مولاناخالد سیف اللہ رحمانی
15فروری،2019
جب مغربی استعماریت مشرق کی طرف بڑھی، مسلم حکومتیں کمزور پڑ گئیں او رمغرب نے ان کو روند ڈالا تو لادینیت کا جو زہر وہ اپنے ساتھ لائے تھے ، انہوں نے یہاں بھی اس کے انجکشن لگانے شروع کئے اور یہ حقیقت ہے کہ مغرب کے نظریۂ لادینیت اور پھر مشرق کے بڑے خطے پر کمیونزم کے اقتدار نے مسلمانوں کے ایک طبقہ کو اس سے بہت زیادہ متاثر کیا، شاید یہ کہنا بے جانہ ہو کہ عالم عرب میں مصر اور عالم عجم میں بر صغیر اس فکر کی تبلیغ کا مرکز بن گیا۔ دیگر اہل مذاہب نے تو فوراً ہی انکار مذہب کی اس تحریک کے سامنے ہتھیار ڈال دیا: کیونکہ مذہب کے نام پر چند عباداتی رسوم کے سوا کوئی اور چیز ان کے یہاں موجود نہیں تھی ، یا تھی تو وہ انسانی آمیز شوں میں اپنے وجود کو گم کر چکی تھی اور اس میں ایسی نامعقول باتیں شامل ہوگئی تھیں ، جن میں حقائق کا سامنا کرنے کی صلاحیت نہیں تھی اس لئے انہوں نے فوراً ہی ہتھیار ڈال دیا اور صرف فرد کی نجی زندگی میں مذہب پر عمل کرنے کی گنجائش باقی رہ جائے،اسی کو اپنے لئے باقی سمجھا ۔ چنانچہ آج مسلمانوں اورکسی قدریہودیوں کے سوا کم و بیش تمام قوموں کی یہی صورتحال ہے، خود ہمارے ملک میں راسخ العقیدہ برادران وطن یہ تو کہتے ہیں کہ مسلم پرسنل لاء کو ختم کردیا جائے، لیکن کسی کو یہ کہنے کی جرأت نہیں ہے کہ ’’ منوسمرتی‘‘ پر مبنی حقیقی ہندوقانون کو لایا جائے، اس لئے کہ اس کو وہ بھی نا قابل عمل اور فرسودہ سمجھتے ہیں ۔
اب چونکہ لادینیت کے فلسفہ کے مقابلہ میں صرف اسلام ہے، اس لئے ان کی طرف سے سارے حملے اسلام پر کئے جاتے ہیں۔ اسلام چونکہ خالق کائنات کا بھیجا ہوا دین ہے اس لئے وہ کائنات کی فطرت ، عقل اور انسانی ضرورت و مصلحت سے صد فیصد ہم آہنگ ہے، اس لئے عمومی طور پر مسلمانوں پر یہ جادو نہیں چل پاتا ۔ آج بھی امت مسلمہ کی غالب ترین اکثریت اسلام پر بھر پور یقین رکھتی ہے اور ایمان کی جڑیں ان کے دل کی گہرائیوں میں پیوست ہیں ، اس لئے جیسے مغرب و مشرق کی دوسری قوموں نے اس فلسفہ کو قبول کرلیا، مسلمانوں کو فتح کرنے میں انہیں کامیابی حاصل نہیں ہوسکی۔ اس لئے مغرب نے مسلمانوں میں سے دوطبقوں کو اپنا آلۂ کار بنانے کی کوشش کی اور اعتراف کرناچاہئے کہ انہیں اس میں ایک حد تک کامیابی بھی حاصل ہوئی، ایک : مغرب نوازفر مانرواؤں کو مسلم ملکوں پر مسلط کرنا ، جنہیں عوامی انتخاب کے ذریعہ نہیں ، بلکہ فوجی انقلاب کے ذریعہ تخت اقتدار پر پہنچایا جائے اور ان سے جبر و تشدد کے ذریعہ مغربی نظام حیات کو نافذ کرایا جائے، اسلام کے قانون تعزیرات ، قانون مالیات، سیاسی نظام اور تعلیمی نظام کو تو ختم کر ہی دیا جائے، ساتھ ہی ساتھ عائلی زندگی کا تعلق چونکہ فرد کی نجی زندگی سے ہوتا ہے، اس لئے اس میں بھی احتیاط کے ساتھ اور تدریحی طور پر کاٹ چھانٹ کی جائے۔ مغرب کی اس ریشہ دوانی سے شاید ہی کوئی مسلم ملک محفوظ ہو۔
دوسرے: مسلمانوں کے جدید تعلیم یافتہ لوگوں میں ایک ایسا گروہ پیدا کیا جائے جس کے نام تو مسلمانوں کے سے ہوں، جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہوں او رجو مسلمانوں کی بہت سی سماجی تہذیبی روایت کو اپنائے ہوئے ہوں لیکن حقیقی معنوں میں اسلام پر ان کا یقین نہ ہو، وہ حدیث کا انکار کرتے ہوں، جو چیز مغربی مفکرین کے نزدیک نا قابل قبول ہو او رقرآن مجید میں اس کا ذکر آیا ہو، اس کی دور ازکار تاویل کرتے ہوں، شریعت کے جن احکام کو مغرب کی طرف سے خلاف عقل قرار دیا جاتا ہے، ان کو عارضی اور وقتی عمل قرار دے کر ان سے دامن بچاتے ہوں ، وہ اسلام کا ایک ایسا ایڈیشن تیار کرنے کی کوشش کریں، جس میں مغرب کے جذبۂ لذت اندوزی اور شہوت پرستی میں کوئی رکاوٹ باقی نہ رہے ۔ یہ کام قریب قریب ایک ہی زمانہ میں مصر اور ہندوستان میں شروع ہوا۔ علماء ربانیین کی کوششوں اور اسلام کی اپنی طاقت کی وجہ سے عوامی سطح پر انہیں اس سلسلہ میں کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوسکی او رمستشرقین کی طرف سے بھی غذا فراہم کرنے کے باوجود وہ اس میں ناکام ہی رہے اور انشاء اللہ آئندہ بھی ناکام ہی رہیں گے ، واللہ متّم نورہ و لوکرہ الکافرون۔
لیکن انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ترقی کے اس دور میں ایک نئی صورتحال پیدا ہوگئی ہے اور وہ یہ کہ جو جھوٹ او رجعلسازی کتابوں کے دفینوں میں پڑی رہتی تھی، اب میڈیا اور بالخصوص الیکٹرانک میڈیا کے ذریعہ اس کو لمحوں میں ہر کچے پکے مکان میں پہنچادیا جاتا ہے، او رمیڈیا اس فلسفہ پر عمل کرتا ہے کہ جھوٹ کو اتنا دہراؤ کہ وہ سچ معلوم ہو ۔ بد قسمتی سے نہ مسلمانوں کے پاس اپنا میڈیا ہے، او رنہ نیشنل اور انٹر نیشنل میڈیا ان کی آواز لوگوں تک پہنچاتا ہے، اس لئے جدید تعلیم یافتہ لڑکوں اور لڑکیوں کے ایک حلقہ میں شکوک و شہبات کے کانٹے بوئے جارہے ہیں، جیسے کمیونسٹ روس کے عہد ترقی میں مسلمانوں میں ایک اچھا خاصا دین بیزار گروہ پیدا ہوگیا تھا اور اپنے آپ کو ترقی پسند قرار دینا تھا ۔ اسی طرح اب پھر ایسا گروہ ابھر رہا ہے، جس نے اسلام بیزاری کا راستہ اختیا رکیا ہے، حدیث کا انکار ، قرآن مجید کی تشریح و توضیح میں دور ازکار معنی آفرینی ،قانون شریعت پر اعتراض ، اسلامی شعائر کا تمسخر ، داڑھی کا استہزاء ، غیر مسلموں کے ساتھ نکاح کے بڑھتے ہوئے واقعات ، مسلم سماج میں بڑھتی ہوئی بے حجابی ، مخلوط تعلیم کی طرف رجحان ، خاندانی زندگی کی قید سے آزادی اور خاندان کا بکھراؤ ، ہمسایہ قوموں کے مذہبی تہواروں میں شرکت اور اس کو انسانیت دوستی کا نام دینا ، مسلمانوں کے زیر انتظام عصری تعلیمی اداروں میں مخلوط کلچرل پروگرام اور غیر اسلامی یونیفارم اور اس کے باوجود مسلمانوں کی طرف سے اس کی پذیرائی وغیرہ وہ باتیں ہیں جو ایک سیلاب بلاخیز کی طرح آگے بڑھ رہی ہیں۔ یہ ایک تہذیبی اور فکری ارتداد ہے، یہ ایسا ارتداد ہے جو دبے پاؤں آتا ہے اور ایک سست رفتار زہر کی طرح کسی قوم کے پورے وجود میں پھیل جاتا ہے۔
اس وقت اس فتنہ کامقابلہ علماء کی ایک بڑی ذمہ داری ہے اور اس کے لئے دو باتیں ضروری ہیں: ایک یہ کہ علماء منبرد محراب سے عام اصلاحی باتوں کے ساتھ ساتھ فکری پہلو پر بھی خطاب کریں، جمعہ کے خطابات ، سیرت اوراصلاح معاشرہ کے جلسوں اور تعلیم یافتہ دانشوروں اور عصری درسگاہوں کے طلبہ میں پروگراموں کے ذریعہ اسلام کی حقانیت اور آخرت کے ساتھ ساتھ دنیا میں بھی کامیابی کے لئے اسلامی تعلیمات کی ضرورت و اہمیت کو دلائل کے ذریعے سمجھا یا جائے ، دل سے بھی خطاب ہو اور دماغ سے بھی ،جیسا کہ اس وقت مسلم پرسنل لاء سے متعلق چند مسائل پر تفہیم شریعت کے پروگرام رکھے جاتے ہیں اور بحمد اللہ اس کے بہتر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
دوسرا اہم کام جو اسی سے متعلق ہے، یہ ہے کہ جیسے ہم علم کلام کو پڑھتے ہیں اور ایمانیات کی تفصیلات سے واقف ہوتے ہیں، اسی طرح ہم اسلامی معتقدات کی عقلی بنیادوں کو بھی جاننے کی کوشش کریں۔ انسانی عقل ہر بات کا ادراک کر لے یہ ضروری نہیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت کہ خدا کا کوئی حکم عقل کے خلاف نہیں ہوسکتا۔ سلف صالحین اور خاص کر ماضی قریب کے علماء میں حجتہ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ کے یہاں اس کی بہترین مثالیں ملتی ہیں۔ انہوں نے کتنی قوت کے ساتھ اور آفاق و انفس کی دلیلوں سے ایمانیات کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے، لہٰذا جیسے ہم فقہ کو پڑھتے ہیں، ہم احکام شریعت کے ساتھ ساتھ شریعت کے اسرار و مقاصد کابھی مطالعہ کریں، اسی طرح آج اعدائے اسلام، اسلام پر جو سوالات اٹھاتے ہیں ، ہمیں ان سے بھی واقف ہوناچاہئے او رعلمی و فکری اعتبار سے اس کے ردّ کے لئے تیار رہنا چاہئے۔ کسی فوج کے فتح مند ہونے کیلئے یہ کافی نہیں ہے کہ وہ صرف اپنے ہتھیار سے واقف ہو بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اپنے دشمنوں کے ہتھیار سے بھی آگاہ ہو۔
فکری اعتبار سے ادیان باطلہ کا مقابلہ دشوار نہیں ہے، کیونکہ ان کے پاس نہ کوئی دلیل ہے نہ عقل و خرد کے شواہد او رنہ عقلائے روزگار کی تائید، لیکن لادینیت کے پیچھے ان مغربی فکرین کی قوتیں ہیں، جن کو کھوٹا ہونے کے باوجود سکہ رائج الوقت کی حیثیت حاصل ہوگئی ہے۔ضرورت ہے کہ علماء اس پہلو سے اسلام کا مطالعہ کریں، آج کے مسلمہ طرز استدلال کے مطابق اسلام کو پیش کریں، اس موضوع پر لکھیں ، اس کو اپنی علمی کاوشوں کا موضوع بنائیں اور اس طرح کے مضامین کو دینی جامعات کے نصاب میں شامل کریں ورنہ اس فتنہ کا اثربہت خراب ہوگا اور خدانخواستہ وسط ایشیاء اور مشرقی یورپ کے بعض مسلم گروہوں کا سا حال ہوجائے گا۔ اللہ تعالیٰ اس فتنہ سے امت کی حفاظت فرمائے اور علماء امت کو پوری فکر مندی اور ذہانت کے ساتھ اس سے نبرد آزما ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!
15فروری،2019 بشکریہ: انقلاب نئی دہلی
URL for Part-1: https://www.newageislam.com/urdu-section/defence-islam-important-responsibility-ulema/d/117748
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/the-civil-ideological-evolution-/d/117795
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism