New Age Islam
Sun Jun 22 2025, 10:41 AM

Urdu Section ( 9 Sept 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Types of Jihad: A Critical Look - Part 2 اقسام جہاد - ایک تنقیدی نظر

ذیشان احمد مصباحی، نیو ایج اسلام

9 ستمبر،2023

اللہ کے رسول ﷺ فرماتے ہیں:

الجهاد ماض منذ بعثني الله عز وجل إلى أن يقاتل آخر أمتي الدجال لا يبطله جور جائر ولا عدل عادل.(سنن ابو داؤد( ۲۵۳۲)، سنن سعید بن منصور( ۲۳۶۷)،مسند ابو يعلی(۴۳۱۱) وغیرہ۔اس حدیث کو شیخ شعیب ارناؤوط نے سنن ابو داؤد کی تعلیق میں حسن لغیرہ کہا ہے۔)

جہاد اس دن سے جاری ہے جس دن اللہ نے مجھے مبعوث فرمایا اور اس وقت تک جاری رہے گا جب میرا آخری امتی دجال سے برسرپیکار ہوگا۔ کسی ظالم کا ظلم یا کسی عادل کا عدل جہاد کو موقوف نہیں کرسکتا۔

اس حدیث پاک سے معلوم ہوتا ہے کہ جہادایک فرض مسلسل عمل ہے۔اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ شریعت میں جہاد محض جنگ سے عبارت نہیں ہے،چوں کہ جنگ کے مفہوم میں جو جہاد فرض ہوا، وہ ہجرت کے بعد مدینے میں ہوا۔ بعثت کے وقت بلکہ اس کےکئی  سالوں بعد تک جہاد بمعنی ظالم کے خلاف جنگ فرض نہیں تھا۔ اس سے واضح ہوا کہ شریعت میں جہاد کا مفہوم بہت ہی وسیع ہے۔ یہ ظلم وجبر اور باطل کے خلاف ایک جہد مسلسل ہے، خواہ زبان کے ذریعے ہو خواہ قلم کے ذریعے، فکر کے ذریعے ہو یا عمل کے ذریعے، انفرادی سطح پر ہو یا اجتماعی سطح پر، عوامی سطح پر ہو یا حکومتی سطح پر۔ اس کا ضعیف ترین درجہ جہاد بالقلب ہے، یعنی ظلم وجبر اور شر کو دل سے برا جاننا ۔ ظاہر ہے کہ دل پر کسی ظالم وجابر کا تسلط نہیں ہوتا۔اس لیےکم از کم اس مفہوم میں جہاد ہر وقت اور ہر شخص پر فرض ہے۔

بہرکیف! اس حدیث پاک سے جہاں یہ بات واضح ہے کہ جہاد فرض مسلسل ہے، وہاں یہ بھی واضح رہے کہ جنگ فرضِ مسلسل نہیں ہے۔ جنگ تو اصلاً مبغوض اور ناپسندیدہ عمل ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے نہ صرف ہمیشہ جنگ لڑنے کی بلکہ جنگ اور مڈبھیڑ کی تمنا کرنے کی بھی مذمت کی ہے۔امام مسلم نے اپنی کتاب میں ایک پوراباب ہی اس عنوان سے باندھا ہے:

بَابُ كَرَاهَةِ تَمَنِّي لِقَاءِ الْعَدُوِّ، وَالْأَمْرِ بِالصَّبْرِ عِنْدَ اللِّقَاءِ.(کتاب الجہاد والسیر)

دشمن سے مڈبھیڑ کی تمنا مکروہ ہے، لیکن مڈبھیڑ ہوجائے تو ثبات قدمی ضروری ہے۔

اس باب میں دو باتیں بتائی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ جنگ اپنی اصل کے اعتبار سے اچھی اور قابل ترجیح چیز نہیں ہے، اس لیے اس کی آرزو کرنا بھی اچھی بات نہیں ہے، البتہ جب دشمن گھیر لےاور جنگ ناگزیر ہوجائےتو اس وقت پیٹھ دکھا کر بھاگنا اور بزدلی کا مظاہرہ کرنا، یا رونا گڑگڑانا یہ بھی مردوں کا شیوہ نہیں۔ ایسے موقع پر ’’تنگ آمد بجنگ آمد‘‘ کا اصول کام کرتا ہے۔

اب رہا یہ کہ جب جنگ اصلاً اچھی بات نہیں ہے، پھر جہاد کی مسلسل فرضیت کے کیا معنی ہیں؟ اس کااجمالی جواب یہ ہے کہ در اصل جہاد نام ہے خیر کے لیے جدوجہد کا جو فرض مسلسل ہے، البتہ اس کے تفصیلی جواب کے لیے اقسام جہاد کو سمجھناضروری ہے، جس سے معلوم ہوگا کہ ساری غلط فہمی اس پر مبنی ہے کہ جہاد کو صرف جنگ کے معنی میں لیا جاتا ہے۔ 

جہادکی الگ الگ جہتوں سے کئی قسمیں ہیں، جن میں تین قسمیں بہت نمایاں ہیں:

قسم اول-جہاد اصغر

قیام امن وامان اور ازالۂ ظلم وفساد کے لیے مسلح جدوجہد۔ یہ جہادجنگ کی صورت میں ہوتا ہے۔ عربی میں اس کے لیے خاص لفظ قتال موجودہے۔یہی عام طور پر جہاد کا متعارف مفہوم ہے۔ زیادہ تر اسی پر بحثیں ہوتی ہیں اور اسی پر سوالات کیے جاتے ہیں، جب کہ اہل بصیرت کی نگاہ میں یہ جہاد اصغرہے۔یہ کتاب اسی سے متعلق ہے۔

جہاد کی یہ قسم وزارت دفاع (ministry of defence) سے متعلق ہے۔ جس طرح تاریخ کے ہر دور میں حکومتوں کا ایک شعبہ ملکی دفاع سے متعلق سپاہ وسلاح  کے لیے مختص رہا ہے، اسلام نے بھی بعض اصولی اور اخلاقی اصلاحات کے ساتھ اسے باقی رکھا ہے۔

قسم دوم-جہاد کبیر

فکر ونظر کی دنیا میں صحت کی تلاش اور حق کی سربلندی کے لیے علمی جدوجہد۔ اس میں تیغ وسپاہ کی حاجت نہیں ہوتی۔ اس جہاد کی سب سے اعلیٰ قسم اجتہاد ہے، جس میں وحی کے اجالے میں موجودہ دنیا کے احکام و مسائل کے حل تلاش کیے جاتے ہیں۔ جہاد کے سیاق میں عام طور پر اس کا ذکر ہی نہیں ہوتا، جب کہ اسلام نے سب سے پہلے اسی جہاد کا حکم دیا ہے۔ حکم ہوا:

 وَجَاهِدْهُمْ بِهِ جِهَادًا كَبِيرًا (الفرقان: ۵۲)

 قرآن لے کر ان منکرین کےخلاف زبردست جہاد کرو!

یہ آیت اگرچہ دعوت حق کے علمی اثبات کے تناظر میں نازل ہوئی ہے،لیکن اس کے عموم میں تمام تر لسانی، قلمی، علمی، فکری،فلسفی، عقلی، تعلیمی، دعوتی،سیاسی، تدبیری اور اخلاقی معرکہ آرائیاں شامل ہیں۔ ملک وملت اور سماج وسیاست میں پھیلے مختلف النوع امراض ومسائل کے خلاف جدوجہد، صحت، معیشت، تربیت،ماحولیات اور اخلاقیات کی اصلاح کے لیے اٹھایا جانے والا ہر قدم ، جہاد کے اسی باب سے تعلق رکھتا ہے۔

جس طرح جہاد اصغر وزارت دفاع سے متعلق ہے، اسی طرح جہاد کبیر تعلیمی، اقتصادی اور دیگر فلاحی وتعمیری وزارتوں سے متعلق ہے۔ جہاد اصغر فوجیوں کا کام ہے، جب کہ جہادکبیرعلما، محققین، مفکرین، دانشوروں، صحافیوں اور دیگرماہرین کا کام ہے۔

قسم سوم-جہاد اکبر

اپنے نفس کومنفی خواہشات اور شرپسندی سے روکنے کے لیے اپنے آپ سے داخلی جد و جہد۔یہ عارفین اور صوفیہ کا موضوع ہے۔ وہ اس کے لیے اسپیشل لفظ مجاہدہ کا استعمال کرتے ہیں۔ صوفیہ نے ایک زمانے تک اپنی خانقاہوں کو اسی قسم کے جہاد کے لیے مختص رکھا اور آج بھی دنیا کے مختلف خطوں میں -اپنے تمام تر وصف زوال کے باوجود-اس کی شمع جلائے ہوئے ہیں۔یہ سب سے بڑا جہاد ہے، کیوں کہ اس میں خود سے لڑنا ہوتا ہے اور خود سے کی جانے والی جنگ بہت بڑی جنگ ہوتی ہے۔ بقول شیخ ابراہیم ذوق :

نہنگ و اژدہا و شیر نر مارا تو کیا مارا

بڑے موذی کو مارا نفس امارہ کو گر مارا

جہاد بالنفس جہاد اکبر ہے، اس میں کوئی شک نہیں ہے۔نصوص شرع اور مقاصد دین پر نظر رکھنے والے اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے۔ یہاں تک کہ یہ جہاد ہر شخص کے لیے ہر وقت فرض ہے۔زندگی کی ہر تگ ودو اور جدوجہد کی ساری مساعی کی قبولیت اسی جہاد اکبر پر موقوف ہے۔ یہ تصحیح نیت، تحصیل تقویٰ، ترک شہوات اور اعمال واحوال صالحہ سے قلب وروح کو مزین کرنے کی ظاہری وداخلی جدوجہد سے عبارت ہے۔ یہ نہ ہو تو جہاد اصغر اور جہاد کبیر بھی مقبول نہ ہوں۔ ظلم وجبر کے خاتمے کے لیے سیف وسنان چلاتے وقت بھی تزکیۂ قلب اور تجلیۂ روح مطلوب ہے۔ارشاد باری ہے:قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاهَا وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسَّاهَا (الشمس: ۹، ۱۰)کامیاب وہی ہوا جس نے نفس کو پاک وصاف کیا، جس نے اسے آلودہ کیا وہ ناکام و نامراد رہ گیا۔

’’جہاد بالنفس جہاد اکبر ہے‘‘اس کی تائیدایک حدیث پاک سے بھی ہوتی ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نےایک جنگ سے واپسی کے موقع پر ارشاد فرمایا:رجعنا من الجهاد الاصغر إلى الجهاد الاكبر. مسند الفردوس میں یہ الفاظ وارد ہیں:قدمتم من الجهاد الاصغر إلى الجهاد الاكبر مجاهدة العبد هواه.تم جہاد اصغر سے جہاد اکبر کی طرف آئے، جو کہ جہاد بالنفس ہے۔محدثین نے اس حدیث کو ضعیف کہا ہے، لیکن جو معنی سطور بالا میں بیان کیا گیا ہے، اس کے قوی ہونے میں کسے شبہہ ہوسکتا ہے۔ مزید ایک حدیث صحیح بھی اس مفہوم کی ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ فرماتے ہیں:الْمُجَاهِدُ مَنْ جَاهَدَ نَفْسَهُ. فی الواقع مجاہد وہ ہے جو اپنے نفس سے جہاد کرے۔(ترمذی: ح: ۱۶۲۱)

جہاد کی ان تینوں اقسام کو علی الترتیب جہاد عند الضرورۃ، جہاد فرض کفایہ اور جہاد فرض عین کہا جاسکتا ہے۔تاہم بعض ایسی صورتیں درپیش ہوتی ہیں جن میں جہاد اصغر بھی فرض عین ہوتا ہے، مثلاً کسی جگہ دشمنوں کا اچانک حملہ ہوجائے تو وہاں کے تمام افراد پر ضروری ہوتا ہے کہ اپنی ، اپنے اہل وعیال اور اپنی قوم کی حفاظت کے لیے سینہ سپر ہوجائیں۔ اسی طرح بعض اوقات جہاد کبیر بھی فرض عین ہوجاتا ہےجب کہ سارے لوگ اس سے غافل ہوں۔

اس سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ جہاد اصغر، جہاد کبیر اور جہاد اکبر، مخصوص اصطلاحیں ہیں۔ اپنے مقام پر تینوں کی یکساں اہمیت ہے۔یہ مطلب نہیں کہ ان میں سے کوئی کم اہمیت کا حامل ہے۔

ایک دوسری توجیہ

جہاد کی ان تینوں قسموں کوایک حدیث میں ایک الگ انداز سے بیان کیا گیا ہے:

مَنْ رَأَى مُنْكَرًا فَاسْتَطَاعَ أَنْ يُغَيِّرَ بِيَدِهِ فَلْيُغَيِّرْ بِيَدِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ بِلِسَانِهِ فَبِقَلْبِهِ، وَذَلِكَ أَضْعَفُ الْإِيمَانِ.تم میں جو شخص کوئی برائی دیکھے،اگر اس کے پاس طاقت سے روکنے کی استطاعت ہو تو اسے طاقت سے روک دے، اگر اس کی استطاعت نہ ہو تو زبان سے روکے، اگر اس کی بھی استطاعت نہ ہو تو اپنے دل سے روکےاور یہ ایمان کا ضعیف ترین درجہ ہے۔( سنن ابن ماجہ،أَبْوَابُ إِقَامَةِ الصَّلَوَاتِ وَالسُّنَّةِ فِيهَا،  بَابُ مَا جَاءَ فِي صَلَاةِ الْعِيدَيْنِ)

اس حدیث میں غور کرنے سے بہت سی باتیں معلوم ہوتی ہیں:

اس سے پہلی بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ شر سے نبرد آزمائی کے تین درجے ہیں:

۱-جہاد بالقوۃ، یہ حکام اور ان کے ماتحت فوج، پولس، قاضی اور منصب دار کا ہے۔ قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنی اپنی سطح پریہ کام دیگر ذمہ داران بھی کرسکتے ہیں۔یہ جہاد اصغر کے باب سے ہے۔

۲-جہاد باللسان، یہ علما، واعظین، فلاسفہ، حکما، اہل دانش، صحافی اور دیگر ارباب فکروقلم کا کام ہے۔ اس کام میں بھی انسانی آداب، اخلاقی اصول اور قانونی حدودکی پاس داری ضروری ہے۔ یہ جہاد کبیر کے باب سے ہے۔

۳-جہاد بالقلب، یہ ہر شخص کا ہر وقت کا فریضہ ہے۔ اچھے کو اچھا اور برے کو برا سمجھنا سب کے لیے ہر وقت ضروری ہے۔ ظلم کی تائید کبھی نہیں کی جاسکتی، کم از کم دل سے تو برا جانا ہی جائے گا۔ یہ جہاد بالنفس کے باب سے ہے۔

اس حدیث میں ذرا گہرے تدبرسے دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ شر کے خلاف لڑنے کے مختلف درجے ہیں، جو جس درجے کا ہو، اسے اپنے درجے سے لڑنا چاہیے، نہ یہ کہ جو ش جہاد اور جذبۂ خیر سے مغلوب ہوکر وہ کام کرنے لگے ، جس کی اسے اجازت ہی نہ ہو۔

تیسری بات یہ معلوم ہوئی کہ دل سے برا جاننا بھی بہرحال ایمان ہی کا حصہ ہے، اس لیے تیسرے درجے کے لوگ صرف دل سے برا جانیں، قانون اپنے ہاتھ میں نہ لیں۔

دفاعی یا اقدامی؟

جہاد اصغر یعنی اسلامی نظام جنگ کی ایک تقسیم دفاعی اور اقدامی جہاد کی طرف بھی کی جاتی ہے، جس کی حیثیت محض لفظی تقسیم کی ہے۔ اس پر بڑا غوغا ہے۔ بعض حضرات کا کہنا ہے کہ اسلام میں صرف دفاعی جنگ ہے، اسلام اقدام جہاد کو درست نہیں سمجھتا۔ اس کے برخلاف دوسری رائے یہ ہے کہ اسلام کا کام احقاق حق اور ابطال باطل ہے اور اس کے لیے صرف دفاعی ہی نہیں اقدامی جدوجہد کو بھی جائز سمجھتا ہے۔

 واقعہ یہ ہے کہ اس اختلاف کی حیثیت نزاع لفظی سے زیادہ کی نہیں ہے۔ جیسا کہ اس کتاب میں فلسفۂ جہاد کی وضاحت میں لکھا گیا ہے کہ اسلام میں جواز جنگ کی واحد علت ،ظلم وفساد کا خاتمہ اور قیام امن وامان ہے۔ اب اس کی دو صورتیں ہوسکتی ہیں:

۱-کسی کےپنجۂ ظلم وجبر سے اپنی آزادی کے لیے لڑنا۔

۲- کسی کے پنجۂ ظلم وجبر سے دوسروںکی آزادی کے لیے لڑنا۔

پہلی صورت کو آپ دفاعی جنگ اور دوسری کو اقدامی جنگ کہہ سکتے ہیں، وجہ یہ ہے کہ پہلی صورت میں آپ پر ظلم مسلط ہے اور اپنے دفاع اور بچاؤ کے لیے لڑ رہے ہیں، جب کہ دوسری صورت میں آپ پر کسی نے جنگ یا ظلم مسلط نہیں کیا ہے، ظلم کہیں اور ہورہا ہے، لیکن آپ خود بڑھ کر وہاں ظالم کے خلاف اقدام کر رہے ہیں۔اس اعتبار سے اسے اقدامی جنگ کہنا بجا ہے۔ لیکن اس واقعے کو آپ ایک دوسری جہت سے بھی دیکھ سکتے ہیں اور وہ یہ کہ پہلی صورت میں آپ اپنی مظلومیت کا دفاع کر رہے ہیں اور دوسری صورت میں آپ دوسروں کی مظلومیت کا دفاع کر رہے ہیں، اس طرح دونوں صورتوں میں آپ کی جنگ محض دفاعی ہی رہتی ہے۔ اسی عقدے کے حل کےلیے ایک تیسری نئی اصطلاح دفاعی-اقدامی (defensive-aggressive)سامنے آئی ہے۔

الحاصل! غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بحث محض لفظی ہے۔اصل بات یہ ہے کہ قانونی استحقاق اور استطاعت کی شرط کے ساتھ امن وآزادی کے حصول اور ظلم وجبر کے خاتمے کے لیے جدوجہد جاری رکھی جائے۔ یہی عقل کا تقاضا ہے اور یہی اسلام کو مطلوب ہے۔

۔۔۔۔۔

نوٹ: تین قسطوں پر مشتمل یہ مضمون جہاد کے موضوع پر  مولانا ذیشان مصباحی کی جلد ہی  زیور طبع سے آراستہ ہوکر منظر عام پر آنے والی کتاب  سے ماخوذ ہے ۔

-----------------

Part: 1 - The literal and conventional Meaning of Jihad - Part 1 جہاد کا لفظی اور عرفی مفہوم

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/types-jihad-critical-look-part-2/d/130636

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..