طیب شاہین لودھی
) حصہ 1(
16 جون 2023
قوموں کا عروج و زوال،
اسباب و عوامل کے ضابطوں کے اُسی طرح تابع
ہے جس طرح افراد۔ فرد کو اپنی بدعملی کی پاداش میں جس طرح دنیا اور آخرت میں
خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے اسی طرح قومیں اپنی فکر و نظر کی گمراہی کی وجہ سے اللہ
تعالیٰ کے عذاب کی مستحق قرار پاتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کی بھیجی ہوئی ہدایت کے
مطابق اپنی فکر و عمل کو ڈھالنے والی قوم اس کے انعامات کی حقدار بنتی ہے۔ اللہ
تعالیٰ نے ان اصولوں کا اعلان بار بار اپنے رسولوں کی معرفت کردیا ہے:
’’اور (یاد کرو) جب تمہارے رب نے آگاہ فرمایا کہ اگر تم شکر ادا
کرو گے تو میں تم پر (نعمتوں میں) ضرور اضافہ کروں گا اور اگر تم ناشکری کرو گے تو
میرا عذاب یقیناً سخت ہے۔‘‘ (ابراہیم:۷)
قوموں کے عروج و زوال کے
یہ اصول اس قدر اٹل ہیں کہ کوئی قوم بھی اپنی فکر و نظر کی گمراہی اور بدعملی کی
پاداش سے نہ بچ سکی۔ اور جب اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی مہلت ختم ہوگئی تو کوئی تدبیر
انہیں اللہ کے عذاب کی گرفت سے محفوظ نہ
رکھ سکی کیونکہ :
’’اللہ کی باتیں بدل نہیں سکتیں ۔‘‘ (یونس:۶۴)
’’اور ہمارے طریق کار میں تم کوئی تغیر نہ پاؤ گے ۔‘‘
(الاسراء:۷۷)
’’یہ اللہ کی سنت ہے جو ایسے لوگوں کے معاملے میں پہلے سے چلی آ
رہی ہے، اور تم اللہ کی سنت میں کوئی تبدیلی نہ پاؤ گے ۔‘‘ (الاحزاب:۶۲)
ان اصولوں کو ذہن میں رکھ
کر جب ہم قرآن کریم کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس کے اوراق میں ہمیں متعدد قوموں کے
عروج و زوال کی داستانیں ایک عبرت انگیز پیرائے میں بکھری ہوئی ملتی ہیں۔ قرآن
اپنے قاری سے مطالبہ کرتا ہے کہ قوموں کی داستانوں کو محض قصے کہانیاں سمجھ کر ان
سے سرسری انداز میں نہ گزر جاؤ بلکہ دل کی آنکھیں کھول کر عبرت حاصل کرو۔ مغضوب
اقوام پر ہر نازل شدہ عذاب کو محض فلسفیانہ نقطۂ نظر سے نہ دیکھواور ان کو موسموں
کے تغیر و تبدل اور فطرت کے طبعی عوامل پر محمول نہ کرو۔ عروج و سقوط کی ان
داستانوں میں دراصل پاداشِ عمل کے اصول پنہاں ہیں۔ قرآن ہمیں متنبہ کرتا ہے کہ ہم
جب ان قصص کو پڑھیں تو اپنی روش کا بھی جائزہ لیں کہ کہیں ہم بھی اسی راستے پر تو
گامزن نہیں ہوگئے جو تباہ کن اور ہولناک گھاٹیوں میں جاکر ختم ہوتا ہے جہاں سے
واپسی ممکن نہیں اور تباہی یقینی ہے:
’’ہرگز نہیں، یہ تو ایک نصیحت ہے، جس کا جی چاہے اِسے قبول کرے۔‘‘
(عبس:۱۱۔۱۲)
قرآن کا مقصد ہے کہ
انسان ماضی کے آئینے کو سامنے رکھ کر اپنے حال اور مستقبل کی اصلاح کرے اور
سلامتی کا راستہ یہی ہے کہ خدا کی باغی قوموں کی روش ترک کرکے انبیاء کرام کی لائی
ہوئی ہدایت کو مشعل ِ راہ بنایا جائے۔ قرآن پاک کی اس آئینہ نمائی کی چند
جھلکیاں ذیل میں ملاحظہ ہوں:
’’اور کیا یہ لوگ کبھی زمین میں چلے پھرے نہیں ہیں کہ انہیں اُن
لوگوں کا انجام نظر آتا جو اِن سے پہلے گزر چکے ہیں؟ وہ اِن سے زیادہ طاقتور تھے
اور زمین میں ان سے زیادہ زبردست آثار چھوڑ گئے ہیں مگر اللہ نے ان کے گناہوں پر
انہیں پکڑ لیا اور اُن کو اللہ سے بچانے والا کوئی نہ تھا ۔‘‘ (المومن:۲۱)
’’پھر کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں ہیں کہ اُن قوموں کا
انجام انہیں نظر نہ آیا جو ان سے پہلے گزر چکی ہیں؟‘‘ (یوسف:۱۰۹)
’’کہو، ذرا زمین میں چل
پھر کر دیکھو کہ مجرموں کا کیا انجام ہو چکا ہے ۔‘‘ (النمل:۶۹)
’’پس دیکھو کہ ان مفسدوں کا کیا انجام ہوا۔‘‘
(الاعراف:۱۰۳)
’’اور ان سب لوگوں کو غرق کر دیا جنہوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا
تھا پس دیکھ لو کہ جنہیں متنبہ کیا گیا تھا ( پھر بھی وہ نہ مانے) اُن کا کیا
انجام ہوا۔‘‘ (یونس:۷۳)
’’اُس نے (یعنی فرعون نے) اور اس کے لشکروں نے زمین میں بغیر کسی
حق کے اپنی بڑائی کا گھمنڈ کیا اور سمجھے کہ انہیں کبھی ہماری طرف پلٹنا نہیں ہے
۔آخر کار ہم نے اسے اور اس کے لشکروں کو پکڑا اور سمندر میں پھینک دیا اب دیکھ لو
کہ ان ظالموں کا کیسا انجام ہوا ۔‘‘ (القصص:۳۹۔۴۰)
’’کیا اِن لوگوں کو اپنے پیش روؤں کی تاریخ نہیں پہنچی؟ نوحؑ کی
قوم، عاد، ثمود، ابراہیمؑ کی قوم، مدین کے لوگ اور وہ بستیاں جنہیں الٹ دیا گیا؟
اُن کے رسول ان کے پاس کھلی کھلی نشانیاں لے کر آئے، پھر یہ اللہ کا کام نہ تھا
کہ ان پر ظلم کرتا مگر وہ آپ ہی اپنے اوپر ظلم کرنے والے تھے ۔‘‘ (التوبہ:۷۰)
’’اور یہ تھے عاد، اپنے رب کی آیات سے انہوں نے انکار کیا، اس کے
رسولوں کی بات نہ مانی، اور ہر جبار دشمن حق کی پیروی کرتے رہے۔ آخر کار اس دنیا
میں بھی ان پر پھٹکار پڑی اور قیامت کے روز بھی (پڑے گی)۔
(ہود:۵۹۔۶۰)
’’کتنی ہی خطاکاربستیاں ہیں جن کو ہم نے تباہ کیا ہے اور آج وہ
اپنی چھتوں پر اُلٹی پڑی ہیں، کتنے ہی کنویں بیکار اور کتنے ہی قصر کھنڈر بنے ہوئے
ہیں ۔کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں ہیں کہ اِن کے دل سمجھنے والے اور اِن کے
کان سننے والے ہوتے؟ حقیقت یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں مگر وہ دل اندھے ہو
جاتے ہیں جو سینوں میں ہیں ۔‘‘ (الحج:۴۵۔۴۶)
’’اور اُس بستی پر تو اِن کا گزر ہو چکا ہے جس پر بدترین بارش
برسائی گئی تھی کیا انہوں نے اس کا حال دیکھا نہ ہو گا؟ مگر یہ موت کے بعد دوسری
زندگی کی توقع ہی نہیں رکھتے۔‘‘
(الفرقان:۴۰)
’’تم نے دیکھا نہیں کہ تمہارے رب نے کیا برتاؤ کیا اونچے ستونوں
والے عادِ ارم کے ساتھ، جن کے مانند کوئی قوم دنیا کے ملکوں میں پیدا نہیں کی گئی
تھی؟ اور ثمود کے ساتھ جنہوں نے وادی میں چٹانیں تراشی تھیں؟ اور میخوں والے فرعون
کے ساتھ؟ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے دنیا کے ملکوں میں بڑی سرکشی کی تھی اور ان میں
بہت فساد پھیلایا تھا۔ آخرکار تمہارے رب نے ان پر عذاب کا کوڑا برسا دیا۔ حقیقت
یہ ہے کہ تمہارا رب (سرکشوں اور نافرمانوں کی) خوب تاک میں ہے ۔‘‘ (الفجر: ۶؍تا۱۴)
اللہ تعالیٰ نے قوموں پر
دنیوی عذاب کی مختلف صورتیں بیان کی ہیں۔
ذیل میں اختصار کے ساتھ اُن کی وضاحت پیش کی جاتی ہے:
(۱) نوح
علیہ السلام کی قوم
حضرت نوح علیہ السلام کی
قوم کو اللہ تعالیٰ نے دنیا کی تمام آسائشوں سے نوازا اس کے باوجود یہ بدبخت قوم
شرک جیسی عظیم گمراہی میں مبتلا ہوگئی۔ پھر اس قوم کے اندر شرک کے باعث دوسری بے
شمار اخلاقی، معاشرتی اور سیاسی گمراہیوں نے جنم لیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس قوم کی
فہمائش کے لئے حضرت نوح ؑ کو مبعوث کیا۔ آپؑ ساڑھے نوسو برس تک اپنی قوم کی اصلاح
کی کوشش کرتے رہے۔
حضرت نوح علیہ السلام کی
ایک ہی پکار تھی کہ:
’’اے برادران قوم، اللہ کی بندگی کرو، اُس کے سوا تمہارا کوئی خدا
نہیں ہے میں تمہارے حق میں ایک ہولناک دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔‘‘ (الاعراف:۵۹)
اس کے جواب میں قوم کے
سرمایہ دار اور خوشحال لوگوں نے اُن کا تمسخر اڑایا اور اللہ تعالیٰ کی ہدایت کو
گمراہ کن نظریات سے تعبیر کیا اور الزام لگایا کہ وہ اِن نظریات کے ذریعے اپنی قوم
پر برتری حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ان کے یہ اعتراضات
نقل فرمائے ہیں:
’’ہم کو تو یہ نظر آتا ہے کہ تم صریح گمراہی میں مبتلا ہو۔‘‘
(الاعراف:۶۰)
’’یہ شخص کچھ نہیں ہے مگر ایک بشر تم ہی جیسا اِس کی غرض یہ ہے کہ
تم پر برتری حاصل کرے۔‘‘ (مومنون:۲۴)
اور یوں اُس قوم کے
سرمایہ داروں اور سرداروں نے حضرت نوح علیہ السلام کی اصلاح کی کوششوں کی بے حد
مخالفت کی۔ وہ سرکشی اور بغاوت میں اس حد تک بڑھ گئے کہ انہوں نے حضرت نوحؑ کو
سنگسار کردینے کی دھمکی دی:
’’اے نوحؑ، اگر تو باز نہ آیا تو تُو ضرور سنگسار کردیا جائے
گا۔‘‘ (الشعراء:۱۱۶)
اور ان ظالموں نے یہاں تک
کہہ دیا کہ ہماری گمراہیوں اور بداعمالیوں کی پاداش میں جس عذاب کی تم ہمیں دھمکی
دے رہے ہو وہ لے آؤ:
’’ اُن لوگوں نے کہا کہ اے نوحؑ، تم نے ہم سے جھگڑا کیا اور بہت کر
لیا۔ اب تو بس وہ عذاب لے آؤ جس کی تم ہمیں دھمکی دیتے ہو اگر تم سچے ہو۔‘‘
(ہود:۳۲)
آخر اللہ تعالیٰ نے اُن
لوگوں کو دی ہوئی مہلت ختم کردی۔ حضرت نوح ؑ صدیوں اس قوم کو اللہ کے عذاب سے
بچانے کی کوشش کرتے رہے اور ہدایت ِ الٰہی کے مطابق ان کے نظریات کی تطہیر کیلئے
کوشاں رہے لیکن جب وہ اپنے خودساختہ اور گمراہ نظریات اور شرک پر مبنی اعمال پر
زیادہ متشدد ہوگئے اور ان کی اصلاح اور نصیحت پزیری کی کوئی صورت باقی نہ رہی تو
اللہ کے عذاب نے انہیں آلیا کہ اسے تو
آنا ہی تھا۔
عذاب کیا آیا، ایسی ایسی جگہوں سے عذاب الٰہی کے چشمے پھوٹ
پڑے جہاں سے اس کے آنے کا وہ تصور بھی نہ کرسکتے تھے۔ ایک ایسا ہولناک سیلاب ان
پر چھا گیا کہ اس خطہ ٔ زمین کا کوئی مجرم اپنی جان نہ بچا سکا۔ خود حضرت نوح علیہ
السلام کے سرکش اور نافرمان بیٹے نے بھاگ کر پہاڑوں پر پناہ لینے کی کوشش کی مگر
خدا کے عذاب کی موجوں نے اُس پہاڑ کی بلندی پر بھی جا کر گھیر لیا۔ پھر حضرت نوح
علیہ السلام کی نگاہوں کے سامنے طوفان نے
اسے نگل لیا ۔(جاری)
16 جون 2023،بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
------------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism