New Age Islam
Wed Sep 18 2024, 04:31 AM

Urdu Section ( 22 Jun 2021, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Refuting Islamophobic Claims That Jihadists Represent Traditional and Mainstream Interpretations of Islam: Part 6 On Targeting Civilians in Revenge اسلاموفوبک دعوی کا رد کہ جہادی اسلام کی روایتی اور مرکزی دھارے کی تشریحات کی ترجمانی کرتے ہیں: قسط ششم، انتقاما عام شہریوں کو نشانہ بنائے جانے سے متعلق بحث

قسط : 6

انتقاما یا کسی اور وجہ سے عام  شہریوں کو نشانہ بنانا اسلام میں حرام ہے

اہم نکات :

·        مسلم شہریوں کے خلاف ہو رہے حملوں کے جواب میں عام شہریوں کو نشانہ بنانا اور اسے جائز قرار دینا جہادی بیانیہ کا حصہ ہے۔

·        عام شہریوں کو نشانہ بنائے جانے سے متعلق جہادیوں اور کلاسیکی علماء کی تحریرں کا موازنہ

·        اسلام کی کلاسیکی کتابوںمیں عام شہریوں کو نشانہ بنائے جانے کی ممانعت

·        حدیث میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ جابروں کی ظلم کی سزا ان کے عقیدہ کو ماننے والے عام شہریوں کو نہیں دی جاسکتی ہے، اور اس لئے ان کو نشانہ بنانا جائز نہیں ہے۔

·        بطور انتقام عام شہریوں کے قتل کو جائز قرار دے کر جہادیوں نے قرآن و سنت کی خلاف ورزی کی ہے۔

·        لہذا، یہ اسلاموفوبک دعوی کہ جہادی بیانیہ اسلام کی کلاسیکی تشریحات پر مبنی ہے ، بالکل غلط ہے

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نیو ایج اسلام، خصوصی نمائندہ

17 جون 2021

جہادیوں نے جہاد کی ایسی تعبیر و تشریح پیش کی ہے جس سے انسانیت سے ہمدردی رکھنے والے اسلام کی کلاسیکی تشریحات کی خلاف ورزی ہوتی ہے اور عام شہریوں کو بے تحاشہ نشانہ بنائے جانے کا جواز ملتا ہے۔ جہادیوں کے اس عمل سےسب سے زیادہ فائدہ اسلامو فوبک پروپیگنڈے کو ہوا ہے،اور وہ یہ دعوی کرنے لگے ہیں کہ  جہادی عمل اسلام کی کلاسیکی و روایتی  تشریحات پر مبنی ہے۔ یہ دلیل بالکل بے بنیاد ہے اس سے صرف اسلامو فوبک بیانیہ کا مقصد پورا ہوتا ہے، لیکن  انسانیت کی بھلائی و بہتری کی  خاطر اس کا رد کرنا ضروری ہے ۔

انتہاپسند وں کا ماننا ہے کہ مسلم شہریوں کے خلاف ہو رہے حملوں کے جواب میں عام شہریوں کو نشانہ بنانا جائز ہے اور اس  کے  جواز کے لئے  وہ  غلط طور پرقرآن کی اس آیت سے استدلال  کرتے ہیں:

فمن اعتدى عليكم فاعتدوا عليه بمثل ما اعتدى عليكم (سورہ البقرہ آیت نمبر ۱۹۴)

ترجمہ: جو تم پر زیادتی کرے تم بھی اس پر اسی کے مثل زیادتی کرو جو تم پر کی ہے۔

ذیل میں کچھ جہادی اقتباسات  پیش کئے جاتے ہیں تاکہ ان کا  بہتر  رد ہو سکے  ، اس کے بعد ہم  اس آیت کی کلاسیکی اور روایتی تشریحات پر بحث کریں گے اور جائزہ پیش کریں گے کس طرح جہادی اس آیت کا غلط مطلب نکالتے ہیں۔

جہادی تحریروں میں  عام شہریوں کے نشانہ بنا ئے جانے کا جواز

 موجودہ دور کے  متعدد وہابی جہادیوں نے بطور  مساوی انتقام غیر محارب  شہریوں  کے       قتل    کو بعض حالات میں جائز قرار دیا ہے۔ یوسف العییری لکھتے ہیں:

لقد سقنا أدلة حرمة قتل النساء والصبيان والشيوخ ومن في حكمهم من غير المقاتلة من الكفار، إلا أن هؤلاء المعصومين من الكفار ليست عصمتهم مطلقة، بل إن هناك حالات يجوز فيها قتلهم سواء قصدا أو تبعا. ومن الحالات التي يجوز فيها قتل أولئك المعصومين قصدا أن يعاقب المسلمون الكفار بنفس ما عوقبوا به فإذا كان الكفار يستهدفون النساء والأطفال والشيوخ من المسلمين بالقتل، فإنه يجوز في هذه الحالة أن يفعل معهم الشيء نفسه لقول الله تعالى (فمن اعتدى عليكم فاعتدوا عليه بمثل ما اعتدى عليكم)  (حقيقة الحرب الصليبية الجديدة للشيخ يوسف العييري، ص 24)

ترجمہ:

ہم نے عورتوں ، بچوں ، بوڑھوں اور جو  ان کے حکم میں آتے ہیں یعنی غیر محارب کفار کے قتل کی حرمت سے متعلق دلائل کا تجزیہ کیا، لیکن ان کی عصمت مطلق نہیں ہے۔ کچھ حالات میں ان کا قتل جائز ہے چاہے یہ قتل جان بوجھ کر ہو یا انجانے میں ۔ جن حالات میں ان معصومین کا قتل قصدا جائز ہے وہ  یہ ہے کہ  مسلمان بھی کفار کے ساتھ اسی طرح کا جارحانہ برتاو کریں جس طرح کا برتاو ان کے ساتھ ہوا ہے۔ یعنی اگر کفار مسلمان عورت ، بچے اور بوڑھوں کو قتل کا نشانہ  بناتے ہیں تو اس صورت میں ان کے ساتھ بھی ویسا ہی کرنا جائز ہے، کیونکہ اللہ تعالی فرماتا ہے: فمن اعتدى عليكم فاعتدوا عليه بمثل ما اعتدى عليكم۔ (نئی صلیبی جنگ کی حقیقت، صفحہ نمبر ۲۴)

"مبارک حملوں" سے متعلق اپنے ایک فتوی میں جس کا عنوان ہےـ بیان عما جری فی امریکا من احداث،  سعودی نژاد بااثروہابی عالم حمود بن عقلاء الشعيبي نے بطور انتقام عام شہریوں کو نشانہ بنائے جانے کو جائز قرار دیا ہے۔ اپنے فتوے میں امام ابن تیمیہ، ابن حزم اور ابن القیم کے حوالے سے یہ استدلال کیا ہے کہ انتقاما عام شہریوں کو نشانہ بنانا جائز ہے۔ اس سے متعلق وہ کہتے ہیں:

کفار جیسا ہمارے ساتھ کرتے ہیں ان کے ساتھ بھی ویسا ہی کرنا جائز ہے۔ ) حمود بن عقلاء الشعيبي، التبيان في استهداف النساء والصبيان، تبیان پبلیکیشن، صفحہ نمبر۶۹)

وہابی سلفی مکتبہ فکر کے ممتاز عالم ابن صالح العثيمين نے اپنے ایک ٹیپ ریکارڈنگ میں عام شہریوں کو مارنے سے متعلق یہ بیان جاری کیا تھا:

دوسرا معاملہ جنگ کے دوران عورتوں اور بچوں کے قتل کی ممانعت کا ہے۔ لیکن یہ کہا جاتا ہے کہ کفار بھی  ہمارے ساتھ یہی کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ  ہے کہ  وہ بھی ہمارے بچوں اور عورتوں کا قتل کرتے ہیں، تو کیا ہم بھی ان کا قتل کر سکتے ہیں؟ ظاہر ہے  کہ  اس صورت میں ان کی عورتوں اور بچوں کا قتل کرنا ہمارے لئے جائز ہوگا۔ (ابن صالح العثيمين، التبيان في استهداف النساء والصبيان، تبیان پبلیکیشن، صفحہ نمبر۷۲)

بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں (ڈبلیو ایم ڈی) کے استعمال کے جواز پر بحث کرتے ہوئے سعودی کے سلفی جہادی عالم ناصر ابن حمد الفہد کہتے ہیں:

لہذا اگر امریکیوں پر ایٹمی بم گرادیا جائے ، جس سے ایک کروڑ عام شہری ہلاک ہوں، اور ان کی زمینیں اس حد تک تباہ ہو جائے کہ  جس حد تک  ہماری زمینوں کو تباہ کیا گیا ہے تو ایسا کرنا جائز ہوگا، اور اس کے لئے کسی دوسرے ثبوت کی ضرورت نہیں ہوگی۔ مزید ثبوتوں کی ضرورت صرف اس صورت میں ہوگی جب  ہم اپنے مقتولین کی تعداد  سے زیادہ قتل کرنا چاہیں۔ (ناصر بن حمد الفہد، حکم استخدام السلاح الدمار الشامل ضد الکفار، التبيان في استهداف النساء والصبيان، تبیان پبلیکیشن کے صفحہ نمبر ۷۵ پر منقول)

سعودی کے جہادی فارس أحمد جمعان آل شويل الزهراني  کچھ اس طرح استدلال کرتے ہیں:

لہذا،  مسلمانوں کے لئے جائز ہے کہ  دشمنوں کے ساتھ  بالکل اسی طرح کا سلوک کریں جیسا کہ وہ مسلمانوں کے خلاف کرتے ہیں۔ اگر وہ ہماری عورتوں اور بچوں کو نشانہ بناتے ہیں تو پھر یہ مسلمانوں کا  بھی حق ہے کہ مساوی انتقام کے بطور ان کی عورتوں اور بچوں کو نشانہ بنا ئیں، کیونکہ یہ آیت عموم پر دلالت کرتی ہے۔ (فارس أحمد جمعان آل شويل الزهراني، التبيان في استهداف النساء والصبيان، تبیان پبلیکیشن، ۲۰۰۴ صفحہ نمبر ۸۳ پر منقول)

لشکر طیبہ کے مطابق جہاد کرنے کےآٹھ وجوہات  میں سے ایک وجہ ہے کہ اگر کافر کسی مسلمان کوقتل کردے تواس کا بدلہ لینا ہے۔ (ہم جہاد کیوں کر رہے ہیں)

اسلام کی کلاسیکی وروایتی  کتابوں میں عام شہریوں کو نشانہ بنانے کی ممانعت

بطور انتقام عام شہریوں کے نشانہ بنائے جانے کو جائز قرار دینے والی وہابی جہادی تحریروں کے جائزہ کے بعد اب ہم قرآن و سنت اور کلاسیکی اسلامی تحریروں کا جائزہ لیں گے۔ قرآن و سنت کے مطابق ، ہر شخص اپنے اعمال کا خود ہی ذمہ دار ہے۔ اگر کوئی  شخص نا انصافی کرتا ہے توسزا کا مستحق بھی وہی ہوگا، اس کے اس عمل کے لئے  کسی اورکو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا ہے۔  اس حکم کے مطابق، اگر کوئی غیر مسلم مسلم شہریوں کو مارتا ہے یا اسے نشانہ بناتا ہے تو اس کے عمل کے لئے  صرف وہی  سزا  کا  مستحق ہوگا کسی دوسرے غیر مسلم کو اس عمل کے لئے ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا ہے۔ اس کے جرم کی سزا اس کے خاندان، قبیلے ، دوستوں یا اس کے ساتھ رہنے والے کسی عام شہری کو نہیں دی جا سکتی ہے۔ قرآن میں اللہ تعالی صاف صاف فرماتا ہے:

ولا تكسب كل نفس إلا عليها ولا تزر وازرة وزر أخرى  ثم إلى ربكم مرجعكم فينبئكم بما كنتم فيه تختلفون (سورہ الانعام، آیت نمبر ۱۶۴)

ترجمہ: اور جو شخص بھی کوئی عمل کرتا ہے وه اسی پر رہتا ہے اور کوئی کسی دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا، اور تم سب کو اپنے رب کے پاس جانا ہوگا۔ پھر وه تم کو بتلائے گا جس جس چیز میں تم اختلاف کرتے تھے۔

اس آیت سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اگر کوئی جابر مسلمان شہریوں کو مارتا یا نشانہ بناتا ہے تو اس کے اس عمل کا صرف وہی ذمہ دار ہوگا۔ اس کے ظلم کی سزا اس کے مذہب کے ماننے والے کسی عام شہری کو نہیں دی جا سکتی ہے۔  اسلامی قانون کا نظام عدل پر مبنی ہے اور کسی ظالم کے ظلم کا بدلہ کسی عام شہری کو دینے کی اجازت نہیں ہے۔

اللہ کے رسول ﷺ فرماتے ہیں:

ان میں سے کسی کو بھی (پر امن غیر مسلم شہریوں میں سے کسی کو بھی) اس نا انصافی کی سزا نہیں دی جائے گی، جو اس کے مذہب کے ماننے والے کسی  دوسرے شخص نے کی ہے۔ (امام ابو یوسف کی کتاب الخراج میں صفحہ نمبر ۷۸ پر منقول ہے،اور البلاذری کی کتاب فتوح البلدان کے صفحہ نمبر ۹۰ پر منقول ہے)

ان ساری باتوں سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ جو لوگ انتقاما دوسری قوموں کے عام شہریوں کو نشانہ بناتے ہیں اور انہیں ہلاک کرتے ہیں وہ قرآن و سنت کے واضح احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔

سورہ البقرہ کی آیت نمبر ۱۹۴ کی کلاسیکی تشریح ، جہادی  کثرت سے  اس  آیت کا  غلط استعمال کرتے ہیں:

ہم نے اوپر دیکھا کہ کیسے جہادی سورہ البقرہ کی آیت نمبر ۱۹۴ کا استعمال عام شہریوں کےنشانہ بنائےجانے کے جواز  کے لئے کرتے ہیں۔ پوری آیت اس طرح ہے:

الشهر الحرام بالشهر الحرام والحرمات قصاص، فمن اعتدى عليكم فاعتدوا عليه بمثل ما اعتدى عليكم ۚ واتقوا الله واعلموا أن الله مع المتقين (سورہ البقرہ، آیت نمبر ۱۹۴)

ترجمہ: حرمت والے مہینے حرمت والے مہینوں کے بدلے ہیں اور حرمتیں ادلے بدلے کی ہیں۔ جو تم پر زیادتی کرے تم بھی اس پر اسی کے مثل زیادتی کرو جو تم پر کی ہے اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہا کرو اور جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ پرہیزگاروں کے ساتھ ہے۔

فمن اعتدى عليكم فاعتدوا عليه بمثل ما اعتدى عليكم۔ ترجمہ:[جو تم پرزیادتی کرے تم بھی اس پر اسی کے مثل زیادتی کرو جو تم پر کی ہے] اس آیت میں اعتدی کا ترجمہ زیادتی سے کیا گیا ہے، جبکہ اعتدی کا مطلب حد سے تجاوز کرنا بھی ہو سکتا ہے۔ کس طرح کی جارحیت یاحد سے تجاوز کی اجازت دی گئی ہے ؟ روایتی مفسرین اس آیت کی تشریح اس طرح کرتے ہیں کہ اسلام سے پہلے چار مہینے مقدس مانے جاتے تھے یعنی ذوالقعد ، ذوالحجہ ، محرم اور رجب۔ اور ان مہینوں میں جنگ یا قتال کرنا غیر قانونی سمجھا جاتا تھا۔ کفار مکہ بھی ان مہینوں کے تقدس کی پاسداری کرتے تھے۔ اسلام کے ابتدائی دور میں بھی یہ حکم قائم تھا، اسی لئے صحابہ کرام کو حیرانی ہوئی۔ جب صحابہ کرام اس تذبذب میں تھے کہ آیا ان چار مقدس مہینوں میں دفاعی جنگ لڑ سکتے ہیں یا نہیں، تب یہ آیت نازل ہوئی اور ان مہینوں میں دفاعی جنگ لڑنے کی اجازت ملی۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان مہینوں میں جنگ کی پہل قدمی کرنا حد سے تجاوز کرنا ہے۔ لیکن جب ان مہینوں میں دشمن جنگ کی پہل کرے تو جوابا دفاع میں حد سے تجاوز یا جارحیت کرنا جائز ہے۔

تفسیر قرطبی میں اس آیت کی تشریح بڑی تفصیل سے کی گئی ہے، لیکن کہیں بھی ظالم کے ظلم کے بدلہ میں عام شہریوں کے نشانہ بنائے جانے کو جائز قرار نہیں دیا گیا ہے۔فمن اعتدى عليكم فاعتدوا عليه بمثل ما اعتدى عليكم۔ [ترجمہ:جو تم پر زیادتی کرے تم بھی اس پر اسی کے مثل زیادتی کرو جو تم پر کی ہے] سورہ البقرۃ  کی آیت کے اس جزو کی کلاسیکی تشریح سے اس بات کا اشارہ ملتا ہے کہ یہ آیت اس بات کی بنیاد ہے کہ بدلہ میں مساویانہ برتاو ضروری ہے۔ جنہوں نے کوئی جرم نہیں کیا ان کو نشانہ بنا کر حد سے تجاوز نہیں کیا جا سکتا ہے۔ تفسیر قرطبی کے الفاظ میں اس کا مطلب کچھ یوں ہوتا ہے:

جس نے کسی کو جس چیز سے قتل کیا ہوگا، اس کواسی چیز سے قتل کیا جائے گا، یہ جمہور کا قول ہے۔ جب تک کہ اس نے کسی برائی سے نہ قتل کیا ہو، جیسے لواطت سے قتل کیا ہو، یا شراب پلاکر قتل کیا ہو تو اس صورت میں اسے تلوار سے قتل کیا جا ئے گا۔ (تفسیر قطبی، سورہ البقرہ، آیت نمبر ۱۹۴)

ابن ماجشون کہتے ہیں:

جس نے آگ یا زہر سے قتل کیا تو اس سے قتل نہیں کیا جائے گا، کیونکہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اللہ کے سوا آگ سے کوئی عذاب نہ دے اور زہر پوشیدہ آگ ہے۔ (تفسیر قطبی، سورہ البقرہ آیت نمبر ۱۹۴)

امام مالک کی ایک روایت میں ہے کہ اگر لاٹھی سے قتل کرنے میں زیادہ وقت لگتا ہو اور عذاب ہوتا ہو تو تلوار سے قتل کیا جائے گا۔ (تفسیر قطبی ،سورہ البقرہ آیت نمبر ۱۹۴)

ابن العربی فرماتے ہیں:

علماء کے اقوال میں سے صحیح یہ ہے کہ مماثلت یعنی برابری واجب ہے، مگر یہ کہ تعذیب ہوتی ہوتو پھر تلوار سے قتل کیا جائے گا۔ (تفسیر قطبی ،سورہ البقرہ آیت نمبر ۱۹۴)

علماء کی ایک جماعت نے ذرا مختلف رائے پیش کی ہے وہ فرماتے ہیں کہ قصاص صرف تلوار سے لیا جائے گا۔ یہ امام ابو حنیفہ، شعبی  اور نخعی کا قول ہے۔ انہوں نے نبی کریم ﷺ کی اس حدیث سے استدلال  کیا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: قصاص صرف لوہے یعنی دھاردار چیز کے ذریعہ لیا جائے گا،  مثلہ اورآگ کی بھی ممانعت کی گئی ہے کیونکہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: آگ کے ساتھ صرف آگ کا رب ہی عذاب دے گا۔ (تفسیر قطبی ،سورہ البقرہ آیت نمبر ۱۹۴)

قارئین تفسیر قطبی میں مذکور اس نتیجہ کو سمجھ سکتے ہیں:

اگر کوئی تم پر ظلم کرتا ہے تو تم اپنے ظلم کے مقدار میں اس سے اپنا حق وصول کر سکتے ہو، اور اگر تمہیں کوئی گالی دیتا ہے تو تم بھی اس کو اسی کے مثل قول لوٹا دو، زیادہ نہیں۔ اگر کوئی تمہاری عزت کو تار تار کرتا ہے تو تم بھی اس کی عزت کے ساتھ ویسا ہی کرو، لیکن تم اس کے والدین، اس کے بیٹے اور رشتہ داروں تک تجاوز نہ کرو، تمہارے لئے اس کے بارے میں جھوٹ بولنا جائز نہیں ہے اگر چہ اس نے تمہارے بارے میں جھوٹ بولا ہو۔ کیونکہ معصیت کا مقابلہ معصیت سے نہیں کیا جاتا ہے۔ اگر مثلا اس نے تم سے کہا، اے کافر! تم بھی اسے کہہ سکتے ہو : تو کافر! اگر اس نے تم سے کہا: اے زانی! تو تمہارا قصاص یہ کہنا ہوگا کہ اے جھوٹا! جھوٹ کی گواہی دینے والا! اگر تم اسے اے زانی کہوگے تو تم جھوٹے ہوگے، اور جھوٹ میں گنہگار ہو گے۔۔ (تفسیر قطبی ،سورہ البقرہ آیت نمبر ۱۹۴)

اب یہ بالکل واضح ہو گیا ہے کہ فمن اعتدى عليكم فاعتدوا عليه بمثل ما اعتدى عليكم[ترجمہ: جو تم پرجارحیت کرے تم بھی اس پر اسی کے مثل جارحیت کرو جو تم پر کی ہے] کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی کسی کو قتل کرتا ہے تو اس کو بھی اسی طریقہ اور ہتھیار سے سزا دی جائے گی۔ اور یہی جمہور علماء کا قول ہے۔ کسی بھی کلاسیکی یا روایتی عالم نے انتقام کے طور پر مسلم یا غیر مسلم عام شہریوں کو نشانہ بنانے یا قتل کرنے کو جائز قرار نہیں دیا ہے، اگر قاتل نے بڑی تعداد میں ہی مسلمانوں کا قتل کیوں نہ کیا ہو۔ کیونکہ یہ ناانصافی  ہے اور نا انصافی کو اللہ تعالی ناپسند کرتا ہے۔

آئیے ایک بار پھر پڑھتے ہیں کہ اللہ اور اس کے پیارے نبی ﷺ  کیا فرماتے ہیں، اللہ تعالی فرماتا ہے:

ولا تكسب كل نفس إلا عليها ولا تزر وازرة وزر أخرى  ثم إلى ربكم مرجعكم فينبئكم بما كنتم فيه تختلفون(سورہ الانعام، آیت نمبر ۱۶۴)

ترجمہ: اور جو شخص بھی کوئی عمل کرتا ہے وه اسی پر رہتا ہے اور کوئی کسی دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا، اور تم سب کو اپنے رب کے پاس جانا ہوگا۔ پھر وه تم کو بتلائے گا جس جس چیز میں تم اختلاف کرتے تھے۔

اللہ کے رسول ﷺ فرماتے ہیں:

ان میں سے کسی کو بھی (پر امن غیر مسلم شہریوں میں سے کسی کو بھی) اس نا انصافی کی سزا نہیں دی جائے گی، جو اس کے مذہب کے ماننے والے کسی  دوسرے شخص نے کی ہے۔ (امام ابو یوسف کی کتاب الخراج میں صفحہ نمبر ۷۸ پر منقول ہے،اور البلاذری کی کتاب فتوح البلدان کے صفحہ نمبر ۹۰ پر منقول ہے)

سورہ البقرہ کی اس آیت کو بھی دھیان میں رکھنا چاہئے:

وقاتلوا في سبيل الله الذين يقاتلونكم ولا تعتدوا ۚ إن الله لا يحب المعتدين (سورہ البقرہ آیت نمبر ۱۹۰)

ترجمہ: اللہ کی راه میں  لڑو ان سے جو تم سے لڑتے ہیں اور زیادتی نہ کرو۔ اللہ تعالیٰ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتاہے۔

جنگ کے حدود کے بیان میں سورہ البقرہ کی یہ آیت سب سے زیادہ واضح اور دو ٹوک ہے۔ مسلمانوں کو حکم ہے کہ ان سے  قتال کریں جو ان سے قتال میں پہل کرتے ہیں اور ان کو ملک بدر کریں جو پہلے ان کو ملک بدر کرتے ہیں، لیکن اس کے بھی حدود ہیں ۔ کلاسیکی اور روایتی علماء اس آیت کا استعمال جنگ کے عام اصول یعنی خواتین ، بچوں ، راہبوں ، یتیموں ، دائمی طور پر بیمار ، بوڑھے مرد اور کسانوں کے قتل پر پابندی جیسے موضوعات پر بحث کرنے کے لئے کرتے ہیں۔ (حوالہ کے لئے تفسیر قطبی دیکھیے)

مثال کے طور پر حضرت ابن عباس فرماتے ہیں:

لا تقتلوا النساء ولا الصِّبيان ولا الشيخ الكبير وَلا منْ ألقى إليكم السَّلَمَ وكفَّ يَده، فإن فَعلتم هذا فقد اعتديتم.

ترجمہ:

عورتوں، بچوں اور بزرگوں کو قتل نہ کرو، ان کو بھی قتل نہ کرو جو صلح کا ہاتھ بڑھائیں اور اپنا ہاتھ روک لیں اگر تم  نے ایسا کیا تو تم ان پر زیادتی کروگے۔

سورہ البقرہ کی آیت نمبر ۱۹۴ سے متعلق جہادیوں اور کلاسیکی علماء کی تشریحات کے موازنہ کو دیکھ لینے کے بعد یہ بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ جہادیوں نے بطور انتقام عام شہریوں کے قتل کو جائز قرار دے کر قرآن و سنت کی مخالفت کی ہے۔ لہذا اسلامو فوبیا کے شکار لوگوں کا یہ دعویٰ کہ جہادی بیانیہ اسلام کی روایتی و کلاسیکی تشریحات پر مبنی ہے سراسر غلط ہے، اور پوری دنیا میں اسلام کو بدنام کرنے کی ایک ناکام  کو شش ہے۔

آخر میں ، یہ بات بھی قارئین کو معلوم ہونی چاہئے کہ اس مضمون میں جو بات ثابت کی گئی ہے وہ صرف جنگ  کی صورتحال سے متعلق ہے، اور کسی بھی طرح آئین کے تحت فراہم امن کی حالت میں نافذ نہیں ہوتی ہے۔

Related Article:

Refuting Islamophobic Claims That Jihadists Represent Traditional and Mainstream Interpretations of Islam: Part 1- On the Hakimiyyah اسلاموفوبز کا دعوی کہ جہادزم اسلام کی روایتی تشریحات کی ترجمان ہے کا رد بلیغ، قسط اول مسئلہ حاکمیت پر

Refuting Islamophobic Claim That Jihadists Represent Traditional and Mainstream Interpretations of Islam: Part 2 اسلامو فوبک دعوے کا رد کہ جہادیت ہی اسلام کی روایتی تشریحات کا ترجمان ہے

Refuting Islamophobic Claims: Part 3 on the Jihadist Narrative Inciting Treachery towards One’s Country اسلاموفوبک دعوے کا رد کہ جہادیت ہی اسلام کی روایتی تشریحات کا ترجمان ہے، قسط ثالث: ملک سے غداری کے لئے ورغلانے والے جہادی بیانیہ کا بطلان

Refuting Islamophobic Claim - Part 4 on the Jihadist Narrative Justifying Suicide Bombings or Martyrdom Operations اسلاموفوبک دعوے کا رد کہ جہادیت ہی اسلام کی روایتی تشریحات کا ترجمان ہے، قسط رابع: خودکش بم دھماکوں یا شہادت آپریشن کو جائز قرار دینے والے جہادی بیانیہ کا بطلان

Refuting Islamophobic Claims, Part 5- On The Concept of Darul Islam and Darul Harb اسلاموفوبک دعوے کا رد کہ جہادیت ہی اسلام کی روایتی تشریحات کا ترجمان ہے، قسط پنجم ، دار الحرب اور دار الاسلام

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/refuting-islamophobic-claims-jihadists-part-6/d/125000

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..