New Age Islam
Mon Mar 24 2025, 04:13 PM

Urdu Section ( 17 Nov 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Calling To Good, Preventing From Evil Is an Important Duty-Part-1 بھلائی کی طرف بلانا، بُرائی سے روکنا اہم فریضہ ہے

عتیق احمد شفیق بریلوی

(حصہ اول)

10 نومبر 2023

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ایک قرآنی اصطلاح ہے۔ اس کے معنی بھلائیوں کاحکم دینے اور بُرائیوں سے روکنے کے ہیں۔

معروف کے معنی جانے پہچانے کے ہیں اور شریعت کی اصطلاح میں اس سے مراد ہر وہ فعل ہے جس کی اچھائی اور خوبی کی ہر عقل سلیم گواہی دیتی ہو اور اس کو پسند کرتی ہو۔منکر کے معنی اَن جانے اور نامانوس کے ہیں ۔ یہ معروف کی ضد ہے۔ شریعت کی اصطلاح میں منکر اس فعل کو کہتے ہیں جس کو ہر سلیم الفطرت انسان بُرا جانتا ہو اور ناپسند کرتا ہو۔

امربالمعروف کامقصد انسانوں کو سماج کے لئے کارآمد اور مفید بناناہے اور نہی عن المنکر کامقصد انسانوں کو سماج کیلئے نقصان دہ بننے سے روکنا ہے۔ امربالمعروف کاسادہ سادینی مفہوم یہ ہے کہ لوگوں کو اللہ اور اس کے رسول کی مرضیات پرچلنے کاحکم دیاجائے اور سب سے بڑا معروف اللہ کی حاکمیت اور اس کی الوہیت وربوبیت کو قبول کرنا اور اس کی دعوت دینا ہے۔ خیر کے سارے سوتے اسی سے پھوٹتے ہیں ۔ جب کہ نہی عن المنکر کاسادہ سا دینی مفہوم یہ ہے کہ جن باتوں سے اللہ اور اس کے آخری رسول حضرت محمدﷺ نے روکاہے ان سے آدمی خود رک جائے اور سماج میں رہنے والے دوسرے افراد کو بھی ان سے روکنے کی کوشش کرے۔ سب سے بڑا منکر اللہ کی حاکمیت اور اس کی الوہیت اور ربوبیت کاانکار ہے۔

امربالمعروف و نہی عن المنکراختیاری نہیں ہے کہ آدمی کا دل چاہے تو اس فریضہ کو ادا کرے اور دل نہ چاہے تو نہ ادا کرے۔ بلکہ یہ واجب ہے جس کیلئے خصوصی طور پر امت مسلمہ کو برپا کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

”دنیامیں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کیلئے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کاحکم دیتے ہو اور بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔“( ﴿آل عمران:۱۱۰﴾)

أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ سے یہ بات بالکل عیاں ہے کہ امت مسلمہ کابنیادی فریضہ یہی ہے کہ وہ تمام انسانوں کی اصلاح کی فکر کرے۔ اس آیت میں صاف طور سے کہا گیا ہے کہ” تم کولوگوں کے لئے نکالا گیاہے اور تم دوسری امتوں اور قوموں کے مقابلے میں اس لئے افضل ہوکہ تم معروف کا حکم دیتے ہو اور منکر سے روکتے ہو۔ “ تومنون باللہ کہہ کر یہ بات واضح کردی گئی ہے کہ اللہ پر ایمان لانے کا تقاضا یہ ہے کہ معروف کا حکم دیا جائے اور منکر سے روکا جائے۔ اسی لئے اللہ کے رسول ﷺ نے اہل ایمان سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ”تم میں جو کوئی بُرائی دیکھے اسے اپنے ہاتھ سے مٹادے، اس کی قوت نہ ہوتو زبان سے روکے اور اس کی بھی قوت نہ ہوتو دل سے اسے بُرا مانے اور یہ ایمان کا سب سے کمزور درجہ ہے۔“

 (مسلم: کتاب الایمان)

ملت اسلامیہ کو دوسری تمام ملتوں کے مقابلے میں ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ یہ مقام اس اہم ذمے داری امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی ادائیگی ہی پر موقوف ہے۔ جب تک کسی ملّت یا گروہ کو اپنے منصب و مقام کا ادراک نہ ہو اُس وقت تک وہ اپنی حقیقت اور قدرو قیمت کو نہیں پہچان سکتا۔ ملت کی اہم ذمے داری یہ ہے کہ وہ ساری انسانیت کی قیادت و سیادت کرے، لیکن وہ صرف دعوؤں سے اس منصب پر قائم نہیں رہ سکتی۔ بلکہ اس کے لئے ضروری ہے کہ اس کے پاس جو صحیح عقیدہ، درست فکر، صحیح علم ومعرفت، اعلیٰ اخلاقی قدریں ، معیاری کردار اور متوازن نظام زندگی ہے، اسے وہ دوسروں تک منتقل کرے اور دنیا کے ہر میدان میں خواہ وہ علم و معرفت کا میدان ہو یا سائنس اور تکنالوجی کا، خواہ وہ حکومت چلانے کا معاملہ ہو یا انسانیت کی فلاح و بہبود کیلئے کارگزاری کا یا اسی طرح سے سماجی، رفاہی اور خدمت خلق کا، جب تک ملت اسلامیہ ساری اقوام وملل سے آگے اور بلند نہ ہوگی اس وقت تک وہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کافریضہ ادا نہیں کرسکتی۔ یہ ملت اسلامیہ کافریضۂ منصبی ہے کہ وہ زندگی سے منکرات، شرور اور فساد، بگاڑ اور کرپشن، سرکشی و عدوان، ظلم و زیادتی اور شرک کی آلودگی کے خاتمے کی کوشش کرے اور معروف، بھلائی، خیر، سلامتی اور امن کو فروغ دے اور ایسا ماحول بنائے جہاں امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضے کی ادائی کا اہتمام کیاجاتاہو۔

اس اہم کام کی انجام دہی کیلئے ایمان شرط ہے۔ کیونکہ ایمان ہی انسان کو معروف کا حکم دینے اور منکرسے روکنے کے لئے مسلسل رواں دواں رکھ سکتاہے اور اس راہ میں آنے والی پریشانیوں کو انگیز کرتے ہوئے قدم آگے بڑھانے کی صلاحیت پروان چڑھاسکتاہے۔ ایمان کے سرچشمے سے ہی اتحادواتفاق، یکجہتی اور میل محبت کے چشمے اور سوتے پھوٹتے ہیں ۔ ہمیں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی فکر کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے ایمان کی پختگی پر بھی توجہ دینی ہوگی۔ یاد رہے کہ ایمان جذبۂ ایثار و قربانی کو کئی گنا بڑھادیتا ہے۔

”تم میں کچھ لوگ تو ایسے ضرور ہونے چاہئیں جو نیکی کی طرف بلائیں ، بھلائی کاحکم دیں اور بُرائیوں سے روکتے رہیں ۔ جو لوگ یہ کام کریں گے وہی فلاح پائیں گے۔“ (آل عمران:۱۰۴﴾)

اس آیت میں امت مسلمہ کے داعی گروہ ہونے کی حیثیت سے تین کام بتائے گئے ہیں :

(۱) دعوت الی الخیر (۲) امربالمعروف اور (۳) نہی عن المنکر۔ (جاری)

10 نومبر 2023، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی

----------------

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/calling-preventing-evil-important-duty-part-1/d/131124

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..