New Age Islam
Tue Jan 21 2025, 09:53 PM

Urdu Section ( 26 Jun 2018, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Sufi Discourse: Renunciation Is the key to Spiritual Elevation--Part 2 (بزبانِ تصوف: توبہ ہر روحانی مقام کی کنجی ہے (حصہ 2

مصباح الہدیٰ قادری ، نیو ایج اسلام

25 جون 2018

مخدوم جہاں شیخ شرف الدین احمد یحیٰ منیری رحمۃ اللہ علیہ اپنے اس مکتوب کے آغاز میں توبہ کی ضرورت اور سالکین راہ حق کے لئے اس کی اہمیت و افادیت پر استدلال کرتے ہوئے قرآن کی ایک آیت پیش کرتے ہوئےفرماتے ہیں:

‘‘برادر عزیز شمس الدین کرمہ اللہ تعالیٰ بکرامۃ التائبین ، بدانکہ نخست این راہ توبۂ نصوح است چناکہ حق تعالیٰ فرمودہ است توبو الی اللہ جمیعاً ایھا لمؤمنون لعلکم تفلحون ۔’’

ترجمہ: میرے عزیز بھائی شمس الدین اللہ تمہیں تائبین کے شرف و بزرگی سے نوازے۔ جان لو کہ اس راہ (سلوک و معرفت) کی پہلی منزل ہی توبہ نصوحہ ہے ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے : ‘‘‏‏وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَا الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ’’‏‏ ‏[سورۃ ‏النور‏:‏ 31‏]‏۔ترجمہ: اور اللہ کی طرف توبہ کرو اے مسلمانو! سب کے سب اس امید پر کہ تم فلاح پاؤ، (کنز الایمان)

توبہ کی ضرورت اور اس کی اہمیت و افادیت کے باب میں قرآن پاک کے اندر بے شمار مقامات پر اللہ کے احکامات موجود ہیں ، لیکن حضرت مخدوم جہاں شیخ شرف الدین احمد یحیٰ منیری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے مکتوب کے لئے صرف اسی آیت کریمہ کا انتخاب اس لئے کیا کہ اس آیت کی معنوی خوبی تمام آیتوں سے ممتاز ہے۔ اس آیت کریمہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ گنہگار مؤمن بندوں کے لئے اللہ کی رحمتوں کا انداز اور اس کی کرم نوازیوں کا مزاج سب سے نرالا ہے۔

 صوفیائے کرام فرماتے ہیں کہ اللہ نے یہ آیت کریمہ نازل فرما کر تمام گنہگار مؤمن بندوں کو اپنی شانِ ستاری کے پردے میں چھپا لیا ہے۔ اس لئے کہ اس آیت کریمہ میں تمام مؤمن بندوں کو توبہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے جس میں نیک اور بد کا کوئی امتیاز نہیں ہے۔ اس کی جہاں دیگر کئی حکمتیں اور متعدد تفصیلات صوفیائے کرام نے بیان کی ہیں وہیں اس کی ایک حکمت یہ بھی ہے کہ اگر صرف گنہگار بندوں کو یا امت کے صرف گنہگار طبقے کو ہی توبہ کرنے کا حکم دیا جاتا اور نیکوکاروں کو اس سے مستثنیٰ قرار دیا جاتا تو امت کے گنہگار افراد یا گنہگار طبقات نیک افراد یا نیک طبقات سے نمایاں ہو جاتے اور سرعام ذلت و رسوائی ان کا مقدر بن جاتی۔ لیکن یہ اللہ کی شان کریمی ہے کہ اس نے بغیر کسی تمیز و امتیاز کے امت کے تمام افراد پر توبہ فرض قرار دیکر گنہگار بندوں کی پردہ پوشی فرمادی۔ توبہ سے متعلق دیگر احکامات و ہدایات درج ذیل ہیں:

یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا تُوْبُوْٓا اِلَی اللّٰہِ تَوْبَۃً نَّصُوْحًا عَسٰی رَبُّکُمْ اَنْ یُّکَفِّرَ عَنْکُمْ سَیِّاٰتِکُمْ وَیُدْخِلَکُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ (سورۃ التحریم: 08)

ترجمہ: ‘‘اے ایمان والو! اللہ کی طرف ایسی توبہ کرو جو آگے کو نصیحت ہوجائے قریب ہے تمہارا رب تمہاری برائیاں تم سے اتار دے اور تمہیں باغوں میں لے جائے جن کے نیچے نہریں بہیں’’۔ (کنز الایمان)

اَفَلَا یَتُوْبُوْنَ اِلَى اللہِ وَیَسْتَغْفِرُوْنَہٗ وَاللہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۔(المائدۃ:74)

ترجمہ: تو کیوں نہیں رجوع کرتے اللہ کی طرف اور اس سے بخشش مانگتے، اور اللہ بخشنے والا مہربان۔ (کنز الایمان)

وَإِذَا جَاءَكَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِآيَاتِنَا فَقُلْ سَلَامٌ عَلَيْكُمْ كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلَى نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ أَنَّهُ مَنْ عَمِلَ مِنْكُمْ سُوءًا بِجَهَالَةٍ ثُمَّ تَابَ مِنْ بَعْدِهِ وَأَصْلَحَ فَأَنَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ (سورۃ الانعام:۵۴)

ترجمہ : ‘‘اور جب تمہارے حضور وہ حاضر ہوں جو ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں تو ان سے فرماؤ تم پر سلام تمہارے رب نے اپنے ذمہ کرم پر رحمت لازم کرلی ہے کہ تم میں جو کوئی نادانی سے کچھ برائی کر بیٹھے پھر اس کے بعد توبہ کرے اور سنور جائے تو بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔’’ (کنز الایمان)

إِنَّمَا التَّوْبَةُ عَلَى اللَّهِ لِلَّذِينَ يَعْمَلُونَ السُّوءَ بِجَهَالَةٍ ثُمَّ يَتُوبُونَ مِنْ قَرِيبٍ فَأُولَئِكَ يَتُوبُ اللَّهُ عَلَيْهِمْ وَكَانَ اللَّهُ عَلِيمًا حَكِيمًا (سورۃ النساء:۱۷)

حدیث قدسی

رسولُ اللهِ صَلّىَ اللهُ عَلَیہ وَسلم يَقُول:‏‏‏‏ " قَال اللهُ تبارك وتعالى:‏‏‏‏ يا اِبن آدم اِنَّك مَا دَعَوتَنی وَ رَجوتَنی غَفَرتُ لك عَلى ما كَان فَيك ولا ابالی يا اِبن آدم لَو بَلَغَت ذُنُوبك عنانَ السماءِ ثُم استغفرتَنی غَفَرتُ لَك و لا ابالی يا اِبن آدم اِنك لو اَتَيتنی بقراب الارض خطايا ثم لَقيتنی لاَ تُشرِك بی شَيئا لَاتيتك بقرابها مغفرة۔" (ترمذی: رقم الحدیث - 3540)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ‘‘اللہ نے فرمایا: ائے ابن آدم! بے شک جب تک تو میرے حضور التجائیں کرتا رہے گا اور میری ذات سے اپنی امیدیں وابستہ رکھے گا میں تجھے بخشتا رہوں گا ، اگر چہ تیرے گناہ کثیر ہوں ، اور میں سب سے بے نیاز ہوں۔ ائے ابن آدم! اگر تیرے گناہ آسمان کو پہنچ جائیں اور پھر تو مجھ سے مغفرت طلب کرے تو میں تجھے بخش دوں گا اور میں سب سے بے نیاز ہوں۔ ائے ابن آدم! اگر تیرے گناہوں سے زمین بھر جائے اور پھر تو میری طرف طلبِ مغفرت کے لئے ہاتھ پھیلائے درآں حالیکہ تو نے میرے ساتھ شرک نہ کیا ہو تو میں تیری طرف عطائے مغفرت کے ساتھ متوجہ ہوں گا’’۔

حدیث نبوی

فإن تاب واستغفر صقل قلبه (ترمذی)

ترجمہ: اگر انسان گناہوں سے توبہ کر لے تو اس کا دل چمک اُٹھتا ہے۔

قرآن مقدس کی مذکورہ آیات کریمہ اور احادیث نبویہ کے اس قدر ذکر سے اب اس بات میں کوئی شبہ باقی نہ رہا کہ گناہوں سے نجات اور بلندی ٔدرجات کا راستہ سچی توبہ کے بغیر نہیں کھلتا۔ اب ہم مکتوب شریف کا اگلا حصہ مطالعہ کرتے ہیں:

‘‘این آیۃ در حق صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نازل شدہ است و ایشان خود ہمہ تائبین بودہ اند و از کفر اعراض کردہ وبایمان اقبال نمودہ و پشت بگناہ دادہ و روے بطاعت آوردہ، پس بدیں امر کہ توبوا ہمہ را میفرماید معنیٰ چہ بود از بزرگی این مسئلہ پرسیدند گفت کہ توبہ پر ہمہ فریضہ است در ہر ساعت و در ہر نفس اما برکافران فریضہ است کہ ز کفر توبہ کنند و بایمان در آیند و بر عاصیان فریضہ است کہ از معصیت توبہ کنند و بطاعت در آیند و بر محسنان فریضہ است کہ از حسن باحسن در آیند و بر واقفان فریضہ است کہ نہ ایستند و بروش آیند و بر مقیمان آب و خاک فریضہ است کہ از حضیض سفلی باَوج علوی بر آیند ہران روندہ کہ در مقامی مقام کند آن مقام اورا گناہ بود ازانش توبہ باید کرد’’۔

ترجمہ: یہ آیت کریمہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے حق میں نازل ہوئی ہے ، (جبکہ حقیقت حال یہ ہے کہ )وہ (نفوس قدسیہ) ہمہ تن تائب اور رجوع الی اللہ لانے والے تھے۔ شائبہ کفر سے بھی بچنے والے تھے اور ایمان کی دولت سے مالا مال تھے، انہوں نے گناہوں کو ٹھوکریں مار دی تھیں اور سراپا طاعت و فرماں برداری کا مجسمہ بنے ہوئے تھے۔ لہٰذا ، ایک بزرگ سے یہ سوال کیا گیا کہ اللہ نے جو یہ فرمایا ہے کہ ‘‘وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا’’، ‘‘تم سب کے سب اللہ کے حضور توبہ کرو’’ اس کا کیا معنیٰ ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ تو بہ ہر لحظہ ہر فرد بشر پر فرض ہے؛ کافروں پر فرض ہے کہ کفر سے توبہ کریں اور ایمان لے آئیں ، گنہگاروں پر فرض ہے کہ اپنے گناہوں سے توبہ کریں اور اللہ کی اطاعت و فرماں برداری اختیار کریں، محسنین (نیکوکارں اور متقیوں) پر فرض ہے کہ وہ (افعال) حسنہ سے احسن کی طرف قدم بڑھائیں ، عرفاء (واقفانِ اسرارِ الٰہیہ) پر فرض ہے کہ وہ اپنے ایک ہی مقام پر جمے نہ رہیں بلکہ (سالکان راہ حق کی) روش اختیار کریں (یعنی توبہ کے ذریعہ اپنے موجودہ مقام سے اعلیٰ مقام کی طرف ترقی کریں) اور آب و گِل کے مکینوں (انسانوں) پر فرض ہے کہ وہ پستی سے بلندی کی طرف پرواز کریں۔ جس سالک کو جو مقام حاصل ہو اس پر اس کا رکنا گناہ ہے جس سے اسے توبہ کرنا چاہئے۔

URL for Part-1: https://www.newageislam.com/urdu-section/sufi-discourse-renunciation-key-spiritual-part-1/d/115632

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/sufi-discourse-renunciation-key-spiritual-part-2/d/115645

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


 

Loading..

Loading..