کمال مصطفیٰ ازہری، نیو ایج
اسلام
(مضمون برائے نیو ایج اسلام )
10 جون 2021
شبہ نمبر6: کیا حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے جمعِ قرآن
کے وقت (خاص کر حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے مصحف کی) بعض سورتیں حذف کر دیں
تھیں ( نعوذ بالله من ذلك) ؟!
اس سے قبل قسط میں یہ
بیان ہوا کہ قرآن پاک عہد صدیق اکبر رضی اللہ عنہ میں کیوں اور کس طرح جمع کیا گیا
اور اس قسط میں بفضل الٰہی ہم درج ذیل امور پر روشنی ڈال کر مشککین کے مکر و فریب
کا تحقیقی جواب پیش کرینگے:
خلافت
حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ میں وحدت قرآن (قرآن پاک کو ایک مصحف میں جمع
کرنا) کیوں اور کیسے ہوا ؟
یہ
کام حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے تنہا اپنی مرضی سے کیا یا صحابہ کرام کے مشورہ اور
اتفاق رائے سے ہوا ؟
کیا
اس معاملہ میں کسی نے ان کی رائے سے انکار کیا ؟
خود
حضرت مولی علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا اس عمل پر کیا موقف ہے ؟
اب بالترتیب ہر نکتے کو
مفصل بیان کرتے ہیں۔
۱۔ قرآن پاک کو ایک مصحف میں کیوں اور کیسے جمع کیا
گیا ؟
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ
نے ان جمع شدہ صحیفوں کو ایک کیا تاکہ اختلاف قرأت کے سبب قرآن کریم میں لوگ
اختلاف کا شکار نہ ہو جائیں۔
جیسا کہ بخاری شریف میں
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ امیر المؤمنین
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اس وقت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ارمینیہ اور
آذربیجان کی فتح کے سلسلے میں شام کے غازیوں کے لئے جنگ کی تیاریوں میں مصروف تھے
، تاکہ وہ اہل عراق کو ساتھ لے کر جنگ کریں۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ قرآن مجید کی
قراءت کے اختلاف کی وجہ سے بہت پریشان تھے۔ آپ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے
گزارش کی کہ امیر المؤمنین اس سے پہلے کہ یہ امت (مسلمہ) بھی یہودیوں اور نصرانیوں
کی طرح کتاب اللہ میں اختلاف کرنے لگے ، آپ اس کی خبر لیجئے۔ چنانچہ حضرت عثمان
رضی اللہ عنہ نے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے یہاں کہلایا کہ صحیفے ( جنہیں حضرت
زید رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے حکم سے جمع کیا تھا اور جن پر
مکمل قرآن مجید لکھا ہوا تھا) ہمیں دے دیں تا کہ ہم انہیں مصحفوں میں ( کتابی شکل
میں ) نقل کروا لیں ۔ پھر اصل ہم آپ کو لوٹا دیں گے، حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے
وہ صحیفے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس بھیج دئیے اور آپ نے زید بن ثابت ، عبد
اللہ بن زبیر ، سعد بن العاص ، عبد الرحمن بن حارث بن ہشام رضی اللہ عنہم کو حکم
دیا کہ وہ ان صحیفوں کو مصحفوں میں نقل کرلیں۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس
جماعت کے تین قریشی صحابیوں سے کہا کہ اگر آپ لوگوں کا قرآن مجید کے کسی لفظ کے
سلسلے میں حضرت زید رضی اللہ عنہ سے اختلاف ہو تو اسے قریش ہی کی زبان کے مطابق
لکھ لیں کیونکہ قرآن مجید بھی قریش ہی کی زبان میں نازل ہوا تھا ۔ چنانچہ ان لوگوں
نے ایسا ہی کیا اور جب تمام صحیفے مختلف نسخوں میں نقل کر لئے گئے تو حضرت عثمان
رضی اللہ عنہ نے ان صحیفوں کو واپس لوٹا دیا اور اپنی سلطنت کے ہر علاقہ میں نقل
شدہ مصحف کا ایک ایک نسخہ بھیجوا دیا اور حکم دیا کے اس کے سوا کوئی چیز اگر قرآن
کی طرف منسوب کی جاتی ہے خواہ وہ کسی صحیفہ یا مصحف میں ہو تو اسے جلا دیا جائے ۔
[بخاری شریف، كتاب فضائل القزآن، باب جمع القرآن، حدیث : 4986]
۲۔ کیا یہ عظیم کام تنہا
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے اپنی مرضی سے کیا ؟
یہ فعل ذی شان انہوں نے
تنہا اپنی مرضی سے نہیں کیا، بلکہ اجلہ
جماعتِ حُفاظ و کُتّاب صحابہ کرام کے مشورہ اور غور و خوض سے ہوا۔
امام قرطبی نے اپنی تفسیر
میں فرمایا : " وكان هذا من عثمان رضي الله عنه بعد أن جمع
المهاجرين والأنصار، وجلَّة أهل الإسلام، وشاورهم في ذلك، فاتَّفقوا على جمعه بما
صحَّ، وثبت من القراءة المشهورة عن النَّبيّ صلى الله عليه وسلم ، واطِّراح ما
سواها، واستصوبوا رأيه، وكان رأياً سديداً موفَّقاً. [ تفسیر القرطبی : 52/1 ]
اور جمع قرآن کے معاملے
میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے مہاجرین و انصار و اجلہ صحابہ کرام کو جمع فرما کر
ان سے مشورہ کیا، جو مشہور قرأت آپ ﷺ سے ثابت تھی اس پر سب نے اتفاق کیا اور اس کے
علاوہ کو چھوڑ دیا اور سب نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی رائے کو صحیح بتایا اور
آپ کی رائے موافق تھی۔
اس امر کے لئے حضرت عثمان
رضی اللہ عنہ نے قریش و انصار سے ١۲
صحابہ کرام کو جمع فرمایا تھا،
عن محمد بن سيرين " أن عثمان
بن عفان جمع اثني عشر رجلا من قريش و الأنصار فيهم أبي بن كعب و زيد بن ثابت، و
سعيد بن العاص " [ المصاحف لابن أبي داؤد : 105 ]
ان صحابہ کرام میں ابی بن
کعب، زيد بن ثابت، سعيد بن عاص اور کثیر
بن افلح کا نام بھی ملتا ہے اور ان حضرات کے معاونین میں کثیر بن افلح، مالک بن
ابی عامر، انس بن مالك، عبد اللہ بن عباس رضی الله عنهم أجمعين رہے ہیں۔
اود خود حضرت عثمان غنی
رضی اللہ عنہ نے جمع قرآن میں بےحد جد و جہد کی ہے تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آپ
رضی اللہ عنہ بعض سورتوں کو حذف کر دیں ؟
اور پھر سوال یہ ہے کہ اگر
تمہارے مطابق حذف کی ہیں تو یہی سورتیں کیوں اُن کے علاوہ کیوں نہیں ؟
۳۔ کیا اس معاملے میں کسی
نے آپ سے اختلاف رائے کیا ؟
یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ حذف کریں اور صحابہ کرام خاموش رہیں جو قرآن پاک کی
پچھلے تین عہد حفاظت و قرأت کرتے رہے۔
اور حضرت عثمان رضی اللہ
عنہ نے حضرت علی و حضرت اُبي رضی اللہ عنہما کے مصحف سے حذف کیا اور دونوں میں سے
کسی نے آواز تک نہیں اٹھائی ؟؟
مصعب بن سعد رضى الله
عنه کہتے ہیں:
أدركت الناس متوفرين حين حرق
عثمان المصاحف فأعجبهم ذلك وقال : لم ينكر ذلك منهم أحد [ التاريخ الكبير : 350/7
]
جب حضرت عثمان رضی اللہ
عنہ نے مصاحف جلانے کا حکم دیا تو میں نے کثیر تعداد میں لوگوں کو موجود پایا اور
انہونے(اپنے فعل خیر سے) سب کو تعجب میں ڈال دیا، اور ان میں سے کسی نے اس پر
انکار نہیں کیا۔
۴۔اس امر میں حضرت علی
رضی اللہ عنہ کا کیا موقف تھا ؟
آپ اس معاملہ میں سختی سے
دوسروں کو منع بھی فرمایا کرتے ہیں :
سوید بن غفلة الجعفي ۸۰ھ بیان کرتے ہیں : والله لا
أحدثكم إلا شيئا سمعته من علي بن أبي طالب - رضي الله عنه سمعته يقول : " يا
أيها الناس لا تغلوا في عثمان ولا تقول إلا خيرا في المصاحف و إحراق المصاحف، فوالله
ما فعل الذي فعل في المصاحف إلا عن ملأ منا جميعا [ المصاحف لابن أبي داؤد ص 96 ،
كنز العمال : 583/2 ، جمع الجوامع : 717/16 ]
اللہ کی قسم ! میں تم سے
وہی بیان کروں گا جو میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا : اے لوگوں
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شخصیت میں حد سے زیادہ نہ بڑھو اور مصاحف جمع کرنے
اور جلانے کے معاملے میں صرف اچھی بات بولو، اللہ کی قسم! مصاحف میں آپ نے جو کارنامہ انجام دیا ہم سب
حیران و متحیر ہو گئے۔
قال علي : والله لو وليتُ
لفعلت مثل الذي فعل [ المصاحف لابن أبي داؤد ص 96 ]
حضرت علی رضی اللہ عنہ
فرماتے ہیں : اللہ کی قسم اگر میں اس عہدہ پر فائز ہوتا تو میں بھی وہی کرتا جو
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے کیا۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم خود اس امر ذی
شان پر خراج تحسین پیش کر رہے ہیں اور لوگوں کو زبانیں حد میں رکھنے پر تنبیہ فرما
رہے ہیں، اگر ان کے مصحف کی سورتوں یا آیتوں کو نکالا گیا ہوتا تو یہ فرحت و مسرت
کیوں ہوتی اور حد سے تجاوز کرنے والوں کو ممانعت و تنبیہ کیوں فرماتے ؟
اگر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا یہ فعل نا درست
ہوتا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے دورہ خلافت میں اس کو تبدیل کیوں نہ کر دیا
؟ بلکہ آپ نے تو اس وقت یہ فرمایا کہ اگر میں منصب خلافت پر فائز ہوتا تو یہی کرتا
جو امیر المؤمنین حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے کیا ہے۔
جلہ
صحابہ کرام کا اجماع اور خود حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اقوال اس شبہ کے ابطال پر
روشن دلیل ہیں کہ حضرت عثمان ذو النورین رضی اللہ عنہ نے صحابہ کرام کی مرضی سے
بغیر کسی نقصان کے مصحف کو ایک کیا ہے تو آیات جہاد اور دیگر آیات قرآن سب وہ کلام
الٰہی ہے جو وعدہ حفاظت کے ضمن میں تحریف و تبدیل سے پاک ہے۔
Other Parts of the Articles:
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism