طیب شاہین
لودھی
(آخری
قسط)
14 جولائی 2023
بنی اسرائیل کے بارے میں قرآن
میں فرمایا گیا: ’’اور ہم نے اپنی کتاب میں بنی اسرائیل کو اِس بات پر بھی متنبہ کر
دیا تھا کہ تم دو مرتبہ زمین میں فساد عظیم برپا کرو گے اور بڑی سرکشی دکھاؤ گے۔ آخرکار
جب اُن میں سے پہلی سرکشی کا موقع پیش آیا، تو اے بنی اسرائیل، ہم نے تمہارے مقابلے
پر اپنے ایسے بندے اٹھائے جو نہایت زور آور تھے اور وہ تمہارے ملک میں گھس کر ہر طرف
پھیل گئے یہ ایک وعدہ تھا جسے پورا ہو کر ہی رہنا تھا۔‘‘ (الاسراء:۴۔۵)
اور اللہ تعالیٰ کی یہ وعید
اس طرح پوری ہوئی کہ پہلے آشوریوں نے اسرائیل کی سیاست سامریہ کو تاخت و تاراج کیا۔
وہاں کے اسرائیلیوں کو شام اور دوسرے ملکوں میں تتر بتر کر دیا، اُن کی تہذیب کو ملیا
میٹ کیا اور اُن کی نسل کشی کی۔ پھر کچھ عرصہ بعد اہل بابل نے یروشلم کی اینٹ سے اینٹ
بجادی ۔ہیکل سلیمانی کو مسمار کر دیا، تمام معابدکو منہدم کر دیا، تورات کے تمام نسخے
جلا دیئے، قتل عام کیا گیااور عورتوں کی عصمت دری کی گئی۔ اس عذاب سے انہیں کہیں پناہ
نہ ملی۔ چاروں طرف سہمے ہوئے بچے تھے جن کو غلام بنا لیا گیا تھا، دم توڑتی ہوئی عصمتوں
کی چیخ پکار تھی اور نافرمان جوانوں کی بے بسی تھی۔ اُن کے عالم اور ربّی اللہ تعالیٰ
سے گڑگڑا کر دعائیں کر رہے تھے مگر دعا کی قبولیت کا وقت تو جاچکا تھا، مہلت ختم ہو
چکی تھی۔ تباہی کے کھڈمیں لڑھکی ہوئی قوم کو بے وقت دعائیں کیسے بچا سکتی تھیں… بچے
کھچے اسرائیلیوں کو اہل بابل ریوڑوں کی طرح ہانک کر بابل لے گئے جہاں کی زندگی سے موت
ہزار درجہ بہتر تھی۔ وہ موت کے لئے پکارتے تھے مگر موت اُن سے دور بھاگتی تھی اور ذلت
ورسوائی سامنے آتی تھی۔ یوں وہ سالہا سال تک اس ذلت ناک عذاب میں مبتلا رہے۔ اللہ
کی کتاب سے محروم کر دیئے گئے۔ اپنی تہذیب اور اپنی روایات سے بیگانہ ہوکر رہ گئے۔
ان کی قومی زبان عبرانی تک باقی نہ رہی۔
آخر کار ان میں اس زمانے کے نبی
حضرت عزیر علیہ السلام پیدا ہوئے انہوں نے قوم کی اصلاح کا بیڑا اٹھایا۔ انہوں نے تورات
دوبارہ مرتب کی۔ ان کے اصلاحی اور تجدیدی کارناموں سے بنی اسرائیل میں دینی روح بیدار
ہوئی اور انہوں نے من حیث القوم اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرکے اپنے گناہوں کی معافی
مانگی ۔ تب اللہ تعالیٰ کی رحمت نے ایک بار پھر انہیں ڈھانپ لیا۔ ایرانی بادشاہ ذوالقرنین
(سائرس یا خورس یا خسرو) نے بابل کی بت پرست سلطنت کا خاتمہ کرکے اسرائیل کو رہا کردیا
اور اُن کو دوبارہ فلسطین میں ہیکل سلیمانی تعمیر کرنے کی اجازت دے دی ۔ یوں ایک مرتبہ
پھر بنی اسرائیل فلسطین میں اپنی آزاد ریاست قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے۔
لیکن یہ حالت زیادہ عرصے تک
قائم نہ رہی۔ ایک مرتبہ پھر اسرائیلی اندرونی انتشار اور نفاق کا شکار ہو گئے جس کا
نتیجہ یہ ہوا کہ یونانی ان پر مسلط ہو گئے ۔یونانیوں نے اُن کی تہذیب کو بیخ و بن سے
اکھاڑنا شروع کیا حتیٰ کہ بیت المقدس اور دیگر عبادت گا ہوں میں بت رکھوا دیئے۔ یونانیوں
کے بعد رومیوں نے اُن کی جگہ لے لی ۔ حضرت مسیح علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے تک اس
نافرمان قوم کی سرکشی اس حد تک پہنچ چکی تھی کہ انہوں نے حضرت یحییٰ علیہ السلام جیسے
پاکباز اور معصوم انسان کو شہید کر دیا۔ اُن کا اجتماعی ضمیر اس قدر مردہ ہو گیا تھا
کہ اس نیک انسان کے قتل کے خلاف پوری اسرائیلی قوم میں ایک آوازہ بھی نہ ا ٹھی۔ پھر
حضرت مسیحؑ کو ستانے اور اُن کو ایذا پہنچانے کی حد کر دی گئی اور اُن کو بغاوت کے
جھوٹے الزام میں رومی کافرانہ عدالت کے حوالے کر دیا گیا۔ تب حضرت مسیح علیہ السلام
نے اُن کو اس دردناک عذاب کی خبر دے دی جو اس بدکردار قوم پر ٹوٹنے والا تھا۔ قرآن
کریم نے اس گزرے ہوئے ذلت آمیز عذاب کی ان الفاظ میں خبر دی ہے:
’’جب دوسرے وعدے کا وقت آیا تو ہم نے دوسرے دشمنوں کو تم پر مسلط کیا
تاکہ وہ تمہارے چہرے بگاڑ دیں اور مسجد (بیت المقدس) میں اُسی طرح گھس جائیں جس طرح
پہلے دشمن گھسے تھے اور جس چیز پر ان کا ہاتھ پڑے اُسے تباہ کر کے رکھ دیں ۔‘‘ (الاسراء:۷)
یہودیوں نے رومیوں کے خلاف
بغاوت کی۔ اس بغاوت کو فرو کرنے کے بعد رومیوں نے لاکھوں یہودیوں کو تہہ تیغ کر دیا۔
ہزاروں بچوں کو غلام بنا لیا اور لاکھوں خوبصورت اور نو جوان لڑکیاں اپنے ساتھ لے گئے۔
ہزاروں آدمیوں کو جنگلی جانوروں سے پھڑوا دیا گیا اور بے شمار انسانوں کو جنگی وحشیانہ
کیمپوں میں محصور کر دیا گیا۔ ہیکل سلیمانی کا کوئی پتھر ایسا نہ تھا جو اپنی جگہ چھوڑ
دیا گیا ہو۔ مقہور اسرائیلی قوم دنیا میں انتہائی ذلت کے ساتھ تتر بتر کر دی گئی اور
فلسطین میں اس کا داخلہ تک بند کر دیا گیا:
’’ہم نے ان کو زمین میں ٹکڑے ٹکڑے کر کے بہت سی قوموں میں تقسیم کر
دیا۔‘‘ (الاعراف:۱۶۸)
اور اس طرح دنیا کی ایک اور عظیم
قوم اپنی بدکرداری اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور اپنے عہد کو فراموش کر دینے کی
بنا پر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے پستیوں میں لڑھکا دی گئی ۔
قرآن کریم کی روشنی میں قوموں
کے عروج و زوال کے اس سرسری مطالعہ سے یہ حقیقت عیاں ہو جاتی ہے کہ جب کوئی قوم مادی
خوشحالی، بلند معیار زندگی اور پُرآسائش حیات ہی کو اپنا مقصد زیست بنائے، اور پھر
اس کی خاطر اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرے، جبر و استحصال ،ظلم و تعدی اور ناتواں، کمزور
اور بے بس عوام کی حق تلفی کو اپنا شعار بنالے، اللہ تعالیٰ سے اپنے کئے ہوئے عہد وفا
کو پس پشت ڈال دے تو اس کے بعد سنت الٰہی کے مطابق، عذاب خداوندی کا کوڑا اس پر برس
کر رہتا ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ
وہ اپنی رحمت بے پایاں کے تصدق میں ہم کو اس انجام بد سے محفوظ رکھے اور ہم گناہگاروں
کے قلوب میں احساس زیاں بیدار کرکے ہمیں اپنی سچی اطاعت کی توفیق سے بہرہ یاب فرمائے
۔ آمین
14 جولائی 2023،بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
--------------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism