شورش کاشمیری
سفرنامہ ٔ حجاز ’شب جائے
کہ من بودم‘ سے اقتباسات کی اس تیسری قسط میں غارِ حرا اور میدانِ عرفات سے متعلق
شورش کاشمیری کی عشق نبویؐ میں ڈوبی تحریر، اس کے کئی جملوں سے آپ پر الگ کیفیت
طاری ہوجائیگی جو رقت آمیز بھی ہوسکتی ہے
( حصہ 3)
23 جون 2023
مکہ کے تاریخی مقامات دیکھنے کی خواہش تھی۔ میرے
میزبان مجھے سیدھے اس مکان میں لے گئے جو مولد نبیؐ تھا، لیکن اب وہاں ایک چھوٹی
سی لائبریری ہے ۔ اس پر قفل چڑھا ہوا تھا۔ میں مولد نبیؐ کے پاس کھڑا یہ سوچتا رہا
کہ انسان کیا ہے! حضورؐ کی مکی زندگی یادآگئی۔ ان مکہ والوں نے آپؐ سے کیا سلوک
کیا تھا کہ ان کے مکانوں سے کوئی سلوک کرتے؟ عشق یہاں کچھ اداس ہوجاتا ہے کہ اہل
مکہ نے محمل اجاڑ دیئے اور محل اٹھالئے۔ پورے مکہ میں عہد نبویؐ کی دو چیزیں رہ
گئی ہیں، کھجور اور زمزم۔
مکہ کی خوبصورت لیکن پیچ و
خم کھاتی سڑکوں سے ہوتے ہوئے غار حرا
پہنچے۔ اس پہاڑکو جبل نور کہتے ہیں جس کی چوٹی پر غار حرا واقع ہے۔ میرے لئے اوپر چڑھنا آسان نہ تھا، میں نیچے
کھڑا غار حراکو تکتا رہا۔ اس عظیم انسانؐ کی ہمت کا اندازہ کیجئے جو مسلسل چالیس
سال تک اس چوٹی تک پہنچتا اور اس غار میں عبادت کرتا رہا۔
غارِ حرا سیرت النبیؐ کا
پہلا پڑاؤ ہے۔ اگر آپ (دل کے کانوں سے سنیں تو) اب تک وہاں حضورؐ کے قدموں کی
چاپ سنائی دیتی اور آپؐ کے ہونٹوں کا ارتعاش صبا میں گھلا ملا معلوم ہوتا ہے۔
اقراء باسم ربک الذی خلق
کی آواز آرہی ہے۔
سلام ہو…اے جبل نور!
سلام ہو… اے غارِ حرا
سلام ہو… اے گزرگاہِ رحمۃ
للعالمینؐ
سلام ہو…اے مہبط ِ وحی
سلام ہو…اے سرورِ کائنات
کی تنہائیوں کے نشیمن۔ تو نے چالیس برس ازل سے ابد تک کے سب سے عظیم انسان کے قدم
چومے ہیں۔
تونے انؐ سے اور انہوں نےتجھ سے باتیں کی ہیں۔تو نے
اُنہیں آتے جاتے دیکھا ہے۔ سب سے پہلی
وحی تیری آغوش ہی میں انؐ پر نازل ہوئی تھی۔
(ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ)
تونے جبریل ؐ کے شہپروں کی پھڑپھڑاہٹ سنی ہے۔
سلام ہو اے جبل نور، سلام
ہو اے غارِ حرا۔ تو سجدہ گاہِ معرفت ہے!
……
ہم ایک قافلہ کی شکل میں
منیٰ، مزدلفہ اور عرفات کیلئے روانہ ہوگئے۔ تین گاڑیاں تھیں اور ہم ایک دوسرے کے
تعاقب میں اڑے جارہے تھے۔ جہاں تک شاہراہوں کا تعلق ہے، سعودی حکومت نے اتنی کشادہ
، پختہ اور بے عیب سڑکیں بنوائی ہیں کہ جی خوش ہوجاتا ہے۔ یہ سڑکیں پہاڑوں اور
پگڈنڈیوں کے جگر چیر کر اس خوبی سے بنائی گئی ہیں کہ موٹر ان کے حسن پر لٹو ہوکے
چلتے ہیں۔ اس ایک خیال ہی سے طبیعت متفخر اور بشاش ہوتی ہے کہ رسولؐ اور آپؐ کے صحابہ ؓ انہی راستوں
سے، انہی شاہراہوں پر اپنی منزلوں کو گئے تھے۔ وہ اونٹ رہے نہ حدی خواں، ناقہ رہی
نہ جرس، محمل رہی نہ کجاوے، چودہ صدیاں گزر چکی ہیں لیکن محسوس ہوتا ہے:
ابھی اس راہ سے کوئی گیا
ہے
کہے دیتی ہے شوخی نقش پا
کی
اس سڑک سے ذرا ہٹ کے نہر
زبیدہ مکہ کو جاتی ہے۔ ڈھکی ہوئی نہر ہے۔
چوڑائی بھی کچھ زیادہ نہیں۔ کئی صدیوں سے جوں کی توں چلی جارہی ہے۔ کوئی روک یا
رخنہ نہیں۔ خلیفہ ہارون الرشید کی بیوی زبیدہ نے ستّر لاکھ اشرفیوں کے صرفہ سے اس کو بنوایا تھا۔ زبیدہ دجلہ کے کنارے
بیٹھی موجوں کا لطف اٹھا رہی تھیں کہ انجینئروں نے اخراجات کا گوشوارہ پیش کیا۔
زبیدہ نے اسے غرق دجلہ کردیا اور کہا:
ترکنا الحساب لیوم
الحساب
(یعنی ہم نے حساب ، یوم الحساب کی خاطر چھوڑا)
مزید کہا کہ جس شخص کے پاس
ہمارا کچھ رہ گیا ہو ہم نے اس کو معاف کیا اور جس کا حق ہمارے اوپر ہے ، وہ آئے
اور لے جائے۔ پھر سب کو خلعت اور انعام دے کر رخصت کیا۔
منیٰ ، مکہ سے تین میل کے
فاصلہ پر ہے۔ لفظی ترجمہ ہے میلہ یا قربانی و آزمائش کی جگہ۔ یہ پورا علاقہ حرم
کی حدود میں ہے۔ اس کی حد وادی ٔ محسر سے جمرہ عقبیٰ تک ہے۔ اس کا طول دو پہاڑی
سلسلوں کے درمیان تقریباً دوتین میل ہے۔ حضورؑ کی بعثت سے پہلے یہیں اصحاب فیل کا واقعہ ہوا تھا۔ حضورؐ
نے عرفات میں حجۃ الوداع کا خطبہ دیا۔ مزدلفہ میں رات گزاری۔ صبح سویرے وہاں سے
روانہ ہوکر یہاں تشریف لائے۔ ایک لاکھ مسلمانوں کا مجمع ہمراہ تھا۔ آپؐ ناقہ پر
سوار تھے جس کی مہار بلالؓ کے ہاتھ میں تھی۔ اسامہ بن زیدؓ کپڑا تان کے سایہ کئے
ہوئے تھے۔
منیٰ میں تینوں جمرے ہیں۔
جمرہ عقبیٰ، جمرہ وسطیٰ اور جمرہ اولیٰ۔ حج کے دنوں میں یہاںتینوں جمروں کو سات
سات کنکریاں مارتے ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے لخت جگر حضرت اسماعیل علیہ
اللہ کو اللہ کی راہ میں قربان کرنے جارہے
تھے تو شیطان نے آپؑ کو انہی تین جگہوں پر
بہکانا چاہا لیکن حضرت ابراہیم ؑ نے شیطان کو دھتکاردیا اور سات کنکریاں ماریں۔
ہزاروں سال گزرجانے کے باوجود سنت ابراہیمی کا وہ طرز اور ولولہ ہر مسلمان کے دل
میں زندہ ہے۔ ہر سال حج کے موقع پر لاکھوں بندگانِ خدا سنت ابراہیمی کو ادا کرتے
اور اللہ کی خوشنودی کے طالب ہوتے ہیں۔
حج میں منیٰ کا وسیع میدان
مختلف قطعات میں بٹا ہوتا اور ان میں چھولداریاں اس طرح لگی ہوتی ہیں جیسے گلزار
کھلا ہو۔ جہاں تک نظر جاتی انسانوں کا
لالہ زار دکھائی پڑتا اور ایک بیکراں ولولہ چاروں طرف انگڑائی لیتا معلوم ہوتا ہے۔
وہ منحر جہاں حجاج قربانی کرتے ہیں، حضرت اسماعیلؑ کی یادگار ہے۔ باپ نے بیٹے کو
یہیں اللہ کی رضا کیلئے قربان کرنا چاہا تھا اور حضورؐ نے حجۃ الوداع سے واپسی پر
سو اونٹ ذبح فرمائے تھے۔ یہیں مسجد خیف ہے
جہاں حضورؐ نے نماز پڑھی تھی اور لوگوں سے خطاب فرمایا تھا۔
منیٰ سے آگے مزدلفہ ہے۔
مزدلفہ عرفات اور منیٰ کے درمیان دو پہاڑیوں میں گھری ہوئی مستطیل شکل کی ایک وادی
ہے۔ مشعرالحرام یہیں ہے۔ قرآن حکیم میں اس کا ذکر آیا ہے۔ یہاں ۹؍ذی
الحجہ کو مغرب و عشاء کی نمازیں ملا کر پڑھتے اور رات بسر کرتے ہیں۔
اس سے آگے مکہ معظمہ سے
پچیس میل دور عرفات کا میدان ہے۔ شمال میں جبل رحمت ہے۔ یہاں پہنچ کر ایک ایسا
تصور بہجت و انبساط اپنی پنہالیوں کے ساتھ دل و دماغ کو محصور کرتا ہے کہ خیال کا
راہوار صدیوں پیچھے لوٹ جاتا ہے۔ عرفات کے چاروں طرف پہاڑ ہی پہاڑ ہیں جیسے کسی
قالین پر حاشیہ ہو۔ اتنا وسیع و عریض میدان اس خصوصیت کے ساتھ کسی دنیوی خطہ میں
نہیں۔ عجب بابرکت میدان ہے۔ کسی بڑے سے بڑے شاعر کا تخیل بھی اتنا وسیع نہ ہوگا
جتنی وسعت اس میدان میں ہے۔ اتنی دلکشی، اتنی کشش اور اتنا سحر ہے کہ عقل سپرانداز
ہوجاتی ہے، عشق ابھر آتا ہے اور یقین ہوتا ہے کہ اللہ والوں کی زمین ہے۔ کتنی
صدیوں سے ایک ہی میدان ہے جہاں کروڑوں کیا اربوں انسانوں نے اس سارے عرصہ میں وقوف
کیا ہے۔ وقوف حج کا لازمی رکن ہے بلکہ اسی وقوف کا نام حج ہے۔ پورا میدان صحیفہ ٔ
فطرت ہے، اسوۂ خلیل کا حکایت سرا، عشق کی جولان گاہ، عشاق کی سجدہ گاہ، ایک
تاریخی دستاویز، مسودۂ توحید، مخطوطۂ رسالت، اس کی فضا میں کتنے ہی کلمہ ہائے
اقدس معلق ہیں، اس کے سینہ میں کس قدر دل دھڑکتے ہیں، اس کی ہواؤں میں حجۃ الوداع
کی خوشبو رچ بس گئی ہے اور ہر ذرہ گوہر
ناسُفتہ اور شاہوار ہے۔محمدؐ عربی کی صدا گونج رہی ہےاور کل کائنات گوش برآواز
ہے۔
فرمایا:’’لوگو تم سے خدا
کے ہاں میری نسبت پوچھا جائے گا، کیا جواب دوگے؟‘‘
مجمع پکارتا ہے: ہم کہیں
گے کہ آپؐ نے خدا کا پیغام پہنچا دیا۔
اسی وقت کلام الٰہی کی
آخری آیت نازل ہوئی ’’آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لئے مکمل کر دیا ہے اور
اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لئے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے
قبول کر لیا ہے۔‘‘ (المائدہ:۳)
خطبہ پڑھ چکے تو بلالؓ کو
حکم دیا اذان کہو۔ ظہر اور عصر کی نماز ایک ساتھ ادا کی، پھر ناقہ پر سوار ہوکر
موقف تشریف لائے، وہاں دیر تک کھڑے ہوکر قبلہ رو دعا کی۔ آفتاب ڈوبنے لگا تو چلنے
کی تیاری فرمائی۔ صحابہؓ مسرور تھے کہ دین مکمل ہوگیا، ان کے نورانی چہرے گلاب
تھے۔ لیکن قافلہ چلنے لگا تو اس میں صدیق اکبرؓ نہ تھے۔ عمرؓ نے کہا ابوبکرؓ کہاں
ہیں؟ انہیں ایک درخت کے پاس تنہا کھڑا پایا۔ دیکھا صدیق اکبرؓ آبدیدہ ہیں۔ عمرؓ
نے کہا ابوبکرؓ کیا ہوا؟ صدیق اکبرؓ نے کہا: جو چیز تمہارے لئے خوشی کی ہے میرے
لئے جدائی کی ہے۔ جب دین مکمل ہوگیا تو مقصد بعثت بھی پورا ہوگیا، اب رفاقت الٰہی
مطلوب ہے۔ حضرت عمرؓ اس اشکبار انسان کو ، جو محمدؐ کی شخصیت میں جذب ہوگیا تھا،
اپنے ساتھ لے آئے، دونوں رسولؐ کی ناقہ کے ساتھ قدم ملائے چلے جارہے ہیں۔
کیا لوگ تھے جو یہاں
رسولؐ اللہ کے ساتھ اکٹھے ہوئے تھے، جنہیں آپؐ نے خطاب کیا اور جو ایک ساتھ کہہ رہے تھے : اے
خیرالبشرؐ!ہم نے آپؐ سے خدا کا پیغام پا لیا ہے، بے شک دین مکمل ہوگیا اور آپ
خداکی آخری حجت ہیں!
جس جگہ آپؐ کھڑے ہوئے
تھے، اس پتھر سے چمٹ گیا، چہرہ آنسوؤں سے تر ہوگیا۔ شوق و اضطراب کا یہ عالم تھا
کہ اس پتھر سے اپنے گالوں کو مل رہا تھا ۔ کیا خبر حضورؐ نے کہاں قدم رکھا ہو،
کہاں نگاہ ڈالی ہو، کہاں آپؐ کی آواز کا حسن ٹھہرا ہو، کہاں آپؐ کے تبسم نے ضیا
بخشی ہو، کہاں آرام فرمایا ہو… ہائے وہ لوگ کہاں چلے گئے، وہ میراث کہاں کھوگئی،
وہ خزانہ کہاں لٹ گیا، وہ کارواں کہاں بچھڑ گیا! اس کے علاوہ قیامت اور کیا ہوگی
کہ:
نگاہیں ڈھونڈتی ہیں اور
انہیں ہرگز نہیں پاتیں
علم یہاں ٹھہرتا ہی نہیں،
یہ عشق کی نگری ہے۔ عرفات جویانِ راہ کیلئے نہیں دانایانِ راہ کیلئے ہے۔ یہ خبر کی
نہیں نظر کی بستی ہے۔ یہ عفت قلب و نگاہ کا مامن ہے ۔ یہ مسیح کی دار اور کلیم کا
سینا ہے۔ یہ نور و سرور کی گزرگاہ اور آرزو و نیش آرزو کی منزل گاہ ہے۔ یہاں
زمانے کی رو مخرام ہوکر نکلتی اور گردش زمانہ اذن لے کر چلتی ہے۔ یہ کلیم و خلیل
کے راز ہائے سربستہ کی فاش گوئی ہے۔ یہ نیاز و ناز اور سوز و گداز کا پڑاؤ ہے۔ اس
کی ہواؤں اور نواؤں میں نبوت کے سانس ہیں۔ یہ بیشۂ تحقیق نہیں، بیشۂ عشق ہے۔ یہاں سپہ کی تیغ رانی اور نگاہ کی تیغ
بازی کو متاع خسروی عطا ہوتی ہے۔ یہاں علم کو شریعت اور عشق کو معرفت ملتی ہے۔ یہ
نقطہ ٔ وصل ہے ۔ حضرت آدمؑ اور حوا کی ملاقات یہیں ہوئی تھی۔ جبریل امین نے یہیں
حضرت ابراہیم ؑ کو مناسک حج سکھائے تھے۔ہم بہت دیر تک جبل رحمت پر بیٹھے رہے۔ عشق
یہاں آداب خود آگاہی سکھاتا اور عقل سر نیہوڑائے الٹے پاؤں چلی جاتی ہے۔ عقل اس میدان کی چیز نہیں۔ یہ عشق کا میدان
ہے۔ یہاں وہی لوگ موتی چن سکتے ہیں جن کے شیشے صاف ہوں اور کشکول غیور ۔ وہ لوگ
یہاں کچھ نہیں پاسکتے جن کے دلوں پر قدرت نے مہریں لگادی ہیں
شفق نے رات میں گھلنا شروع
کیا تو ہم واپس ہوئے۔ جانے کیا چیز تھی کہ جدائی گراں ہوئی۔ آنسو تھمتے ہی نہیں
تھے۔ (جاری)
23 جون 2023،بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
--------------------------
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism