ارشد عالم، نیو ایج اسلام
22 اپریل 2022
ضروری نہیں کہ توحید کی
دعوت سے ہندوستانی مسلمانوں کے مقاصد کی تکمیل ہو
اہم نکات:
1. سلمان ندوی نے
جہانگیرپوری جھڑپوں کے پس منظر میں ایک مختصر ویڈیو شائع کیا ہے
2. ان کا کہنا ہے کہ
مسلمان اس آفت کا سامنا اس لیے کر رہے ہیں کیونکہ وہ اسلام کے راستے سے ہٹ گئے ہیں
اور 'قبر پرست' بن گئے ہیں
3. ان کی یہ بات جھوٹی
ہے کہ سناتن دھرم اور اسلام دونوں توحید کی دعوت دیتے ہیں
4. ان کا کہنا ہے کہ
ہندوستان مسلمانوں کو خدا نےبطور تحفہ عطا کیا تھا تاکہ اسلام کی روشنی پھیلائی
جائے لیکن انہوں نے ہندو مشرکوں کا طرزعمل اختیار کر کے اس موقع کو ضائع کر دیا ہے
----
سلمان ندوی کی ایک مختصر
ویڈیو آپ کو یہ جاننے کے لیے کافی ہوگی کہ خود ساختہ ہندوستانی علماء کی پریشانی
کیا ہے۔ یہ ویڈیو دہلی میں جہانگیرپوری جھڑپوں کے پس منظر میں بنائی گئی ہے جس میں
رام نومی کے جلوس کے دوران ایک مسجد پر ہندوؤں کی جانب سے جھنڈا لہرانے کی کوششوں
کے بعد مسلمانوں نے پتھراؤ کیا تھا۔ اس ویڈیوں میں سلمان ندوی یہ تجزیہ کرتے ہوئے
دکھائی دیتے ہیں کہ ایسا کیوں ہوا، یہ مسلمانوں کے لیے اپنے ’غلط معمولات‘ کو
بدلنے کا درس دیتا ہے، اور کس طرح اشتعال انگیزی کرنے والے واقعی سناتن دھرم کے
پیروکار نہیں ہیں۔
ویڈیو میں، ندوی سناتن
دھرم اور ہندوازم کے درمیان فرق کرتے ہوئے دلیل دیتے ہیں کہ سناتن دھرم نے ہمیشہ
توحید کا درس دیا ہے (اللہ / ایشور ایک ہے)۔ وہ کہتے ہیں کہ ہندومت ایک طنزیہ جملہ
تھا جو ہندوستانیوں کو فارسیوں نے دیا تھا۔ ہو سکتا ہے کہ وہ درست ہو کہ اس زمانے
میں لفظ ہندو کا ایک استعمال انتہائی منفی تھا، لیکن کیا انہیں آج کے مذہبی طور پر
بٹے ہوئے سماج کے تناظر میں یہ کہنا چاہیے تھا؟ وہ ہندوؤں کو یہ یاد دلا کر کیا
حاصل کرنا چاہتے ہیں کہ وہ اب بھی مسلمانوں کا دیا ہوا نام ہی لے کر چل رہے ہیں؟
اگر آج لوگوں کی ایک بڑی تعداد اپنے آپ کو ہندو کہلوانا چاہتی ہے تو انہیں پریشانی
کیا ہے؟ ایک ارب لوگ جو اس نام سے اپنی پہچان جوڑنا چاہتے ہیں ان پر یہ اپنا دیا
ہوا نام کیوں تھوپنا چاہتے ہیں؟ اس سے ندوی کے بارے میں ہمیں یہی معلوم ہوتا ہے کہ
وہ اب بھی اس ماضی سے باہر نہیں نکل سکے ہیں کہ جب ان جیسوں کو لوگوں کو نام اور
عہدہ دینے کا اختیار حاصل تھا۔
ندوی اس کے بجائے ہندوؤں
کے لیے سناتن دھرم کا لفظ استعمال کرنا چاہیں گے۔ لیکن پھر بات یہ پیدا ہوگی کہ
سناتنیوں کے بارے میں بھی ان کی اپنی ایک عجیب و غریب سمجھ ہے اور یہ حیرت کی بات
نہیں کہ وہ اس لفظ کو کیوں ترجیح دیتے ہیں۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ سناتن دھرم شرک
کے بجائے توحید کو فروغ دیتا ہے جیسا کہ مشہور ہندو رواج سے ظاہر ہے۔ لہٰذا، لفظ
سناتن کے لیے ان کی ترجیح اس حقیقت سے ماخوذ ہے کہ اسلام کی طرح دوسرے مذاہب بھی
توحید کو ہی فروغ دیتے ہیں۔ اس سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ مسلم مذہبی قیادت اور بین
المذاہب بقائے باہمی کے بارے میں ان کی سمجھ میں بنیادی خرابی کیا ہے۔
لیکن سب سے پہلی بات تو
یہ ہے کہ ندوی کو کس نے بتایا کہ سناتن دھرم صرف توحید کی تعلیم دیتا ہے؟ اس مذہب
کے اندر ایسے فرقے ہیں جن کو توحید سے جوڑا جا سکتا ہے، لیکن اس کے علاوہ اور بھی
ایسے فرقے ہیں، جو اتنے ہی درست ہیں، لیکن خود کو توحید پرست نہیں کہتے۔ پوری
بھکتی روایت نے ایک شخصی خدا کا تصور پیش کیا، جو خود کے قریب ہے تصویر یا بت کے
ساتھ یا اس کے بغیر۔ ہندو فلسفہ کے اندر وہ قادر مطلق، خالق کی مختلف صفات کے مظہر
ہیں۔ صرف یہی نہیں، بلکہ ہندومت میں بدھ مت، ابتدائی جین مت اور یہاں تک کہ
اجیویکا جیسے ملحدانہ عقائد کے لیے بھی جگہ ہے، جہاں خدا کا کوئی تصور نہیں ہے یا
ان کے فلسفوں میں اس کی کوئی افادیت نہیں بچی۔ داخلی تکثیریت کی ایسی گنجائش اسلام
میں بالکل ندارد ہے اور شاید اس پر توہین مذہب کے الزامات بھی عائد ہو جائیں۔ ندوی
کا اسلام صرف ہندو مذہب کے اس حصے سے متعلق ہوسکتا ہے جو خدا کو ایک تصور کرتا ہے۔
ان کا اسلام صرف اسی مذہبی نظریہ کے ساتھ متعلق ہو سکتا ہے جو خالق کے بارے میں ان
کے مفروضے کو شامل ہو، اور اس میں کسی دوسرے فلسفے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اور یہ
شاید سب سے بڑا چیلنج ہے جسے ہندوستان جیسے متنوع معاشرے میں اسلام اب تک حل کرنےھ
کے قابل نہیں ہو سکا ہے۔
بالآخر تمام افسانے من
گھڑنت ہیں۔ اگر اسلام میں اس افسانے کے لیے جگہ ہو سکتی ہے کہ اس کے پیغمبر نے
چاند کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا تھا تو ہندو گنیش اور کرشنا کے افسانوں پر کیوں
یقین نہیں کر سکتے؟ ندوی کا اور ان جیسے بہت سے مسلمانوں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ یہ
چاہتے ہیں کہ صرف ان کی باتوں کو کو درست قرار دیا جائے اور باقی سب کو باطل قرار
دیا جائے۔ مذہبیت کے اظہار کا صرف ایک ہی طریقہ کیوں ہونا چاہیے؟ اگر کوئی بہت سے
خداؤں کو مانتا ہے یا کسی خدا کو نہیں مانتا ہے تو اس میں کیا حرج ہے؟ اور کیا اس
بات کی کوئی گارنٹی ہے کہ جب پوری دنیا توحید پرست ہو جائے گی تو لوگوں کے مسائل
ختم ہو جائیں گے۔ اسلام اور عیسائیت کے درمیان کافی مشترکات ہیں لیکن انہوں نے
طویل مدت تک خونریز جنگیں صرف اس بات پر لڑی ہیں کہ توحید کی کون سی شکل درست ہے۔
ندوی کو توحید پرست مذاہب کی تاریخ کا مطالعہ کرنا اچھا ہو گا تاکہ یہ سمجھ سکیں
کہ امن کا کوئی طریقہ نہیں ہے۔
ندوی یہیں بس نہیں کرتے۔
ان کا ماننا ہے کہ کھرگون اور دہلی جیسی جگہوں پر آتش زنی اور لوٹ مار کرنے والوں
کو جنگلی غنڈہ کہا جانا چاہئے جو یہ نہیں جانتے کہ شہروں جیسی مہذب جگہوں پر کس
طرح کا برتاؤ کرنا چاہیے۔ چونکہ مسلمان زیادہ تر شہری ہیں، اس لیے وہ یہ کہنے کی
کوشش کر رہے ہیں کہ اس ملک میں سب سے پہلے مسلمانوں نے شہر اور تہذیب کی بنیاد
رکھی ہے۔ یہ قرون وسطی کے ہندوستان میں شہری کاری پر بحث کرنے کی جگہ نہیں ہے لیکن
اس دعوے پر مبنی تکبر کو ختم کرنے کی ضرورت ہے کہ مسلمانوں نے اس ملک میں تہذیب کی
بنیاد ڈالی ہے۔ ملک کے ہندو تہذیبی ورثے کے بارے میں اس طرح کی گھٹیا سوجھ بوجھ
تکثیریت کے لیے اچھا نہیں ہے۔
ندوی اس بات کے اسباب پر
بھی روشنی ڈالتے ہیں کہ آج مسلمان آخر کیوں مظلوم ہیں۔ وہ شروعات اپنی اس بات سے
کرتے ہیں کہ برصغیر مسلمانوں کو توحید کی روشنی پھیلانے کے لیے عطا کیا گیا تھا۔
لیکن کس نے دیا؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہندوستان مسلمانوں کو خدا کی طرف سے تحفہ میں
ملا تھا تاکہ ہندوؤں کو ان کے مذہب کے بطلان کا احساس دلایا جائے۔ یہ صرف بدتمیزی
ہی نہیں ہے بلکہ ندوی جیسے لوگوں کی جانب سے ہندو مذہب کی توہین بھی ہے۔ اسی طرح،
وہ یہ بھی دلیل دیتے ہیں کہ جب تک مسلمان دوسروں کو توحید (خدا کی وحدانیت) کی
کھلے عام تبلیغ نہیں کرتے، وہ اللہ کی نظر میں ایک لعنتی جماعت ہی رہیں گے۔ واقعی
اس کا کیا مطلب ہے؟ مذہبی نظریات کے تبادلے کے بجائے، ندوی یہ پسند کریں گے کہ
مسلمان ہر ایک ہندو کو اسلام کی دعوت دیں۔ ’میری بات مانو ورنہ کوئی چارہ نہیں‘ کا
یہ رویہ ایسی بہت سی وجوہات میں سے ایک ہے جس کی وجہ سے اسلام صرف ہندوؤں کی ہی
نہیں بلکہ اب تو بہت سے مسلمانوں کی نظر میں بھی اجنبی اور غیر لچکدار ہو چکا ہے۔
ندوی نے اظہار افسوس کرتے
ہوئے کہا کہ مسلمان قبر کی پرستش میں مشغول ہونے کی وجہ سے اسلام کی روشنی کو ٹھیک
طرح سے نہیں پکڑ سکے (یہاں سجدہ، وہاں سجدہ)۔ یہاں ندوی، اپنے احیاء پسندانہ مزاج
کے مطابق، ہندوستانی مسلم آبادی کی اکثریت پر یہ الزام لگا رہے ہیں کہ بریلوی
ہندوؤں سے بہت زیادہ قریب ہیں کیونکہ وہ مزارات پر جاتے اور وہاں عبادت کرتے ہیں۔
دوسرے لفظوں میں اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ مسلمانوں نے شرک (خدا کے ساتھ شریک) کیا
اس لیے خدا نے ان کو سزا دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ خدا ان دنوں
مسلمانوں کو سزا دینے کے لیے جو طریقہ اختیار کر رہا ہے، ان میں سے ایک یہ ہے کہ
ہندو ہجوم ان کی معمولی جائیدادوں، گھروں اور یہاں تک کہ ان کی مساجد پر بھی
چڑھائی کرے۔ اس سے تو یہ بات یہ واضح ہے کہ ندوی کو کسی مسلمان کے جان و مال کے
نقصان سے کوئی ہمدردی نہیں ہے کیونکہ انہوں نے انہیں مشرک قرار دیا ہے۔ لیکن ستم
ظریفی یہ کہ لاکھوں مسلمان پھر بھی ان کی پیروی کرتے رہیں گے۔
لیکن ہندوستانی مسلمانوں
کے لیے سب سے زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ صدیوں تک ہندوؤں کے ساتھ مل جل کر رہنے
کے باوجود ہم ایک مذہبی تکثیریت کا نظریہ تیار کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ اور
ندوی اس ناکامی کی محض ایک گھٹیا مثال ہے۔
English
Article: Why Salman Nadwi’s Lamentation Puts a Negative Spotlight
on Islam
Malayalam
Article: Why Salman Nadwi’s Lamentation Puts a Negative
Spotlight on Islam എന്തുകൊണ്ടാണ് സൽമാൻ നദ്വിയുടെ വിലാപം ഇസ്ലാമിനെ
നിഷേധാത്മകമാക്കുന്നത്
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism