New Age Islam
Mon May 19 2025, 10:56 PM

Urdu Section ( 8 Sept 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

The literal and conventional Meaning of Jihad - Part 1 جہاد کا لفظی اور عرفی مفہوم

ذیشان احمد مصباحی، نیو ایج اسلام

8 ستمبر،2023

جہاد ایک عربی لفظ ہے، جس کا مادہ (root word) جہدہے۔ جہد کے معنی کوشش کے آتے ہیں۔ عربی زبان کا اصول یہ ہے کہ کسی لفظ میں اگر حروف بڑھتے جائیں تو معنی کے اندر قوت وشدت بھی بڑھتی جائے گی۔ اس اعتبار سے اس کے معنی سعی بلیغ (संघर्ष) کے ہوئے۔

 ایک دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ جہاد عربی میں باب مفاعلت کا مصدر ہے۔ باب مفاعلت کی خاصیت یہ ہے کہ اس میں فاعل ومفعول کے بیچ دوطرفہ کشاکش پائی جاتی ہے۔ اب اس کے معنی ہوئےکہ ایسی بڑی کوشش جس کو دبانے کے لیے کوئی دوسرا شخص بھی کھڑا ہو۔گویا جہاد صرف یہ نہیں ہے کہ آپ اپنا سامان طاقت سے اٹھالیں، بلکہ جہاد یہ ہے کہ آپ کا سامان کوئی دوسرا چھین رہا ہو اور آپ اپنا سامان اس کے ہاتھ سے چھڑا نے کے لیے اپنی کوشش اور طاقت صرف کر رہے ہوں۔

جہاد کا یہ لغوی مفہوم ہے جو اپنے لفظ ومادہ اور صیغہ(structure) سے واضح ہے۔ عرف میں اس کے اندر مزید ایک مفہوم شامل ہے اور وہ یہ کہ اگرچہ از روئے لغت ہر بڑی کوشش کو جہاد کہاجاسکتا ہے، خواہ وہ کوشش اچھی ہو یا بری، لیکن عوام میں اسے ہمیشہ اچھی کوشش کے ساتھ خاص سمجھا جاتا ہے۔ اس لیے کسی مظلوم کو اس کا حق دلانے کے لیے کوشش کی جائے اسے تو جہاد کہا جائے گا، لیکن کسی غریب کا مال لوٹنے کے لیے محنت و کوشش کو جہاد نہیں کہا جاسکتا۔

عرف شرع میں اس معنی کی مزید تخصیص کردی گئی ہےاور وہ تخصیص ہے فی سبیل اللہ کی تخصیص یا رضائے مولیٰ کی تخصیص۔یعنی اسلامی شریعت کی اصطلاح میں صرف کوشش کو جہاد نہیں کہا جاتا، صرف سعی بلیغ کو بھی جہاد نہیں کہا جاتا، صرف اچھی کوشش کو بھی جہاد نہیں کہا جاتا، بلکہ اسلام کی نظر میں جہاد وہ بڑی اچھی کوشش ہے جو کسی کار خیر میں رضاےمولیٰ کی خاطر انجام دی جائے۔

جہاد کے اسلامی مفہوم کے حوالے سے ایک عام غلط فہمی یہ ہے کہ اسے جنگ کے ساتھ خاص سمجھ لیا جاتا ہے۔ اسی غلط فہمی کا نتیجہ ہے کہ بہت سے لوگ اسے مذہبی جنگ (religious war) یا مقدس جنگ(holy war) کا ہم معنی سمجھ لیتے ہیں، جب کہ  یہ حقیقت نہیں ہے۔ جہاد کا ایک حصہ یا ایک قسم مذہبی جنگ ضرور ہے، لیکن مذہبی جنگ ہی کل جہاد نہیں ہے۔ اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ اسلام میں جہاد اس وقت فرض تھا جب جنگ کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

فَلَا تُطِعِ الْكَافِرِينَ وَجَاهِدْهُمْ بِهِ جِهَادًا كَبِيرًا (الفرقان: ۵۲)

منکرین کے نقش قدم پر مت چلو، بلکہ قرآن لے کر ان کے ساتھ زبردست جہاد کرو!

واضح رہے کہ یہاں  بِهِ سے مراد قرآن ہے۔ یہ حضرت ابن عباس کی تفسیر ہے۔ ظاہر ہے کہ قرآن کے ذریعے جو جہاد ہوگا، اس کی شکل علمی اور فکری مکالمے کی ہی ہوگی۔ قرآن کوئی ہتھیار تو ہے نہیں کہ اس کے ذریعے جنگ کی جائے اور لوگوں کو قتل کیا جائے۔  امام فخر الدین رازی تفسیر کبیر میں اس آیت کے تحت لکھتے ہیں:

’’یہاں جہاد سے مراد عمل اور دعا میں کوشش کرنا ہے۔ بعض حضرات نے اسے قتال اور جنگ کے معنی میں بھی لیا ہےاور ایک تیسرے گروہ نے اس کے مفہوم میں دونوں باتوں کو شامل رکھا ہے، جب کہ پہلی تفسیرہی اقرب ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ سورہ مکی ہےاور جہاد کا حکم ہجرت کے ایک زمانے کے بعد نازل ہوا۔‘‘

ہاں! یہ سچ ہے کہ ازالۂ فتنہ وفساد اورقیام عدل وانصاف کے لیے جنگ کرنا بھی جہاد ہے، یہ جہاد کی ایک قسم ہے، لیکن یہی کل جہاد نہیں ہے۔ اس جہاد کے لیے قرآن نے جس خاص لفظ کا استعمال کیا ہے وہ قتال ہے۔ قرآن میں اس کا پہلا حکم اسی لفظ کے ساتھ آیا ہے۔ ارشاد ہے: اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّهُمْ ظُلِمُوْا۝۳۹(حج)’’جن کے اُوپر مظالم ڈھاکر اُن کے خلاف جنگ مسلط کی گئی ہے، اُنھیں جنگ کی اجازت دی جاتی ہے۔ ‘‘

ایک دوسری آیت میں اس منصفانہ جنگ کا حکم اس طرح صادر ہوا:وَ قَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَكُمْ وَ لَا تَعْتَدُوْا۝۱۹۰ (بقرہ)’’جو تم سے جنگ کریں، ان سے اللہ کی راہ میں جنگ کرواور حد سے نہ بڑھو۔‘‘

ہاں! یہ ضرور ہے کہ عام طور پر لفظ جہاداس جنگ کے معنی میں ہی متعارف ہوگیا۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ حقیقت میں جہاد کو صرف اسی مفہوم تک محدود رکھا جائے۔

ایک بات جو اور بہت اہم ہے، وہ یہ کہ جہاد فساد کے خلاف ہے۔جہاد کی مشروعیت صرف اسی وجہ سے ہوئی ہے تاکہ دنیا سے فساد کا خاتمہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام میں جس قدر جہاد کی فضیلت اور تحسین وارد ہے، اسی قدرظلم وفساد، بغاوت وبربریت اور دہشت گردی کی مذمت وارد ہے۔

 بدقسمتی سے کچھ اپنوں کی سادگی اور کچھ دوسروں کی چالاکی کے سبب ایک عرصے سے جہادکو فساد کے مفہوم میں ہی متعارف کردیا گیا ہے۔جہاد کے اوپر یہ سب سے بڑا ظلم ہے۔ یہ فلسفے کی اس کہانی کی طرح ہے کہ ایک دن جھوٹ نے سچ سے کہا ، تالاب کا پانی بہت اچھا ہے، چلو نہاتے ہیں۔سچ کو تامل ہوا، چیک کیا تو بات سچ تھی، وہ جھوٹ کے ساتھ تالاب میں نہانے لگا، اتنے میں جھوٹ تیزی کے ساتھ باہر نکلا، جلدی سے سچ کا لباس پہنا اور فرار ہوگیا۔ جب سے سچ شرمِ بے لباسی میں آبادی سے باہر دور صحرا میں چھپا ہوا ہے اور جھوٹ سچ کا لباس زیب تن کیے ہوئے، شہروں میں دندناتا پھر رہا ہے۔

الحاصل! جہاد لغت میں سعی بلیغ اور شریعت میں قیام خیر کی جدوجہد ہے، جس کی ایک قسم قتال بھی ہے، جو فساد نہیں بلکہ رفع فساد سے عبارت ہے۔

۔۔۔۔۔

نوٹ: تین قسطوں پر مشتمل یہ مضمون جہاد کے موضوع پر  مولانا ذیشان مصباحی کی جلد ہی  زیور طبع سے آراستہ ہوکر منظر عام پر آنے والی کتاب  سے ماخوذ ہے ۔

-----------

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/literal-conventional-meaning-jihad-part-1/d/130628

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..