New Age Islam
Fri Dec 13 2024, 08:15 AM

Urdu Section ( 23 Jul 2018, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Sufi Discourse: Piety Goes Beyond Heaven and Hellfire --Part-3 بزبان تصوف: تقویٰ جنت کی طمع اور جہنم کے خوف سے آزاد ہے

مصباح الہدیٰ قادری ، نیو ایج اسلام

16 جولائی 2018

تقویٰ کی لذت اس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتی جب تک بندہ جنت کی طلب اور جہنم کے خوف سے بے نیاز نہ ہو جائے۔ اللہ کی عبادت اس وقت تقویٰ کا مقام حاصل کرتی ہے جب بندہ تمام منہیاتِ شرعیہ اور مکروہات و مشتبہات سے دامن بچاتے ہوئے صرف حصولِ رضائے الٰہی کے لئے فرائض ، واجبات ، سنن ، مستحبات حتی کہ مستحسنات پر بھی سختی کے ساتھ عمل پیرا ہو ، اور تعمیل احکام میں رخصتوں کا نہیں بلکہ تکلیف کا راستہ اختیار کرے۔ جب کوئی بندہ ان سخت ترین مراحل سے گزر کر صاحب تقویٰ بنتا ہے تب اسے یہ مقام حاصل ہوتا ہے کہ سلطان محققین مخدوم الملک حضرت شیخ شرف الدین احمد یحیٰ منیری (رحمہ اللہ) کے مطابق جہنم بھی اس کی ہیبت کی تاب نہیں رکھتی اور اس پر اللہ کا ایسا انعام ہوتا ہے کہ اسے اگر جہنم میں بھی ڈال دیا جائے تو وہ جہنم کے ساتوں طبق سے ایسے گزر جائے جیسے کوئی مچھلی پانی میں تیرا کرتی ہے۔ اور کل روز محشر جب تمام انسانوں کو ان کے اعمال کے مطابق جنت یا جہنم میں اپنے اپنے مقام پر بھیج دیا جائے گا تو اللہ کے متقی بندوں کو جنت سے بھی آگے مقامِ ربوبیت میں ٹھکانہ نصیب ہوگا جہاں وہ ہر وقت جلوۂ ذاتِ حق میں مستغرق رہیں گے۔

سلطان محققین مخدوم الملک حضرت شیخ شرف الدین احمد یحیٰ منیری (رحمہ اللہ) فرماتے ہیں۔

‘‘مگر این آیت در قرآن نخواندۂ کہ ‘‘يَوْمَ نَحْشُرُ الْمُتَّقِينَ إِلَى الرَّحْمَٰنِ وَفْدًا’’ ، تا نہ پنداری کہ ای بادشاہ را بجز بہشت سرائے نیست۔ و این نشنیدۂ کہ سید الانبیاء دوستانرا چہ شربت چشانیدہ است ‘‘حاکیاً عن اللہِ تعالےٰ أَعْدَدْتُ لِعِبَادِي الصَّالِحِينَ مَا لَا عَيْنٌ رَأَتْ وَلَا أُذُنٌ سَمِعَتْ وَلَا خَطَرَ عَلَى قَلْبِ بَشَرٍ’’۔ این باز نمودن است کہ اگر رحمت بہشت و آفت دوزخ از میان بر گیرم ہیچ چیز کم نشود و ہیچ چیز نقصان در احکامِ الوہیت پدید نیاید۔

مثنوی :

زہے ساحت کہ گر عالم نبودی *      سر موئے از آنجا کم نبودی

نہ ہرگز کبریایش را بدایت   *      نہ ملکش را سر انجام و نہایت

اسرار قرآن بعقل رکیکِ خویشتن نتوان یافت ۔ و اگر خواہی کہ شمۂ آن بدانی بعون قرآن بشناس و بدان قولہ تعالیٰ ‘‘فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا أُخْفِيَ لَهُم مِّن قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ’’۔

ترجمہ: پیارے کیا تیری نگاہ سے قرآن کی یہ آیت نہیں گزری کہ ‘‘يَوْمَ نَحْشُرُ الْمُتَّقِينَ إِلَى الرَّحْمَٰنِ وَفْدًا’’ (19:85)، ترجمہ: ‘‘جس دن ہم پرہیزگاروں کو رحمن کی طرف لے جائیں گے مہمان بناکر’’، کنز الایمان۔ اچھی طرح جان لو کہ (اقلیم تقویٰ کے) بادشاہوں کا مقام جنت الماویٰ کے علاوہ اور کوئی جگہ نہیں ہے۔ اور کیا تمہیں معلوم نہیں کہ ہمارے نبی ﷺ نے اپنے اصحاب (رضوان اللہ علیہم اجمعین) کو کس جام کا مزہ چکھایا ہے! آپ ﷺ فرماتے ہیں ‘‘ قَالَ اللَّهُ أَعْدَدْتُ لِعِبَادِي الصَّالِحِينَ مَا لَا عَيْنٌ رَأَتْ وَلَا أُذُنٌ سَمِعَتْ وَلَا خَطَرَ عَلَى قَلْبِ بَشَرٍ’’، صحيح بخاری- حدیث نمبر7498۔ ترجمہ: ‘‘اللہ عز و جل نے فرمایا ہے کہ میں نے اپنے متقی بندوں کے لئے (جنت میں ایسی ایسی نعمتیں) تیار کر رکھی ہیں کہ جن کا نہ تو آنکھوں نے مشاہدہ کیا ہے ، نہ کانوں نے سنا ہے اور نہ ہی کبھی انسان کے دل پر اس کوئی وہم و گمان گزرا ہے’’۔ یہ اس حقیقت کا اظہار ہے کہ اگر ہم جنت کی تمام نعمتیں ختم کر دیں اور دوزخ کی تمام مصیبتوں کو اٹھا لیں تب بھی اللہ کی سلطنت میں کوئی کمی نہیں ہوگی اور نہ ہی احکام الوہیت و ربوبیت میں ذرہ برابر کوئی نقص پیدا ہو گا۔

مثنوی :

زہے ساحت کہ گر عالم نبودی  *      سر موئے از آنجا کم نبودی

ترجمہ: اس کی ربوبیت و الوہیت کی سلطنت اتنی بڑی ہے کہ اگر یہ دنیا نہ ہوتی تب بھی اس کی سلطنت میں ذرہ برابر کوئی کمی واقع نہ ہوتی۔

نہ ہرگز کبریایش را بدایت      *      نہ ملکش را سر انجام و نہایت

ترجمہ: نہ اس کی کبریائی کی کوئی ابتدا ہے اور نہ ہی اس کی سلطنت کی کوئی انتہاء ہے۔

ناممکن ہے کہ اس ناقص عقل میں قرآن کے اسرار و معارف کا گنجینہ سما سکے۔ اور اگر تجھے جنت کی نعمتوں کے بارے میں جانے کی خواہش ہے کہ تو اسے خود قرآن میں ہی دیکھنا ہوگا۔ اللہ کا فرمان ہے ، ‘‘فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا أُخْفِيَ لَهُم مِّن قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ’’ (سورۃ السجدہ : 17)، ترجمہ: ‘‘تو کسی جی کو نہیں معلوم جو آنکھ کی ٹھنڈک ان کے لیے چھپا رکھی ہے صلہ ان کے کاموں کا’’، کنز الایمان’’۔

آپ رحمۃ اللہ علیہ مزید فرماتے ہیں:

بدانکہ ہیچ ہجرت در دین عزیز تر ازان نیست کہ کسی از خویشتن ہجرت کند ، تا از ہمہ آفرینش باز رہد زیراکہ آفرینش را با مرد چندان کار نبود کہ مرد باخود ماندہ است۔ چون بعنایت توفیق یافت از خویشتن برُست۔ آفرینش را شب خوش باد کہ مرد رفت و سرخویش گرفت ، چنانکہ گفتہ اند ‘‘ان تعلقت بذرۃ او تعلقت بک ذرۃ فانت فی حبالتھا’’، یا یک ذرہ از اوصاف تو ترا گرفتہ است بدانکہ بندۂ آنی تا از سر آن ذرہ اوصاف آزاد نگردی تقویٰ ترا روے نماید کہ سنت وی اینست کہ ہمگی تو خواہد، چنانکہ گفت:

بیت،

دلبر جانانت اگر آرد دست    *      در گذر از خود رہِ بسیار نیست

ترجمہ: دیکھو دین اسلام میں کوئی ہجرت اس سے بڑی نہیں ہے کہ کوئی بندہ خود (اپنی ذات اور نفسانی رزائل) سے ہجرت کر جائےتاکہ وہ پوری کائنات سے اپنا چہرہ پھیر لے اس لئے کہ خود اِس کائنات کو بندے سے کوئی سروکار نہیں اور بندہ خود درماندہ ہے۔ جب اللہ کی توفیق اوراس کی اعانت شامل حال ہوئی تو اس نے دنیا سے کنارہ کشی اختیار کر لی ۔ اب اس کائنات کی راتیں بھی سہانی بسر ہوتی ہیں کہ بندۂ خدا نے اسے خیرباد کہہ دیا اور اپنے راستے نکل پڑا۔ اس لئے کہ ایک مقولہ ہے ‘‘ان تعلقت بذرۃ او تعلقت بک ذرۃ فانت فی حبالتھا’’، یعنی اگر تو کسی ذرۂ کائنات میں مشغول ہو جائے یا اس کائنات کا کوئی ذرہ تجھے مشغول کر دے تو پھر تُو اسی کا اسیر ہے’’۔ اور تو اسی کا غلام بن کر رہ جائے گا ، اور جب تک تو ان کے اوصاف سے آزاد نہ ہو جائے تو تقویٰ کی بو بھی نہیں پا سکتا اس لئے کہ تقویٰ کی رِیت یہی رہی ہے کہ تیرا سارا وجود اسی (مالک حقیقی) کا ہو رہے:

جیساکہ کسی عاشق نے کہا ہے،

دلبر جانانت اگر آرد دست        *        در گذر از خود رہِ بسیار نیست

ترجمہ: اگر تیرا محبوب تیرا ہاتھ تھام لے تو اپنی ہستی سے گزر جا کہ یہ (عشق کی راہ میں جان وار دینا) کوئی مہنگا سودا نہیں ہے۔

 اما چنا نیست کہ گوئی جاہ باید و حشمتِ دنیا باید و ناز و نعمت باید و تقویٰ باید کلاَّ و حاشا ، نہ بینی کہ چہ میفرماید ‘‘انا اغنی الاغنیاء عن الشرکاء ’’۔ این کار شرکت نپذیرد۔ عزیزی گفتہ است:

بیت،

آن کس کہ بیارِ من ہمی در نگرد    *      گو منگر کہ عشق شرکت نپذیرد

ترجمہ: ‘‘واللہ! یہ بس ایک خیالِ خام ہے اور ایسا کبھی نہیں ہو سکتا کہ تو اپنے دامن کو جاہ و حشمت اور ناز و نعمتِ دنیا سے بھرا ہوا بھی دیکھنا چاہئے اور تقویٰ جیسا عظیم سرمایہ بھی حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ کیا تجھے اس کا فرمان نہیں معلوم، ‘‘انا اغنی الاغنیاء عن الشرکاء ’’، یعنی ‘میں (دعویٔ محبت میں ) شرکاء سے مطلقاً بے نیاز و بے پرواہ ہوں’’! اس میدان (عشق الٰہی) میں شرکتِ غیر (دنیا کی محبت) کی کوئی گنجائش نہیں ہے’’۔

کسی نے کہا ہے،

آن کس کہ بیارِ من ہمی در نگرد        *      گو منگر کہ عشق شرکت نپذیرد*

ترجمہ: میرے محبوب پر نظر ڈالنے والے کو کہہ دو کہ اپنی نظر جھکا لے اس لئے کہ عشق شرکت قبول نہیں کرتا۔

جاری........................

*(بحوالہ : مکتوبات صدی ۔مطبع علوی محمد علی بخش خان نقشبندی - سن طباعت 1286 ہجری -صفحہ 201-200)

URL for Part -1: https://www.newageislam.com/urdu-section/sufi-discourse-piety-enables-achieve-part-1/d/115819

URL for Part-2:  https://www.newageislam.com/urdu-section/sufi-discourse-piety-urges-purify-part-2/d/115864

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/sufi-discourse-piety-goes-heaven-part-3/d/115908

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


 

Loading..

Loading..