزو جل: «نِعْمَ الْعَبْدُ إنَّہ أوّابٌ (ص/30)’’۔»(بحوالہ: کشف المحجوب فارسی۔ باب فی التوبہ و ما یتعلق بھا-صفحہ 322-321۔مطبع النوریہ الرضویہ پبلشنگ کمپنی، لاہور، پاکستان۔ سن طباعت - 18 صفر المضفر 1435 ہجری بمطابق 22 دسمبر 2013)۔
ترجمہ: اسی طرح توبہ کے بھی تین درجات ہیں۔ اول توبہ ، دوم انابت اور سوم اوبت۔ لہٰذا جب یہ عقوبت اور سزا کے خوف سے ہو تو توبہ ہے، جب حصول ثواب کی نیت سے ہو تو انابت ہے اور اللہ کے فرمان کی رعایت میں ہو تو اوّابت ہے۔ اسی وجہ سےتوبہ عام مؤمن بندوں کا مقام ہے جو کہ کبائر گناہوں سے ہوتا ہے۔ جیسا کہ اللہ کا فرمان ہے: «یا ایّہا الّذینَ امَنُوا تُوبُوا إلی اللّہ۔ الآیۃ (ترجمہ: ‘‘اے ایمان والو! اللہ کی طرف ایسی توبہ کرو جو آگے کو نصیحت ہوجائے۔) (ترجمہ ، کنز الایمان ۔سورۃ التحریم/8)»۔ انابت اولیاء اور مقربان بارگاہ ایزدی کا مقام ہے جیسا کہ اللہ کا فرمان ہے: «مَنْ خشِیَ الرّحمنَ بِالْغَیْبِ وجاءَ بِقَلْبٍ مُنیبٍ (ترجمہ: جو رحمن سے بے دیکھے ڈرتا ہے اور رجوع کرتا ہوا دل لایا۔) (ترجمہ ، کنز الایمان۔سورۃ ق/33)»۔ اور اوّابت انبیائے کرام اور رسولان عظام کا مقام ہے جیسا کہ اللہ کا فرمان ہے: «نِعْمَ الْعَبْدُ إنَّہ أوّابٌ (ترجمہ: کیا اچھا بندہ بیشک وہ بہت رجوع لانے والا۔) (ترجمہ ، کنز الایمان۔سورۃ ص/30)’’۔»
‘‘پس توبہ رجوع بود از کبائر بطاعت، و انابت رجوع از صغائر بمحبت و أوبت رجوع از خود بخداوند۔ فرق است میانِ آن کہ از فواحش باوامر رجوع کند و از آنِ آنکہ از لَمَم و اندیشۂ فاسد بمحبت رجوع کند و میانِ آنکہ از خودی خود بحق رجوع کند’’۔(بحوالہ: کشف المحجوب فارسی۔ باب فی التوبہ و ما یتعلق بھا-صفحہ 322-321۔مطبع النوریہ الرضویہ پبلشنگ کمپنی، لاہور، پاکستان۔ سن طباعت - 18 صفر المضفر 1435 ہجری بمطابق 22 دسمبر 2013)۔
ترجمہ: حاصل یہ کہ اللہ کی اطاعت شعاری میں کبائر گناہوں سے رجوع لانا توبہ ہے ، اوراللہ کی محبت میں صغائر گناہوں سے رجوع لانا انابت ہے اور (کبائر و صغائر سے پاک ہو کر) از خود خدا کی طرف رجوع لانا اوّابت ہے۔(نیز) فواحش و منکرات سے اوامر کی طرف رجوع کرنے میں ، اور اللہ کی محبت میں صغیرہ گناہوں اور فاسد خیالات سے رجوع لانے میں اور اپنی خودی سے نکل کر حق تعالیٰ کی طرف رجوع لانے میں فرق ہے۔
اس قدر تفصیل کے بعد اب عام گنہگار مؤمن بندوں کی توبہ ، نیک و صالح مؤمن بندوں کی توبہ اور عرفاء و مقربان بارگاہ کی توبہ کے حوالے سے تمام عقدے حل ہو جاتے ہیں اور اس کا معنیٰ و مفہوم بالکل واضح ہو جاتا ہے۔
مخدوم جہاں شیخ شرف الدین احمد یحیٰ منیری رحمۃ اللہ علیہ مزید فرماتے ہیں:
‘‘وَ تُوبُو اِلَی اللہِ جَمیعاً ایُّھا المُسلِمُونَ لَعَلّکُم تُفلِحون سر این معنیٰ ست مقصود آنکہ در ہر مرتبہ کہ ہستی ازان مرتبہ برتر دیگر است ازان مرتبہ برآمدن و درین مرتبہ درآمدن فریضہ بودد اگر نہ از سلوک باز مانی ۔
ترجمہ: (اللہ کے فرمان) وَ تُوبُو اِلَی اللہِ جَمیعاً ایُّھا المُسلِمُونَ لَعَلّکُم تُفلِحون کا راز یہی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ سالک (ریاضت و مجاہدات کی سواری سے پراواز کر کے ) جس مقام پر کمند ڈالتا ہے (وہ اس کے سفر کی انتہاء نہیں ہے بلکہ ) اس سے بھی آگے ایک اعلیٰ مقام موجود ہے، اور (سالک کے لئے) اپنے موجودہ مقام سے نکلنا اور اس سے اعلیٰ مقام حاصل کرنا (راہِ سلوک و معرفت میں) فرض ہے ورنہ سفر ِسلوک (اور سیر الی اللہ) ناقص و ناتمام رہے گا۔
جاری.........................
URL for Part-1: https://www.newageislam.com/urdu-section/sufi-discourse-renunciation-key-spiritual-part-1/d/115632
URL for Part- 2: https://www.newageislam.com/urdu-section/sufi-discourse-renunciation-key-spiritual-part-2/d/115645
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism