نیو ایج اسلام خصوصی
نمائندہ
(انگریزی سے ترجمہ، نیو ایج اسلام)
30 جنوری 2021
دنیا کو دارالحرب اور
دارالاسلام میں تقسیم کرنے والا جہادی بیانیہ بے بنیاد ہے ، اس کو قرآن وسنت ، اور اسلام کی روایتی تشریحات کی تائید
حاصل نہیں ہے۔ لہذا ، اسلاموفوبیا کے شکار لوگوں
کو یہ جھوٹا دعوی کرنے کا کوئی حق نہیں ہے کہ جہادی بیانیہ
اسلام کی روایتی تشریحات پر مبنی ہے۔ اس
مضمون میں کچھ روایتی ثبوت پیش کیے جائیں گے جس
کا مقصد جہادی ذہنیت کی اصلاح اور اس اسلامو فوبک دعوے کا رد ہے جو مسلمانوں کو بار بار اپنے ملک سے ہجرت کرنے
اور جہادی صفوں میں شامل ہونے کی ترغیب دیتاہے۔
دارالاسلام اور دارالحرب
دونوں ہی فقہی اصطلاحات ہیں، جن کو ابتدائی دور کے فقہاء نے اس وقت کے قومی
معاملات اور تعلقات کو
سمجھنے کے لئے وضع کی تھیں۔ تاہم
اس دور کے فقہا نے دارالاسلام یا
دارالحرب کے جو شرائط رکھے تھےوہ دور
جدید کی اصطلاح میں عقائد اور عبادات کی آزادی جیسے بنیادی مذہبی حقوق سے متعلق ہیں، ۔ جہاں اس طرح کے مذہبی حقوق حاصل تھے وہ دارالاسلام قرار دیئے گئے او رجہاں
اسلام کی ان بنیادی باتوں پر پابندی تھی اسے دارالحرب سمجھا گیا۔
جہادی نظریہ سازوں کے
مطابق، دارالاسلام اس علاقے کو کہیں گے جو
اسلامی ریاست کے زیر اقتدار ہو ، یعنی جہاں اسلام ریاست کا سرکاری مذہب
ہو اور جہاں ملک کے قوانین کو
اسلام کے مطابق نافذ کیا جائے اور
دارالحرب وہ علاقہ ہے جو اسلامی ریاست کے زیر اقتدار نہ ہو۔ اس طرح کےجہادی
بیانیے اور دارالاسلام اور دارالحرب کے
روایتی تصورات کے بیچ کافی ٹکراو پایا جاتا ہے، کیونکہ دارالاسلام کی اصطلاح کا اطلاق اس علاقے پر
ہوتا تھا جہاں لوگوں کو بنیادی مذہبی حقوق حاصل تھے
چاہے وہاں کاسرکاری مذہب اسلام ہو
یا نہ ہو۔ دارالحرب کا اطلاق وہاں ہوتا
تھا جہاں عقائد اور عبادات کی آزادی جیسے مذہبی حقوق پر پابندی تھی۔
اس واضح تعریف کے باوجود
، جہادی نظریہ سازوں کا خیال ہے کہ دنیا کی یہ ثنائی تقسیم مذاہب
اربعہ کے فقہی اصولوں پر مبنی ہے۔ مثال کے طور پر ، وہابی جہادی عالم
ابو محمد المقدیسی جو کہ ایک با
اثرجہادی نظریہ ساز ہیں اور امریکی فوجی اکاڈیمی کے مرکز برائے انسداد دہشت گردی کے مطابق داعش
کے بانی ابو مصعب الزرقاوی کے روحانی سرپرست کے طور پر جانے جاتے ہیں ، لکھتے ہیں:
ونقول بقول الفقهاء عن
الدار إذا علتها أحكام الكفر وكانت الغلبة فيها للكفار وشرائعهم، إنها دار كفرَ۔
۔۔۔۔۔۔ فإن هذا المصطلح يطلق على الدار إذا علتها أحكام الكفر، وإن كان أكثر
أهلها مسلمين، كما يطلق مصطلح دار الإسلام
على الدار التي علتها أحكام الإسلام وإن كان أكثر أهلها كفار، ما داموا خاضعين
لحكم الإسلم (ذمة). ( المقدسی ، ھذہ عقیدتنا، صفحہ نمبر ۳۰ عربی نسخہ، صفحہ نمبر ۲۵ انگریزی نسخہ)
دار الاسلام اور دار الحرب
کے متعلق ہمارا بھی وہی موقف ہے جو فقہا
کرام کا تھا، یعنی اگر کہیں کفر کے احکام کی بالا دستی ہو جائے، اور کفار اور ان کے قوانین کا غلبہ قائم ہو جائے تو وہ
دارالحرب ہوگا۔ دارالحرب کی اصطلاح کا اطلاق تب ہوگا جب کفر کے احکام کی بالا دستی
ہو جائے اگرچہ وہاں کے باشندوں کی اکثریت
مسلمان ہی کیوں نہ ہو۔ اسی طرح دارالاسلام کا اطلاق وہاں ہوگا جہاں اسلامی احکام
کی بالا دستی ہو اگر چہ وہاں کے باشندوں کی اکثریت کافر ہی کیوں نہ ہو، جب تک وہ
اسلامی حکم کو مانتے رہیں یعنی ذمی کی
حیثیت سے رہیں۔
المقدسی کا خیال ہے کہ فی
الحال دنیا کا کوئی بھی ملک دارالاسلام کے معیار پورا نہیں اترتا ہے۔ وہ اس بات پر
زور دے کر کہتے ہیں کہ ریاست کے قانون کے طور پر شریعت کا نفاذ دارالاسلام کے قیام کی پیشگی شرط ہے۔ حوالہ کے لئے ھذہ عقیدتنا دیکھئے۔ ان کے اس
دعوے سے دنیا بھر کے جہادیت کے حامی لوگ
اتنے متاثر ہوئے کہ انہوں نے مسلم اکثریتی ممالک کے رہنماؤں کے خلاف جنگ کا اعلان
کردیا اور وہاں کے عام شہریوں کو بھی نہیں بخشا۔ نتیجۃ، پوری دنیا ممکنہ تنازعات
کا ایک مرکز بن چکی ہے۔
ہم نے ابھی اوپر بیان کیا کہ دارالاسلام اور دارالحرب کی
بحث اسلامی تاریخ میں سیاسی اور فقہی تعریفوں کے تحت ظہور پذیر ہوئی، حالانکہ دنیا کی اس ثنائی
تقسیم کا براہ راست قرآن و احادیث میں کوئی ذکر نہیں ہے۔ یہ اصطلاحیں تقریبا حضور
ﷺ کی وفات کے ایک صدی بعد اولیں مسلم فقہا نے اس وقت کے مسائل سے نپٹنے کے لئے وضع
کی تھیں۔
تاہم ، مسلم دنیا کے
سیاسی بکھراو،تاریخی تبدیلیوں اور نئے عالمی نظم کے قیام کے نتیجے میں دارالحرب کا
تصور بری طرح متاثر ہوا ہےاور آج کل کے دور میں، مرکزی دھارے کے مسلمانوں کے بیچ
اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ دور جدید کے کئی مسلم فقہا جمہوری ممالک کو دارالاسلام
یا دارالامن کا حصہ مانتے ہیں۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ مسلمان وہاں آزادانہ طور پر اپنے عقیدے اور مسلک کی
پیروی اورتبلیغ کرسکتے ہیں۔ اپنے استدلال کی تائید میں اسلامی فقہ کے چاروں مکاتب
فکر حنفی ، شافعی ، مالکی ، اور حنبلی کا
حوالہ دیتے ہیں۔
ذیل میں اسلامی فقہ کی کلاسیکی
اور روایتی کتابوں سے ماخوذ کچھ اقتباسات دیئے جاتے ہیں جن سے دارالاسلام اور
دارالحرب کی جہادی تعریف کا رد ہوتا ہے، اور یہ اشارہ ملتا ہے کہ دنیا کی موجودہ
ریاستوں کو دارالحرب قرار نہیں دیا جاسکتا ہے۔
روایتی اور کلاسیکی
کتابوں کے مطابق، جس ملک میں روزہ رکھنے ، نماز پڑھنے، مسجد بنانے، اذان دینے
جیسی عبادات کی آزادی اور اسلامی لباس
پہننے اور مسلم شادی کرنے جیسے حقوق حاصل
ہوں اس ملک کو دارالحرب قرار نہیں دیا جا
سکتا ہے۔ بعض معاصر فقہاء کے مطابق یہ
ممالک دارالامن ہیں اور کچھ کے نزدیک دارالاسلام یعنی جہاں اسلام پر عمل کرنے کی
پوری آزادی حاصل ہو۔
مثال کے طور پر، عراقی جج
اور مسلم سیاست اور قانون کے عالم ابوالحسن الماوردی کہتے ہیں:
مساجد میں اجتماعی نماز
اور نماز کے لئے اذان جیسی اسلام کی اجتماعی عبادات وہ معیار ہیں جس کے ذریعہ نبی
کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دارالاسلام [عقیدے کی سرزمین] اور دارالحرب [کفر کی
سرزمین] کے درمیان فرق کیا ہے۔
شام کے مشہور کلاسیکی
عالم امام نووی الماوردی کے ذریعہ کی گئی دارالاسلام کی اس تعریف کی تائید میں فقہ کی اپنی مشہور کتاب
روضۃ الطالبین میں لکھتے ہیں: اگر کوئی مسلمان ایسی حالت میں ہو کہ اپنے اسلام کا
کھلم کھلا اعلان کرتے ہوئے اس میں (غیر مسلم اکثریت والے ممالک) رہ سکے تو اس کے
لئے بہتر ہے کہ وہ ایسا ہی کرتا رہے، کونکہ یہ اس ملک کو دارالاسلام کہے جانے کے
لئے کافی ہے۔
شافعی فقہ پر اپنی مشہور کتاب الحاوی الکبیرمیں امام الماوردی
مزید لکھتے ہیں:
جہاں ایک مسلمان اس قابل
ہو کہ اپنے آپ کو بچالے اور علیحدہ کرلے، اگر تبلیغ اور جنگ کرنے کے قابل نہ بھی
ہو توایسی صورت میں اس پرلازم ہے کہ وہ اس مقام پر ہی رہےاور ہجرت نہ کرے۔ ایسی جگہوں کے بارے میں
حکم یہ ہے کہ صرف اس بات سے کہ وہ خود کو الگ تھلگ کرنے کے قابل ہے ، وہ جگہ
دارالاسلام کے معیار پرپورا اترتی ہے۔
حنفی، شافعی، مالکی اور
حنبلی مسلک کی کتابوں سے واضح اشارہ ملتا ہے کہ نماز، روزہ اور اذان جیسے شعائر
اسلام پر عمل کی کھلی آزادی کسی جگہ کو دار الاسلام بنانے کے لئے کافی ہے اگر چہ
وہ غیر مسلم اکثریتی ملک ہی کیوں نہ ہو۔
مثال کے طور پر سنت نبوی پر مبنی شافعی مسلک کا موقف یہ ہے کہ جہاں اذان کی آواز
سنائی دے وہاں قتال یا جہاد کرنا جائز نہیں ہے۔ اس سلسلے میں امام بخاری اور امام
مسلم نے ایک حدیث بیان کی ہے:
نبی کریم صلی اللہ علیہ و
سلم جب کسی قوم کے پاس رات کو پہنچ جاتے
تو صبح ہونے سے پہلے اس پر حملہ نہیں کرتے تھے۔ اگر اذان کی آواز سنتے تو حملہ ملتوی کر دیتے ، اور اگر نہ سنتے تو ان پر صبح ہونے کے فورا بعد حملہ کر تے۔
(صحیح بخاری)
امام نووی نے اس
حدیث کی تشریح میں لکھا ہے کہ یہ حدیث اس
بات کا ثبوت ہے کہ اذان کی وجہ سے اس علاقے کے لوگوں پر حملہ کرنا
ممنوع ہو جاتا ہے اور اس سے ان لوگوں کے مسلمان ہونے کا بھی ثبوت ملتا ہے۔
اس کے علاوہ ہم نے بااثر
ہندوستانی فقہا اورعلما کی موقفوں کو پرکھا ہے جن کی پیروی ہندوستانی مسلمان امام
کی طرح کرتے ہیں اور جن میں سنی صوفی یا بریلوی ، دیوبندی ، اہلحدیث اور سلفی سب
شامل ہیں۔ ان کے آراء کی تفصیل میں جانے کے بجائے، مناسب یہ ہوگا کہ ہم اس موضوع
پر ان کی تفصیلی بحث کے نتائج پر بالترتیب نظر ڈالیں۔
۱۸۸۱
میں مرزا علی بیگ بدایونی نام کے ایک شخص نے تین سوالات پر مشتمل ایک سوالنامہ
امام احمد رضا بریلوی کو بھیجا ، پہلا سوال
تھا: ہندوستان دارالحرب ہے یا دار الاسلام؟ سوالنامے کے جواب میں ، امام
احمد رضا نے إعلام الأعلام بأن هندوستان دار الإسلام نام سے ایک پمفلٹ تحریر
فرمایا، جو ۱۹۲۷
میں حسنی پریس بریلی سے ایک رسالہ کی شکل میں شائع ہوا، اور بعد میں فتاوی رضویہ
میں شامل ہوا فتویٰ کا آغاز مندرجہ ذیل الفاظ سے ہوتا ہے:
ہمارے امام اعظم رضی اللہ
تعالی عنہ بلکہ علمائے ثلاثہ رحمۃ اللہ تعالی علیہم کے مذہب پر ہندوستان
دارالاسلام ہے ہرگز دارالحرب نہیں ہے( فتاوی رضویہ، جلد نمبر ۱۴)
امام احمد رضا کےمعتمد
اورانتہائی قریبی روحانی خلیفہ (صوفی خلیفہ) مولانا امجد علی اعظمی نے بھی بعد کے
دنوں میں ایک سوال کے جواب میں اسی طرح کا ایک فتوی جاری کیا:
ہندوستان دارالاسلام ہے،
اسے دارالحرب کہنا بڑی غلطی ہوگی۔ ( فتاوی امجدیہ، جلد نمبر ۳ ، دارالمعارف الامجدیہ،
گھوسی، مئو ناتھ بھنجن)
دیوبندی مکتب فکرکے ممتاز
عالم مولانا اشرف علی تھانوی کے مطابق ہندوستان دارالحرب نہیں ہے بلکہ دار الاسلام
ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
عام طور پر، دارالحرب کا
معنی یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس سے مراد وہ جگہ ہے جہاں جنگ فرض ہے، اس معنی میں
ہندوستان دار الحرب نہیں ہے کیونکہ معاہدہ کی شرائط کے تحت جنگ جائز نہیں ہے۔ (
اشرفیہ، شرفیہ پبلشنگ ہاؤس، بھون پولیس اسٹیشن ، ضلع سہارنپور)
وہ مزید لکھتے ہیں:
ہندوستان نہ توصاحبین
کےقول پر دارالحرب ہے، کیونکہ اگرچہ احکام شرک کے اسمیں علی الاعلان جاری ہیں،
لیکن احکام اسلام کے بھی بلا خوف مشتہر ہیں۔ اور دونوں کے باقی رہنے سے دار الحرب
نہیں ہوتا، اور نہ امام صاحب کے قول پر دار الحرب ہے کیوں کہ اجرائے احکام کفر
بتفسیر مذکور یہاں نہیں ہوا، بلکہ بدستور احکام اسلام جاری ہیں اور ایسی صورت میں
دار الحرب نہیں ہوتا۔ (اشرف علی تھانوی، تحذیر الاخوان عن الربوا فی الہندوستان،
صفحہ نمبر ۷)
غیر مقلد سلفی عالم اور محدث مولانا نذیر حسین بہاری
(متوفی ۱۹۰۲) کی
سوانح حیات میں ان کے سیرت نگار مولانا فضل حسین بہاری (متوفی ۱۹۱۶) لکھتے ہیں:
ہندوستان کو ہمیشہ میاں صاحب دارالامان فرماتے تھے، دارالحرب کبھی
نہیں کہا۔ (فضل حسین، الحیات بعد الممات ، صفحہ نمبر ۸۰)
مرکزی خلافت کمیٹی (۱۹۱۹) کے بانی مولانا عبدالباری
فرنگی محلی لکھنوی (متوفی ۱۹۲۶)
لکھتے ہیں:
ہم ہندوستان کو دار
الاسلام قرار دیتے ہیں۔( مکتوبات عبد الباری فرنگی محلی، اخبار مشرق، گورکھپور)
جن حالات اور وجوہات کو
سامنے رکھ کر ہندوستان کےان ممتازعالموں نے ہندوستان کو دارالاسلام قرار دیا وہ یہ ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں
کواپنے ایمان و عقائد کے اقراراور تعلیم
کی، اور نماز و روزہ، عیدین اور اذان جیسے مذہبی شعائرپرعمل کرنے کی کھلی
اجازت ہے۔ اولین فقہا کی پیروی میں ہندوستانی فقہا اور مستند علما نے بھی کسی ملک
کے دار الاسلام ہونے کے لئے اسلام کے سرکاری مذہب ہونے کی شرط نہیں لگائی۔ اس کا
مطلب یہ ہوا کہ چاہے اسلام کسی ملک کا سرکاری مذہب ہو یا نہ ہو اگراس ملک میں ایک
شہری کو بنیادی مذہبی حقوق حاصل ہیں تو وہ ملک دار الاسلام ہو گا دار الحرب نہیں۔ موجودہ دنیا میں بنیادی
مذہبی حقوق تقریبا تمام ممالک میں آئینی حقوق کا حصہ ہیں۔ لہذا جہادی نظریہ سازوں
کو یہ حق نہیں پہونچتا کہ اپنے دعوے کو جائزقراردے کرہندوستانی یا دیگر مسلمانوں
کو ہجرت کرنے کی دعوت دیں۔ اس کے علاوہ ، اسلاموفوبیا کے شکار لوگوں کو بھی چاہئے
کہ اپنا جھوٹا دعویٰ بند کریں کہ جہادی بیانیہ اسلام کی کلاسیکی یا روایتی تشریحات
پر مبنی ہے۔
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism