طیب شاہین لودھی
( حصہ 2)
23 جون 2023
قوم سبا خدائے بزرگ و
برتر کے سامنے جوابدہی کے منکر ہوگئی
حضرت مسیح علیہ السلام کی
پیدائش سے کئی سو برس پہلے، قوم ِ سبا اپنے زمانے کی انتہائی ترقی یافتہ قوم تھی۔
اہل سبا نے دریاؤں پر بند باندھ کر نہروں کا جال بچھا دیا تھا۔دنیا کی دوسری
اقوام کے ساتھ تجارتی روابط استوار کئےتھے لیکن
مادی ترقی کے عروج کے ساتھ انہوں نے اللہ تعالیٰ سے سرکشی اور بغاوت کا
راستہ اختیار کرلیا۔ انہوں نے مادی ترقی کو ہی زندگی کا منتہائے نظر اور مقصود
سمجھ لیا اور ہدایت ِ الٰہی کو پس پشت ڈال دیا۔ وہ آخرت کی زندگی اور خدائے بزرگ
و برتر کے سامنے جوابدہی کے منکر ہوگئے اور اُس نظام زندگی کو رد کردیا جس کی
بنیاد وحی الٰہی تھی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اُن کو صفحہ ٔ ہستی سے مٹانے کا فیصلہ
کرلیا اور پھر وہی دریا جن کا راستہ روک کر انہوں نے بڑے بڑے بند تعمیر کئے تھے
اور ان سے اپنی سرزمین کو لہلہاتے کھیتوں اور باغات میں تبدیل کیا تھا، اُن کیلئے
عذاب کا باعث بن گئے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے:
’’درحقیقت (قومِ) سبا کے لئے ان کے وطن ہی میں نشانی موجود تھی۔
(وہ) دو باغ تھے، دائیں طرف اور بائیں طرف۔ (اُن سے ارشاد ہوا:) تم اپنے رب کے رزق
سے کھایا کرو اور اس کا شکر بجا لایا کرو۔ (تمہارا) شہر (کتنا) پاکیزہ ہے اور رب
بڑا بخشنے والا ہے، پھر انہوں نے (طاعت سے) مُنہ پھیر لیا تو ہم نے ان پر زور دار
سیلاب بھیج دیا اور ہم نے اُن کے دونوں باغوں کو دو (ایسے) باغوں سے بدل دیا جن
میں بدمزہ پھل اور کچھ جھاؤ اور کچھ تھوڑے سے بیری کے درخت رہ گئے تھے، یہ ہم نے
انہیں ان کے کفر و ناشکری کا بدلہ دیا، اور ہم بڑے ناشکرگزار کے سوا (کسی کو ایسی)
سزا نہیں دیتے۔‘‘ (سورہ سبا: ۱۵؍تا۱۷)
اس طرح قوم سبا کی داستان
بعد میں آنے والوں کیلئے عبرت کا سامان بن گئی۔ سبا کے محلوں میں رہنے والے
شہزادے بے سروسامانی کی حالت میں ریگستانوں میں حیران اور سرگرداں پھر رہے تھے۔
صدیوں تک اس المیے کو شعراء اپنی نظموں کا موضوع بناتے رہے۔ قرآن کریم میں اللہ
تعالیٰ نے فرمایا:
’’آخرکار ہم نے انہیں افسانہ بنا کر رکھ دیا اور انہیں بالکل تتر
بتر کرڈالا۔‘‘ (سورہ سبا:۱۹)
قوم عاد گھمنڈ اور تکبر
کا شکار ہوگئی
قوم نوح کے بعد عاد اپنے
زمانے کی طاقتور اور متمدن قوم تصور کی جاتی تھی ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’یادکرو (اللہ کے فضل و انعام کو) کہ نوح کی قوم کے بعد اس نے تم
کو خلیفہ بنایا۔‘‘ (سورہ الاعراف:۷۴)
عہد حاضر کی اصطلاح کے
مطابق اُن کا معیار ِ زندگی بہت بلند تھا اور اس معیار ِ زندگی کے جاہ و جلال کا
اظہار وہ بلاضرورت بلند و بالا عمارتوں کی تعمیر سے کیا کرتے تھے۔ جسمانی لحاظ سے
بھی عاد ایک طاقتور قوم تھی۔ قرآن کریم میں قوم عاد کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ
نے فرمایا ہے:
’’اور تمہیں جسمانی ساخت میں خوب تنومند کیا۔‘‘
(سورہ الاعراف: ۶۹)
مگر اس بلند معیار زندگی اور جسمانی قوت کی وجہ سے وہ گھمنڈ اور
تکبر کا شکار ہوگئے۔ آخرت کی جواب دہی سے غافل ہوگئے اور گوناگوں اعتقادی اور
عملی گمراہیوں میں مبتلا ہوگئے۔ ان کے اعتقادات میں شرک نفوذ کرگیا اور مکروہ بیماری
نے اور بہت سے معاشرتی اور سیاسی مسائل کو جنم دیا۔ انہیں اپنے بلند معیار زندگی کی نمود و نمائش کا اس درجہ شوق تھا کہ
انہوں نے اپنی سرزمین پر کوئی ایسا بلند ٹیلہ نہ چھوڑا جس پر انہوں نے محض اظہار
فخر کے طور پر ایک عالیشان عمارت تعمیر نہ کردی ہو۔ قرآن کریم میں اُن کے اس شوق
فضول کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا گیا ہے:
’’یہ تمہارا کیا حال ہے کہ تم ہر اونچی جگہ پر ایک یادگار تعمیر
کرتے ہو (محض) تفاخر اور فضول مشغلوں کے لئے، اور تم مضبوط محلات بناتے ہو اس امید پر کہ تم (دنیا
میں) ہمیشہ رہو گے۔‘‘ (سورہ الشعراء: ۱۲۸۔۱۲۹)
دوسری طرف ان کی اخلاقی
پستی اور اعتقادی گمراہی کی یہ حالت تھی کہ کوئی پتھر ایسا نہیں تھا جو اُن کا
مسجود نہ تھا اور کوئی قبر ایسی نہ تھی جس سے یہ لوگ مرادیں نہ مانگتے تھے۔ قوم کے
کمزور اور نچلے طبقے حکمرانوں اور رؤساء کے ظلم کی چکی میں پس رہے تھے۔ کمزوروں
اور غریبوں کے لئے اُن کے دل انصاف سے خالی تھے۔ قرآن کریم کے بیان کے مطابق اُن
کی پڑوسی قومیں بھی ان کے جبر و تشدد اور ظلم و استحصال سے محفوظ نہ تھیں:
’’اور جب تم کسی کی گرفت کرتے ہو تو سخت ظالم و جابر بن کر گرفت
کرتے ہو۔‘‘ (سورہ الشعراء:۱۳۰)
جب زمین قومِ عاد کے
گناہوں کے بوجھ سے بھرگئی اور مخلوق خدا ان کے ظلم و تشدد سے تنگ آگئی تو اللہ
تعالیٰ نے اُن کی فہمائش کیلئے حضرت ہود علیہ السلام کو ان میں مبعوث کیا۔ اس قوم
نے آپؑ کے ساتھ بھی وہی سلوک کیا جو ہر
بگڑی ہوئی قوم اپنے مصلحین کے ساتھ کرتی ہے۔ حضرت ہود ؑ نے انہیں دعوت ِ اسلام
دیتے ہوئے فرمایا:
’’’’تم اللہ سے ڈرو اور میری فرمانبرداری اختیار کرو۔‘‘
(سورہ الشعراء: ۱۳۱)
لیکن حق و صداقت کی اس
پکار کا جواب قوم عاد نے یہ دیا کہ :
’’ہمارے حق میں برابر ہے خواہ تم نصیحت کرو یا نصیحت کرنے والوں
میں نہ بنو (ہم نہیں مانیں گے)،یہ (اور) کچھ نہیں مگر صرف پہلے لوگوں کی عادات (و
اطوار) ہیں (جنہیں ہم چھوڑ نہیں سکتے)، اور ہم پر عذاب نہیں کیا جائے گا۔‘‘ (سورہ
الشعراء: ۱۳۶؍تا۱۳۸)
آخرکار جب اُن کی سرکشی
تمام حدود پھاندگئی، انہوں نے ہدایت ِ الٰہی کو تضحیک و استہزاء کامسلسل نشانہ
بنالیا اور حضرت ہودؑ بے بس ہوگئے تو اللہ کے عذاب نے اُن کو آلیا۔ پہلے تین چار
سال اُن پر قحط سالی کے وارد ہوئے، پھر طوفان کے آثار نمودار ہوئے جسے یہ لوگ
بارش کے آثار سمجھ کر بہت خوش ہوئے۔ لیکن حقیقت میں یہ وہ طوفان تھا جو اللہ کا
عذاب اور قہر بن کر قوموں پر آیا کرتا ہے۔ یہ طوفان کلیجہ جھلسا دینے والی ایک
تیز و تند بادصرصر کی صورت میں نمودار ہوا۔
یہ باد صرصر ان کی بستیوں پر بلاانقطاع (لگاتار) آٹھ دن اور سات راتوں تک
چلتی رہی۔ اس زہریلی ہوا نے اس خطے کی تمام روئیدگی کو جلا کر راکھ کردیا اور اس
ظالم قوم کے تمام افراد اور ان کی تمام بستیوں کو پیوند خاک کردیا ۔ یہ بادِ سموم
جب ختم ہوئی تو چارسُو تباہی و بربادی کے ہولناک مناظر ہویدا تھے۔ قرآن کریم میں
قوم عاد کی اس تباہی کا ذکر نہایت عبرت
انگیز انداز میں کیا گیا ہے:
’’پھر جب انہوں نے اس (عذاب) کو بادل کی طرح اپنی وادیوں کے سامنے
آتا ہوا دیکھا تو کہنے لگے: یہ (تو) بادل ہے جو ہم پر برسنے والا ہے، (ایسا نہیں)
وہ (بادل) تو وہ (عذاب) ہے جس کی تم نے جلدی مچا رکھی تھی۔ (یہ) آندھی ہے جس میں
دردناک عذاب (آرہا) ہے، (جو) اپنے پروردگار کے حکم سے ہر شے کو تباہ و برباد کر
دے گی پس وہ ایسے (تباہ) ہو گئے کہ ان کے (مسمار شدہ) گھروں کے سوا کچھ نظر ہی
نہیں آتا تھا۔ ہم مجرم لوگوں کو اِس طرح سزا دیا کرتے ہیں۔‘‘
(سورہ الاحقاف:۲۴۔۲۵)
’’اور (قومِ) عاد (کی ہلاکت) میں بھی (نشانی) ہے جبکہ ہم نے اُن پر
بے خیر و برکت ہوا بھیجی، وہ جس چیز پر بھی گزرتی تھی اسے ریزہ ریزہ کئے بغیر نہیں
چھوڑتی تھی۔‘‘ (سورہ الذاریات:۴۱۔۴۲)
’’اور رہے قومِ عاد کے لوگ! تو وہ (بھی) ایسی تیز آندھی سے ہلاک
کر دئیے گئے جو انتہائی سرد نہایت گرج دار تھی، اللہ نے اس (آندھی) کو ان پر
مسلسل سات راتیں اور آٹھ دن مسلّط رکھا، سو تُو ان لوگوں کو اس (عرصہ) میں (اس
طرح) مرے پڑے دیکھتا (تو یوں لگتا) گویا وہ کھجور کے گرے ہوئے درختوں کی کھوکھلی
جڑیں ہیں۔‘‘ (سورہ الحاقہ:۶۔۷)
بیشک ہم نے اُن پر نہایت
سخت آواز والی تیز آندھی (اُن کے حق میں) دائمی نحوست کے دن میں بھیجی، جو لوگوں
کو (اس طرح) اکھاڑ پھینکتی تھی گویا وہ اکھڑے ہوئے کھجور کے درختوں کے تنے ہیں۔‘‘
(سورہ القمر: ۱۹۔۲۰)
چنانچہ وادی ٔ احقاف میں
آج تک نحوست برس رہی ہے۔ (جاری)
23 جون 2023،بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
-------------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism