مصباح الہدیٰ قادری ، نیو ایج اسلام
20 جولائی 2018
ہر تمنا دل سے رخصت ہو گئی * اب تو آ جا اب تو خلوت ہو گئی
تقویٰ کے حوالے سے حضرت عبد الكريم بن هوازن بن عبد الملك القشيری (المتوفى: 465 ہجری ) رسالہ قشیریہ میں لکھتے ہیں:
‘‘لِلعامّۃِ تقویٰ الشرک و للخاصۃ تقویٰ المعاصی و اللاَولیاءِ تقویٰ التوسل بالافعال و للابنیاء نسبۃ الافعال اذ تقواھم منہ الیہ’’۔
ترجمہ: ‘‘عوام کا تقویٰ شرک سے ہے ، خواص کا تقویٰ گناہوں سے ہے ، اولیاء کا تقویٰ اعمالِ صالحہ کو (اللہ کی بارگاہ میں) وسیلہ بنانے سے ہے اور انبیاء کا تقویٰ اپنے افعال (و اعمال) کو اپنی ذات کی طرف منسوب کرنے سے ہے، کیوں کہ ان کا تقویٰ اللہ سے اللہ ہی کی طرف (رجوع) ہے’’۔
‘‘عن أبى ذر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"من حسن إسلام المرء تركه مالا يعنيه"۔
ترجمہ: ‘‘حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ‘مذہب اسلام کا حسن یہ ہے کہ بندہ بے مقصد کاموں کو ترک کر دے’’۔
‘‘قال الأستاذ الإمام رضي الله عنه: أما الورع، فإنه: ترك الشبهات. كذلك قال إبراهيم بن أدهم: الورع ترك كل شبهة، وترك مالا يعنيك هو ترك الفضلات’’۔
ترجمہ: ‘‘استاذ امام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ تقویٰ ترکِ شبہات کا نام ہے ، اور اسی طرح حضرت ابراہیم بن ادھم نے فرمایا کہ ہر مشتبہ امر کو ترک کر دینا ہی تقویٰ ہے اور ‘‘ترك مالا يعنيہ’’ کا مطلب ہر فضول کام سے بیزار ہو جانا ہے’’۔
‘‘وقال أبو بكر الصديق رضي الله عنه:"كنا ندع سبعين باباً من الحلال مخافة أن نقع في باب من الحرام’’۔
ترجمہ: حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ،‘‘ہم (از راہ تقویٰ) ایک فعلِ حرام کے ارتکاب کے خوف سے (احتیاطاً) ستر حلال کاموں سے گریز کرتے تھے’’۔
‘‘وقال صلى الله عليه وسلم لأبي هريرة:"كن ورعاً تكن أعبد الناس"۔
ترجمہ: اور نبی ﷺ نے حضرت ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ) سے فرمایا کہ ‘‘تقویٰ اختیار کرو تاکہ تم (اللہ کی مخلوق میں) سب سے زیادہ عبادت گزار بن جاؤ’’۔
‘‘الورع أن تتورَّع عن كلِّ ما سوىٰ الله تعالى’’۔
ترجمہ: ‘‘تقویٰ و پرہیزگاری یہ ہے کہ تم ما سویٰ اللہ تمام چیزوں سے کنارہ کشی اختیار کر لو’’۔
‘‘وقال أبو سليمان الداراني: الورع: أول الزهد، كما أن القناعة: طرف من الرضا’’۔
ترجمہ: ‘‘حضرت ابو سلیمان دارانی (رحمۃ اللہ علیہ) فرماتے ہیں کہ ‘تقویٰ و پرہیزگاری زہد (دنیا سے کنارہ کشی اختیار کرنے) کا آغاز ہے۔ جس طرح قناعت (اللہ کی تقسیم پر راضی ہونا) رضا (اللہ کی مرضی پر اپنی مرضی کو قربان کر دینے) کا ایک کنارہ ہے’’۔
‘‘يحيى بن معاذ يقول: الورع على وجهين: ورع في الظاهر؛ وهو: أن لايتحرك إلا لله تعالى. وورع في الباطن، وهو: أن لايدخل قلبك سوى الله تعالى’’۔
ترجمہ: ‘‘حضرت یحیٰ بن معاذ (رحمۃ اللہ علیہ) فرماتے ہیں کہ ‘‘تقویٰ و پرہیزگاری کی دو قسمیں ہیں’’۔ (1) ظاہری تقویٰ و پرہیزگاری ۔ (2) باطنی تقویٰ و پرہیزگاری ۔ ظاہری تقویٰ و پرہیزگاری یہ ہے کہ بندے کے تمام حرکات و سکنات صرف اللہ کے لئے ہی ہوں۔ اور باطنی تقویٰ و پرہیزگاری یہ ہے کہ تمہارے قلب پر اللہ عز و جل کے سوا کسی کا قبضہ نہ ہو’’۔
‘‘سادۃ الناس فی الدنیا الاسخیاءُ و سادۃُ الناسِ فی الآخرۃ أالاتقیاءُ’’۔ 1
ترجمہ: ‘‘اس دنیا میں لوگوں کے سردار سخی حضرات ہیں اور آخرت میں (جنتیوں) کے سردار اللہ کے متقی بندے ہیں’’۔
تقویٰ کی دولت لیکر اس دار فانی سے کوچ کرنے والے کو آخرت میں اللہ عزو جل کی میزبانی نصیب ہوگی۔ جنت میں انہیں شہداء ، صدیقین اور صالحین کے ساتھ ٹھہرایا جائے گا۔ جہاں متقی بندوں کے لئے ایسی ایسی نعمتیں ہوں گی کہ جن کا نہ تو کسی کی آنکھ نے مشاہدہ کیا ہوگا ، نہ کسی کے کانوں نے سنا ہوگا اور نہ ہی کبھی انسان کے دل پر اس کوئی وہم و گمان گزرا ہوگا۔ بلکہ قرآن کا حتمی فرمان یہ ہے کہ اس دنیا میں رہتے ہوئے جنت کی نعمتوں کا اندازہ لگانا ممکن ہی نہیں ہے۔
لیکن تقویٰ جتنی عظیم نعمت ہے اسے حاصل کرنے کے لئے اتنی محنت و مشقت بھی درکار ہے۔ بالعموم یہی مانا جاتا ہے کہ اللہ کی راہ میں سب سے بڑی قربانی یہ ہے کہ بندہ اعلاء کلمۃ الحق کے لئے اپنا گھر بار چھوڑ کر اللہ کی راہ میں نکل جائے، اور حقیقت بھی یہی ہے کہ اللہ کے لئے ہجرت ایک عظیم قربانی ہے۔ لیکن بالعموم ہم جس ہجرت سے واقف ہیں اس سے بھی بڑی ایک اور ہجرت ہے جو کہ تقویٰ کی روحِ رواں ہے ، اور اس کے بغیر تقویٰ کے سارے دعوے باطل ہیں۔ اور وہ ہجرت اپنی معصیتوں ، گناہوں اور نفسانی رزائل سے ہے ، اور یہی دراصل تقویٰ کا جوہر ہے۔ اس لئے کہ حصولِ تقویٰ کے لئے جس طرح نیک راستے پر چلنا ضروری ہے اسی طرح قبائحِ نفس اور رزائل دنیا و مافیھا سے بھی اپنے وجود کو الگ کر لینا ضروری ہے۔ جیسا کہ صوفیائے کرام کی ایک واضح تعلیم ہے ‘‘ان تعلقت بذرۃ او تعلقت بک ذرۃ فانت فی حبالتھا’’، یعنی اگر تو کسی ذرۂ کائنات میں مشغول ہو جائے یا اس کائنات کا کوئی ذرہ تجھے (خود میں) مشغول کر دے تو پھر تُو اسی کا اسیر ہے’’۔ جب تک بندہ کائنات کے ہر ذرے سے خود کو الگ نہیں کر لیتا اور اپنی تمام تر تونائی صرف رضائے الٰہی کے حصول میں صرف نہیں کر دیتا اس وقت تک تقویٰ کا دعویٰ باطل ہے۔ اس لیے کہ تقویٰ کی بنیاد محبت الٰہی پر ہے اور محبت میں دوئی کی کوئی راہ نہیں ، یا تو انسان مکمل طور پر خدا کا بن جائے یا پھر اس دنیا کا اسیر ہو رہے۔ مسافرانِ تقویٰ اور اللہ سے محبت کرنے والوں کی دلی کیفیت کیا ہوتی ہے خواجہ عزیز الحسن مجذوب کے اس کلام میں دیکھیں:
ہر تمنا دل سے رخصت ہو گئی * اب تو آ جا اب تو خلوت ہو گئی
ایک تم سے کیا محبت ہو گئی * ساری دنیا سے عداوت ہو گئی
یاس ہی اس دل کی فطرت ہوگئی * آرزو جو کی وہ حسرت ہو گئی
جو مری ہونی تھی حالت ہو گئی * خیر اک دنیا کو عبرت ہو گئی
دل میں وہ داغوں کی کثرت ہو گئی * رُونما اک شان وحدت ہو گئی
آگئے پہلو میں راحت ہو گئی * چل دیئے اٹھ کر قیامت ہو گئی
عشق میں ذلت بھی عزت ہو گئی * لی فقیری با دشاہت ہو گئی*
جاری.......................
حوالہ جات:
1۔ بحوالہ رسالہ قشیری۔ مصنفہ عبد الكريم بن هوازن بن عبد الملك القشيري (المتوفى: 465هجری۔ صفحہ 109-108)
*https://raikhtablog.blogspot.com/2015/02/blog-post_650.html
URL for Part -1: https://www.newageislam.com/urdu-section/sufi-discourse-piety-enables-achieve-part-1/d/115819
URL for Part-2: https://www.newageislam.com/urdu-section/sufi-discourse-piety-urges-purify-part-2/d/115864
URL for Part-3: https://www.newageislam.com/urdu-section/sufi-discourse-piety-goes-heaven-part-3/d/115908
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism