ارشد عالم،
نیو ایج اسلام
28 جون 2022
مذہب کو ریاست
سے الگ کرنا ایک ایسی چیز ہے جس پر دنیا بھر کے مسلم ممالک کو کام کرنے کی ضرورت ہے۔
اہم نکات:
1. ایک مسلم اکثریتی ملک تیونس مذہبی طور پر ایک غیر
جانبدار ریاست بننے کے لیے تیار ہے، جس کا فیصلہ اگلے ماہ ریفرنڈم کے ذریعے لیا جائے
گا۔
2. اگر کامیابی ملی تو یہ اسلامی
سیاست کی قانونی حیثیت کے سب سے اہم ماخذ کو ختم کر دیگا۔
3. صدر پر آمریت پسند ہونے
کا الزام لگایا جا رہا ہے، لیکن بہت سے لوگوں کا یہ بھی ماننا ہے کہ وہ ملک میں سیکولرازم
کی آخری امید ہیں۔
-----
Tunisian
President Kais Saied (L), President receiving the new constitution (R), images
via Tunisian Presidency on Twitter
-----
تیونس اسلام کو اپنے آئین سے نکالنے
کے لیے تیار ہے۔ نئے آئین کا مسودہ قانون کے پروفیسر صادق بلید نے تیار کیا ہے اور
اس کی ایک کاپی صدر قیس سعید کو پیش کر دی گئی ہے۔ اتفاق سے، صدر، جن پر بہت سے لوگ
ایک آمریت پسند ہونے کا الزام لگاتے ہیں، خود قانون کے پروفیسر رہ چکے ہیں، اور بڑے
پیمانے پر لوگ اس امید میں ہیں کہ وہ اس نئے آئین کی توثیق کریں گے۔ تاہم، اس سے پہلے
اس معاملے پر ملک بھر میں ایک ریفرنڈم ہوگا جس میں شہریوں کو ایسے اقدام کی خوبیوں
اور خامیوں پر بات کرنے کا موقع دیا جائے گا۔ اگر اس کی عام توثیق ہو جاتی ہے تو یہ
تیونس کی تاریخ میں پہلی بار ہو گا کہ اسلام ریاست کا مذہب نہیں رہے گا۔ یہ بات قابل
ذکر ہے کہ اگرچہ یہاں کی اکثریتی آبادی مسلمان ہے، لیکن ریاست شرعی قانون کے تحت نہیں
بلکہ ایک یورپین لیگل کوڈ کے تحت چلتی ہے جسے اس کے نوآبادیاتی آقا نے تیار کیا تھا۔
ملک میں ایک مضبوط سیکولر روایت رہی ہے لیکن اسلام ہمیشہ آئینی کتابوں میں موجود رہا
ہے۔
ریاست کا مذہب نہ ہونے کا
کیا مطلب ہے؟ اور یہ ریاست اور معاشرے کے تعلقات پر کیا اثر ڈالے گا؟ اولا، تجزیہ نگاروں
کا کہنا ہے کہ تیونس میں مغربی قانونی نظام کے تحت حکومت ہونے کے باوجود، عدلیہ میں
بہت سے لوگ اسلام کا حوالہ دیتے رہتے ہیں کیونکہ یہ آئین کا حصہ ہے۔ اسے ہٹانے کے بعد
اس طرح کے حوالے پیش کرنا ممکن نہیں رہے گا کیونکہ عدلیہ اب ایسا کرنے کی پابند نہیں
ہوگی۔ ہمیں یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ شریعت اسلام پسندوں کا ایک سب سے بڑا ہتھیار
ہے۔ وہ جہاں بھی ہوں، ان کا منصوبہ ہمیشہ شریعت کے نفاذ کا مطالبہ رہا ہے۔ اگر ریاست
کا مذہب اسلام ہو، تو اس سے اسلام پسندوں کے ہاتھ ایک موقع لگ جاتا ہے، کیونکہ وہ ہمیشہ
گھوم پھر کر حکومت پر آئین کے ساتھ انصاف نہ کرنے کا الزام لگا سکتے ہیں۔ لفظ اسلام
کو ہٹانے سے یہ یقینی ہو جائے گا کہ اسلام پسند اپنے دعووں کو پیش کرنے کے لیے ایک
اہم حیلے سے محروم ہو جائیں گے۔
پاکستان اس بات کی ایک جیتی جاگتی
مثال ہے کہ کس طرح علماء کا ایک چھوٹا سا گروہ بھی حکومت کو اسلام کے نام پر یرغمال
بنا سکتا ہے۔ چونکہ ایسی صورت میں ریاست اسلام کی پابند ہوتی ہے، اس لیے جب اس کے پہلوؤں
کو نافذ کرنے کا مطالبہ کیا جاتا ہے تو وہ اس سے اپنا دامن نہیں چھوڑا سکتی۔
یہ بھی بتانا ضروری ہے کہ
تیونس کی سب سے بڑی اسلام پسند تحریک النہضہ عرب بہاریہ کے بعد برسراقتدار آئی۔ تاہم،
اپنی انتخابی مجبوریوں کی وجہ سے اور اعتدال پسند چہرہ دکھانے کے لیے، النہضہ نے کئی
سمجھوتے کیے، جن میں سے ایک شریعت کے نفاذ کے مطالبے کو ترک کرنا بھی تھا۔ دراصل،
2014 میں، اس نے اعلان کیا کہ پارٹی اب سیاسی اسلام کا دعویٰ نہیں کرے گی بلکہ اسے
مسلم جمہوریت کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔ تحریک کے تبصرہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اس
طرح کے اتار چڑھاؤ کی وجہ سے غریب اور نچلے متوسط طبقے کے اندر اس کی سماجی بنیاد کو
ضرر پہنچا ہے اور آج پارٹی کے پاس وہ گرفت نہیں ہے جو پہلے اسے حاصل تھی۔
مزید برآں، النہضہ کبھی بھی
سیکولر طبقے کو قائل نہیں کر سکتی تھی کیونکہ مؤخر الذکر کو ہمیشہ اس کے مقاصد پر شک
تھا۔ یہ یقینی طور پر صدر کے لیے اچھی خبر ہے جنہیں النہضہ کی جانب سے سخت مزاحمت کا
سامنا کرنا پڑتا اگر وہ طاقتور پوزیشن میں ہوتی۔
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ النہضہ
صدر سعید کے ساتھ ہے۔ النہضہ ان کی مخالفت کرتا ہے، لیکن ظلم اور آمریت کے معاملے میں،
اس میں نہیں جو موجودہ حکومت اسلام کے ساتھ کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔ النہضہ تیونس
میں واحد اپوزیشن نہیں ہے بلکہ قدامت پسندی کی طرف جھکاؤ رکھنے والے کارکنان بھی موجود
ہیں جو اجتماعی طور پر کافی طاقتور ہیں لیکن ان میں سے کسی نے بھی آئین سے اسلام کو
ہٹانے کی تجویز پر سعید کی تنقید نہیں کی ہے۔ وہ یقیناً ملک کو جمہوریت کی طرف واپس
لانے میں ناکامی پر ان کی مخالفت کرتے ہیں۔ لیکن جو لوگ سعید کے مخالف ہیں وہ النہضہ
کے اسلامی نظریے کے بھی مخالف ہیں اور اس لیے وہ اس اہم مسئلے پر اتحاد کرنا پسند نہیں
کریں گے۔
اسی لیے ایسا لگتا ہے کہ جب 25
جولائی کو ریفرنڈم ہوگا تو تیونس اس خطے کا پہلا ملک بن سکتا ہے جو یہ اعلان کرے کہ
ریاست کا اپنا کوئی مذہب نہیں ہوگا۔ اس کے حصول میں مشکلات بھی موجود ہیں۔ ملک کو بے
مثال معاشی بحران کا سامنا ہے لیکن موجودہ صدر بے حد مقبول ہیں۔ سروے نے مسلسل ان کی
مقبولیت کو نمایاں کیا ہے، اور خاص طور پر نوجوانوں میں ان کی مقبولیت میں کافی اضافہ
ہوا ہے۔ جب یکے با دیگرے حکومتیں ملک کو لوٹتی گھسوٹتی ہیں تو پاپولسٹ لیڈر اس خلا
کو پر کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور تیونس میں بھی ایسا ہی ہوتا نظر آ رہا ہے۔
تیونس میں بہت سے لوگوں کے لیے، سعید ہی ملک کو اقتصادی بحالی کے راستے پر واپس لانے
کی آخری امید ہیں۔ بہت سے لوگوں کے لیے، وہی آخری فصیل ہیں جن کے گرد سیکولر قوتیں
تیونس کی تاریخ کا ایک نیا باب لکھ سکتی ہیں۔
دہشت گرد جماعتیں ضرور صورتحال
پر گہری نظر رکھ رہی ہوں گی۔ 2015 میں داعش نے باردو میوزیم پر حملہ کر کے 22 افراد
کو ہلاک کر دیا تھا۔ تھوڑی دیر بعد، انہوں نے سوس پر حملہ کر دیا، جو کہ ایک سیاحتی
مقام ہے جس میں 38 افراد ہلاک ہوئے اور صنعت سیاحت کو بڑا نقصان پہنچا ہے۔ دہشت گردوں
کے پاس ہمیشہ ایک سے زیادہ ایجنڈے ہوتے ہیں لیکن سب سے اہم ایجنڈہ یہ ہے کہ وہ نہیں
چاہتے کہ اعتدال پسند اسلام کسی ملک میں مضبوط ہو۔ تیونس آج تبدیلی کے اس موڑ پر ہے
اور اگر یہ کسی واضح تشدد کے بغیر مکمل ہو جاتا ہے تو یہ ایک بہت بڑی کامیابی ہوگی۔
مذہب کو ریاست سے الگ کرنا ایک ایسی ذمہ داری ہے جس پر دنیا بھر کے مسلم ممالک کو کام
کرنے کی ضرورت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism