کمال مصطفیٰ ازہری، نیو ایج
اسلام
(مضمون برائے نیو ایج اسلام )
8 مئی 2021
شبہ نمبر ۵:
اسلام کی پاک
دامنی پر ایک افتراء یہ کیا جاتا ہے کہ ہر مذہب میں جنگ و قتال (War) کے اصول و شرائط (Terms
and Conditions
) ہوتے ہیں جبکہ اسلام میں ایسے قوانین وشرائط اور تعلیمات نہیں بلکہ اسلام تو
آیاتِ جہاد کے ذریعہ صرف مارنے کاٹنے کا ہی حکم دیتا ہے !!!!
نرسنگانند اور وسیم رافضی
جیسے مفتریوں کو اسلام کے حقائق کیوں کر معلوم ہوں گے جو ہمہ وقت اسلام میں کمیاں تلاش
کرنے میں وقت ضائع کرتے ہیں اور اسلام کے قریب تک نہیں آنا چاہتے۔
لذت مہ نہ شناسی بخدا
تا نہ چشی
شرابِ محبت جب تک چکھوگے نہیں
اس کی لذت سے آشنائی ممکن نہیں۔
ہم جنگ میں موقفِ اسلام کے
بنیادی اصول و حقائق کو ترتیب وار پیش کرتے ہیں۔
ادھر آ ستم گر
ہنر آزمائیں
تو تیر آزما
ہم جگر آزمائیں
پہلی حقیقت
کسی دوسرے پر ظلم و زیادتی
چاہے کسی قسم کی ہو بغیر وجہِ حق بہت بڑا جرم ہے جس سے دین اسلام نے سختی سے منع کیا
ہے، بحیثیت مسلمان اگر کوئی اس جرم میں ملوث ہوتا ہے اگرچہ کافر کے ہی حق میں کیوں
نہ ہو یہ اس پر زیادتی ہے ، اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے :
{ وَقاتِلُوا فِی سَبِیلِ ٱللَّهِ
ٱلَّذِینَ یُقَا ٰتِلُونَكُم
وَلَا تَعتَدُوا إِنَّ ٱللَّهَ
لَا یُحِبُّ ٱلمُعتَدِینَ
} [ سورہ البقرہ : 190] یعنی ‘‘اور اللہ کی راہ میں لڑو ان سے جو تم سے لڑتے ہیں اور
حد سے نہ بڑھو اللہ پسند نہیں رکھتا حد سے بڑھنے والوں کو’’
تفسير بغوی میں ہے ﴿وَلَا
تَعْتَدُوا﴾ أَيْ لَا تَقْتُلُوا النِّسَاءَ وَالصِّبْيَانَ وَالشَّيْخَ الْكَبِيرَ
وَالرُّهْبَانَ وَلَا مَنْ أَلْقَى إِلَيْكُمُ السَّلَامَ یعنی عورتوں، بچوں، بوڑھوں، راہبوں اور امان طلب
کرنے والوں سے نہ لڑو۔
اور فرمان خالق کائنات ہے
{وَ لا یَجرِمَنَّكُم شَنَٔانُ قَومٍ أَن صَدُّوكُمۡعَنِ
ٱلمَسجِدِ ٱلحَرَامِ
أَن تَعتَدُوا } [سورہ المائدۃ : 2]
یعنی ‘‘اور تمہیں کسی قوم کی عداوت
کہ انہوں نے تم کو مسجدِ حرام سے روکا تھا زیادتی کرنے پر نہ ابھارے۔’’
دوسری حقیقت
جنگ کا مقصد دشمن کو نیست و نابود
کرنا نہیں بلکہ اسکے خطرے سے بچنا ہے تو جب خطرہ معاہدہ یا دشمن کے ہتھیار ڈالنے یا
راہ فرار اختیار کرنے سے ٹل جائے تو ہرگز اسلام جنگ کو جاری رکھنے کی اجازت نہیں دیتا
{ وَقاتِلُوهُمۡ
حَتَّىٰ لَا تَكُونَ فِتنَةࣱ وَیَكُونَ ٱلدِّینُ
لِلَّهِۖ
فَإِنِ ٱنتَهَوافَلَا
عُدوَ ٰنَ
إِلَّا عَلَى ٱلظَّٰلِمِینَ
} [سورہ البقرۃ :193] یعنی ‘‘اور ان سے لڑو
یہاں تک کہ کوئی فتنہ نہ رہے اور ایک اللہ کی پوجا ہو پھر اگر وہ باز آئیں تو زیادتی
نہیں مگر ظالموں پر’’۔
آپ ﷺ نے قریش سے مصالحت فرما
کر صلح حدیبیہ جیسی عظیم مثال قائم فرمائی۔
اور رحمت عالم صلی اللہ علیہ
والہ و سلم نے غزوہ تبوک میں اہل روم کی فرار پر اپنی ذات کے مفاد کے لئے ان کا تعاقب
نہیں فرمایا۔
تیسری حقیقت
جنگ صرف میدان جنگ میں موجود
لڑنے والے محاربین و مقاتلین سے ہے اور جو ہتھیار سے لیس نہ
ہوں، یا میدان جنگ سے دور ہوں، یا امان طلب کریں، یا کنارہ کشی کریں تو ان سے جنگ نہیں
(إِلَّا الَّذِينَ يَصِلُونَ إِلَىٰ قَوْمٍ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُم مِّيثَاقٌ أَوْ
جَاءُوكُمْ حَصِرَتْ صُدُورُهُمْ أَن يُقَاتِلُوكُمْ أَوْ يُقَاتِلُوا قَوْمَهُمْ ۚ
وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَسَلَّطَهُمْ عَلَيْكُمْ فَلَقَاتَلُوكُمْ ۚ
فَإِنِ اعْتَزَلُوكُمْ فَلَمْ يُقَاتِلُوكُمْ وَأَلْقَوْا إِلَيْكُمُ السَّلَمَ فَمَا
جَعَلَ اللَّهُ لَكُمْ عَلَيْهِمْ سَبِيلًا) [سورة النساء : 90]
ترجمہ: ‘‘مگر وہ جو ایسی قوم
سے علاقہ (تعلق) رکھتے ہیں کہ تم میں ان میں معاہدہ ہے یا تمہارے پاس یوں آئے کہ ان
کے دلوں میں سَکت نہ رہی کہ تم سے لڑیں یا اپنی قوم سے لڑیں اور اللہ چاہتا تو ضرور
انہیں تم پر قابو دیتا تو وہ بے شک تم سے لڑتے پھر اگر وہ تم سے کنارہ کریں اور نہ
لڑیں اور صلح کا پیام ڈالیں تو اللہ نے تمہیں ان پر کوئی راہ نہ رکھی۔’’۔
اسلئے مذکورہ تمام لوگ اس
حکم سے مستثنیٰ ہیں۔
چوتھی حقیقت
اگر کسی بھی طرف سے معاہدہ ٹوٹے
تو اس پر اعلان جنگ ہے کہ اس نے متفق علیہ
عہد و پیمان کو توڑا پھر اس غدار کے محاسبہ میں تاخیر وسستی ظلم کو بڑھاوا دینا، فساد
کو پھیلانا، امن و سلامتی کو ضائع کرنا اور قوموں کے ما بین بھروسہ کا فقدان کرنا ہے۔
دولت اسلامیہ اصلا امن و سلامتی کو ترجیح دیتی ہے، جنگ تو وقتی طور پر مشروع ہوتی ہے
مگر جب عہد و پیمان کو توڑا جائے تو پھر اسلام حد سے بڑھنے والوں کا روادار نہیں۔
پانچویں حقیقت
اسلام میں مشروعی و عادل جنگ دشمن
کے شر کا خاتمہ اور کمزوروں سے ظلم و جبر کو دور کرنے کے لئے ہے۔ ہر زمانہ قدیم و جدید
میں دولت اسلامیہ کے یہ تمام قوانین مظلومین کے حق میں مشروع و قائم رہیں گے، جیسا
کہ اللہ رب العزت نے اولِ حکمِ جنگ میں اشارہ فرما دیا کہ بے شک یہ مظلوم مؤمنین کی
جانوں کے دفاع کا حق ہے: { اُذِنَ لِلَّذِیْنَ
یُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّهُمْ ظُلِمُوْاؕ-وَ
اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى نَصْرِهِمْ لَقَدِیْرُۙ
(۳۹) الَّذِیْنَ
اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِهِمْ بِغَیْرِ حَقٍّ اِلَّاۤ اَنْ یَّقُوْلُوْا رَبُّنَا اللّٰهُؕ
} [سورة الحج : 39-40]
ترجمہ: ‘‘پروانگی عطا ہوئی
انہیں جن سے کافر لڑتے ہیں اس بنا پر کہ ان پر ظلم ہوا اور بیشک اللہ اُن کی مدد کرنے
پر ضرور قادر ہے۔ وہ جو اپنے گھروں سے ناحق نکالے گئے صرف اتنی بات پر کہ انہوں نے
کہا ہمارا رب اللہ ہے۔’’
تو اس آیت میں بھی جنگ کا
حکم مظلومین کو ہے البتہ وہ مقامات جہاں مسلمان حوادث شر سے محفوظ و مانون ہوں تو انہیں
فقدان شرائط کے سبب جہاد کی اجازت نہیں۔
چھٹی حقیقت
وہ آیات جن میں جنگ کا حکم دیا
گیا وہ اُن آیات کے لیے ناسخ نہیں ہیں جن میں دشمنوں کی اذیتوں پر صبر و ضبط کا حکم
ہے جو 48 سورتوں میں 114 آیتیں ہیں۔
جنگ کو تو ضرورت کے وقت اور دیگر
کافی وسائل اپنانے کے بعد اختیار کیا جاتا ہے۔
رحمت عالم نور مجسم ﷺ نے ارشاد
فرمایا : أَيُّهَا النَّاسُ، لاَ تَتَمَنَّوْا لِقَاءَ العَدُوِّ، وَسَلُوا اللَّهَ
العَافِيَةَ، فَإِذَا لَقِيتُمُوهُمْ فَاصْبِرُوا، وَاعْلَمُوا أَنَّ الجَنَّةَ تَحْتَ
ظِلاَلِ السُّيُوفِ» " [ صحیح البخاری : 2966]
ترجمہ : ‘‘دشمن کے ساتھ جنگ
کی خواہش اور تمنا دل میں نہ رکھا کرو بلکہ اللہ تعالیٰ سے امن و عافیت کی دعا کیا
کرو ، البتہ جب دشمن سے مڈ بھیڑ ہو ہی جائے( یعنی جب دشمن جنگ پر ہی آمادہ ہو ) تو
پھر صبر و استقامت کا ثبوت دو (یعنی جم کر دشمن کا مقابلہ کرو) یاد رکھو کہ جنت تلواروں
کے سائے تلے ہے’’۔
پہلے نبی رحمت ﷺ نے عام حالات
میں جنگ سے باز رہنے کا حکم دیا اور جب حالات سازگار نہ ہوں اور صلح کی صورت نہ ہو
تب مقابلے میں جنگ کا حکم ارشاد فرمایا۔
اسلام کے یہ روشن حقائق بھلا
ان کو کیسے نظر آ سکتے ہیں جن کے قلب و کان اور آنکھوں پر رب قدیر خَتَمَ اللَّهُ عَلَىٰ
قُلُوبِهِمْ وَعَلَىٰ سَمْعِهِمْ ۖ
وَعَلَىٰ أَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ ۖ
وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ کا حکم صادر فرما دیا ہو۔
Other Parts of the Articles:
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/removing-doubts-concerning-verses-jihad-part-5/d/124801
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism