ارشد عالم،
نیو ایج اسلام
25 جولائی 2022
این اے آئی
انٹرویو: پسماندہ کارکن فیاض احمد فیضی
حال ہی میں، وزیر اعظم نے تمام
مذہبی اقلیتوں میں کمزور طبقات کا خصوصی خیال رکھنے کا حوالہ دیا۔ بی جے پی حکومت کے
اقتدار میں آنے کے بعد سے کم از کم تین مواقع پر وزیر اعظم نے نچلی ذات کے مسلمانوں،
جو خود کو پسماندہ مسلمان کہتے ہیں، خصوصی تذکرہ کیا ہے۔ NewAgeIslam.com نے فیاض احمد فیضی کا انٹرویو کیا ہے، جو پیشے سے
ایک ڈاکٹر ہیں ایک پسماندہ مسلم کارکن بھی ہیں۔ کئی سالوں سے وہ مختلف میڈیا پلیٹ فارموں
پر نچلی ذات کے مسلمانوں کی حالت زار کو اجاگر کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ اس عمل میں،
انہوں نے بہت سے لوگوں کو ناراض کیا ہے، اور ان پر ہندو انتہا پسندوں کو خوش کرنے کا
الزام لگایا گیا ہے۔ اس انٹرویو میں، وہ ذات پات مخالف کارکن ہونے کے اپنے سفر کو بیان
کرتے ہیں، اور ہمیں بتاتے ہیں کہ کس طرح مسلم سیاست میں کوئی بھی بڑی تبدیلی صرف اعلیٰ
ذات کے مسلم (اشرافیہ) کے بیانیے پر سوال اٹھانے کر ہی آسکتا ہے۔
Pasmanda
Activist Faiyaz Ahmad Fyzie
------
سوال۔ کیا آپ ہمیں اپنے بارے
کچھ بتائینگے؟
فیاض فیضی: جی بالکل۔ میں بلیا، اتر پردیش کے مجاہدین آزادی کے خاندان سے تعلق رکھتا
ہوں۔ میرے دادا ایک مجاہد آزادی اور کانگریسی تھے۔ انہوں نے چیتو پانڈے کی قیادت میں
انگریزوں کے خلاف جنگ لڑی۔ میرے والد ایک انٹرمیڈیٹ کالج میں استاد تھے اور نظریاتی
طور پر وہ سوشلسٹ کمیونسٹ ذہن کے قوم پرست انسان تھے۔ میری والدہ کولکتہ سے ہیں اور
انہوں نے ہمیں ہندی سکھانے کے لیے میرے والد سے ہندی سیکھی۔ بلیا میں، ہم بھرگو آشرم
کے علاقے میں رہتے تھے اور میں اس آشرم کے صحن میں کھیلتے کودتے پلا بڑھا ہوں۔ میں
نے اپنی پرائمری تعلیم کے لیے ایک مدرسے میں داخلہ لیا، پھر بلیا کے گورنمنٹ پرائمری
اسکول میں چلا گیا۔ اس کے بعد والد ہمیں وہاں لے گئے جہاں ان کی نوکری تھی، یعنی یوسف
پور-محمد آباد، غازی پور ضلع کا ایک قصبہ جہاں میں نے اسکول کی تعلیم مکمل کی اور پھر
گریجویشن کے لیے بلیا چلا گیا۔ آخر کار میں یونانی طب کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے پریاگ
راج (الہ آباد) آیا۔ الہ آباد میں رہتے ہوئے، میں نے تبلیغی جماعت کی سرگرمیوں میں
حصہ لیا جسے بعد میں میں نے چھوڑ دیا جب مجھے معلوم ہوا کہ جماعت بھی دوسری مسلم تنظیم
کی طرح ذات پرست ہیں۔ میں نے اپنا ایم ڈی (یونانی) وجئے واڑہ، آندھرا پردیش سے مکمل
کیا۔ میں اب ڈاکٹر ہوں۔ میرے خاندان میں مذہبی لوگ تھے، حالانکہ میرے والد کافی آزاد
خیال تھے۔ میں اپنے آپ کو ایک مذہبی مزاج کا حامل ایک قوم پرست کے طور پر پیش کرتا
ہوں کیونکہ یہی مجھے اپنے خاندان سے وراثت میں ملا ہے۔ شروع سے ہی میرے اندر معاشرے
کا ایک بامعنی رکن ہونے کا رجحان تھا جو میں نے اپنے والد سے سیکھا تھا۔ وہ پسماندہ
لوگوں اور خصوصاً لڑکیوں کی تعلیم کے بہت بڑے حامی تھے۔
سوال۔ آپ
کا تعلق پسماندہ تحریک سے کیسے ہوا؟
فیاض فیضی:
میں 2012 سے پسماندہ تحریک میں سرگرم عمل ہوں۔ تاہم، میں بچپن سے ہی اس تحریک سے واقف
تھا۔ جب میں طب کی تعلیم کے لیے الہ آباد آیا تو علمائے کرام سے واسطہ پڑا اور مدرسوں
میں وقت گزارا کرتا تھا۔ ان اداروں کی چار دیواری کے اندر، میں نے دیکھا کہ کس طرح
ذات پات کا رواج قائم کیا گیا۔ وہاں کمین اور رزیل جیسے الفاظ اکثر نچلی ذات کے مسلمانوں
کے لیے استعمال ہوتے تھے۔ الہ آباد میں ہی میں نے مسلمانوں میں ذات پات کے نظام پر
مسعود عالم فلاحی کی کتاب (ہندوستان میں ذات پات اور مسلمان) پڑھی اور یہ جانا کہ یہ
نظام کا طرح کیسے نسل در نسل چلا آرہا ہے۔ جب میں اپنی اعلیٰ تعلیم کے لیے حیدرآباد
گیا تو میں نے مسعود فلاحی سے خود ملاقات کی اور ان کے ساتھ ذات پات پر بات چیت کا
سلسلہ جاری رہا، انہوں نے مجھے اس مسئلے پر لکھنے پر مجبور کیا، بالآخر مجھے اعظم گڑھ
کے ایک یونانی کالج میں پڑھانے کا موقع ملا اور یہیں میرا تعلق پسماندہ مسلم محاذ کے
وقار احمد حواری سے ہوا۔ اسی کے بعد سے میں اس تحریک کے ساتھ فعال طور پر منسلک ہوں۔
سوال۔ کیا
آپ تحریک کی مختصر تاریخ اور موجودہ صورت حال پر روشنی ڈال سکتے ہیں؟
فیاض فیضی:
یہ تحریک آزادی سے پہلے اس وقت شروع ہوئی جب عاصم بہاری نے نچلی ذات کے مسلمانوں کو
منظم کیا اور اعلیٰ ذات کی قیادت والی مسلم لیگ کے بیانیے کو چیلنج کیا۔ لیکن میں اس
سے پہلے بھی اس تحریک کو مانتا ہوں اور یہ کہتا ہوں کہ ممکن ہے کہ قرون وسطی کے عظیم
شاعر کبیر بھی یہی کام کرنے کی کوشش کر رہے تھے: یعنی ذات پات کے امتیاز کو بے نقاب
کرنا۔ بنگال کے حاجی شریعت اللہ نے بھی 19ویں صدی میں اس کے خلاف جدوجہد کی۔ 1978 کے
دوران مہاراشٹر کے شبیر انصاری نے اس کام کو آگے بڑھایا اور منڈل کمیشن کے نفاذ کے
لیے ہندو او بی سی تنظیموں کے ساتھ مل کر کام کیا۔
منڈل کے بعد تحریک کا اگلا
مرحلہ شروع ہوتا ہے۔ یہ وہ وقت ہے جب ڈاکٹر اعزاز علی اور علی انور جیسے لیڈروں نے
سیاسی نمائندگی کے مقصد کے لیے نچلی ذات کے مسلمانوں کو منظم کرنا شروع کیا۔ لفظ پسماندہ
اسی مرحلے میں عبدالرؤف انصاری نے علی انور کی قیادت میں وضع کیا تھا۔ اس تحریک نے
بہار میں حکمراں جے ڈی (یو) کو انتخابی فائدہ پہنچایا کیونکہ یہ پسماندہ لیڈروں کے
مطالبات کے تئیں حساس تھی۔ آج درجنوں تنظیمیں ہیں جو مسلمانوں کے اندر مظلوموں کے حقوق
کے لیے لڑ رہی ہیں۔ یہ سب اپنے آپ کو پسماندہ نہیں کہتے لیکن بنیادی طور پر، وہ سب
اسی مقصد کے لیے کوشاں ہیں۔ اگرچہ سب سے بڑے محاذ کی قیادت وقار احمد کر رہے ہیں، جو
آل انڈیا پسماندہ مسلم محاذ کے جنرل سکریٹری ہیں اور لکھنؤ میں مقیم ہیں۔ علی انور
ایک اور محاذ کے رہنما ہیں لیکن اس کی طاقت گزشتہ برسوں سے کافی کم ہو رہی ہے۔ پسماندہ
کے بہت سے لیڈر ان سے اس وجہ سے ناراض ہیں کہ جب وہ راجیہ سبھا میں تھے تو انہوں نے
تنظیم اور سماج کے لیے بہترین کام کرنے کی کوشش نہیں کی۔ حقیقی محاز وہ ہے جس کی قیادت
وقار احمد کررہے ہیں اور اس کے ہندوستان کی مختلف ریاستوں میں تنظیمیں ہیں۔
سوال: لوگ
عام طور پر کہتے ہیں کہ مساوات اسلام کا بنیادی پیغام ہے اس لیے اسلام میں ذات پات
کا کوئی نظام نہیں ہے۔ آپ کو کیا کہنا ہے؟
فیاض فیضی:
آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ اسلام ذات پرستی کو فروغ نہیں دیتا؟ اسلام میں کئی مکاتب فقہ
ہیں، لیکن ان میں سے تقریباً سبھی ذات پرستی کے نظام کو برقرار رکھتے ہیں۔ شہنائی باز
استاد بسم اللہ خان، جنہیں اعلیٰ ترین شہری اعزاز، بھارت رتن حاصل تھا، اپنے بیٹے کی
شادی اونچی ذات کی مسلم لڑکی سے کرنے کا خواب کبھی نہیں دیکھ سکتے تھے کیونکہ وہ ایک
نچلی ذات کے مسلمان تھے۔ میرا یہ دعویٰ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسلام
میں ذات پات کا نظام نہیں ہے لیکن اشرافیہ (اعلیٰ ذات کے مسلمانوں) نے اسے معاشرے میں
اپنا تسلط برقرار رکھنے کے لیے قائم رکھا ہے۔ لہٰذا، آج کا اسلام نسل پرستی اور ذات
پرستی کی نظریاتی اور عملی طور پر توثیق کرتا ہے۔ اشرف علی تھانوی جیسے مردوں نے اپنی
کتابوں میں ذات پرستی کو جواز فراہم کر کے اسے باضابطہ منظم کیا ہے۔ ہمیں معلوم ہونا
چاہیے کہ جہاں ذات پات کے خلاف حدیثیں ہیں وہیں اس کے حق میں بھی حدیثیں ہیں۔ اشراف
ان کا استعمال صورت حال اور معاملے کے مطابق کرتے ہیں۔ انہوں نے کبھی ذات پات اور نسل
پرستی کی مذمت نہیں کی جو ہمارے مذہبی لٹریچر میں موجود ہے۔ مثال کے طور پر، تمام مکاتب
فقہ فکر کا یہ کھلا موقف ہے کہ خلیفہ صرف قریش (سید اور شیخ) ہی ہو سکتا ہے، جو واضح
طور پر نسل پرستی کی علامت ہے۔ ابتدائی اسلامی تاریخ میں سعد بن عبادہ صرف اس وجہ سے
پہلا خلیفہ نہیں بن سکے کہ وہ انصار تھے نہ کہ قریش۔ شیعہ فقہ بھی ان امتیازی معمولات
کی یکساں طور پر یا شاید زیادہ سخت انداز میں حمایت کرتی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ امام
(خلیفہ) بننے کا حق صرف رسول اللہ (بنو ہاشم) کے خاندان کو ہے۔ لہذا، میں جو کہہ رہا
ہوں وہ یہ ہے کہ اسلام نے اپنے ابتدائی دنوں سے ہی اقدار اور ذات پات کے نظام کو برقرار
رکھا ہے۔ اور یہ صورت حال آج تک موجود ہے۔ اردن میں، ہاشمی اب بھی حکومت کر رہے ہیں
کیونکہ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ بنو ہاشم سے ہیں، جس قبیلے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم
کا تعلق تھا۔ اس ملک کا نام Hashemite Kingdom of
Jordan ہے جو کہ حقیقی معنوں میں نسل پرستانہ نام ہے۔ یمن میں، ہم دیکھتے ہیں کہ
الاخدم کے نام سے مشہور لوگوں کا ایک گروہ ہے جو مسلمان ہونے کے باوجود سماجی درجہ
بندی میں سب سے نیچے ہیں۔ (سیدوں کے زیر انتظام) ایران کی سعودی عرب سے نفرت کی ایک
وجہ یہ بھی ہے کہ سعودی عرب کے حکمران بدو ہیں، جنہیں سماجی درجہ بندی میں بہت نیچے
سمجھا جاتا ہے۔ تاریخی طور پر، اس مسئلے پر توجہ نہیں دی گئی ہے کیونکہ یہ دنیا بھر
میں اعلی طبقے اور ہندوستان میں اشرفیہ کے مفاد میں کام کرتا ہے۔ اگر آپ ہندوستان میں
مسلمانوں کی اعلیٰ مذہبی تنظیم آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کو دیکھیں تو اس میں آپ
کو ایک بھی پسماندہ طبقے کا فرد نہیں ملے گا۔ یہی معاملہ صوفی حلقوں کا ہے جہاں سید
ذات نے مذہبیت کے اس حلقے پر اجارہ داری قائم کر رکھی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے
آخری خطبہ کے بعد بھی، جس نے ذات پات اور نسل کی تفریق کو مٹا دیا تھا، یہ تقسیم اب
بھی برقرار ہے۔
سوال۔ کیا
آپ ہمیں ہندوستانی مسلمانوں کے اندر ذات پات کی بنیاد پر امتیاز کی کچھ مثالیں دے سکتے
ہیں؟
فیاض فیضی:
جب میں اعظم گڑھ میں پڑھاتا تھا تو ایک چپراسی تھا جس کا نام اسلام تھا۔ وہ نعت (پیغمبر
محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح میں کہی گئی نظم) پڑھنے میں بہت اچھا تھا۔ لیکن وہ
ہمیشہ فرش پر بیٹھا کرتے تھے کیونکہ وہ مہتر/ہلاخور ذات سے تھے۔ یہ شخص اذان بھی دیتا
تھا لیکن اس کے بعد میں نے دیکھا کہ وہ آخری صف میں جا کر نماز پڑھتا تھا۔ اعظم گڑھ،
راوتارا میں اعلی مسلم ذات کا خوف اس قدر ہے کہ اسلام جیسا نچلی ذات کا مسلمان کبھی
بھی پہلی صف میں نماز پڑھنے کی ہمت نہیں دکھا سکا کیونکہ وہ اسے اس کی نچلی ذات کی
وجہ سے ناپاک سمجھتے تھے۔ میں نے پایا کہ ان کی ذات کے لوگوں کو مسجد کے اندر وضو کرنے
کی بھی اجازت نہیں تھی۔ ان سے کہا گیا تھا کہ وہ اپنے گھروں میں ہی وضو کریں اور پھر
مسجد میں آئیں۔ عید اور بقرعید جیسے دنوں میں میں نات ذات کے افراد کو ہمیشہ مسجد کے
باہر دیکھا مسجد کے اندر کبھی نہیں۔ عید پر انہیں کوئی اپنے گھر نہیں بلاتا، حالانکہ
ہندو اعلیٰ ذات کے لوگوں کو مدعو کیا جاتا تھا۔ میں نے مسلم معاشرے کے اندر ذات پات
کی تفریق کی ایسی بہت سی مثالیں دیکھی ہیں۔ میرے اپنے بھائی کو اس کے اونچی ذات کے
اساتذہ نے کم نمبر دیے۔
سوال۔ کیا پسماندہ مسلمانوں
کو ثقافتی سطح پر کسی قسم کے امتیازی سلوک کا سامنا ہے؟
فیاض فیضی:
یقینی طور پر، وہ ایسا ہی ہے۔ ہمارے یہاں کی پسماندہ واقعی ایک متنوع قوم ہیں۔ اسی
لیے کرناٹک کے پسماندہ اور بہار کے پسماندہ کے درمیان ثقافتی مماثلت بہت کم ہے۔ وہ
زبان، لباس، کھانے پینے کی عادات اور مقامی رسومات کے معاملے میں بھی کافی مختلف ہیں۔
اشرفیہ ان پر اردو اور دیگر علامتوں کے ذریعے اتحاد کو مسلط کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
لیکن زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ وہ ہمیں صرف اس لیے "ہندو" کہتے ہیں کہ
ہم اپنی سماجی اور ثقافتی روایت کی پیروی کرتے ہیں۔ ہماری خواتین ساڑیاں پہنتی ہیں،
وہ سندور لگاتی ہیں اور پیدائش، شادی اور موت کی رسومات ادا کرتی ہیں جو مقامی ہندو
برادریوں میں عام ہیں۔ ہمارا مذہب الگ ہے لیکن ہمارا کلچر الگ کیوں ہو؟ اشرافیہ یہ
چاہتے ہیں کہ ہم تبلیغ جماعت، دعوت اسلامی اور جماعت اسلامی جیسی مختلف مذہبی تحریکوں
کے ذریعے نام نہاد "اسلامی معمولات" کو مسلط کرنے کے نام پر ان روایات کو
ترک کر دیں۔ یہ اشرافیہ کی ہندوؤں سے نفرت کو ظاہر کرتا ہے جو ان ثقافتی طریقوں میں
سے کسی کو اپنا نہیں کہنا چاہتے۔ پسماندہ طبقے ان پڑھ ہونے کی وجہ سے علما کی اندھی
پیروی کرتے ہیں اور اس سے ہمارے ملک کے پسماندہ مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان سماجی
اور مذہبی یکجہتی کو ختم کرنے کا باعث بن رہا ہے۔
سوال. حال
ہی میں، وزیر اعظم نے کہا ہے کہ مذہبی اقلیتوں کے اندر کمزور طبقات پر خصوصی توجہ دی
جانی چاہیے۔ عوام نے اسے کیسے دیکھا ہے؟
فیاض فیضی: یہ پہلی بار نہیں ہے کہ ہمارے وزیر اعظم نے ایسا کہا ہو۔ انہوں نے پہلے
بھی پسماندہ لفظ کا استعمال کیا ہے لیکن اس بار انہوں نے اپنی پارٹی کے کارکنوں کو
تمام مذہبی اقلیتوں میں کمزور طبقات کی بہبود کا خیال رکھنے کی تلقین کی ہے۔ پسماندہ
مسلم سماج میں اس پر خوشی کا ردعمل ہے۔ وہ وزیراعظم کے بیان کے بارے میں بہت مثبت ذہن
رکھتے ہیں۔ تاہم کچھ ایسے ہیں جو اس بیان پر تنقید کر رہے ہیں۔ میں انہیں نام نہاد
سیکولر لبرل امبیڈکرواد دھڑا کہتا ہوں جو یہ کہنے کی نادانی کر رہے ہیں کہ اگر وزیر
اعظم کو پسماندہ مسلمانوں سے اتنی ہی ہمدردی ہے تو انہیں آرٹیکل 341 کے بارے میں کچھ
کرنا چاہیے [یہ آرٹیکل مسلمانوں اور عیسائیوں کو شیڈیول کاسٹ کے طور پر تسلیم کرنے
سے منع کرتا ہے]۔ اشرافیہ دانشور بھی اسی طرح وزیراعظم پر تنقید کر رہے ہیں۔ دلت مسلمانوں
کو تسلیم کرنا ہمارے ایجنڈوں میں شامل ہے، لیکن اس کے علاوہ اور بھی مسائل ہیں جن پر
ہماری توجہ ضروری ہے۔مثال کے طور پر، ہم موجودہ قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے مسلم
برادریوں کو او بی سی کا درجہ دلوانے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔ بہت سی ریاستوں میں،
ایسی مسلم برادریاں ہیں جنہیں شیڈولڈ ٹرائب کے دائرے میں ہونا چاہیے تھا لیکن وہ اس
میں شامل نہیں ہیں۔ لیکن نام نہاد سیکولر لبرل، امبیڈکراواد اور اشرافیہ مسلمانوں نے
اس مسئلہ کو مسلم قوم کے اندر سماجی انصاف سے متعلق دیگر اہم مسائل کے ساتھ نہیں اٹھایا۔
اس کے بجائے، وہ آرٹیکل 341 پر توجہ مرکوز کرنا چاہتے ہیں تاکہ پسماندہ تحریک ہندو
دلتوں کے ساتھ تصادم کا شکار ہو جائے۔ اس مسئلے پر خصوصی توجہ مرکوز کرنے سے ہندو مسلم
مخاصمت بڑھے گی جو معاشرے کو مزید تقسیم کرے گا۔ اور یہی اشرافیہ چاہتے ہیں کہ پسماندہ
تحریک کی شبیہ کو داغدار کیا جائے۔ ہم ان کے جال میں کبھی نہیں آئیں گے۔
سوال: تحریک
کے قائدین میں سے ایک علی انور نے وزیراعظم کے بیان پر منفی ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے
سخت الفاظ میں ایک خط لکھا ہے۔ اس بارے میں انہوں نے جہاں بہت سی باتیں کہیں ان میں
سے ایک یہ بھی ہے کہ انہوں نے اسے مسلم قوم کو تقسیم کرنے کا اقدام قرار دیا ہے۔ ایک
پسماندہ کارکن کے طور پر، آپ اس بیان کو کیسے دیکھتے ہیں؟
فیاض فیضی: اس بیان نے واقعی پسماندہ تحریک برادری کے بہت سے لوگوں کو تکلیف دی ہے۔
کیا مسلمانوں کے اندر سماجی انصاف کی بات کرنا مسلمانوں کو تقسیم کرنے کی کوشش ہے؟
یہ عجیب بات ہے کہ وہ اس طرح کی بات کریں کیونکہ وہ خود بھی پسماندہ محاذ کے انعقاد
کے وقت سے اسی طرح کے الزامات کا سامنا کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم کو لکھے گئے اپنے خط
میں ایک جگہ وہ لکھتے ہیں کہ وہ یہ مطالبات بطور "مسلمان" کر رہے ہیں۔ پسماندہ
تحریک نے ہمیشہ ذات پات کو مذہبی شناخت پر فوقیت دی ہے، جو اس خط میں بالکل الٹ دکھائی
دیتی ہے۔ میں حیران ہوں کہ علی انور اشرافیہ کی زبان کیوں بول رہے ہیں۔ میں اس علی
انور کو جانتا ہوں جس نے مساوات کی جنگ لکھی تھی اور میں انہیں اسی طرح یاد رکھنا چاہتا
ہوں۔ ہم ایک منتخب وزیراعظم پر شک کیوں کریں؟ پسماندہ مسلمانوں کے لیے یہ ایک سنہرا
موقع ہے کہ وہ غور و فکر کرنا شروع کریں۔ اسی لیے محاذ نے اس بیان کا خیر مقدم کیا
ہے اور لکھنؤ میں پریس کانفرنس کرکے وزیر اعظم کے اس اقدام کی تعریف کی ہے۔
سوال. یہ
سچ ہے کہ لنچنگ کے واقعات میں پسماندہ مسلمان کو نقصان پہنچا ہے۔ حکومت نے ایسے حملوں
کو روکنے کے لیے بہت کم اقدامات کیے ہیں۔ اس بارے میں آپ کے خیالات کیا ہیں؟
فیاض فیضی: میں یہ بتانا چاہوں گا کہ اگرچہ اس ملک میں غیر ملکی اشرافیہ کو مسلمان
ہونے کے تمام فوائد حاصل ہیں، لیکن اس ملک کے پسماندہ اس شناخت کے سے متعلق ہر طرح
کے نقصانات اٹھاتے ہیں۔ ماب لنچنگ کے زیادہ تر متاثرین پسماندہ مسلمان ہیں۔ اور اسی
لیے یہ انتہائی ضروری ہے کہ وزیراعظم کے حالیہ بیانات کو پوری سنجیدگی سے لیا جائے۔
ہمیں ایک ایسی غیر معمولی صورتحال کا سامنا ہے جہاں مسلمانوں کے ووٹوں سے فائدہ اٹھانے
والے ان کے بارے میں بات بھی نہیں کرنا چاہتے۔ کہاں ہیں اکھلیش یادو؟وہ نچلی ذات کے
مسلمانوں کو لنچ کیے جانے اور ان کے گھروں کو مسمار کیے جانے پر کیوں خاموش ہے؟ اور
ان کی اس خاموشی پر سوال کیوں نہیں پوچھے جا رہے؟ ہمارے مسائل صرف حکمران جماعت ہی
حل کر سکتی ہے اور اسی لیے ہمیں وزیر اعظم کے کام کی تعریف کرنی چاہیے۔ میں یہ بھی
کہنا چاہوں گا کہ پسماندہ مسلمانوں کو اشرافیہ کے ہاتھوں روزانہ جبر و تشدد کا سامنا
کرنا پڑتا ہے۔ اس پر کوئی بات کیوں نہیں کرتا؟ ماب لنچنگ قابل مذمت ہے لیکن زیادہ کثرت
سے لنچنگ 85% مسلم آبادی کو خاموش کرانا اور انہیں ان کے حقوق سے محروم رکھنا ہے جو
اشرافیہ کے ذریعہ کیا جا رہا ہے۔
سوال. پسماندہ
تحریک پہلے نظریاتی طور پر اسلام پسندی کے ساتھ ساتھ ہندوتوا کی بھی مخالف تھی۔ یہ
تاثر بڑھ رہا ہے کہ تحریک کے کچھ حصے ہندوتوا کے ساتھ اتحاد کرنا چاہتے ہیں۔ آپ اس
اقدام کو کیسے دیکھتے ہیں؟
فیاض فیضی: ہم ہر قسم کی فرقہ واریت کے خلاف ہیں۔ لیکن یہ میرا پختہ یقین ہے کہ چونکہ
ہم ایک مسلم شناخت کے ساتھ پیدا ہوئے ہیں، اس لیے ہماری اولین ذمہ داری مسلم فرقہ پرستی
کے خلاف لڑنا ہے۔ میں یہ بھی مانتا ہوں کہ ہندو فرقہ پرستی مسلم فرقہ پرستی کا نتیجہ
ہے اور جب ہم اس کو شکست دیں گے تو ہندو فرقہ پرستی کے پاس کچھ نہیں بچے گا۔ ہندو فرقہ
پرستی کے خلاف لڑنے والے ہندو کافی ہیں لیکن مسلمانوں کے بارے میں ایسا نہیں کہا جا
سکتا۔ کبیر کے زمانے سے ہی، صرف پسماندہ مسلمان ہی مسلم فرقہ پرستی کے خلاف لڑ رہا
ہے۔ اور ایسا کیوں ہے کہ جب جمعیۃ العلماء کے صدر ارشد مدنی آر ایس ایس کے سربراہ سے
ملتے ہیں تو ہم ان سے سوال نہیں کرتے؟ کیا اس لیے کہ وہ اشراف ہیں اور جو کچھ وہ کرتے
ہیں وہ جائز ہے؟ اگر یہی کام پسماندہ کر رہے ہیں تو وہ خود بخود مسلم مخالف ہو جاتا
ہے؟ جب بھی ہم نے ان مسائل کو اٹھانے کی کوشش کی ہے اشرافیہ نے اسلامو فوبیا کا رونا
رویا ہے۔ یہ ہمارا پختہ یقین ہے کہ صرف ملکی پسماندہ ہی تنوع اور تکثیریت کو برقرار
رکھ سکتے ہیں کیونکہ انہوں نے ان تصورات پر صدیوں سے ہندوؤں کے ساتھ مل کر رہنے کے
دوران عمل کیا ہے کیونکہ ان کی بنیادیں ایک جیسی ہیں۔ اشرافیہ نام سے ہی تنوع کے مخالف
ہیں اور اسی لیے وہ تمام مسلمانوں پر یکساں نظریہ مسلط کرنا چاہتے ہیں۔
سوال۔ آپ
پر ذاتی طور پر ہندوتوا کے بارے میں نرم رویہ رکھنے کا الزام لگایا گیا ہے۔ کیا آپ
وضاحت کرنا چاہیں گے؟
فیاض فیضی:
یقینا، میں واضح کرنا چاہوں گا۔ وہ مجھ پر آر ایس ایس کا ایجنٹ ہونے کا الزام لگاتے
ہیں کیونکہ میں نام نہاد قدامت پرست ہندو چینلوں پر جاتا ہوں۔ لیکن جو وہ آپ کو نہیں
بتائیں گے وہ یہ ہے کہ انہوں نے مجھے کبھی اپنے چینلوں پر نہیں بلایا۔ نام نہاد سیکولر
لبرل، امبیڈکرواد اور اشرافیہ نے، ایک یا دو استثناء کے ساتھ، مجھے اپنے چینلوں پر
نہ بلانے کا فیصلہ کیا ہوا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ مجھے بلاؤ، مجھ سے بحث کرو۔ میں بالکل
وہی کہوں گا جو میں نام نہاد قدامت پسند ہندو چینلوں پر کہتا ہوں۔ لیکن میں جانتا ہوں
کہ وہ مجھے کبھی فون نہیں کریں گے کیونکہ وہ ایک تکلیف دہ پسماندہ اور مسلم معاشرے
میں سماجی انصاف کی آواز نہیں چاہتے، کیونکہ یہ ان کے بیانیے کو پریشان کر سکتی ہے۔
پسماندہ کو اپنی کہانی ایک وسیع تر سامعین کو سنانی ہے۔ یہ فریب اور اشرافیہ کی طرف
سے نیچا دکھانے کی ایک دردناک کہانی ہے۔ جو بھی مجھے پلیٹ فارم دے گا میں جا کر بتاؤں
گا کہ اشرافیہ نے ہمارے ساتھ کیا سلوک کیا ہے۔ میں کوئی فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں
ہوں اور نہ ہی مجھے سیاسی طور پر درست ہونے کی سہولت حاصل ہے۔ ان ہندوتوا چینلوں نے
مجھے ایک پلیٹ فارم دیا تو میں وہاں گیا۔ اور ان کی بدولت پسماندہ مسلمانوں کی حالت
زار کے بارے میں پہلے کی نسبت بہت زیادہ آگاہی ہے۔ میں نے ان کے بہت سے پوشیدہ راز
سے پردہ اٹھایا ہے اور میں ایسا کرتا رہوں گا۔
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism