شورش کاشمیری کے سفرنامہ
ٔ حجاز ’شب جائے کہ من بودم‘ سے اقتباسات(1)
( حصہ 1)
9 جون 2023
جدہ میں اب صرف دو چیزیں عرب
ہیں، ایک زبان دوسرے اذان۔ باقی ہر چیز پر یورپ کی چھاپ لگی ہوئی ہے۔ عربوں کا خاص
لباس بھی یہاں مخلوط ہوگیا ہے۔ قطع ہے وضع نہیں، وضع ہے قطع نہیں، وضع کا بھرم بھاؤ
ہے تو قطع میں رکھ رکھاؤ نہیں۔ غرض عرب تو ہیں ہر قسم کے عرب، عاربہ بھی اور عرب مستعربہ
بھی لیکن ارض قرآن کے عرب اب آب و گل کے ایک نئے سانچہ میں ڈھل گئے ہیں ۔
جدہ بحر احمر کی ملکہ ہے ، اس کی
موجیں اس کے ساحل سے ضرور ٹکراتی ہیں لیکن ٹکراتی اور پیچھے ہٹ جاتی ہیں، جہاز آتے
اور نکل جاتے ہیں، کروڑوں روپے کا مال اتارا جاتا ہے اور حجاز کے بازاروں میں بکتا
ہے۔ جدہ جو کبھی تھا اب نہیں رہا اور جو ہے
وہ بیروت کا ہم زلف ہے۔ عربوں کی دولت بیروت کے بعد یہاں نہال ہوتی ہے۔ ایک کھلی مارکیٹ
ہے جہاں یورپ کی تہذیب اپنی مصنوعات سمیت فروخت ہوتی ہے۔ ہرچند میں اس جستجو میں رہا
کہ جدہ میں ارض قرآن کو تلاش کروں، افسوس ناکام رہا، ناقہ تلاش کیا، سیارہ (موٹر)
پایا۔ بڑی بڑی کاریں ہمارے ہاں کی بہ نسبت پتنگوں
کی طرح اڑتی پھرتی ہیں ۔ لمبی لمبی ایئرکنڈیشنڈ کاریں جو خود یورپ استعمال نہیں
کرتا یہاں فراٹے بھرتی چلی جاتیں ہیں۔ یہ ان اونٹوں کا بدل ہیں جن کاتذکرہ کلام اللہ
میں ہے اور جو اپنے قافلوں کو لے کر محاذوں پر پڑاؤ کرتے اور محملیں سجا کر دوردراز
کی وادیاں قطع کرتے تھے، کسی کونے کھدرے میں شاید کوئی ناقہ یا ساربان ہو اور ممکن
ہے کسی شتربان کے ساتھ کوئی حدی خواں بھی ہو لیکن میری تلاش میرے ہمرکاب رہی اور میں
ڈھونڈنے کے باوجود انہیں نہ پاسکا۔
وہ اونٹ جو فتح مکہ کے وقت اپنے
بہترین سواروں کو لے کر حدودحرم میں داخل ہوئے تھے اور وہ ناقہ جس کی مہار عمر فاروقؓ
نے بیت المقدس کی فتح کے وقت اس طرح تھام رکھی تھی کہ غلام سوار تھا اور امیرالمومنین
اپنی باری نپٹانے کے لئے پیدل چل رہے تھے، اور وہ اونٹ جو عائشہ صدیقہ ؓ کو پیچھے چھوڑ
کر چل نکلا تھا کہ واقعہ افک وضع ہوا ، نتیجتاً سورہ نور نازل ہوئی اور اللہ تعالیٰ
نے ام المومنینؓ کی عفت کے آبگینہ کو جبریل ؑ کی معرفت وحی کے فانوس سے روشن کیا،
وہ اونٹ آج جدہ ہی نہیں پورے عرب سے عنقا
ہوگیا ہے۔ اب طیارے ہیں یا سیارے اور سیارے تو اس طرح اڑتے پھرتے ہیں جس طرح افواہیں
بے قابو ہوکر پھیل جاتی ہوں۔
جدہ کے لغوی معنی پر میں نے غور
نہیں کیا۔ عربوں میں کوئی نام بغیر مفہوم کے نہیں ہوتا ، خود لفظ عرب کے کئی کئی معنی
ہیں۔ مثلاً بعض یہ کہتے ہیں کہ عرب اعراب سے مشتق ہے جس کے معنی زبان آوری کے ہیں،
اسی لئے عرب اپنے سوا تمام دنیا کو عجم کہتے رہے ۔ یہ محض نکتہ آفرینی ہے۔ علمائے
انساب کے نزدیک چونکہ اس ملک کا پہلا باشندہ یعرب بن قحطان تھا لہٰذا اسی کے نام پر
ملک کا نام پڑ گیا ۔ اہل جغرافیہ نے عرب کا پہلا نام عربہ لکھا ہے جو تخفیفاًعرب ہوگیا
اور یہی اس قوم کا نام قرار پایا۔
قرآن مجید میں عرب کا لفظ ملک
عرب کے لئے کہیں نہیں بولا گیا۔ حضرت اسماعیل
علیہ السلام کی سکونت کے ذکر میں وادی
ٔ غیر ذی ذرع یعنی وادی ٔ ناقابل کاشت بولا گیا ہے اور یہ لفظ عرب کا بعینہ لفظی ترجمہ
ہے۔ حضرت مسیح ؑسے ایک ہزار برس پہلے حضرت سلیمان علیہ السلام کے عہد میں لفظ عرب کے استعمال کی نشاندہی ہوتی
ہے۔
جدہ کا نام حضرت عثمانؓ کے وقت
رکھا گیا۔ پہلا نام شعبیہ تھا۔ جدہ ٹھیک ٹھیک وہاں تو نہیں لیکن اس سے ہٹ کر اس کی
جگہ آباد کیا گیا۔ السنہ کی ایک روایت کے مطابق جدہ کے معنی ساحل کے ہیں، ایک دوسری
روایت کے مطابق وہ حصہ جہاں زمین پانی سے کٹ جاتی ہے۔ لغت میں جدہ کے معنی دادی اور
نانی کے بھی ہیں۔
لبیک اللھم لبیک! ناقہ کہاں کہ میں اس کی مہار تھام کر حرم
کی حدود میں داخل ہوتا کہ یہ بھی سنت نبویؐ ہے۔ دل نے کہا کہ پلکوں سے موتی چنو، وہاں
آگئے ہو جہاں ابراہیم ؑ آئے تھے، ہاجرہ آئی تھیں، اسماعیل ؑ آئے تھے، جہاں محمدؐ
پیدا ہوئے تھے اور جہاں و قت کے بہترین انسانوں نے ان کی آواز پر لبیک کہا تھا ، جہاں
بدترین انسانوں نے ان کی نافرمانی کی تھی،
ان کا مذاق اڑایا تھا اور وہ ہجرت پر مجبور ہوگئے تھے، پھرجہاں وہ فاتح کی حیثیت سے اس طرح لوَٹےتھے کہ ابوسفیان ہی کا گھر سب کی
پناہ گاہ بنادیاتھا، جہاں باد صبح گاہی میں محمدؐ کی سانسیں چلتیں اور شب کے آویزے
(تارے) ان کے آنسوؤں سے تیار ہوتے تھے، جہاں اب بھی بلالؓ کی اذانیں محفوظ ہیں اور
سنی جاتی ہیں، جہاں ہر چپہ ایک تاریخ ہے، جہاں ایک عہد کے سب سے بڑے انسان عمریں بتا
گئے ہیں، جہاں ان کی مشعلیں روشن ہیں، جہاں ان کے نقش قدم سنگ ِ میل ہیں، جہاں جبریل
ؑ آتے رہے ، وحی نازل ہوتی رہی اور قرآن اترتا رہا۔
بیت اللہ کے مینار ابھر آئے
اور میں ان پہاڑوں سے گزر رہا تھا جس میں سے ایک پہاڑ (کوہ صفا) پر چڑھ کر آپؐ نے
فرمایا تھا:’’ اے معشر قریش! اگر میں تم سے کہوں کہ اس پہاڑ کے عقب سے لشکر آرہا ہے
تو تم کو یقین آئے گا؟ سب نے کہا ہاں، کیونکہ تم ہمیشہ سچ بولتے ہو۔ آپؐ نے فرمایا
، تو میں یہ کہتا ہوں کہ اگر تم ایمان نہ لاؤ گے تو تم پر شدید عذاب نازل ہوگا۔‘‘
یہ سن کر وہ لوگ ، جن میں آپؐ کا چچا ابولہب بھی تھا، برہم ہوکر چلے گئے
لیکن خدا کا آخری پیغمبر اعلان کرچکا تھا کہ :’’اگر یہ لوگ میرے ایک ہاتھ میں سورج
اور دوسرے میں چاند لا کر دے دیں تب بھی میں اپنے فرض سے باز نہیں آؤں گا، مجھے اللہ
تعالیٰ نے آخری حجت کے طور پر مبعوث کیا ہے، اللہ ایک ہے، محمد اس کے رسول ہیں ، سب
عبادتیں اس ایک ذات کے لئے ہیں۔‘‘
وہ پہلے دن تنہا تھا ،اس کے ساتھ
صرف اس کا خدا تھا، پھر وہ دو سے تین اور تین سے پانچ حتیٰ کہ بعجلت ایک کا رواں بن گیا، نئی دنیا نے جنم لیا اور اس
طرح :
اک عرب نے آدمی کا بول بالا
کر دیا
یه مکہ ان زنده و پائندہ انسانوں
کاگھر ہے جو بظاہر ہم میں نہیں لیکن ہر لحظہ ہم میں ہیں اور جن پر دنیا بھر میں جہاں
تہاں اسلام کی آواز ہے، دن میں کئی کئی دفعہ درود و سلام بھیجا جاتا ہے ۔جس طرح بدلیاں
پانی کے ڈول بھر کر چلی آتی ہیں اسی طرح کوہ ارضی کی ہوائیں ان کے لئے درود و سلام
کے گلدستہ لے کر آتی اور لٹا کر لوٹ جاتی ہیں ۔صدیوں سےصبح و شام یہی ہو رہا ہے اور
یہ قافلہ ابد تک کے لئے رواں دواں ہے۔ سلام
ہو اس زمین پر جس کے ویرانے نے ہمیں آباد کیا اور جس کے نشیب پر دنیا بھر کی بلندیاں
کھنچی چلی آتی ہیں سب سے بڑی سجدہ گاہ ! یہاں ایک پتھر کو یہ رتبہ حاصل ہے کہ کروڑوں
انسان صبح و شام ایک عظیم انسانؑ کے اتباع میں اسے بوسہ دیتے اور یہ اعزاز صبح محشر
تک اس کے لئے خاص ہو گیا ہے۔ - لبیک اللهم لبیک -
مکہ معظمہ
جہاں اپنی جبیں اپنی جبیں
معلوم ہوتی ہے
بیت اللہ کی ہیبت مجھ پر چھا گئی۔
پھر ایک لہر تھی کہ صدیوں کی سرگزشت سمیٹتی ہوئی نکل گئی۔ ایکا ایکی سیکڑوں دور خیال کی سی تیزی لئے بیت گئے اور وہ دل جو ابھی
تک مرعوب تھا، خوشی سے جگمگا اٹھا ۔میں وہاں تھا جہاں اللہ تعالیٰ نے عرش و فرش کی
تمام فضیلتیں جمع کر دی ہیں ،جہاں چوبیس گھنٹے اللہ تعالیٰ کے فرشتے ملاء اعلیٰ سے
درود وسلام کی جھولیاں بھر بھر کے لاتے اور بندگان تسلیم و رضا کو پہنچاتے ہیں ۔
بیت اللہ مکہ مکرمہ کے نشیب میں
اس طرح ہے جس طرح نون کے وسط میں نقطہ یا کٹورے کی تہہ کا دائرہ ۔ اس نشیب کو مسجد
الحرام نے آغوش میں لے رکھا ہے اور مسجد الحرام کے چاروں طرف پہاڑ کھڑے ہیں۔ پہاڑوں
کا یہ سلسلہ دور تک چلا گیا ہے ۔
بیت اللہ کے چاروں طرف غلاف چڑھا
ہوتا اور اس پر آیات قرآنی منقش ہوتی ہیں۔ حرم کی روشنیوں کے ہالہ میں غلاف اتنا
بھلا معلوم ہوتا ہے کہ بھلا کے لفظ کا اس سے بہتر استعمال ہی نہیں ۔ ایک عمارت ایک
عبا پہن کر کھڑی ہے جس سے سطوت، عظمت اور حشمت ٹپکتی ہے۔ دنیا میں کوئی عمارت ایسی
نہ ہوگی جو ہر دور کی ہر ساعت میں لوگوں کا مرکز ہو اور جہاں دن رات کے چوبیس گھنٹوں
میں کوئی ثانیہ طواف کے بغیر گزرتا ہو۔ روشنیوں نے کعبۃ اللہ کو اس طرح جگمگا رکھا ہے کہ ہر لحظہ بقعہ نور نظر آتا ہے۔ رات کو
یہ منظر اور بھی دلکش ہو جاتا ہے ۔ آس پاس کے پہاڑوں سے معلوم ہوتا ہے کہ زمین نور
اگل رہی ہے ۔چاروں طرف روشنیاں ہی روشنیاں ہیں۔ مسجد الحرام اور بیت اللہ میں کسی انسان
کے لئے کوئی امتیاز نہیں ،شاہ وفقیر ایک سے ہیں۔ یہ عشق کا دربار ہے اور عشق کے دربارمیں
کسی ابوالفضل و فیضی کے لئے جگہ نہیں، فرق ہے تو صرف اللہ سے لو لگانے والوں کے مراتب
و مناقب میں ہے جہاں دولت یا حکومت کیلئے کوئی اعزاز نہیں، اعزاز ان کیلئے ہے جن کے
سراور جن کے دل اللہ کے حضور میں اس طرح جھکے رہتے ہیں کہ اوپری نگا ہیں اور رسمی طبیعتیں
ان تک پہنچ ہی نہیں پاتی ہیں۔ ہر شخص اپنی لو میں مگن رہتا اور عشق و ایمان سے بقدر
ظرف بہرہ یاب ہوتا ہے۔ حاضری میں یکسانی ہے حضوری میں نہیں۔
سبھی لوگ آتے ہیں ۔بادشاہ و فقیر، وزیر وا میر، دولت
مند و حاجت مند، غنی و گدا ، شہر یار و شہسوار، تاجدار و چوبدار، فرماں روا و بے نوا،
نیازمند و در دمند، تاجر و آجر، زابد و رند، عالم و عامی، ملک ملک کے لوگ… سجدہ ایک،
جبینیں بہت سی۔ کوئی کھڑاگ نہیں ایک ہی خواہش کہ اللہ کے اس گھر سے سرخرو جائیں، حاضری
قبول ہو اور حضوری حاصل ہو۔ صبح تاریخ کی بے شمار صدیاں گزر چکی ہیں۔ اسلام کو چودہ
سو سال ہو گئے ہیں، ایک لحظہ ایک ثانیہ اور ایک ساعت بھی انسان کی حاضری کے بغیر نہیں
گزری ۔ چوبیس گھنٹے طواف ہوتا اور کرہ ارضی کے ہر حصہ کی نمائندگی ہوتی ہے۔ مطاف کے
چکر کاٹے جارہے ہیں ، ملتزم پر گریہ ہورہا ہے، رکن یمانی کو چھوا جارہا ہے اور حجر
اسود کو بوسے دیئے جارہے ہیں۔ مقام ابراہیم ؑ پر دعائیں مانگی جارہی ہیں اور نفل پڑھے
جارہے ہیں۔ زمزم پر لوٹ ٹوٹے پڑتے اور شرابور و سرشار ہوکر نکلتے ہیں۔ باب السلام کی
حد سے باہر مسجد الحرام کے جوڑ پر داہنے ہاتھ صفا ہے، بائیں ہاتھ مروہ… ہر آن سعی ہورہی ہے ، زن و مرد حضرت ہاجرہ
کے اتباع میں دعائیں مانگتے اور دوڑے چلے جاتے ہیں۔
ایک ہی جگہ ہے جہاں گناہ کا تصور
تک نہیں، معصیت انسانی وجود سے ان لمحوں میں خارج ہوجاتی ہے اور پاکیزگی ہر ذرہ میں
سانس لیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس گھر کو اپنے ذکر سے اتنا ہرابھرا کردیا ہے کہ رات
ہو یا دن، انسانوں کی بھیڑ لگی رہتی ہے، ہر ساعت طواف سے معمور ہے ، پھر کوئی امتیاز
نہیں۔ یکساں لباس ایک سے احرام میں شاہ و گدا اور آقا و مولا چل رہے ہیں!(جاری)
9 جون 2023،بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
--------------------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism