New Age Islam
Sun Jun 15 2025, 08:39 PM

Urdu Section ( 5 Jul 2022, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Why Muslim Ulema's Condemnation Of Udaipur Killing Is Hypocritical ادے پور کے قتل پر مسلم علماء کی مذمت منافقانہ کیوں ہے: اصل مجرم ما ورائے قرآن فقہ ہے جس میں توہین رسالت کے جرم میں سر قلم کرنے کی اجازت ہے

 ارشد عالم، نیو ایج اسلام

 30 جون 2022

 اس طرح کے تشدد کی بنیاد فقہ کے اندر ہے۔ کوئی عالم اس پر سوال اٹھانے کو تیار نہیں۔

 اہم نکات:

1.      دہشت گردی کو جدید شہری اور قومی زندگی کو متاثر کرنے کے لیے تشکیل دیا گیا ہے۔

2.      بریلوی بنیاد پرستی ایک منفرد خطرہ ہے کیونکہ یہ برصغیر کے مسلمانوں کا سب سے بڑا فرقہ ہے۔

3.      تمام مسلم تنظیموں نے اس بہیمانہ قتل کی مذمت کی ہے۔

4.      لیکن ان میں سے کسی نے بھی فقہی قانوں کو تبدیل کرنے یا سر قلم کرنے کی اجازت دینے والی احادیث کو مسترد کرنے کی بات نہیں کی ہے۔

 ------

 نوپور شرما کی حمایت میں سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے پر ادے پور میں ایک ہندو دکاندار (بائیں) کو دو افراد (داہنے) نے قتل کر دیا۔

 -----

 ادے پور میں ایک درزی کنہیا لال کا وحشیانہ قتل خالص دہشت گردی ہے۔ اس قتل کا مقصد ان تمام لوگوں کو خاموش کرنا ہے جو توہین رسالت کے معاملے میں مختلف نقطہ نظر رکھتے ہیں۔ یہ دہشت گردی صرف ہندوؤں کو ہی نہیں بلکہ ان مسلمانوں کو بھی خاموش کرنے کے لیے ہے جو مسلسل یہ دلیل دیتے رہے ہیں کہ آہانت جیسے مسائل کی آج کوئی افادیت نہیں ہونی چاہیے۔ یہ ایک دہشت گردانہ کارروائی بھی ہے کیونکہ یہ کسی بھی ایسے شخص کو مارنے یا معذور کرنے کے لیے وحشیانہ تشدد کے عالمی رجحان میں شامل ہے جو پیغمبر اسلام کی حرمت کو برقرار رکھنے پر یقین نہیں رکھتا ہے۔

 بہت سی جگہوں پر، اس دہشت گردی کا اثر یہ ہوا ہے کہ لوگ اپنی زبان بند کر رہے ہیں یا اسلام کے ان پہلوؤں پر تنقید کرنے میں شدید ہچکچاہٹ کا شکار ہو رہے ہیں جنہیں وہ ذاتی طور پر اچھا نہیں مانتے۔ جو جدید قومی ریاست کے وجود پر ذرا بھی یقین رکھتا ہے ضروری ہے کہ وہ اس کے خلاف آواز اٹھائے۔ کیونکہ ایک شہری قومی زندگی کا تصور اس خطرے کے بغیر، خیالات کے آزادانہ تبادلے کے بغیر ممکن نہیں، کہ کسی کو محض بولنے کی وجہ سے قتل کر دیا جائے۔

قاتلوں کی طرف بنائی گئی ویڈیو، اس عمل کو انجام دینے کے ان کے عزم کو ظاہر کرتی ہے۔ یہ کوئی اتفاق نہیں بلکہ ایک سوچا سمجھا اقدام تھا۔ 17 جون کو بنائی گئی ایک ویڈیو میں ایک قاتل پہلے ہی پیغمبر کی شان میں گستاخی کا بدلہ لینے کے اپنے ارادے کا اعلان کرتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ اس ویڈیو میں فیروز عطاری مقامی مسلمانوں کو لعن طعن کرتے ہوئے نظر رہا ہے کہ انہوں نے کچھ نہیں کیا جبکہ نبی کی ناموس پر حملہ کیا جا رہا ہے۔ دوسری ویڈیو میں، جو قتل کے ارتکاب کے بعد بنائی گئی تھی، وہ محمد غوث کے ساتھ مل کر فخریہ طور پر یہ اعلان کر رہا ہے کہ ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کا بدلہ لیا ہے اور دیگر جگہوں کے مسلمانوں کو بھی ایسا ہی کرنا چاہیے۔ وہ نبی سے اپنی محبت کا اعلان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ صرف ان کی شان اور عزت کے لیے ہی جیتے اور مرتے ہیں۔

 مسلمانوں نے ہمیشہ قرآن کے ساتھ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو ایک زہد و تقویٰ والی زندگی کا دو اہم ترین ماخذ مانا ہے۔ اسلام کے تقریباً تمام فرقے پیغمبر اسلام کا حد سے زیادہ احترام کرتے ہیں۔

 تاہم، برسوں سے بریلویوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی محبت کو جنون کی حد تک بڑھا رکھا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس کا تحفظ اب ایک ایسی واحد سیاست ہے جس کے ذریعے بریلوی برصغیر پاک و ہند میں اپنی پہچان بنا رہے ہیں۔ لبیک یا رسول اللہ کی صدائیں چٹاگانگ سے اسلام آباد تک سنائی دے رہی ہیں، اس امید کے ساتھ کہ بریلوی طاقت کو برصغیر کے مسلمانوں کی سب سے اہم آواز مانا جائے گا۔ اور وہ ہوا میں بات نہیں کرتے: ہندوستان سمیت جنوبی ایشیا میں مسلمانوں کی اکثریت انہیں کی ہے

کئی سالوں سے، وہ دیوبندیوں سے پیچھے رہے کیونکہ وہ زیادہ مہذب ہونے کی وجہ سے حکومت تک رسائی حاصل کرنے اور مختلف اداروں میں بغیر کسی مزاحمت کے دخل اندازی کے قابل تھے۔ اپنے حق سے محروم، آج کے بریلوی اپنا حق واپس لینا چاہتے ہیں۔ ان کا راستہ یہ ہے کہ وہ اپنی سیاست کا تانا بانا کو توہین رسالت کے مسئلہ کے گرد بننا چاہتے، جو کہ ایک ایسا مذہبی نوعیت ہے جس کی مخالفت کرنا تقریباً تمام مسلم حکومتوں کے لیے مشکل ہو گا۔

 فیروز عطاری اور محمد غوث دونوں کا تعلق بریلوی مسلک سے ہے۔ یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ ان میں سے ایک پاکستان گیا تھا اور تبلیغی تنظیم دعوت اسلامی کے قریب تھا جو دیوبندی سے منسلک تبلیغی جماعت کے متوازی ایک تنظیم ہے۔ اگر یہ سچ ہے تو یہ ایک بین الاقوامی بنیاد پرستی کا معاملہ ہے جس کی اچھی طرح سے چھان بین کی ضرورت ہے۔ تاہم، بنیاد پرست ہونے کے لیے کسی کو پاکستان جانے کی ضرورت نہیں ہے، آن لائن کافی مواد دستیاب ہے جس کے ذریعے کوئی بھی انسان خود بخود بنیاد پرست بن سکتا ہے۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ ماضی قریب میں ہندوستان کے اندر بریلوی اسی طرح کے نعرے لگاتے رہے ہیں اور یہ سمجھنا سود مند ہوگا کہ اس فرقے کے اوسط پیروکاروں پر اس کا کیا اثر ہے۔

 ابھی حال ہی میں 20 جون کو بریلوی رہنما توقیر رضا کی جانب سے نوپور شرما کی گرفتاری کے مطالبے میں ایک بہت بڑی ریلی نکالی گئی اور اس ریلی میں لبیک یا رسول اللہ کے نعرے لگائے گئے۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ بریلوی اعتدال پسند ہیں جبکہ دیوبندی سخت گیر ہیں، انہیں دوبارہ سوچنے کی ضرورت ہے۔ بعض حالات میں، نام نہاد اعتدال پسند بھی انتہا پسند بن سکتے ہیں۔ اس سے زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ اس بار ہم مسلمانوں کے اندر اکثریتی فرقے کی بات کر رہے ہیں جس کا اگر تھوڑا سا حصہ بھی بنیاد پرستی کا شکار ہو جاتا ہے تو ہمارے سامنے سیکورٹی کا بڑا مسئلہ پیدا ہو گا۔

 یہ بات خوش آئند ہے کہ تمام مسلم تنظیموں نے کنہیا لال کے قتل کی کھل  مذمت کی ہے۔ لیکن ان سے اور بھی بہت کچھ کی توقع کی جا سکتی ہے کیونکہ صرف اس منافقانہ مذمت سے کچھ نہیں ہو گا۔ ان سب نے اس حقیقت کو اجاگر کیا ہے کہ اس طرح کا قتل کرنا غیر قانونی اور غیر اسلامی ہے۔ انہوں نے یہ کہا ہے کہ اس طرح کی سزا ایک مناسب کارروائی کے بعد ہی دی جانی چاہیے۔ اس طرح کے بیانات سے صرف یہی ثابت ہوتا ہے کہ ان مسلم تنظیموں میں سے کوئی بھی تنظیم اس نظریہ کی مذمت نہیں کرتی ہے کہ توہین رسالت کرنے والوں کو قتل کیا جانا چاہیے۔ ان کی صرف محدود تنقید یہ ہے کہ اس طرح کی سزا دینا صرف (سیکولر یا اسلامی) حکومت کا ہی استحقاق ہے۔ یعنی مسلم تنظیموں کو قرون وسطیٰ کے اس خیال سے کوئی پریشانی نہیں ہے کہ توہین رسالت کرنے والوں کو قتل کر دیا جائے۔ ان میں سے تقریباً سبھی نے توہین رسالت کے قانون کا مطالبہ کیا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی کہا ہے کہ وہ آئینی جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں!

 یہ بنیادی پرستی کی مذمت کیے بغیر بنیاد پرستوں کی مذمت کے مترادف ہے۔ گستاخ کا سر قلم کرنے کا خیال حدیث یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نام نہاد اقوال سے ثابت ہے۔ یہ اسلام کی بنیادی تعلیمات کا ہرگز حصہ نہیں ہے۔ قرآن میں اس کا واضح طور پر کہیں کوئی تذکرہ نہیں ہے، بلکہ یہ مسلمانوں کو صبر اور عفو و درگزر کا درس دیتا ہے اور انبیاء علیہم السلام کی توہین اور ان پر کیے جانے والے مظالم کا تذکرہ کرتا ہے۔ درحقیقت قرآن کہتا ہے کہ تمام انبیاء کو توہین و تذلیل کا سامنا کرنا پڑا۔ احادیث میں توہین رسالت پر سزا کی تعلیم دی گئی ہے۔ اسلامی شریعت نے، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے 120 سال بعد سب سے پہلے مرتب کی گئی تھی، اور جو حالات اور جگہ کے اعتبار سے مختلف ہے، بعض نسخوں میں اس نظریے کو برقرار رکھا ہے کہ توہین رسالت کرنے والے کو ایسی سزا دی جانی چاہیے۔ اسلامی صحیفوں پر سوال اٹھائے بغیر اس مسئلے پر کوئی نتیجہ خیز بحث ممکن نہیں۔

آج زور و شور سے یہ کہنے کی ضرورت ہے کہ عصر حاضر کا اسلام توہین رسالت کے تصور کو بالکل نہیں مانتا۔ اس کے لیے ہمیں ایسے فقہی قانوں پر نظرثانی کرنا، چیلنج کرنا اور اسے مسترد کرنا ہوگا، جس میں اب بھی توہین رسالت کرنے والوں کے قتل کی اجازت موجود ہے۔ ایسا کرنے کی ذمہ داری پوری طرح سے مسلم تنظیموں کے کندھوں پر ہے، خواہ وہ مذہبی ہوں یا کچھ اور۔ اس سے نظریں چرا کر وہ قوم مسلم کمیونٹی اور ملک ہندوستان بہت بڑا نقصان کر رہے ہیں۔

 English Article: Why Muslim Ulema's Condemnation Of Udaipur Killing Is Hypocritical: The Real Culprit Is The Post-Quranic Theology Which Sanctions Beheading For Blasphemy

Malayalam Article: Why Muslim Ulema's Condemnation Of Udaipur Killing Is Hypocritical: മുസ്ലീം ഉലമ ഉദയ്പൂർ കൊലപാതകത്തെ അപലപിക്കുന്നത് എന്തുകൊണ്ടാണ് കാപട്യമാകുന്നത്: മതനിന്ദയുടെ പേരിൽ ശിരഛേദം ചെയ്യുന്ന ഖുർആനികാനന്തര ദൈവശാസ്ത്രമാണ് യഥാർത്ഥ കുറ്റവാളിക്കുള്ളത്

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/ulema-udaipur-killing-quranic-theology-blasphemy/d/127405

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..