مولاناخالد سیف اللہ رحمانی
8فروری،2019
علماء انبیاء کے وارث ہیں، اس لئے انبیاء سے جتنی ذمہ داریاں متعلق تھیں، سلسلہ نبوت کے تمام ہونے کے بعد یہ ساری ذمہ داریاں علماء امت کے کاندھوں پر آگئی ہیں، ان ذمہ داریوں میں ایک اہم ذمہ داری مجادلۂ حسنہ ہے،یعنی بہتر طور پر دلیل و برہان کے ساتھ اسلام کا دفاع ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے: ( اے رسول معظّم !) آپ اپنے رب کی راہ کی طرف حکمت او رعمدہ نصیحت کے ساتھ بلائیے اوران سے بحث ( بھی) ایسے انداز سے کیجئے جو نہایت حسین ہو ۔‘‘ ( النحل :125)اس آیت میں دیکھئے ، قرآن مجید میں موعظت کے لئے ’’حسنہ‘‘ کی صفت استعمال کی گئی، لیکن مجادلہ کے لئے اسم تفضیل کا صیغہ استعمال کرتے ہوئے فرمایا گیا: وَجَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ موعظت میں دل سے خطاب ہوتا ہے اور نا صحانہ اسلوب کافی ہوجاتا ہے او ردلائل و براہین کی ضرورت پیش آتی ہے، موعظت حسنہ ، غافکین کے لئے کافی ہوجاتی ہے، یعنی ان لوگوں کے لئے جو نا واقفیت ، لاعلمی او رغور وفکر نہ کرنے کی وجہ سے راہ راست سے منحرف ہوگئے ہوں، اور ’ جدال احسن‘ ان لوگوں کے لئے ہے ، جو انکار وجحود ( حجود = جان بوجھ کر انکار کرنا)میں مبتلا ہوں۔ بعض دفعہ یہ انکار لوگوں کی زبان پر آجاتا ہے او ربعض دفعہ ماحول، روایت اور خاندانی پس منظر وغیرہ کی وجہ سے زبان تو خاموش رہتی ہے لیکن دل اس کا مریض ہوتا ہے او راس میں شکوک وشبہات کے کانٹے چبھتے رہتے ہیں ۔ اگر کبھی ایسے ماحول میں انسان پہنچ جائے، جس میں کوئی ٹوکنے اور روکنے والی زبان موجود نہ ہوتو دل کا خیال زبان پر آجاتا ہے ۔ یہ فکر ی ارتداد کا فتنہ ہے جو تیزی سے مسلمانوں کی نئی نسل او راپنے آپ کو دانشور خیال کرنے والے طبقہ میں در آرہا ہے۔
اس کا پس منظر یہ ہے کہ یورپ میں طویل عرصہ جو تقریباً تین صدیوں پر محیط تھا،ایسا گزرا کہ کلیسائے زندگی کے تمام شعبوں کو اپنے پنجہ استبدادمیں لے لیاتھا۔شاہان مملکت بھی پوپ کے سامنے دم بخود رہتے تھے۔ پوپ نے تصور دیا تھا کہ وہ زمین پر خدا کا نائب ہے اور اس کاہر قول وفعل اللہ کی طرف سے ہوتا ہے۔ اسی من گھڑت عقیدہ کے تحت مغفرت نامے فروخت کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ پوپ مرنے والوں کے لئے نہ صرف مغفرت نامہ لکھ کر دیا کرتا تھا بلکہ جنت میں ان کی جگہ بھی متعین کرتاتھا اور یہ تعیین پوپ کو پیش کئے جانے والے نذرانوں کے لحاظ سے ہوتی تھی۔ آخر اس استحصال کے خلاف جرمنی کے ایک پادری مارٹن لوتھر نے علم بغاوت بلند کیا ۔ چونکہ پورا یورپ پوپ کے ظلم سے عاجز تھا اس لئے یورپ کے مختلف ملکوں میں اس کے مؤیدین اٹھ کھڑے ہوئے ۔ اس تحریک نے یہ نعرہ دیا کہ بندے اور خالق کاتعلق بلاواسطہ ہوناچاہئے ، اس میں پوپ کے واسطہ کی ضرورت نہیں ۔ پوپ کے مظالم کے جہاں حکومت اور عوام شکار تھے ،وہیں اہل علم بھی اس سے دوچار تھے ۔ کلیساں کی طرف سے اپنے مخالفین کو نہایت سخت سزائیں دی جاتی تھیں ۔ اٹلی کے فلسفی اور سائنسداں بردنوکو زندہ جلا دیا گیا، مشہور ماہر فلکیات گیلیلیوں کو تین سال قید خانہ میں رکھا گیا ، جہاں اس سے تو بہ نامہ کاورد کرایا جاتا رہا۔
عیسائی علماء کو اپنے غیر سائنسی اور غیر منطقی افکار پر اس درجہ اصرار تھا کہ اس کے خلاف کچھ کہنا یا لکھنا ناقابل برداشت جرم تھا۔ چونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زمین پر پیدا ہوئے اور ان کے عقیدہ کے مطابق زمین پر بطور کفارہ ان کے پھانسی دیئے جانے کا واقعہ پیش آیا اس لئے وہ کرۂ ارضی کو کائنات کا مرکز مانتے تھے ، جس کے گرد سورج کے بشمول تمام سیارے گردش کرتے ہیں۔ جب بعض سائنسدانوں نے اپنی تحقیق پیش کی کہ زمین سورج کے گرد گردش کرتی ہے تو عیسائی مذہبی رہنماؤں نے اسے مذہب کے خلاف سمجھا اور جن سائنسدانوں نے اس طرح کی بات کہی ، انہیں سخت سزائیں دی گئیں۔ وہ اس بات کو بھی بد دینی سمجھتے تھے کہ زمین کو گول قرار دیا جائے او رکہا جائے کہ اس کے دونوں جانب انسان بستے ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ اگر ایسا ہوتا تو عیسیٰ مسیح دوسری طرف بھی جاتے اور دوبار انسان کے لئے مصائب برداشت کرتے۔ سینٹا آگسٹائن جیسا مذہبی رہنما بھی اس کا قائل تھا۔ کلیسا کا ایک با اختیار عہدیدار ریگن کہا کرتا تھا کہ نچلی فضا کے بادلوں میں عفریت چھپے رہتے ہیں، یہی قہر او ربیماریاں لاتے ہیں، چنانچہ عیسائی خانقاہیں اس کا علاج کرتیں ، چیچک او رہیضہ وغیرہ کو خدا کی طرف سے نازل ہونے والا قہر قرار دیا جاتا تھا او راس کے علاج کو گناہ سمجھا جاتا تھا کیوں کہ ( ان کے خیال میں ) یہ خدا کو مزید ناراض کرنے جیسا تھا، اس لئے وہ بیماریوں کے ٹیکہ لگانے کے سخت مخالف تھے ۔ چیچک کے ٹیکہ کے موجد ڈاکٹر بوائلسٹن کی اتنی مخالفت کی گئی کہ جس شخص نے اسے اپنے گھر میں پناہ دی اس کے گھر پر جلتا ہوا آگ کا گولہ پھینک دیا گیا۔ از منۂ وسطیٰ کے عیسائیوں او رپادریوں کو اس بات پر شدید اصرار تھا کہ شہاب ثاقب کا گرنا قدرتی اور طبعی اسباب کا نتیجہ نہیں ہے ، اس کو خدا بدکردار دنیا کی طرف پھینکتا ہے۔دسمبر 1484ء میں پوپ انوسینٹ ہشتم نے حکم جاری کیا کہ جادو ہی انگور کے کھیتوں ،باغوں ،چراگاہوں اورفصلوں کی تباہی کانتیجہ ہے، اس لئے کلیسا کے فرمان پر ہزاروں عورتیں قید کرلی گئی او رانہیں ایسی تکلیفیں پہنچائی گئیں کہ ان کے متعلقین عرض گزار ہوئے کہ ان کو موت کی سزا دے دی جائے تاکہ وہ اس اذیت او رتذلیل سے چھٹکارا پا جائیں ۔ اس طرح کے حالات تھے، جن کی وجہ سے مغرب میں عیسائیت کے خلاف بغاوت کاطوفان اٹھا او راس نے کلیسا کے قصر اقتدار کو زمیں بوس کر کے رکھ دیا ۔
اگر بات یہیں تک رہتی کہ یہ تحریک کلیسا کے نا معقول عقائد او رجبر و ظلم کے ذریعہ اس کو منوانے کی کوشش کے خلاف ہوتی تو یہ بات خلاف انصاف نہیں ہوتی لیکن افسوس کہ ایسا نہیں ہوا، بلکہ یہ تحریک عیسائیت سے آگے بڑھ کر مذہب کے خلاف ہوگئی۔ حالانکہ اسلامی تاریخ کے اس دور میں جب مسلمان علوم وفنون کی امامت کررہے تھے ، اور اس دور میں بھی جب اپنی تن آسانی کی وجہ سے وہ اس علمی مقام سے محروم ہوگئے تھے ،انہوں نے نہ کبھی سائنسی تحقیق کی مخالفت کیا نہ سائنسدانوں پر جبر و ظلم کیا او رنہ نامعقول و خود تراشیدہ افکار کو بزور قوت منوانے کی کوشش کی، لیکن جب اس تحریک نے مذہب مخالف رخ اختیار کیا، تو اب اس نے ان افکار کو بھی نشانہ بنایا، جن پر اسلام کے بشمول تمام آسمانی مذاہب کایقین رہا ہے، جیسے اسحاق ٹیوٹن (1642۔1727ء) نے دعویٰ کیا کہ کائنات خود بخود وجود میں آئی ہے اور طبعی قوانین کے تحت چل رہی ہے۔ اس دعویٰ نے خدا کے وجود کے یقین کو ذہنوں میں متزلزل کردیا، کیونکہ خدا کے وجود کی سب سے بڑی دلیل یہی ہے او راسی دلیل کو قرآن مجید نے بھی بار بار پیش کیا ہے کہ کسی خالق اور صانع کے بغیر کائنات وجود میں نہیں آسکتی اور وہی خالق وصانع خدا کی ذات ہے۔
قیامت کا عقیدہ اس اساس پر قائم ہے کہ مادہ بھی فانی ہے ، ایک وقت ایسا آئے گا کہ یہ پوری کائنات فنا ہوجائے گی اور عالم آخرت شروع ہوجائے گا لیکن فرانس کے ایک سائنسداں انٹونی لیوزیئر نے دعویٰ کیا کہ مادہ غیر فانی ہے، یہ اپنی شکلیں بدلتا رہتا ہے ، مگر فنا نہیں ہوتا ۔
پھر یہی بات پی جی ٹایٹ نے کہی کہ کائنات کی حقیقت صرف مادہ ہے اور انسان مادہ کو نہ فنا کرسکتا ہے اورنہ پیدا کرسکتا ہے ،اسی کو بعد میں جرمنی کے مشہور مفکرہیگل نے تقویت پہنچائی او رکہا کہ عالم غیب کوئی چیز نہیں ہے،جو اس کائنات میں موجود ہے، بس وہی موجود ہے۔ٹیوٹن نے اس بات سے انکار کیا تھا کہ کائنات کے وجود میں آنے کے لئے خدا ضروری ہے۔ ڈارون نے ایک قدم آگے بڑھ کر کہا کہ خود انسان کی تخلیق بھی کسی خالق کے بغیر ہوئی ہے ، اس طور پر کہ طبعی قوانین کے تحت دنیا میں حیات نمودار ہوئی ، اس نے ایک خلیہ جرثومہ سے ترقی کرتے کرتے انسان کی شکل اختیار کی، گویا خدا کا وجود اور قیامت کا تصور ان دونوں کو ماننے کی ضرورت نہیں رہی ۔
رہی سہی کسر فرائڈ نے پوری کردی کہ انسان ایک جنس پرست حیوان ہے اور یہی جنسی جذبہ زندگی کا خلاصہ ہے، یہاں تک کہ بچے کاماں کے سینے سے دودھ پینا اور انگوٹھاچوسنا بھی جذبہ جنسی کا مظہر ہے۔ جہاں ڈارون اور نیوٹن نے خدا کے تصور پر حملہ کیاتھا، وہیں فرائڈنے مذہبی اخلاقیات کو تار تار کرکے رکھ دیا اور انسان کو منبع شہوت قرار دے دیا۔مذہب کی بنیاد ، وحی اور ما بعد الطبعی قرار پر ہے، اسی لئے آسمانی اور غیر آسمانی جتنے مذاہب ہیں ، ان کے پاس مذہبی صحائف رہے ہیں۔جو ان کے خیال کے مطابق خدائی ہدایت نامہ ہے، اسی لئے متکلمین اسلام نے حواس اور عقل کے ساتھ ساتھ خبر صادق کو بھی علم کا ایک ذریعہ مانا ہے، مگر فرانس کے مشہور فلسفی اور سائنسداں ڈی کارٹ نے تصور پیش کیا کہ صرف عقل و حواس ہی علم کا ذریعہ ہیں اور کوئی علم کاذریعہ نہیں ہے، گویا اس طرح وحی کے انکارکا راستہ فراہم کردیا گیا۔
خدا کے وجود کی ایک اہم دلیل اس کی رزاقیت ہے ،اٹھارہویں صدی میں مالتھس پیدا ہوا اوراس نے دعویٰ کیا کہ بڑھتی ہوئی انسانی آبادی کی وجہ سے وسائل رزق ناکافی ہو جائیں گے اوراسی نے تحدید نسل کی تجویز پیش کی، جس کا جادو آج پوری دنیا میں سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ مالتھس کی اس پیشنگوئی پر دو سوسال گزرنے کو ہے اوردنیا کی آبادی اس وقت کے مقابلہ میں تقریباً دس گنابڑھ گئی ہے، لیکن اس کی نوبت نہیں آئی کہ کائنات میں وسائل رزق کا دامن تنگ ہونے کی وجہ سے انسان کے مرنے کی نوبت آجائے۔ ایسا خیال یا تصور بالواسطہ اللہ تعالیٰ کی رزاقیت کا انکار ہے۔ ان تصورات کا اثر یہ ہوا کہ بعضوں نے تو سرے سے مذہب ہی کو انکار کردیا گیا، جیسا کہ کارل مارکس نے مذہب کو افیون قرار دے گیا ، لیکن جو چیز سماج میں ہزاروں سال سے رچی بسی ہو، اس کو بالکل نکال پھینکنا آسان نہیں ہوتا، اس لئے ایک دوسرا گروہ پیدا ہوا، جس نے مذہب کا کلیۃً انکار کرنے کے بجائے اس کی عمل داری کو محدود کردیا، چنانچہ فرانس کے فری میسن لاج نے پہلی بار لادینی طرز حیات کا تصور پیش کیا اور انقلاب فرانس کے بعد فرانس کے لوگوں نے اپنے لئے اسی لادینی جمہوریت کا انتخاب کرلیا۔پھر آہستہ آہستہ یہ پورے مغرب کا سب سے مقبول نظریہ ہوگیا ۔ اس نظریہ میں مذہب کو فرد کی ذاتی زندگی تک محدود کردیا گیا، اور زندگی کے تمام شعبوں سے مذہب کو نکال باہر کیا گیا ۔ چنانچہ بعض مغربی ممالک اس شدت کے ساتھ اس کے قائل اور اس پر عمل پیراہیں کہ وہاں مذہبی علامتوں کے استعمال کو بھی جرم قرار دے دیا گیا ہے ، جیسے حجاب اور بر قع وغیرہ۔( جاری)
8فروری،2019 بشکریہ : انقلاب، نئی دہلی
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/defence-islam-important-responsibility-ulema/d/117748
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism