ڈاکٹر ذیشان احمد مصباحی،
نیو ایج اسلام
(قسط-4)
21 جنوری 2023
فقہائے احناف کی تفصیل
محققین فقہائے حنفیہ نے
غنا کے مسئلے میں تفصیل کی ہے ،مثلا:
۱-علامہ
فخر الدین زیلعی حنفی، (۷۴۳ھ)
لکھتے ہیں:
وعظ وحکمت پر مشتمل شعر
پڑھنا بالاتفاق جائز ہے۔ اسی طرح شعر کے اندر کسی وفات یافتہ متعین عورت کا ذکر
ہو،یا کسی غیر معین عورت کا ذکر ہو تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں۔ البتہ متعین اور
حیات یافتہ عورت کا ذکر ہو تو یہ مکروہ ہے۔ اسی طرح بعض مشائخ نے شادی میں غنا کو
جائز کہا ہے۔ کیا یہ نہیں دیکھتے کہ شادی کے موقع پراعلان نکاح کے لیے دف بجانے
میں کوئی حرج نہیں۔ خود اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: اَعلِنُوا النِّکَاحَ وَ لَو
بِالدُّفِّ۔ (نکاح کا اعلان کرو، اگرچہ دف سے ہی کیوں نہ ہو۔ )بعض مشائخ اس بات کے
قائل ہیں کہ شاعری سیکھنے کے لیے اور فصاحت کلام پر قدرت کے لیے نغمہ سنجی کرنے
میں کوئی حرج نہیں۔ البتہ بعض مشائخ نے اسے مطلقاً مکروہ کہا ہے، جب کہ بعض نے اسے
مطلقاً مباح کہا ہے۔‘‘( تبیین الحقائق، شرح کنزالدقائق:۴/۲۲۲، کتاب الشہادۃ، باب من
تقبل شہادتہ ومن لاتقبل)
۲- علامہ
بدر الدین عینی (۸۵۵ھ)
نے بھی یہی لکھا ہے اور اسے ذخیرہ، فتاویٰ قاضی خان اور جامع المحبوبی کی طرف
منسوب کیا ہے۔ (البنایہ شرح الہدایہ: ۱۲/۸۹)کتاب الکراھیۃ ،
فصل الاکل والشرب)
۳- علامہ
زین الدین ابن نجیم مصری(۹۷۰ھ)لکھتے
ہیں:
اس سے ظاہر یہی ہےکہ نغمہ
گناہ کبیرہ ہے، اگرچہ دوسروں کو سنانے کے لیے نہ ہو، بلکہ دفع وحشت کی خاطر صرف
اپنے لیے ہی کیوں نہ ہو۔یہی شیخ الاسلام [خواہر زادہ] کا قول ہے؛ کیوں کہ وہ
مطلقاً منع کے قائل ہیںاور امام سرخسی اس نغمہ کو منع کرتے ہیں جو برسبیل لہو ہو،
جب کہ بعض علماے احناف صرف شادی اور ولیمے میں اس کے جواز کے قائل ہیں اور بعض محض
دفع وحشت کے لیے صرف اپنی ذات کو سنانے کے جواز کے قائل ہیں۔ اسی طرح بعض فن شاعری
اور فصاحت کلام سیکھنے کی غرض سے جواز نغمہ کے قائل ہیں۔ (البحر الرائق شرح
کنزالدقائق: ۷۷/ ۸۸،
باب من تقبل شہادتہ و من لاتقبل)
۴- محقق
علی الاطلاق علامہ کمال الدین ابن الہمام حنفی(۸۶۱ھ) لکھتے ہیں:
دفع وحشت کے لیے اور سماع
ذات کے لیے نغمہ سرائی کے سلسلے میں مشائخ حنفیہ کا اختلاف ہے۔ بعض نےغیر مکروہ بتایا
اور کہا کہ مکروہ وہ نغمہ ہے جو بطور لہو ہو۔ ان کا استدلال حضرت انس بن مالک والی
روایت سے ہےکہ وہ اپنے بھائی براء بن مالک کے پاس گئے جو رسول اللہ ﷺ کے زاہد
صحابہ میں سے تھے۔ دیکھا کہ نغمہ سنجی فرما رہے ہیں۔ شمس الائمہ سرخسی کا یہی مذہب
ہے۔
اس کے برخلاف بعض مشائخ
غنا کو بہر صورت مکروہ کہتے ہیں۔ شیخ الاسلام خواہرزادہ کا یہی مذہب ہے۔ یہ حضرات،
حضرت براء بن مالک والی روایت کو اس پر محمول کرتے ہیں کہ وہ حکمت و موعظت پر
مشتمل مباح اشعار گنگنا رہے تھے۔ چوں کہ لفظ غنا جس طرح اپنے متعارف مفہوم میں
استعمال ہوتا ہے، اسی طرح اس کے علاوہ غیر متعارف مفہوم میں بھی استعمال ہوتا ہے۔
اللہ کے رسول ﷺ فرماتے ہیں : جو غنا بالقرآن نہیں کرتا وہ ہم میں سے نہیں۔ مَن
لَم یَتَغَنَّ بِالقُرآنِ فَلَیسَ مِنَّا۔ اور مباح اشعار پڑھنے میں کوئی حرج
نہیں۔
اس سے ہمیں یہ معلوم ہوا
کہ نغمۂ حرام وہ ہے جو غیرشرعی معانی پر مشتمل ہو۔مثلاً کسی زندہ مرد یا عورت کے
اوصاف پر مشتمل ہو۔({ FR 3548 }) شراب کا ایسا ذکر ہو جو شراب کی طرف داعی ہو،اس میں شراب خانوں
اور فسق کے اڈوں کا ذکر ہو، کسی مسلم یا ذمی کی ہجو کی گئی ہواور شعر پڑھنے والے
کا مقصود بھی ہجو ہو،اس نے بطور استشہاد یا اس کی فصاحت وبلاغت کو سمجھنے کے لیے
نہ پڑھا ہو۔
کتاب الحج میں گزرا کہ
حضرت ابوہریرہ نے حالت احرام میں یہ شعر پڑھا تھا:
قَامَتْ تُرِيك رَهْبَةً
أَنْ تَهْضِمَا
سَاقًا بَخَنْدَاةً
وَكَعْبًا أَدْرَمَا
(وہ ہلکے بدن والی وقار وتمکنت کے ساتھ اپنی بھری ہوئی پنڈلی اور
گٹھے ہوئے ٹخنے دکھاتی ہوئی کھڑی ہوئی۔ )
اسی طرح حضرت ابن عباس نے
یہ شعر پڑھا تھا:
إنْ يَصْدُقِ الطَّيْرُ
نَنِكْ لَمِيسًا
اگر قسمت نے یاوری کی تو
نرم وگداز محبوبہ کا وصال پائیں گے۔
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس
طرح سے عورت کی وصف بیانی بھی مطلقاً ممنوع نہیں؛ کیوں کہ ان دونوں اشعار میں کسی
متعین عورت کا ذکر نہیں ہے۔ اگر اس طرح سے غیر متعین عورت کی حسن بیانی بھی ممنوع
ہوتی، تو صحابہ یہ وصف بیانی نہیں کرتے۔ اس سلسلے میں سب سے قطعی بات یہ ہے کہ
حضرت کعب بن زہیر نے حضرت رسالت مآب میں یہ اشعار پڑھے:
وَمَا سُعَادُ غَدَاةَ
الْبِينِ إذْ رَحَلُوا
إلَّا أَغَنَّ غَضِيضُ
الطَّرَفِ مَكْحُولُ
تَجْلُو عَوَارِضَ ذِي
ظُلَمٍ إذَا ابْتَسَمَت
كَأَنَّهُ مَنْهَلٌ
بِالرَّاحِ مَعْلُول
۱-صبح
جدائی، جب اس کا کارواں کوچ کر رہا تھا، وہ سرمگیں آنکھوں والی، نگاہیں جھکائے
گنگناتی جارہی تھی۔
۲-جب
وہ مسکراتی ہے تو اس کے سفید لعاب دار دانت کھل جاتے ہیں، جیسے وہ یکے بعد دیگرے
شراب سے تر ہوں۔
اسی طرح حضرت حسان کے
بیشتر اشعار کا بھی یہی حال ہے۔ مثلاً انہوں نے یہ شعر جناب رسالت مآب میں پیش
کیا، آپ ﷺ نے سنا اور اس پر نکیر نہیں فرمائی:
تَبَلَتْ فُؤَادَك فِي
الْمَنَامِ خَرِيدَةٌ
تَسْقِي الضَّجِيعَ
بِبَارِدٍ بَسَّام
خواب میں تمہارے دل کو
ایک کنواری دوشیزہ دیوانہ بناگئی، جو اپنے عاشق کو شرابی تبسم سے سیراب کر رہی
تھی۔
رہازہریات کا معاملہ، جو
عورتوں کے ذکر کے بغیر محض کلیوں، پھولوںاور دل کش چشموں کے ذکر پر مشتمل ہوتی ہے،
تو اس کی ممانعت کی کوئی وجہ نہیں ہے۔جیسے ابن معتز کا یہ شعر:
سَقَاهَا بِغَابَاتٍ
خَلِيجٌ كَأَنَّهُ
إذَا صَافَحَتْهُ رَاحَةُ
الرِّيحِ مُبْرِدُ
چھوٹی نہر نے اس باغ کو
سبزوں اور جھاڑیوں سے سیراب کر رکھا ہےاور جب ہوا کا جھونکا اس سے ہم آغوش ہوتا
ہے تو یہ اسے اور ٹھنڈا کردیتا ہے۔
اور اس کے یہ اشعار:
وَتَرَى الرِّيَاحَ إذَا
مَسَحْنَ غَدِيرَهُ
صَقَّلْنَهُ وَنَفَيْنَ
كُلَّ قَذَاةِ
ہواؤں کو تم دیکھوگے کہ
جب اس کے کنویں سے چھوکر گزرتی ہیںتو اس کو چمکا دیتی ہیں اور اس کی ہر آلودگی کو
صاف کردیتی ہیں۔
مَا إنْ يَزَالُ عَلَيْهِ
ظَبْيٌ كَارِعًا
كَتَطَلُّعِ الْحَسْنَاءِ
فِي الْمِرْآةِ
ہرنی اس کے اوپر سے اسے
ایسے ہی دیکھتی ہے، جیسے کوئی حسینہ آئینہ دیکھتی ہو۔
ہاں! اگر ااس قسم کے
اشعار آلات موسیقی پر پڑھے جائیں تو پھر اس کی ممانعت ہوگی، خواہ وہ اشعار حکمت و
موعظت پر ہی مشتمل کیوں نہ ہوں۔اور یہ ممانعت ان آلات موسیقی کے سبب ہوگی، محض
نغمہ سرائی کے سبب نہیں ہوگی۔ واللہ اعلم۔
اور مغنی کے سلسلے میں
تحقیق یہ ہے کہ اگر کوئی مرد صالح فحش شعر کی نغمہ سرائی کرے، جب بھی اس کی عدالت
ساقط نہیں ہوگی۔ (فتح القدیر: ۷/
۴۰۱۹، ۴۱۰)(جاری)
--------------
Urdu Article: Listening to Songs in the Light of the Hanafi School
of Jurisprudence – Part 1 سماع نغمہ-مذہب حنفی کی روشنی میں
Urdu Article: Listening to Songs [Naghma] in the Light of the
Hanafi School of Jurisprudence – Part 2 سماع نغمہ-مذہب حنفی کی روشنی میں
Urdu Article: Listening to Songs [Naghma] in the Light of the
Hanafi School of Jurisprudence – Part 3 سماع نغمہ-مذہب حنفی کی روشنی میں
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism