New Age Islam
Fri May 23 2025, 05:44 PM

Urdu Section ( 21 Nov 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Enjoying What Is Right and Refraining From Bad Is Not Only A Social and Religious Obligation But Also A Social and Ritual Requirement-Concluding Part امر بالمعروف ونہی عن المنکر کاکام دینی و ملی فریضہ ہی نہیں بلکہ معاشرتی اور سماجی ضرورت بھی ہے

عتیق احمد شفیق بریلوی

(آخری حصہ)

17نومبر،2023

دعوت الی الخیر: غیر مسلم دنیاکو اسلام کی دعوت دینا او راس کی طرف بلانا دنیا کا سب سے بڑاکام ہے۔ اسی سے دنیاو آخرت میں انسانیت کی فلاح وابستہ ہے۔اقامت دین کے لئے پہلا مرحلہ دعوت کا ہی ہے۔ کیونکہ اس کے بغیر لوگ اسلام کے نظام رحمت سے واقف ہی نہیں ہوسکتے۔لہٰذا امت مسلمہ کااوّلین فریضہ ہے کہ اللہ دین کی دعوت لے کر ان لوگوں تک پہنچیں جو اس سے بے بہرہ ہیں۔ یادرہنا چاہئے کہ دعوت کاکام اقتدار کامحتاج نہیں۔البتہ اقتدار کے بغیر امربالمعروف ونہی عن المنکر کے مرحلے کو سرکرنا مشکل ہوجاتاہے کیونکہ حکومت واقتدار کے بغیر معروف کو عام کرنااور منکر کو روک دینا اور حدود وتعزیرات کواصلی صورت میں نافذ کردینا کارے دار دہے:

”اور اس طرح تو ہم نے تم مسلمانوں کوایک امت وسط بنایاہے تاکہ تم دنیا والوں پر گواہ بنو“۔ (بقرہ: 143)

گویا امت وسط کی بڑی اہم ذمے داری یہ ہے کہ وہ شہادت کا فریضہ اسی طرح ادا کرے،جس طرح اللہ کے آخری رسول حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ادا کیا۔ جس طرح اللہ کے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے دین کو اس کی مکمل شکل میں اپنی امت تک نہ صرف اپنے قول سے پہنچایا بلکہ اپنے عمل سے بھی کرکے دیکھایا،ٹھیک اسی طرح امت مسلمہ کو دنیا کے ہر ملک اور قوم کے سامنے شہادت حق کا فریضہ ادا کرنا اور دین حنیف کو اس کے اصل روپ میں پہنچا نا چاہئے۔

قیامت کے روز جس طرح مسلمانوں سے دیگر فرائض وواجبات کے تعلق سے جواب طلبی ہوگی، اسی طرح امر بالمعروف ونہی عن المنکر سے متعلق بھی پرسش ہوگی۔ پوچھا جائے گا کہ نبی عربی ختم الرسل محمد رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو دین رحمت تم تک پہنچا یا تھا، اس کے لئے تم نے کیا سرگرمیاں دکھائیں۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی جب بعث ہوئی تو عرب ہی میں نہیں بلکہ سادی دنیا میں بگاڑ اپنی آخری حد کو پہنچ گیا تھا۔  انسانیت نے اپنے پیدا کرنے والے کو بھلا دیاتھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہی مشرکوں اور کافروں کے سامنے اسلام کو پیش کیا۔ان کے سامنے دین حق کی قولی وعملی شہادت دی۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی ذمے داری بتاتے ہوئے فرمایا:

”اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم! ہم نے آپ کو شہادت دینے والا، خوش خبری دینے والا اورڈرانے والا، اللہ کی طرف اس کے حکم سے دعوت دینے والا اور روشن باغ بنا کر بھیجا ہیہ“۔(الاحزاب:45-46)

”آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رب کی طرف دعوت دیتے رہئے“۔(حج:67)

”جو کچھ آپ پر نازل کیا گیاہے اس کو پہنچادیجئے“۔(المائدہ:67) چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ذمے داری کا حق ادا کردیا۔ چونکہ اب قیامت تک کوئی نبی آنے والا نہیں ہے، اس لئے اب امت مسلمہ کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ دین سے محروم لوگوں تک دین رحمت کو پہنچائے۔

اجتماعی غفلت کا انجام:

امربالمعروف ونہی عن المنکر کاکام کو کرنے پر جہاں دنیا و آخرت کی کامیابی وفلاح کی بشارتیں دی گئی ہیں، وہیں اس فریضے سے غفلت او ربے پروائی برتنے پر سخت وعیدیں بھی ہیں۔ اس کام کو بالکل چھوڑ دینا یا اس میں کوتاہی کرنااللہ کے غضب کو دعوت دینے کامترادف ہے۔ سابقہ ملتوں نے جب اس کا م کو چھوڑ دیا تو ان پررب العالمین کا غضب نازل ہوا اور ان پرذلت و سکنت طاری کردی گئی۔

قرآن مجید بنی اسرائیل کی اس طرح تصویر کشی کرتاہے:

”بنی اسرائیل میں جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی اس پر داؤد اور عیسیٰ علیہ السلام بن مریم کی زبان سے لعنت کی گئی۔ کیونکہ وہ سرکش ہوگئے تھے اور زیادتیاں کرنے لگے تھے،انہوں نے ایک دوسرے کو برے افعال کے ارتکاب سے روکنا چھوڑدیاتھا، بہت ہی بُرا طرز عمل تھا جو انہوں نے اختیار کیا“۔(المائدہ:78-79)

اس آیت میں بنی اسرائیل کی سب سے بڑی خرابی یہ بتائی گئی ہے کہ انہوں نے نہی عن المنکر کے فریضے کو چھوڑ دیا تھا۔ جس کے نتیجے میں ان پر اللہ کا عذاب مسلط ہوا اور انبیاء کی زبان سے ان پرلعنت بھیجی گئی۔ یہ کس قدر بدنصیبی کی بات ہے۔

سورہ اعراف میں ہے کہ سماج میں ان کے تین طرح کے گروہ تھے: ایک کھلم کھلا حدود الہٰی کو توڑتا تھا اور نافرمانی وسرکشی کی روش اختیار کئے ہوئے تھا۔ دوسرا گروہ ان لوگوں کا تھا جو معروف کا حکم دیتے تھے،احکام الہٰی کی پابندی کی طرف متوجہ کرتے تھے او رحکم الہٰی کوتوڑ نے والوں کو اس حرکت سے روکنے کی کوشش کرتے تھے۔ تیسرا گروہ ان لوگوں کا تھا جو خود تو اطاعت گزار تھے مگر سرکش لوگوں کی سرکشی، حکم عدولی اور نافرمانی پر خاموش تماشائی بنے ہوئے تھے۔بلکہ وہ لوگ امربالمعروف ونہی دن المنکر کا فریضہ انجام دینے والوں کو نصیحت بھی کرتے تھے کہ تم اس کے چکر میں کیوں پڑتے ہو؟ مگر مصلحین کا گروہ ان کو یہ جواب دیتا کہ ہم اپنی ذمے داری اداکررہے ہیں، ممکن ہے وہ مان جائیں، اگر وہ نہیں مانے تو کم از کم ہم تو اپنی ذمے داری سے سبکدوش ہوجائیں گے۔ چنانچہ جب اللہ تعالیٰ کے حکم کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہونے لگی تو اللہ کی جانب سے ان پر عذاب آیا اور اس عذاب سے وہی لوگ بچے جو بھلائی اوراطاعت الہٰی کی نصیحت کا کام انجام دے رہے تھے۔

حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم ضرور معروف کا حکم دو اور منکر سے روکو نہ وہ قت دور نہیں کہ خدائے تعالیٰ تم پر اپنا عذاب نازل کردے اس وقت تم اس سے دعا کروگے لیکن تمہاری دعا سنی نہیں جائے گی“۔

اسلام ایک نعمت ہے۔ اس کو تسلیم کرلینے کے بعد دوسروں تک پہنچانا اہم ذمہ داری ہے۔ اس غفلت کو قرآن نے ظلم سے تعبیر کیاہے: ”ان سے بڑھ کر ظالم کون ہوسکتاہے جو اللہ کی کسی شہادت کو جوان کے پاس ہے چھپائیں؟ اللہ اس چیز سے بے خبر نہیں ہے جو تم کررہے ہو“۔ (البقرہ:140)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے جبریل علیہ السلام کو حکم دیا کہ فلاں شہر کو اس کے باشندوں کے ساتھ الٹ دو،اس پر حضرت جبریل علیہ السلام نے فرمایا کہ اے رب اس میں تیرا فلاں بندہ بھی تو ہے جس نے ایک لمحے کے لئے بھی تیری معصیت نہ کی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ نے حضرت جبریل کو حکم دیا کہ اس شہر کو بشمول اس شخص کے اور سارے لوگوں کے پلٹ دو کیونکہ اس شہر میں لوگ نافرمانی کرتے رہے او راس (شخص) کے چہرے پر میری خاطر کوئی تبدیلی پیدا نہیں ہوئی“۔

مندرجہ ذیل بالاآیات او راحادیث سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ بُرائیوں کو مٹانے کی جدوجہد او رکوشش لازمی ہے اوراس کام کے لئے کسی بڑے مدرسے کا سند یافتہ ہونا، جید عالم دین ہونا شرط نہیں ہے بلکہ جتنا کچھ بھی دین کی تعلیمات آپ کو معلوم ہیں ان کو دوسروں تک پہنچا نالازم ہے۔بغیر اس کے انسان نہ تو اللہ کی رضا حاصل کرسکتا ہے او رنہ آخرت میں کامیاب ہوسکتاہے۔

امر بالمعروف ونہی عن المنکر: ایک سماجی ضرورت

امربالمعروف ونہی المنکر کاکام صرف دینی وملی فریضہ ہی نہیں ہے، بلکہ معاشرتی اور سماجی ضرورت بھی ہے۔ کیونکہ ماحول کا انسانی زندگی پر کافی اثر پڑتا ہے جس سوسائٹی او رماحول میں انسان پیدا ہوتا، پروان چڑھتا او رہتا بستا ہے اس کے اثرات سے وہ بچ نہیں سکتا۔لہٰذا ماحول کو اپنے موافق بناناضروری ہے۔ اس بات کی پوری کوشش ہونی چاہئے کہ سماج میں بھلائی کا جذبہ پیدا کرنے او راسے عام کرنے کے لئے حالات سازگار ہوں، بھلائی کرنے والوں کو سہارا او رہمت ملے اور اگر ایسا ماحول نہیں بنتا تو پھر آدمی کو خدا بیزار سماج کے غلط اثرات سے بچانابڑا مشکل ہوجائے گا۔ نیک او ردیندار آدمی کا ایسے سماج میں رہنا آسان نہیں ہے جو صالح او رپاکیزہ نہ ہو ٹھیک اسی طرح جس طرح کوئی شخص خود صفائی ستھرائی رکھے اور صاف ستھرے کپڑے پہنے مگر اس کا گھر گندا رہے تو بھلا بتائیے کہ اس کی ذاتی بیماریاں جنم لیں گی کیا اس سے وہ خود کو محفوظ رکھ پائے گا۔یہی معاملہ سماج میں معروف یا منکر کا بھی ہے۔ سماج میں بھلائی ہوگی تو ایک صالح انسان کا اس میں جینا آسان ہوگا لیکن اگر معاشرہ بُرائیوں سے لت پت ہوتو خود کو بُرائیوں سے محفوظ رکھنا بڑا مشکل ہوگا۔

17 نومبر،2023، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی

-------------

Part: 1 - Calling To Good, Preventing From Evil Is an Important Duty-Part-1 بھلائی کی طرف بلانا، بُرائی سے روکنا اہم فریضہ ہے

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/social-religious-ritual-requirement-concluding-part/d/131148

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..