اکرام احمد، نیو ایج اسلام
1 جون 2017
ذاکر نائیک ایک متنازعہ اسلامی
ٹی وی مبلغ ہیں جو یہ ظاہر کرنے کی کوشش کے لیے جانے جاتے ہیں کہ قرآن پاک اور جدید
سائنس کے مابین ایک قسم کی مطابقت ہے۔ یوٹیوب پر ’قرآن اور جدید سائنس ہم آہنگ یا غیر
ہم آہنگ‘ کے عنوان پر اپنی گفتگو میں انہوں نے قرآن پاک کی بہت سی آیات کی تلاوت کی
جن کا ہو سکتا ہے کہ سائنسی علوم سے تعلق ہو۔ اس کے بعد انہوں نے ان آیات کا موازنہ
کئی شعبوں کے متعدد سائنسی نظریات سے کیا ہے مثلاً: طب، فلکیات، ارضیات وغیرہ۔
لیکن پہلی بات تو یہ ہے کہ
ذاکر نائیک کو یہ ثابت کرنے کے لیے سائنسی شواہد کیوں درکار ہیں کہ قرآن خدا کی کتاب
ہے یا اتنی صدیوں میں کبھی بھی کوئی تحریف نہیں ہوئی ہے؟ کیا مذہب کو سائنسی سند کی
ضرورت ہے؟
ذاکر نائیک اور ان کے ساتھیوں کو
کارل پاپر کی کتاب Science as Falsification کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ مذہب کو ثابت کرنے کے لیے
سائنسی اصول کو استعمال کرنا ایک عجیب بات ہے۔
جب کوئی سائنس دان کسی سائنسی کام
کا آغاز کرتا ہے- تو اس کی بنیادی فکر یہ ہے کہ وہ ایسے طریقے تلاش کرے جن سے نظریہ
کو تجربات کے ذریعے غلط ثابت کیا جا سکے۔ یہ وہ بنیادی اصول ہے جو سائنس کو مذہب سے
الگ کرتا ہے، کیونکہ مذہب ہمیشہ falsification کے تصور کو تسلیم نہیں کرتا ہے۔ کیونکہ اس کے اصول
و قواعد سخت ہوتے ہیں۔ توہین مذہب یا کفر و الحاد کے امکان کی وجہ سے اس مومنین کے
جذبات بھی شامل ہوتے ہیں۔ سب سے اہم یہ ہے کہ مذاہب خدا کے عطا کردہ ہیں۔
یہ مذہب پر اعتراض کرنے یا مذہب
پر سائنس کی برتری ثابت کرنے کی کوشش نہیں ہے۔ اس کے باوجود، یہ ایک واضح فرق قائم
کرنے کی کوشش تھی۔ مومنوں اور کسی بھی خدا پر یقین کو الگ ہی رکھا جائے۔ اپنے ایمان
کے جواز میں لیبارٹریوں کو کیوں پیش کیا جائے؟
ذاکر نائیک نے بدقسمتی سے
کئی مواقع پر اس باریک سرحد کو توڑا ہے۔
لیکن ان کی سب سے بڑی حماقت ایک
حالیہ گفتگو سے عیاں ہے جس میں انہوں نے ایک معصوم مسلمان لڑکی کو ایک مضحکہ خیز جواب
دیا، جبکہ اس نے ایک سادہ سا سوال کیا تھا: "مسلم دنیا سائنس میں پسماندہ کیوں
ہے؟"
اس پر ان کا ایک طویل جواب اس یوٹیوب
لنک پر سماعت کریں۔
youtube.com/watch?v=R-rfBAtEh2o
نائیک بے ترتیب انداز میں آٹھ سے
بارہویں صدی کے قرون وسطیٰ کے عرب سائنسدانوں کے نام لیتے ہیں اور انہیں بڑے آرام سے
مسلم سائنسدان قرار دیتے ہیں۔ لیکن یہ اتنا ہی بے معنی ہے جتنا آئن سٹائن کو یہودی
سائنسدان یا نیوٹن کو عیسائی سائنسدان کہنا۔ آخر کار، کشش ثقل عیسائی نہیں ہے، اور
نظریہِ اضافیت یہودی نہیں ہے. مذہب کا سائنس سے کوئی تعلق نہیں!
قرون وسطیٰ کے دوران تمام سائنسی
کارنامے خلفائے راشدین کی سرپرستی میں انفرادی ذہانت کا نتیجہ تھے۔ مسلم دنیا، بالعموم،
سلطانوں اور خلفاء کی مہربانیوں کی وجہ سے ترقی کے منازل طے کیا ہے۔ خلیفہ ہارون الرشید
اور مامون کی سرپرستی میں بیت الحکمہ (حکمت کا گھر) کی بنیاد رکھی گئی تھی، جہاں مسلمان،
یہودی، عیسائی سب مل کر بلا تفریق انسانیت، سائنس، ریاضی، فلکیات، طب، کیمیا اور کیمسٹری،
حیوانیات، جغرافیہ اور کارٹوگرافی کی تعلیم حاصل کرتے تھے۔ انفرادی صلاحیتوں کو ثقافت
اور مذہبی شناخت کے سائے میں نہیں رہنا چاہیے۔ برائے مہربانی ابن سینا اور ابن رشد
کو چھوڑ دیں جو عقل پرست انسان تھے۔
یہ دلچسپ بات ہے کہ بہت سے مسلمان
قرون وسطی کے مسلمانوں کے سائنسی کارناموں پر فخر کرتے ہیں، لیکن اگر وہ واقعی ان دانشوروں
کے حقیقی عقائد کو جاننے کے لیے کچھ وقت صرف کریں، تو وہ ان کے بے شمار ملحدانہ عقائد
سے آگاہ ہو سکتے ہیں۔ اگر وہ دانشور آج زندہ ہوتے تو کوئی مسلم ملک انہیں پناہ نہ دیتا۔
وہ پناہ گزینوں کی طرح پوری دنیا میں ادھر سے ادھر بھاگ رہے ہوتے، ان کی واحد امید
کوئی مغربی ملک ہوتا، اور مسلم میں انہیں کہیں پر سر چھپانے کی بھی جگہ نہیں ملتی۔
اس کے علاؤہ ان کے اوپر توہین مذہب کے الزامات، اور قتل کیے جانے کا بھی خطرہ موجود
ہوتا۔
بہت سے مسلم سائنسدان اور
فلسفی ملحد تھے۔ لیکن اس سے پہلے کہ میں ان کے عقائد کو پیش کرنا شروع کروں، اسلام
میں معتزلہ کے ذریعے عقلیت پسندی کے اثرات کو بیان کرنا ضروری ہے۔ یہ ایک آزاد تحریک
کے طور پر ابھری لیکن بعد میں یہ یونانی فلسفے کی گہرائی کا مقابلہ نہیں کر سکی۔ مسلم
دنیا اپنے پیشروؤں کے چھوڑے ہوئے ورثے سے مالا مال تھی۔ یونان، فارس اور ہندوستان کے
اثرات نے مسلم دنیا کو تقویت بخشی۔ شکر ہے کہ خلیفہ مامون تھا اور کوئی بغدادی نہیں
تھا جس نے ایک حد تک گمراہ عقیدوں کو برداشت کیا۔
اسلامی دنیا میں چند آزاد خیال
مفکر اور گمراہ لوگ یہ ہیں:
ابن المقفع: وہ ساتویں صدی کا ایک
آزاد مفکر اور اسلام کا نقاد تھا۔ وہ ایک زندیق تھا۔ اس نے فارسی اور سنسکرت ادب کا
عربی میں ترجمہ کیا۔
ابن الراوندی: وہ ایک سابق معتزلی
اور ایک ایسا شخص تھا جو دوئیت پر یقین رکھتا تھا اور بعد میں اس نے خدا کے وجود پر
ہی سوال اٹھا دیا۔
الفارابی کسی نہ کسی اسپینوزا قسم
کے خدا پر یقین رکھتے تھے۔
ابن سینا کا نظریہ ارسطو اور
نو افلاطونیت کا مرکب تھا۔ راسخ العقیدہ فقہاء نے اس کے کاموں کو کبھی قبول نہیں کیا۔
اس وقت وہ ایک ملحد تھا اور اگر وہ اس دور میں پیدا ہوتا تو کچھ بھی نہ بدلتا۔ راسخ
العقیدہ فقہاء کے پاس اپنی بقا کا ایک شاندار طریقہ کار ہے۔ ان کے وراثت زندہ رہتی
ہے اور پروان چڑھتی ہے۔ وہ روح کی منتقلی پر بھی یقین رکھتے تھے۔
الرازی ہر زمانے کے ایک عظیم طبیب
رہے ہیں۔ ان کی قابلیت اور علمی لیاقت کو 17 ویں صدی تک کوئی چیلنج نہیں کر سکتا۔ وہ
ہر قسم کے منظم مذہب کے خلاف تھے۔ وہ انبیاء کو لوگوں کے لیے نقصان دہ سمجھتے تھے اور
کئی بار ان کے خلاف توہین آمیز کلمات کہے۔ ذاکر نائیک نے ان کے نظریے کو جانے بغیر
ویڈیو میں ان کے نام کا ذکر کیا ہے۔
مسلم دنیا کے بہت سے بڑے بڑے مفکرین
اور سائنس دان ملحد تھے اور قرون وسطیٰ کی عرب دنیا کے ان ملحد دانشوروں کے کارناموں
پر اب مسلمانوں کو فخر کرتے ہوئے دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ امت مسلمہ کو ان ملحدوں سے
ناواقف ہونے کی وجہ سے دوہری پٹی باندھنا ہوگی۔ سادہ سی بات ہے کہ اگر وہ آج زندہ ہوتے
تو ان میں سے کوئی بھی مشرق وسطیٰ یا مسلم دنیا میں رہنے کو ترجیح نہ دیتا۔ وہ بھاگ
کر کسی مغربی ملک میں پناہ لیتے۔
ذاکر نائیک کے عوامی مذاکرے، جو
وہ ایک تنظیم IRF (اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن) کے ذریعے منعقد کرتے ہیں، ایک معمہ ہے۔ اس
کا مقصد اسلام کی وہابی تشریحات کو پھیلانا ہے۔
کوئی بھی عقلمند شخص جو سوال
پوچھنے کی کوشش کرتا ہے اس کا مذاق اڑایا جاتا ہے اور بیان بازی کے ساتھ نظرانداز کر
دیا جاتا ہے, جو کہ حماقت سے پر ہوتا ہے۔ اس پاگل پن کو روکنے کی ضرورت ہے اس سے پہلے
کہ یہ مسلم نوجوانوں کو تباہ کر دے اور انہیں بنیاد پرست بنا دے۔ وہ نظریات جن کی وہ
حمایت کرتے ہیں مسلم نوجوانوں میں سائنسی مزاج کو تباہ کر دے گا۔ لڑکی نے نادانستہ
طور پر ایک شاندار سوال پوچھ لیا جس نے ذاکر نائیک کے جھوٹے دعوؤں کو بے نقاب کر دیا۔
حقیقت یہ ہے کہ اگر مسلم دنیا سائنس میں ترقی کرنا چاہتی ہے تو اسے سائنس کو مذہب سے
الگ کر کے اسے ایک الگ نظریہ کے طور پر دیکھنے کی ضرورت ہے۔
English Article: Zakir Naik’s Lies about Muslim Scientists: Can the
Muslim Scientists of the Golden Age of Islam Be Called 'Heretics'?
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism