New Age Islam
Sat Oct 12 2024, 12:05 PM

Urdu Section ( 17 Dec 2020, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Tribulation Of Takfiriyyah, Religions, Sects Of Islam And We: Part-3 فتنۂ تکفیریت ، مذاہب و مسالک اسلام اور ہم

احمد جاوید

13 دسمبر 2020

 صحابی رسول اسامہ بن زیدؓکا نام کس نے نہیں سنا۔ یہ وہی نوجوان ہیں جن کو حضوراکرم ﷺ نے اپنے وصال سے عین قبل اپنے جلیل القدراصحاب پر لشکر اسلام کا سالار مقرر فرمایا تھا۔ان کی کم سنی کے پیش نظر حضرت عمر فاروقؓ نےآپ ﷺ کے بعد امیرالمومنین حضرت ابوبکر صدیق ؓکو مشورہ دیا کہ کسی اور کو سپہ سالار بنادیں تو وہ ان پر سخت ناراض ہوگئے تھے کہ جس کو اللہ کے رسول نے امیر مقرر کیا میں اس کو ہٹادوں۔ یہ آپ کے چہیتےغلام زید کے بیٹے تھے، ان کی پرورش آپ ﷺ کی گود میں ہوئی تھی۔روایات میں آیا کہ آپ کے ایک زانو پر آپ کا نواسہ اور دوسرے پر اسامہ بیٹھے ہوتے تھے۔اسی چہیتے نوجوان اور جاںنثار صحابی کے ساتھ ایک جنگ میں یہ واقعہ پیش آیا کہ ایک شخص ان کی تلوار کے نیچے آگیااور اسے اپنی جان بچنے کی کوئی صورت نظر نہ آئی تو اس نے کلمہ توحید پڑھ لیالیکن اسامہ بن زید نے اس کی ایک نہ سنی اور اس کی گردن مار دی۔ پیغمبراسلام ﷺ کو اس کا علم ہوا تو آپ ﷺ نے اس پر سخت ناگواری کا اظہار فرمایا ۔آپ ﷺنے اسامہ سے کہا کیا تم نے اس کے لاالہ الا اللہ کہنے کے بعد بھی قتل کردیا؟ اسامہ بن زیدؓ نے عرض کیا کہ اس نے صرف اپنی جان بچانے کے لیے ایسا کیا تھا۔ آپﷺ کو ان کا یہ جواب پسند نہ آیا ۔ آپﷺ نے فرمایا: تم نے اس کا دل چیر کر کیوں نہیں دیکھا کہ تم کو معلوم ہوجاتا کہ اس نے دل سے کہا تھا یا صرف زبان سے کہہ رہا تھا۔نبی کریم ﷺ اس جملے کو بار بار دوہراتے رہے اور ایک روایت میں ہے کہ آپ ﷺ اس جملے کو دوہراتے رہے کہ کیا تم نے اس کے لاالہ الا اللہ پڑھنے کے باوجود اسے قتل کردیا؟حضرت اسامہ کہتے ہیں کہ کاش! میں اسی دن مسلمان ہوا ہوتا(تاکہ میرا اسلام اتنے بڑے گناہ سے آلودہ نہ ہواہوتا)۔ بعض روایتوں میں آیا ہے کہ آپ ﷺنے فرمایاکہ قیامت کے دن جب یہ کلمہ طیبہ تمہارے سامنے آئےگا تو کیا کروگے؟ اسامہ سخت نادم تھے، حضور سے دعائے مغفرت کی درخواست کررہے تھے لیکن نبی کریم ﷺ بار بار اسی جملے کو دوہراتے رہے کہ جب قیامت کے دن جب یہ کلمہ تمہارے سامنے آئےگا تو کیا جواب دوگے؟بخاری اور مسلم کی ان روایات کو نقل کرنے اور کئی دوسری احادیث لانے کے بعد ’ مسئلہ تکفیرو متکلمین‘ کے مصنف نے لکھا ہے کہ ’جو کافر قطعی یقینی اور دشمن دینی حتمی ہو، اگر وہ بہ ظاہر جان بچانے کے لیے بھی کلمہ توحیدپڑھ لے تواس کے الفاظ کا اعتبار کیا جائےگا اور اس کی باطنی کیفیت یا اس کی نیت کے معاملے کو اس کے اور اللہ کے حوالے چھوڑ دیا جائےگا۔ ہم شرعی طور پر اس بات کے مکلف ہیں کہ جو اپنے آپ کو مسلمان کہے ہم بھی اس کو مسلمان مانیں۔یہ بحث کتاب کا بارہواں باب ہے۔ جی چاہتاہے کہ ’راہ اعتدال‘ کے عنوان سے پیش کردہ کوئی ۲۳صفحات کو محیط اس بحث کو پوری کی پوری یہاں نقل کروں لیکن کاش! اخبار کے ان کالموں میں اس کی گنجائش ہوتی۔ یہ مضمون مصنف کے اس جملہ سے شروع ہوتا’ بنیادی اعتبار سے اسلام دین تبلیغ ہے، دین تکفیر نہیں ہے۔

بےشک تکفیر دنیا کے دوسرے مذاہب کی طرح اسلام میں بھی ہے،ایسا نہیں ہے کہ یہ کوئی جرم یا شرعی گناہ ہے بلکہ یہ ایک شرعی ذمہ داری ہےلیکن سوال یہ ہے کہ یہ ذمہ داری کس کی ہے؟ کیا ہرعالم ، مفتی ، فقیہ ، واعظ اور شیخ کو یہ حق حاصل ہےیا یہ صرف ریاست اسلام کا حق ہے؟ جس طرح کسی کو کسی ملک یا ریاست کی شہریت سےکوئی حاکم ،جج ، قاضی یا سربراہ مملکت بغیر مقدمہ چلائے اور صفائی کا موقع دئے محروم نہیں کرسکتا ، اسی طرح کسی کو خارج ازاسلام کرنے کے لیے بھی ایک پروسس ہے ، اسلام اور شریعت اسلام نےاصول و قواعد اور شرائط و ضوابط طے کئے ہیں اور تکفیر تو صرف شہری اور مذہبی حقوق کی منسوخی کا معاملہ نہیں ، اس کے نتیجے میں تو انسان اپنی جان کی حرمت کھودیتا ہے، وراثت کا حق منسوخ ہوجاتا ہے، نکاح ختم ہوجاتا ہے، نماز جنازہ اور مسلمانوں کے قبرستان میں دفن ہونے کاحق تک کھودیتا ہے،اس پر لعنت جائز ہوجاتی ہے اور اسے خلود فی النار کا حقدار قرار دے دیا جاتا ہے، اتنے سخت احکامات اس بات کے متقاضی ہیں کہ اس امر میں کس قدر احتیاط اور تحقیق لازم ہے۔مصنف نے اس پر کتاب کی ابتدا میں ہی تفصیلی  روشنی ڈالی ہے کہ غلو فی التکفیر کوئی عیدجدید کا نیا فتنہ نہیں ہے، اس کا سرا عہد صحابہ سے ملا ہوا ہے ، نیا صرف یہ ہے کہ آج مسلمانوں کا اجتماعی سیطرہ مفقود ہے جس کے سبب اس کی تباہ کاریاں ناقابل بیان حد تک بڑھ گئی ہیں۔آج کوئی ذوالفقار حیدری نہیں ہے جو خوارج عصر کی تکفیری فتنہ سامانیوں کا سدباب کردےجس نے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر اخوت اسلامی کے احساس کو مٹادیا اور مسلمانوں کو مسلمانوں کے ہی لہو کا پیاسا بنادیا ہےاور اسی کا اثر ہے کہ کروڑوں میں ہوتے ہوئے بھی ہندوستان جیسے ملکوں مسلمان اپناوزن کھوچکے ہیں اوردنیاکے نقشے پر پچاس سے زائد مسلم ریاستیں ہیں لیکن غیروں کے دریوزہ گر اور آلۂ کار۔ڈاکٹرذیشان احمد مصباحی نے سچ لکھا ہے کہ یہ تکفیریت کا فتنہ ہے ’’جس کے زیراثر امت کا تصور مضمحل ہوگیا ہے اور مسلک سے باہر دین کاتصور کفر سا لگنے لگا‘‘۔ 

اس میں کسی کی کوئی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ ایمان کی بنیادتصدیق رسالت ہے۔بعینہ کفر کی بنیاد تکذیب رسالت ہے، کسی مجدد، مجتہد،عالم، فقیہ،محدث، شیخ ، ولی پیر، صوفی اور امام کو ماننا یا نہ ماننا ، یہاں تک کہ صحابی کو ماننا نہ ماننا ایمان کی بحث سے خارج ہے،امیرالمومنین حضرت علی المرتضی نے ان کی تکفیر کرنے والے خوارج کی بھی تکفیر نہیں کی، ان سے جنگ کیا لیکن ان کو اپنا باغی بھائی کہا ۔شرک ، الحاد، یہودیت و عیسائیت ، انکارضروریات دین، تحریف قرآن، اہانت دین اور گستاخی رسول سب تکذیب رسالت ہی کی مختلف صورتیں ہیں، جب تک تکذیب رسالت سرزد نہ ہو، ایمان رہےگا، کفر نہ ہوگا۔ سب صحابہ ایک قبیح فعل ہےلیکن اگر کسی تاویل کی بنا پر ہو تو اس کی تکفیر نہیں کی جائےگی۔ علما کی ایک جماعت سب صحابہ کو کفر کہتی ہے لیکن یہ بات عندالتحقیق درست نہیں، زیادہ سے زیادہ یہ کفرلزومی ہوسکتا ہے، کفر حقیقی نہیں۔اسی طرح تکفیر قطعی اور تکفیر ظنی میں فرق ہے،تکفیر معین اور تکفیر غیرمعین کی شرائط مختلف ہیں، تکفیر لزومی اور تکفیر التزامی کے احکامات اور شخصی و جماعتی تکفیر ، تکفیر فقہی اور تکفیر کلامی کے اصول و قواعد ہیں۔بعض صورتوں میں کوئی قول کفر ہوگا لیکن قائل کافر نہ ہوگا۔مصنف نے ان باریکیوں پر جس خوبی سے روشنی ڈالی ہے، اس کی تعریف نہ کرنا زیادتی ہوگی۔ یہ ذکر پہلے آچکا کہ انہوں نے ان مباحث پر بحث کو آگے بڑھانے اور معاصررجحانات کا جائزہ لینے کے لیے امام غزالی کی کتاب ’فیصل التفرقہ والزندقہ‘ کو رہنما بنایا ہے۔ جس نے یہ فیصلہ کردیا ہے کہ ہرکافر مکذب رسول ہے اور ہر کذب رسول کافرکافر ہے لیکن ایک صورت اور بھی ہے کہ کوئی زبان سے تو تصدیق کرے لیکن اس کا دل کافر ہو۔ ایسے لوگوں کے لیے قرآن نے منافق کی اصطلاح استعمال کی گئی اور آیا کہ آخرت میں وہ جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں ہوں گے۔ہمارے درمیان بہت سے لوگ ہیں جو زبانی شہادت کو مسترد کردیتے ہیں ۔ وہ اپنے دعوے کے ثبوت میں قرآن کی ان آیات کو پیش کرتے ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ ان کا دعوی ایمان قابل اعتبار نہیں ہے جبکہ اس نوع کی آیات سے ایمان کی گواہی دینے والوں کو کافرومنافق قرار دینا صحیح دلائل سے غلط نتائج نکالنا ہے۔اللہ عالم الغیب و اشہادہ ہے، اللہ کے رسولﷺ کو بھی یہ حق تھا کہ آپ ﷺ وحی کے ذریعہ صداقت کا علم رکھتے تھے ۔کاش! مختلف مسالک اور مشارب کے لوگ ایک دوسرے کو کافر و مشرک کہنے سے پہلےٹھہر کر سوچ لیتے کہ وہ کیا کررہےہیں اور کیوں کررہے ہیں، ان کو اس کا مجازو مکلف کس نے بنایا کہ لوگوں کے جنتی اور دوزخی ہونے کا فیصلہ کریںاور دل چیرکر دیکھنے سے پہلےان کے دعویٔ ایمان کو مسترد کردیا کریں؟

13 دسمبر 2020،بشکریہ:انقلاب، نئی دہلی

Part: 1- Fitna, Takfiriyyah, Religions, Sects of Islam And Us فتنۂ تکفیریت ، مذاہب و مسالک اسلام اور ہم

Part: 2- Tribulation Of Takfiriyyah, Religions, Sects Of Islam And We: Part-2 فتنۂ تکفیریت ، مذاہب و مسالک اسلام اور ہم

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/tribulation-takfiriyyah-religions-sects-islam-part-3/d/123781


New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..