New Age Islam
Tue Mar 18 2025, 02:07 AM

Urdu Section ( 28 Jun 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Excerpts from Agha Shorish Kashmiri’s Safarnama Hijaz‘Shab Jaye Ke Man Boodam ‘-Part 2 ملتزم: یہاں آنسو خود بخود نکل آتے ہیں اور محسوس ہوتا ہے

شورش کا شمیری کے سفرنامہ ٔ حجاز ’شب جائے کہ من بودم‘ سے اقتباسات (2)

 ( حصہ 2)

16 جون 2023

میں نے طواف کے سات چکر پورے کئے، ہر چکر میں مختلف دعائیں مانگیں۔ پہلے چکر میں حجر اسود کو بوسہ دیا، پھر ہر چکر میں استلام کیا۔ آخری چکر میں بوسہ دے کرہٹا تو عالم  ہی دوسرا تھا۔ اس درجہ کیفیت پیدا ہوئی کہ اس وقت بیان کرنا مشکل تھا، اب بیان کرنا بس سے باہر ہے۔ بعض چیزیں آدمی محسوس کرتا ہے، کہہ نہیں سکتا۔ انسانی نطق اپنے تمام اثاثے کے باوجود ان کیفیتوں کو بیان کرنے سے معذور ہے۔ کیفیت چیز ہی وہ ہے جو بیان نہ ہو۔  کوئی انسان ان واردات کو جامۂ الفاظ نہیں پہنا سکتا جو عشق کے دربار اور ایمان کے جلو میں پیدا ہوتے ہیں۔ طواف کی لذت ہی ایسی ہے کہ الفاظ اس کے بیان کا بوجھ نہیں اٹھا سکتے۔ میں گھوم رہا تھا اور معلوم ہوتا تھا کہ تاریخ پیچھے کو لوٹ رہی ہے۔ یکایک نظریں ٹھہر گئیں، بیٹا گارا ڈھو رہا ہے، اینٹیں لا رہا ہے اور باپ معماری کررہا  ہے۔ پھر اُن کی دعائیں سنیں:

 الٰہ العالمین ! ہم نے یہ گھر تیری منشا پر تیری عبادت کے لئے بنایا ہے۔

  امتدادِ زمانہ کے ساتھ پھر اس گھر میں بتوں کو داخل ہوتے دیکھا، لات و منات اور عزیٰ و ہبل کی فرمانروائی دیکھی، ابوجہل اور ابولہب کی سرکشی دیکھی، یہاں تک کہ حضور ﷺ بیت اللہ میں سربسجدہ ہیں اور ابوجہل اونٹ کی اوجھ آپؐ کی گردن مبارک پر رکھ رہا ہے۔

 حدیبیہ کے مقام پر حضورِ ؐپُرنور کا  رُکا ہوا قافلہ دیکھا کہ مکہ میں داخل نہیں ہوسکتے ہیں، پھر وہ دور بھی دیکھا کہ بیت اللہ میں وقت کا سب سے بڑا انسان فاتح مکہ کی حیثیت سے داخل ہورہا ہے، دس ہزار جاں نثاروں کا قافلہ جلو میں ہے، بتوں کو توڑا اور خدا کے اس گھر کو تمام آلودگیوں سے  صاف کیا  جارہا ہے۔ ابوسفیان کو دیکھا کہ حضرت عباسؓ کی پناہ لے کر بارگاہ رسالت میں حاضر  ہے، حضورؐ فرما رہے ہیں اس کو پہاڑ کی چوٹی پر لے جا کر کھڑا کردو کہ افواج الٰہی کا جلال اپنی آنکھوں سے دیکھے۔ قُشون  (دستہ) اسلام چلے آرہے ہیں۔ سب سے آگے غِفّار کا پرچم ہے، پھر جہنیہ ہتھیاروں میں ڈوبے ہوئے اللہ اکبر کہتے صف در صف گزر رہے ہیں۔ سب سے آخر میں انصار کا قبیلہ کوکبہ ٔ نبویؐ کے ہمرکاب ہے۔ زبیر بن العوامؓ علمبردار ہیں۔ حجون کے مقام پر علم نبویؐ گاڑا جارہا ہے۔ خالد بن ولیدؓ حضورؐ کے اشارہ پر اس پورے لشکر سمیت مکہ کے بالائی حصہ کو مڑ رہے  ہیں۔

  حضرت عمرؓ  حضورؐکی تشریف آوری سے پہلے کعبۃ اللہ کو   تین سو ساٹھ بتوں سے پاک کررہے ہیں، بلالؓ و طلحہؓ کی ہمراہی میں رسالت مآب ؐ قدم رنجہ فرماتے ہیں، عثمان بن طلحہ ؓ سے کنجی لے کر دروازہ کھولتے اور بتوں کو چھڑی سے ٹھوکے دیئے جاتے ہیں، زبان اقدس پر ہے: ’’حق آگیا، باطل مٹ گیا کہ مٹنا اس کا مقدر تھا۔

 بلالؓ کو حکم دیا جاتا ہے اذان دو۔ اذان ہوچکی تو خطبہ فرماتے ہیں، قریش مکہ سامنے ہیں۔ وہ بھی ہیں جو اسلام کو مٹانے پر تُلے ہوئے تھے، وہ بھی ہیں جو حضورؐ پر سب ّ و شتم کرتے اور اس ذلت میں بازی لے گئے تھے اور وہ بھی کھڑے ہیں جو قتل کے منصوبے باندھتے اور اپنے تیغ و سنان کو حضورؐ کے لہو میں ڈبونے کیلئے صیقل دیتے رہے۔ غرض کانٹے بچھانے والوں کی جماعت روبرو ہے۔ ان میں حضورؐ کی ایڑیوں کو لہولہان کرنے والے بھی ہیں اور بلالؓ، خبابؓ، عمارؓ، سمیہؓ، یاسرؓ اورصہیبؓ کو ستانے والے بھی! آج قریش کا غرور قدموں تلے ہے۔ بلالؓ ان کے روبرو کعبۃ اللہ کی چھت پر اذان دے رہے ہیں۔ دریتیمؐ جو اپنے گھر سے نکالا گیا اور جس کو حدیبیہ سے لوٹایا گیا تھا، آج بیت اللہ میں اعلان کررہا ہے:

 ’’ اے قوم قریش! اب جاہلیت کا غرور اور حسب و نسب کا افتخار خدا نے مٹا دیا ہے۔ تمام لوگ آدم ؑ کی نسل سے ہیں اور آدم ؑ مٹی سے بنے ہیں۔ تمہارے قبیلے اور خاندان صرف آپس کی پہچان کے لئے ہیں۔ خدا کے نزدیک شریف وہ ہے جو زیادہ پرہیزگار، دانا اور واقف ہے۔‘‘

  پھر قریش کے قہاروں سے مخاطب ہوکر فرماتے ہیں: ’’تمہیں معلوم ہے میں تم سے کیا معاملہ کرنے والا ہوں؟‘‘

 وہ جواب دیتے ہیں: ’’آپ شریف بھائی اور شریف زادہ ہیں۔‘‘

 ارشاد ہوتا ہے:’’تم پر کچھ الزام نہیں، جاؤ تم سب آزاد ہو۔ ‘‘

 اس عفوعام کا اعلان صرف رحمۃ للعالمین ﷺ ہی کرسکتے ہیں۔

 ملتزمؔ حجر اسود اور خانہ کعبہ کی چوکھٹ کا درمیانی حصہ ہے۔ حضورؐ نے فرمایا تھا، جو یہاں لپٹ کر اللہ جل شانہٗ سے کچھ مانگے گا اس کی مراد پوری کی جائے گی۔ یہاں آنسو خود بخود نکل آتے ہیں اور محسوس ہوتا ہے کہ عاجز و خاطی انسان رب غفور و رحیم کی دہلیز پر لگا کھڑا ہے۔ یہی جگہ ہے جہاں الحاح وزاری کے بغیر دعا کا تصور ہی نہیں۔ ہر شخص اپنی خطاؤں کی معافی کے لئے روتا اور دل کھول کے روتا ہے۔ سرورِ کائنات ؐ نے سینہ مبارک لگایا، دعائیں مانگیں اور اس کو عظمت  بخش دی۔ صحابہ کرامؓ کے سینوں کی رونق، چہروں کی ضیاء، سانسوں کی خوشبو، کلمات کی نفاست اور آنسوؤں کی طلعت سے یہ جگہ نورانی ہوگئی۔ اس آسمان نے ، جو صبح کا سورج لے کر بیت اللہ پر چمکتا ہے اور اس افق نے جو ہر شب ستاروں کی قندیلیں جگمگاتا ہے، محسن کائنات اور ان کے ساتھیوں کی ان ساعتوں کا نظارہ کیااور ان آنسوؤں کو چن کر چرخ نیلی نام کا جھومر بنادیا ہے۔ آج چودھویں صدی آخری موڑ پر ہے لیکن اس سارے عرصہ میں حضورؐ سے لے کر تابعین تک، پھر اولیاء، اتقیاء، حکماء، علماء، صلحاء، وزیر و شاہ، زاہد و رند، خواص و عوام، عابد و خاطی ، عالم و عامی ، کروڑوں ،بلاشبہ کروڑوں انسان بوڑھے، بچے، جوان اس سے لپٹتے چلے آرہے ہیں، آنسوؤں کا قلزم بہہ چکا ہے ، کتنے ہی سینے اس سے لپٹے اور کتنے ہی بازو حمائل ہوئے ہیں۔ بلاشبہ یہاں ایمان کو بلندی، عشق کو سچائی، طبیعت کو سکون، روح کو عرفان، دل کو ایقان، دماغ کو جِلا اور اعتقاد کو دوام ملتا ہے۔ میں نے اپنا سینہ اس کے پتھروں سے لگادیا اور دونوں ہاتھ دروازہ کی سنگی مسطر پر رکھ دیئے۔ بندہ اپنے رب سے ہمکلام تھا ۔

مقام ابراہیم ؑ پر دو رکعت نماز واجب الطواف ادا کی اور دیر تک خیالات میں گم صم کھڑا رہا۔ عظمتوں کا ٹھکانہ نہیں، کیفیتوں کا چشمہ ہر طرف پھوٹ پھوٹ کر بہہ رہا ہے۔

 سلطان سلیم نے ۱۰۴۰ھ میں اس پر چھتری کے طرز کی ایک چھت بنوائی تھی ، اب اردگرد پیتل اور تانبے کا ایک حصر بنا ہوا ہے۔ اس حصر کو بڑے شیشے لگا کر شوکیس کی شکل دے دی گئی ہے۔ اندر دوبالشت مربع پتھر ہے جو سونے اور چاندی سے مڑھا ہوا ہے۔ اس پتھر پر سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے پاؤں کا نشان ہے۔ یہ پتھر بیت اللہ کی تعمیر کے وقت مچان کا کام دیتاتھا۔

 کعبۃ اللہ سے مشرق کی جانب کوئی پچاس فٹ کے فاصلہ پر زم زم کا کنواں ہے۔ چند سال پہلے یہ کنواں حرم ہی کی سطح پر تھا مگر اب اس کو تہہ  خانے میں لے گئے ہیں۔ حضرت ہاجرہ کی مضطربانہ دُعا اور حضرت اسماعیل ؑ کی معصومانہ ٹھوکر نے اس پانی کو فضیلت اور ہمیشگی بخش دی ہے ۔ پھر جو کلمہ چشمہ کی بے تابی کے وقت حضرت ہاجرہ کی زبان سے نکلا تھا  زم زم یعنی ٹھہر ٹھہر، وہی اس کا نام ہوگیا ۔ زم زم کے لفظ پر غور کیجئے ، ایک ایسا طنطنہ ہے:

کہ میرے نطق نے بوسے مری زباں کے لئے

 مسجد الحرام کے مشرق میں خانہ کعبہ سے ملحق یا متصل دو پہاڑیاں ہیں، صفا اور مروہ۔ قرآن پاک نے انہیں شعائراللہ کہا ہے۔ حضورؐ صفا تک پہنچے تو یہ آیت نازل ہوئی: ان الصفاء والمروۃ من شعائراللہ! اب یہ پہاڑیاں صرف نشان رہ گئے ہیں۔  ان کے درمیان دوڑنا سعی کہلاتا ہے۔ سعی کرنا حج اور عمرہ کے فرائض کا حصہ ہے۔ حج کا عظیم رکن!

 سعی کے بھی سات چکر ہیں۔ حضرت ہاجرہ اپنے جگرگوشہ اسماعیل ؑ  کے لئے پانی کی تلاش میں سات مرتبہ دوڑی تھیں، مرد و زن اسی طرح دوڑتے اور ہوبہو اتباع کرتے ہیں!

 سعی میں ایک لذت سی پیدا ہوگئی۔ لذت کیا سحر ہوگیا، دل و دماغ اس کے ہوگئے، نگاہیں اشتیاق و تصور کی وادی میں چلی گئیں۔ کیا خوبصورت جگہ ہے اور کتنی دلفریب ہیں دونوں پہاڑیاں ۔ ابراہیم ؑ ہاجرہ اور اسماعیل ؑ کو مکہ میں چھوڑ کر واپس جارہے ہیں۔ امّ اسماعیل (ہاجرہ) ان کے پیچھے پیچھے کداء تک آئیں، پکار کر کہا!

 ’’ابراہیم ! تم مجھے اس وادی میں جہاں نہ کوئی آدمی ہے اور نہ کوئی اور چیز، چھوڑ کر کہاں جاتے ہو۔ کیا تم خدا کے حکم سے مجھے یہاں چھوڑتے ہو؟ ابراہیم ؑ نے کہا ہاں! حضرت ہاجرہ نے کہا : تو پھر خدا ہمیں ضائع نہیں کرے گا۔ لو َٹ کر آگئیں، مشکیزہ سے پانی پیتی رہیں  اور بچہ  کے لئے دودھ ہوتا رہا یہاں تک کہ پانی چُک گیا ۔ دل میں کہا جا کر دیکھوں شاید کوئی نظر آجائے۔ کوہ صفا پر چڑھیں کوئی نظر نہ آیا۔ وادی میں پہنچیں، دوڑ کر  مروہ پر آئیں، اسی طرح چند بار دوڑیں ، پھر بولیں چل کر بچے کو دیکھوں ، آکر دیکھا تو قریب الموت پایا ، مضطرب ہوکر پھر صفا پر چڑھیں کہ کوئی نظر آئے، کوئی نظر نہ آیا، یہاں تک کہ سات چکر ہوگئے، واپس آئیں،  بیٹے کی طرف گئیں، دیکھا  بچہ کی ٹھوکر سے چشمہ پھوٹ رہا اور پانی جوش میں ہے۔ حضرت ہاجرہ نے کہا زم زم (ٹھہر ٹھہر) ، پانی کا جوش ٹھہر گیا ۔

 میں زم زم کو اس وقت تک پیتا رہا جب تک پیٹ نہیں بھر گیا۔ سقہ نے مجھ پر دوتین بوکے (چمڑے کا ڈول) ڈالے اور میں شرابور ہوگیا۔(جاری)

16 جون 2023،بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی

-----------------------

Part: 1 – Excerpts from Agha Shorish Kashmiri’s Safarnama Hijaz‘Shab Jaye Ke Man Boodam’-Part-1 سلام ہو اُس زمیں پر جس کے ویرانے نے ہمیں آباد کیا

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/agha-shorish-kashmiri-safarnama-hijaz-part-2/d/130096

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..