قسط
: 7
جہادیوں کا تکفیری بیانیہ
بمقابلہ تکفیر کی روایتی تعبیر و تشریح
اہم نکات
جماعۃ التکفیر والھجرۃاور
دیگر جہادیوں کا تکفیری بیانیہ
تکفیری بیانیوں کا نشانہ مرکزی
دھارے کے مسلمان ہیں
کلاسیکی علماء اور مسئلہ تکفیر
وہ احادیث جو مسلمانوں کی
تکفیرسے روکتی ہیں
کسی مسلمان کی تکفیر اس وقت
تک نہیں کی جاسکتی جب تک کہ وہ خود اسلام کے بنیادی معتقدات کا انکار نہ کر بیٹھے
تکفیری جہادیوں اور کلاسیکی
علماء کے مابین موازنہ یہ ثابت کرتا ہے کہ اسلاموفوبک دعویٰ غلط اور بنیاد ہے
…………………………..
خصوصی نمائندہ نیو ایج اسلام
25 جون 2021
اسلاموفوبیا کے شکار لوگ اکثر
یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ جہادی اس حقیقی اسلام کی نمائندگی کرتے ہیں جو اسلامی قوانین اور مصادر و ماخذ کی روایتی
تشریحات میں محفوظ ہے۔ ہم نے پچھلے چھ حصوں
میں یہ مطالعہ کیا ہے کہ یہ اسلاموفوبک دعویٰ درست نہیں ہے۔ اس موضوع کو آگے بڑھاتے
ہوئے اب ہم جہادیوں کے تکفیری بیانیہ پر توجہ مرکوز کریں گے تاکہ ان کے اور اسلام کی
کلاسیکی تعبیر و تشریح کے مابین فرق واضح ہوسکے۔ جس سےیقیناًیہ اسلاموفوبک دعوی باطل
و کالعدم ٹھہرے گا۔
جہادیوں کے تکفیری بیانیے
جہادی گروہوں میں جماعت التکفیر
والہجرہ کو جو کہ انتہائی شدت پسند تکفیری گروہ جماعت المسلمین کو دیا گیا ایک نام
ہےجسے شکری مصطفیٰ نے اخوان المسلمین کی ایک شاخ کے طور پر قائم کیا ہے،’’دہشت گردوں
کی پناہ گاہ“ کہا جاتا ہے –جو حلیف تو اسامہ بن لادن کا ہے لیکن اکثر اس سے بھی زیادہ
تشدد پسند ثابت ہوئے ہیں ۔ ایسا مانا جاتا ہے کہ اس گروہ نے "سلفی جہادی تحریک
میں انتہائی پُرتشددروایت تشکیل دیا ہے" جس سے کچھ ایسے حیلے اور تدبیریں وضع
ہوئی ہیں جن کا استعمال القاعدہ کرتا ہے اور جن کے تکفیری اور پر تشدد نظریےکو یورپ میں رہنے والے سلفی جہادی ایک بڑی تعداد میں قبول
کررہے ہیں۔ اس گروہ کا موقف ہے کہ "انسان ساختہ قوانین" "ناجائز"
ہیں اور یہ کہ جو ان کا نظریہ قبول نہیں کرتے ان کے ساتھ "چوری ، اغوا ، جبری
شادیاں اور یہاں تک کہ ان کا قتل بھی جائز ہے۔ اس گروہ کا تکفیری بیانیہ کسی بھی دوسرے
جہادی گروہوں کی بہ نسبت زیادہ انتہا پسند ہے۔ ذیل میں جماعت التکفیر والہجرہ کے کچھ
تکفیری بیانیے درج کئے جا رہے ہیں جن میں سے بیشترکو دوسرے جہادی گروہوں نے بھی قبول
کر لیا ہے۔
· گناہ کبیرہ کا ہر
وہ مرتکب جو ان پر اصرار کرتا ہے اور ان سے توبہ نہیں کرتا وہ کافر ہے۔
· مسلم حکام اور حکمران
جو اللہ کے نازل کردہ احکام کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے وہ قطعا کافر ہیں۔
• علماء کافر ہیں کیوں کہ وہ کبیر گناہوں کے مرتکب اور بے عمل حکمرانوں کو کافر قرار نہیں
دیتے ۔
• جو بھی ان کے پیش کردہ جہادی اور تکفیری نظریات کو قبول نہیں کرتا
ہے وہ کافر قرار دیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ شخص بھی کافر سمجھا جاتا ہے جو ان کے نظریات
کو قبول تو کرتا ہے لیکن ان کے جہادی گروپ میں شامل نہیں ہوتا۔
• تاہم ، جو شخص ان کے گروہ میں شامل ہونے کے بعد اسے چھوڑ دیتا ہے
اسے مرتد کہا جاتا ہے اور اس کا خون ان کے لئے جائز مانا جاتا ہے۔ لہذا ، وہ تمام مذہبی
گروہ جن تک ان کی دعوت پہنچی لیکن وہ ان کے امام سے بیعت کرنے کے لئے نہیں آئے وہ سب
کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں ۔
• اللہ اور اس کے رسول کے علاوہ کسی کی بھی پیروی شرک ہے۔ لہذا ، ہر
وہ فرد جو ائمہ کی رائے اور صحابہ کرام کے اجماع کو مانتا ہے یا قیاس یا مصالح مرسلة
یا إستحسان یا دیگر ادلہ شرعیہ کو مانتا ہےان کے نزدیک کافر ہے ۔
•چوتھی صدی ہجری کے بعد کے اسلامی ادوار کفر کے اور جہالت کے ہیں کیونکہ
وہ (یعنی چاروں فقہی مذاہب میں سے کسی ایک
کی پیروی کرنے والے مرکزی دھارے کے سنی صوفی مسلمان ) 'تقلید کے بت'کی پرستش کرتے رہے
ہیں یعنی خدا کے علاوہ کی پرستش کی ہے ۔ لہذا ، ایک مسلمان پر لازم ہے
کہ وہ دلائل کے ساتھ شریعت کے احکام کو جانے۔ دین کے کسی بھی معاملے میں ان کے لئے
تقلید کرنا جائز نہیں ہے۔
•کسی بھی صحابی کا قول یا فعل دلیل شرعی نہیں ہے خواہ وہ خلیفہ راشد
ہی کیوں نہ ہو!
•ہجرت ان کی جہادی سوچ کا ایک اور اہم عنصر ہے۔ اس سے ان کی مراد جاہل
معاشرے سے شعوری طور پر علیحدگی اختیار کرنا ہے اور جہادیوں کے نزدیک آج کے تمام معاشرے
جہالت اور تاریکی کا شکار ہیں۔ ان معاشروں سے علیحدگی اختیار کرنا لازمی ہے۔ بصورت
دیگریہ کفر و شرک کے اعمال کا باعث بنے گا۔
•یہ جہادی ایسے کلاسیکی علماء اور فقہائےکرام کے اقوال کو مسترد کرتے ہیں جنھیں فقہی معاملات میں تحقیق و استدلال کی
رسائی حاصل ہے۔ وہ تفسیر اور عقائد پر دستیاب کتابوں کو بھی کوئی اہمیت نہیں دیتے۔
ایسی کتابوں کے بیشتر عظیم المرتبت علماء و فقہاءان کی نظر میں مسلمان بھی نہیں ہیں۔
• وہ قرآن و سنت کے حِکم ہونے پر یقین کرنے کا دعوی کرتے ہیں۔ تاہم
، ان کی تحریروں میں یہ واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے کہ وہ پہلے ایک رائے قائم کرتے
ہیں پھر جبرا اور ناجائز طریقےسے نص قرآنی کو اپنی رائے کی تائید میں پیش کرتے ہیں
اور سنت میں ان کے اقوال کے مطابق جو کچھ ہے اسے قبول کر لیتے ہیں ۔ اور جب کوئی چیز
ان کے موقف کی تائید نہیں کرتی تو وہ اسے بآسانی یا تو سرے سے ہی مسترد کر دیتے یا
یہ کہہ کر پلہ چھاڑ لیتے ہیں کہ "اس کا وہ مطلب نہیں ہے جو لوگ سمجھتے ہیں"!
سب سے اہم کتا ب جو ان کے
جہادی نظریات و معتقدات سے پردہ اٹھاتی ہے وہ "ذکریۃ مع جماعۃ المسلمین - التکفیر
والہجرۃ" ہے جوجماعت التکفیر والہجرہ کے ایک ممبر عبدالرحمٰن ابو الخیرکی مصنفہ
ہے جس نے بعد میں اس گروپ کو چھوڑ دیا تھا۔
سید قطب نے اپنی کتابوں
"فِی ظلال القرآن" اور "معالم فی الطریق" میں داعش کے تکفیری نظریے
کو پیش کیا۔ یہ بات مشہور ہے کہ سید قطب اور اخوان المسلمین کے دیگر نظریہ ساز مولانا
مودودی کے حکومت الٰہی کے تصور سے کافی متاثر تھے۔ داعش کے سرکردہ ممبروں میں سے ایک
ابو محمدالعدنانی سید قطب کی تفسیر "فی ظلال القرآن" سے متاثر ہوا تھا۔
ترکی ابن مبارک البنالی کہتے
ہیں ، "عدنانی نے بیس سال تک اس کتاب کا باقاعدہ مطالعہ کیا۔ ایک سبق کے دوران
اس کی نظر سے قرآنکی اس آیت کی تفسیر گزری "اور جو اللہ کے اتارے پر حکم نہ کرے
وہی لوگ کافر ہیں۔ (5:4)۔ اس نے اپنے ایک ساتھی سے پوچھا شامی آئین کے ماخذ کیا ہیں؟مقننہ
کا اختیار کیا ہے؟ مجلس انتظامیہ اور عدالتیاختیارات کیا ہیں؟ جب ساتھی نے اس کا جواب
دیا تب عدنانی نے کہا کہ تو کیا ہماری حکومت کافر ہے؟ اس کے ساتھی علماء چلے گئے۔ معاملات
پر بحث و تمحیص کرنے کا اس کا طریقہیہ تھا‘‘۔ بعد میں عدنانی نے داعش میں شمولیت اختیار
کی اور اس کے ایک اہم ترجمان بن گئے۔
اپنی کتاب 'رسالہ الایمان'
میںایک سلفی جہادی نظریہ ساز صالح سریا (1974-1933) مسلم حکمرانوں کی تکفیرکرتے ہیں
اور عام مسلمانوں کو جاہلیتبرادری سے تعلق رکھنے والا قرار دیتے ہیں اور ان کی زمینوں
کو 'دار الحرب' قرار دیتے ہیں ۔ وہ مزیدکہتے ہیں کہ "تمام مسلم ممالک میں موجودہ
طرز حکمرانی بلاشبہ کفر پر مبنی ہے اور ان تمام ممالک کے لوگ ایام جاہلیت سے تعلق رکھتے
ہیں ۔"
تکفیری بیانیے بنیادی طور
پر مرکزی دھارے کے مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہیں
جہادیوں کے تکفیری بیانیہ
پر نظر رکھنے والا کوئی بھی شخص اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتا کہ انھوں نے پوری دنیا
میں مسلم معاشروں کو زبردست نقصان پہنچایا ہے۔ یہی حضرات سبب بنے کہ شام ، عراق اور
افغانستان کے مسلمانوں کو “مرتد” قرار دے کر قتل کیا گیا ۔ تقابلی طور پر بھی اگر دیکھا
جائے تو تکفیری بیانیے کا منصوبہ غیر مسلموں سے زیادہ مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کا
ہے۔ متاثرہ ممالک کے عام مسلمان شہری اب بے گھر ، یتیم ، بیوہ یا دوسرے ممالک کے تعاون
پر پلنے اور مہاجروں کی زندگی بسر کرنے پر
مجبور ہو کر رہ گئے ہیں ۔ تکفیری جہادیوں سے متاثر ہونے سے پہلےوہ آزادانہ طور پر اپنی
عبادتیں ادا کر رہے تھے لیکن اب پریشان کن حالات یا شکوک و شبہات کی نگاہوں کا شکار ہیں ۔
کلاسیکی علماء و فقہاء اور
مسئلہ تکفیر
کسی فرد مسلم کی تکفیر
مرکزی دھارے میں شامل مسلمانوں کے کلاسیکی اور روایتی علماء کا بھی عمل رہا ہے۔ تاہم،
جہادیوں کے برعکس کلاسیکی علمائے اسلام نے تکفیر کے معاملے میں انتہائی احتیاط برتی
ہیں ۔ وہ تکفیر اسی وقت کرتے ہیں جب کوئی فرد عوامی سطح پر ضروریات دین کا انکار کرتا
ہے، بصورت دیگر ان کا بھی عمومی فیصلہ یہی ہے کہ اہل قبلہ کی تکفیر نہیں کی جائے گی۔
اسلامی قانون (فقہ) کے معیاری
اور کلاسیکی علماء کا عمومی نظریہ یہی ہے کہ کسی بھی مومن کی تکفیر ممنوع ہے حتی کہ
وہ خود ضروریات دین میں سے کسی ایسی بات کا انکار نہ کر دے جو مسلمان ہونے کے لئے ضروری
ہے۔ وہ اس تفہیم اور تشریح کو درج ذیل احادیث کی روشنی میں پیش کرتے ہیں ۔
آقاے دو جہاں سید عالم محمد
مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں: ‘‘اگر کوئی شخص اپنے بھائی کو کافر کہتا
ہے تو یقینا ان میں سے ایک کافر ہے’’۔ (صحیح
بخاری ج 8 کتاب 73 حدیث نمبر 125)
یہی حدیث مسلم شریف میں تھوڑے
مختلف الفاظ کے ساتھ روایت کی گئی ہے:
آقاے دو جہاں سید عالم محمد
مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں: " جو کوئی بھی اپنے بھائی کو کافر
کہتا ہے تو اس کی حقیقت ان میں سے کسی ایک کی طرف لوٹے گی ۔ اگر اس کی بات سچ ہے تو
ٹھیک ، ورنہ اس کی بات اسی کی طرف لوٹ جائے گی (اور اس طرح تہمت لگانے والا شخص خود
کافر ہو جائے گا)۔ [صحیح مسلم کتاب 100، نمبر 0117]
" جس شخص نے کسی مومن کو کافر کہا گویا کہ اس نے اس کا قتل کر
دیا"۔ (ترمذی اور بخاری)
"جو شخص کلمہ شہادت کی گواہی دے اسے کافر نہ کہو ۔ جو شخص کلمہ
شہادت کی گواہی دینے والے کو کافر کہتا ہے وہ کفر کے قریب ہے۔ (طبرانی میں ابن عمر سے مروی
ہے)
" ایمان کی بنیاد تین چیزوں پر ہے۔ جو شخص کلمہ شہادت کی گواہی
دےاسے کسی بھی گناہ کے لیے کافر نہ کہو اور نہ ہی کسی بد اعمالی کی وجہ سے اسے اسلام سے خارج مت کرو"۔ (ابو داؤد)
مذکورہ بالا تمام احادیث سے
یہ قانون ماخوذ ہوتا ہے کہ کسی صحیح العقیدہ مومن کو کافر نہ کہا جائے۔ یہ قانون اس قدر سخت ہے کہ اگر
الزام درست نہیں ہے تو الزام لگانے والا کافر مانا جائے گا۔ لہٰذا طالبان کے نظریہ
ساز کاشف علی نے احکام الٰہیہ اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مندرجہ بالا تمام اقوال کی خلاف ورزی کی ہے۔
· "اہل سنت کا ایک اصول ہے کہ اہل قبلہ
میں سے کسی کو بھی کافر نہیں کہا جا سکتا" (شرح عقائد نسفیہ مصنفہ علامہ سعد الدین
تفتازانی ۔121)
· "کسی مسلمان پر
اس وقت تک کفر کا فتویٰ صادر نہیں کیا جا سکتا جب تک اس کی باتوں میں ایمان کی گنجائش
باقی ہو" (رد المختار، کتاب الجہاد ، فی بیان ارتداد)
· حنفی مکتبہ فکر کے
بانی امام ابو حنیفہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ کہا گیا ہے کہ انہوں نے کسی بی، اہل
قبلہ کی تکفیر نہیں کی ہے"۔ (شرح الموافق، حصہ5)
· امام اعظم ابو حنفی
رضی اللہ عنہ نے فرمایا: "کوئی بھی شخص اس وقت تک ایمان سے خارج نہیں ہو سکتا
جب تک وہ اس بات کا انکار نہ کرے جس سے وہ ایمان میں داخل ہوا ہے"۔ (رد المختار،
جلد 3، صفحہ۔310)
· علامہ ملا علی قاری
نے فرمایا کہ "کسی مومن کو ایمان سے خارج کرنا ایک سنگین کام ہے" (شرح الشفاء،
جلد 2، صفحہ۔500)
· علامہ جلال الدین رضی
اللہ عنہ نے فرمایا کہ "اہل قبلہ کی تکفیر خود مشرکانہ عمل ہے"۔ (دلائل المسائل)
· "مختلف ائمہ نے
واضح طور پر یہ کہا ہےکہ اگر تکفیر نہ کرنے کی کوئی بھی بنیا د پائی جائے تو تکفیر
نہیں کی جائے گی اگر چہ وہ بنیاد کمزور ہی کیوں نہ ہو"۔ (رفع الاشتباہ عن عبارت
الاشتباہ۔4)
دہلی کے تین بڑے شاعروں میں سے
ایک مشہور و معروف صوفی بزرگ، خواجہ میر درد رضی اللہ عنہ (1785) نے کہا: "ہم
اہل قبلہ کوکافر نہیں کہتے اگر چہ ہو سکتا ہے کہ وہ اکثر معاملات میں باطل اور مختلف
عقائد و معمولات پر عمل پیرا ہوں۔ اس کی وجہ یہ حقیقت ہے کہ اللہ رب العزت کی وحدانیت،
محمد صلی اللہ کی نبوت پر ایمان رکھنا اور
قبلہ کی طرف ان کا متوجہ ہونا انہیں ان کے ایمان سے خارج نہیں کرتا۔ لہٰذان
کا شمار ان مسلمانوں میں ہو گا جنہوں نےبعد میں بدعات (بدعات سیہ) اور باطل معتقدات
کا ارتکاب کیا۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اہل قبلہ کے معاملے
میں احتیاط برتو اور انہیں کافر نہ کہوں"۔ (علم الکتاب صفحہ ۔75)
اس کے علاوہ اور بھی بے شمار
علما و فقہائے اسلام کا یہ متفقہ فیصلہ ہے کہ اہل قبلہ میں سے کسی بھی فرد کو کافر
نہیں کہا جا سکتا ہے ۔ (المواقف ، صفحہ 600)
تکفیر کے مسئلے پر جہادیوں
اور کلاسیکی علماء و فقہاء کے مابین موازنہ
جہادی ہر اس مسلمان کی تکفیر
کرتے ہیں جو ان کے جہادی نظریے کی تائید نہیں کرتا جبکہ کلاسیکی علماء و فقہاء کسی
فرد مسلم کی تکفیر میں انتہائی احتیاط برتتے ہیں ۔ شروع سے لیکر اب تک کلاسیکی علماء
ہمیشہ اعتقادیات اور فروعی احکام کے درمیان ایک خط فاصل قائم کرتے آئے ہیں۔ اس نظریہ
کے برخلاف جہادی اعتقادیات اور فروعی احکام کے درمیان کوئی تفریق ہی نہیں کرتے یہی
وجہ ہے کہ وہ تکفیر کے معاملے میں ایک سنگین خطا کا شکار ہیں۔
نیو ایج اسلام سے شائع ہونے
والے اپنے ایک مضمون میں مستقل کالم نگار غلام غوث صدیقی لکھتے ہیں:
"عقائد اور اعمال کے مابین فرق کرتے ہوئے مرکزی دھارے کے کلاسیکی
مسلم اسکالر اپنی کتاب ’’شرح عقائد النسفی‘‘ میں لکھتے ہیں،
"تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ احکام شریعہ میں سے کچھ کا تعلق کیفیت
العمل سے جنہیں فروعی اور عملی کہا جاتا ہے اور کچھ اعتقادیات سے متعلق ہیں جنہیں اصلیہ
اور اعتقادیہ کہا جاتا ہے۔ (تفتازانی ، شرح عقائد)
"مرکزی دھارے کے تمام علمائے اسلام عقائد سے متعلق امور میں مکمل
اتفاق رکھتے ہیں جبکہ عملی احکام یا فروعی مسائل سے متعلق امور پر ایک دوسرے سے زبردست
اختلاف بھی رکھتے ہیں۔ نتیجۃ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اسلامی فقہ کے چاروں مکاتب فکر حنفی
، شافعی ، مالکی اور حنبلی عقائد کے معاملے میں ایک دوسرے سے مکمل طور پر متفق ہیں جبکہ وہ عملی احکام یا فروعی
مسائل سے متعلق امور پر ایک دوسرے سے اختلاف رکھتے ہیں ۔ فروعی احکام میں اختلافات کے
باوجود وہ کبھی ایک دوسرے کی تکفیر نہیں کرتے بلکہ اس کے بجائے وہ ایک دوسرے کو مسلمان
سمجھتے ہیں اور اپنے اپنے فروعی احکام پر قائم رہتے ہوئے ایک دوسرے کا احترام کرتے
ہیں۔
معتقدات کو معمولات کے ساتھ
خلط ملط کر کے جہادی ان مسلمانوں کی تکفیر کرتے ہیں جو ان سے متفق نہیں ہیں۔ مثال کے
طور پر جہادی مرکزی دھارے کے موجودہ مسلمانوں کی تکفیر کرنے کے لئے مندرجہ ذیل آیت
پیش کرتے:
" اور جو اللہ کے اتارے پر حکم نہ کرے وہی لوگ کافر ہیں
۔" (5:44)
داعش کے نام نہاد تربیتی کیمپ
کی درسی کتاب "مقرر فی التوحید" میں انہوں نے ان تمام لوگوں کو مرتد قرار
دیا ہے جو خدا کے قوانین نافظ نہیں کرتے ہیں۔ اپنی تحریروں میں خواہ وہ 'دابق'، 'رومیہ'
، یا خاص ہندوستانی پروپگنڈہ میگزین 'وائس آف ہند' ہو، وہ اپنے نظریہ کو مستحکم کرنے
کے لئے مسلسل قرآن کی ان آیتوں 5:44 اور 4:65 کا حوالہ دیتے ہیں جن میں واضح طور پر
یہ بیان کیا گیا ہے کہ جو اللہ کے اتارے پر حکم نہ کرے وہی لوگ کافر ہیں ۔
آیت 5:44 کی جہادی تشریح کے
برخلاف کلاسیکی علمائے اسلام نے ایک بالکل مختلف تعبیر و تشریح پیش کی ہے جو مرکزی
دھارے کے مسلمانوں کے مابین مقبول عام و خاص ہے۔ جناب غلام غوث صدیقی لکھتے ہیں:
’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام سمیت ہر دور کے مرکزی
دھارے کے علمائے اسلام کا نظریہ داعش ، مولانا مودودی ، جماعت اسلامی ، سید قطب ، البغدادی
، عدنانی اور ہندوستان کے خلاف نو تشکیل شدہ داعش کے حامی گروہ "ولایت ہند"
کے خلاف ہے ۔ آیت (5:44) کو سمجھنے کے لئے علمائے اسلام نے متعدد رائیں اور ھدایات
ہیش کی ہیں اور اس آیت کے انطباق کے حوالے
سے سب سے راجح اور مقبول عام و خاص رائے یہ ہے کہ: ‘‘جو شخص اللہ کی نازل کردہ احکامات
کے مطابق فیصلہ نہیں کرتا یعنی اس کی الوہیت ،ایمان اور سچائی سے انکار کرتا ہے وہ
واقعی کافر ہے۔ جہاں تک وہ مسلمان جس کا یہ عقیدہ ہے کہ یہ آیت حق ہے ،وحئ الٰہی اور
احکام خداوندی ہے لیکن بدلتے ہوئے حالات یا کسی مجبوری کے تحت اس پیغام کو نافذ کرنے
میں ناکام ہے تو وہ کافر نہیں ہے۔
امام فخر الدین رازی اپنی
تفسیر کی کتاب ‘‘التفسیر الکبیر ’’ میں تحریر فرماتے ہیں ۔
‘‘عکرمہ نے کہا،تکفیر کا حکم جیسا کہ فرمان الٰہی میں مذکور ہے ‘‘ اور
جو شخص اللہ کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلہ (و حکومت) نہ کرے سو وہی لوگ کافر ہیں’’
اس کا اطلاق اس شخص پر ہوتا ہے جو اپنے دل میں اور اپنی زبان سے اللہ کی نازل کردہ
احکام کی حقانیت کا انکار کرتا ہے۔ اور جو شخص اپنے دل میں اللہ کے نازل کردہ قانون
کی حقانیت پر یقین رکھتا ہے اور اپنی زبان سے یہ اعتراف کرتا ہے کہ یہ اللہ کا نازل
شدہ قانون ہے اگرچہ وہ اس کے خلاف ورزی کرتا ہے لیکن پھر بھی وہ اللہ کی وحی پر ایمان
رکھنے والا مومن ہی تصور کیا جائے گا ہاں لیکن وہ اس معاملے میں محض بے عمل مومن کے
طور پر جانا جائے گا لہٰذا اسی وجہ سے اس آیت کے مطابق اسے کافر نہیں سمجھا جائے گا۔
اس حوالہ کو منقول کرنے کے بعد امام رازی نے فرمایا ‘‘یہ صحیح جواب ہے’’۔ (امام رازی
التفسیر الکبیر ۵:۴۴)
اسی طرح کا جواب امام غزالی
نے ’’المصطفی‘‘ میں اور امام ابو محمد بن عطیہ الاندلسی نے ’’المحرر الوجیز‘‘ میں بھی
دیا ہے ۔
تکفیر اور قرآنی آیت 5:44 کی تفسیر و تشریح کے مسئلے پر جہادیوں اور کلاسیکی علمائے اسلام کے مابین اس تقابلی مطالعہ کے بعد یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جہادیوں کا نظریہ اسلام کی کلاسیکی اور روایتی تشریحات پر مبنی نہیں ہے۔ لہذا ، اسلامو فوبیا کے شکار لوگوں کے پاس ایسے دعوے کرنے کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔
Related Article:
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism